سفرِ آرزو

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : نومبر 2009

قسط -۴

پیام آرزو:

            ہمارے سفری نمائندے کے طے کردہ پیکج کے مطابق،مکہ مکرمہ سے۲۳ مارچ کو ہمیں مدینہ منورہ جا نا تھا۔ہوٹل میں موجود ان کے نمائندے نے مجھے فون کیا کہ آج بعد از نماز ظہر ،آپ لوگوں کو مدینہ منورہ لے جایا جائے گا۔یہ پیام آرزو تھا۔مدینہ طیبہ کو جانا ،ہمارے اس سفر کی معراج تھا۔کیسا سہانا وقت آنے والا تھا کہ،مدینہ طیبہ میں ہماری حا ضری تھی۔آخر مدینے والی سرکار کا بلاوا آگیا۔ہر مسلمان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس شہر دِل پذیر کو ایک بار ضرور دیکھے جہاں سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاک زندگی گزاری ،جہاں کی پر نور فضاؤں میں آ قا علیہ السلام کے مقدس و مطہر سانسوں کی مہک بسی ہے اورجہاں قدم قدم پر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا ہیں۔مدینہ ہمارے دلوں کی دھڑ کن ،مدینہ ہماری چاہتوں کا مرکز و محور ،مدینہ ہماری محبتوں کا نشان۔آج ہمیں وہاں جانا تھا۔اللہ رے ہماری قسمت۔آج تو وقت گزر ہی نہیں رہا تھا۔ہم نے صبح کی نماز کے بعد ہی ،مدینہ طیبہ کی حا ضری کے لیے تیاری مکمل کر لی تھی۔سامان پیک کر لیا،نہا دھو لیے اور کپڑے تبدیل کر لیے۔ہمارے انگ انگ سے خوشیاں پھوٹ رہی تھیں۔ہم نے سوچا کہ نمازظہر سے پہلے ،طواف کی سعادت حا صل کر لی جائے،نہ جانے پھر کب یہ موقع ملے،ہم حرم میں آ گئے۔اس دن کی ایک اور اہم مصروفیت علامہ سعید عنایت اللہ سے ملاقات تھی،جس کا تذکرہ پیچھے کر چکا ہوں۔ظہر کی نماز حرم میں ادا کی اور فوراً ہی ہوٹل میں آ گئے۔ہوٹل کے منتظم نے کہا کہ سامان باہر لے چلیں گاڑی آ چکی ہے۔سامان لے کر ہم سڑک پر آ گئے۔کچھ دیر بعد بس بھی آ گئی۔اچھی آرام دہ اورعمدہ بس تھی۔اگرچہ باہر خاصی گرمی تھی لیکن بس کے اندر ماحول ٹھنڈا اور پر سکون تھا۔اڑھائی بجے دوپہر بس ،مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئی۔قریباً پون گھنٹہ تو مکہ شہر سے نکلتے نکلتے لگ گیا۔مکہ مکرمہ کافی پھیلا ہوا شہر ہے۔خوب صورت سڑکیں،عالیشان عمارتیں اور پرسکون مگر خشک پہاڑ،ایک تقدس مآب نظارہ پیش کر رہی تھیں۔پارکس،کھیل کے میدان ، باغات ، گراسی گراؤنڈمگر سرسبزدرختوں کی شدید کمی محسوس ہوئی۔سارا علاقہ یا تو خشک پہاڑ تھے یا آسمان سے باتیں کرتی عمارات،لیکن،ان فضاؤں میں سانس لینے اور ان بلند و بالا عمارتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ،جو روحانی سکون ملتا ہے وہ کسی اور جگہ نہیں۔اس شہر تقدس کو آقائے نامدار سے جو نسبت ہے اس پر اگر کسی کی نظر ہو تو پھر یہ خشک نظارے جنت کے نظارے بن جاتے ہیں۔

محبوب راہیں:

            گاڑی نکلتی چلی جارہی تھی۔میری نظریں مسلسل باہر کے نظاروں پر تھی جو تیزی سے بدلتے جارہے تھے۔گاڑی کے اندر کا ماحول بالکل پرسکون تھا۔اکثر زائر دوپہر کی نیند کے مزے لے رہے تھے اور ایک دو آدمی دُنیاوی گپ شپ میں مصروف، لیکن بندہ تاریخ کے سفر پر رواں دواں تھا۔ مکہ اور مدینے کے درمیان کا سفر،میرے آ قا نے نہ جانے کتنی بار کیا ہو گا ،لیکن تاریخ نے جن چند سفروں کا حال محفوظ رکھا ہے،اُن میں سے اہم ترین سفر، سفر ہجرت تھا۔اپنی گاڑی کے ہموار اور پر سکون سفر میں ،مجھے چودہ صدی قبل کے ریگستانوں میں چلتے عربی قافلے یاد آ رہے تھے اور ااُ ن میں بھی خا ص طور پر وہ قافلہ جو پیارے رسول، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی قیادت میں چلا تھا،خوب یاد آ رہا تھا۔میں جب بھی کھڑکی سے باہر دیکھتا ،ہر بار روح میں نئی تروتازگی محسوس کرتا،جب سوچتا کہ ہم انھی محبوب راہوں کے راہی ہیں جہاں سے کبھی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تھے،تو عجیب سرور حاصل ہوتا تھا۔یہ پہاڑ ،یہ ریت کے ٹیلے،یہ سنسناتی صحرائی ہوائیں ،یہ وادیاں اور کہیں دور، سر نکالے کجھور کے۔وہ باغات ،سب وہی تو ہیں جنھوں نے ،محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا ۔جی کرتا تھا کہ بس سے اُتر کر ایک ایک ذرے کو چوموں اور ایک ایک چٹان کے بوسے لوں کہ نہ جانے کس ذرے پر میرے محبوب کے قدم مبارک پڑے ہونگے اور نہ جانے کس چٹان نے شرف قدم بوسی حا صل کیا ہوگا۔ وہ درخت کون سے ہونگے جن کے سائے میں پیارے آ قا نے آرام کیا ہوگا۔وہ چشمے اور تالاب ،جہاں سے آپ نے پانی لیا ہوگا اور وہ جگہ جہاں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اللہ کے حضور جبین نیاز جھکائی ہوگی۔یہ سب یہیں کہیں تو تھے جہاں سے ہم تیزی سے گزر رہے تھے۔!!

            مکہ مکرمہ اور مدینہ منور ہ کے درمیان، رواں دواں ،آج کی موٹر وے، عین اسی راستے پر ہے جس راستے سے حضور نے سفر ہجرت کیا تھا۔ اور اس کا نام بھی ‘‘طریق ِ ہجرت’’ ہی ہے ۔

            آج میرے سامنے جہاں ایک وسیع و عریض ریگستان ہے،لق دق صحرا ہے اوروادی بے آب و گیاہ ہے،وہیں تاریخ اسلام کا بھی ایک طویل و عریض سفربھی ہے جو انھی راہوں پر کٹا ہے۔نہ جانے عشاق کے کتنے قافلے ان صحراؤں سے گزرے ہیں۔پیدل قافلے،کچی راہیں اور تپتے صحرا......،لیکن عشق،چاہت و الفت کے سامنے یہ سب کچھ بے معنی...! اونٹوں اور گھوڑوں کے قافلے .......امیروں اور غریبوں کے قافلے....شاہوں اورگداؤں کے قافلے....اور اب.... فراٹے بھرتی ، ایر کنڈیشنڈ گاڑیوں کے قافلے.....جدید ترین سفری سہولتوں کے ساتھ آراستہ خوبصورت موٹر وے .....اور اس پر رواں دواں،ملک ملک کے قافلے .........!!!

            سب کچھ بدل گیا......لیکن نہیں بدلا تو وہ عشق نہیں بدلا.....وہ جذبہ نہیں بدلا.....جو اِن راہوں پر چلنے والوں کے دِل و دماغ کے اندر بھرا ہوا ہے۔قافلے بدلتے رہے...... حالات بدلتے رہے.....ذرائع بدلتے رہے....انداز بدلتے رہے......لیکن شمع رسالت کے پروانوں کا انداز ِ محبت وہی ہے جو پہلے دِن تھا، اب بھی وہی ہے۔

            پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک سفر ہجرت کتنا مشکل اور تکلیف دہ سفر تھا۔اس کا خیال آتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔سفر کی وہ جدید سہولیات ،جن سے ہم آ ج مستفید ہو رہے ہیں اُن کا تو تصور ہی نہیں تھا۔اُس دور کی سفری مشکلات تو ایک طرف ،جن حالات میں آپ کو یہ سفر اختیار کرنا پڑا اُن کی سنگینی کا خیال ،جب اس خاکسار کے ذہن میں آ یا تو آنسوں کی جھڑی لگ گئی۔ان گرم و خشک ہواؤں میں ،ریت کے ان تپتے صحراؤں میں اور ان بے آب و گیاہ وادیوں میں ،صرف چار بندوں کا مختصر سا قافلہ .....چاروں طرف دشمنوں کا گھیرا .......لیکن میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عزم و یقین ....لا تحزن ان اللہ معنا.....تاریخ انسانی کا رخ موڑ دینے والا سفر........ اور اس سفر کا یہ عظیم الشان نعرہ.........دشمن کی دشمنی کا کیا خوف اور کیسا حزن ،جب اللہ غالب و قادرہمارا ساتھی و دمسازہے!!

            بقول بس ڈرائیور کے، مکہ سے مدینہ تقریباً ۴۱۵ کلومیٹر ہے ۔سہ پہر کے تین بجنے سے کچھ پہلے ہم نے یہ سفر شروع کیاتھا۔ چند منٹوں بعد مکہ کی کالونیوں سے گزر تے گزرتے بائیں ہاتھ پر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقبرہ نظر آیا ۔ وادی جموم ، وادی فاطمہ اوروادی ابو عروہ سے گزرے۔ سارا راستہ ایک وسیع صحرا ہمارے ساتھ ساتھ رہا ۔ کہیں کہیں سبزے کے قطعہ جات بھی نظر آجاتے تھے۔سڑ ک سے دور کہیں کہیں آبادیاں بھی نظر آتی رہیں۔ چلتے چلتے وادی عسفان پر پہنچے ۔یہ وہ جگہ ہے جہاں پر ، فتح مکہ کے لیے جاتے ہوئے آپ ؐ نے قیام فرمایاتھا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓکے بارے میں روایا ت میں آتا ہے کہ آپؐ کے سفر حجۃ الوداع کے بعد جب کبھی وہ مکہ آیا کرتے تو ہر اُس جگہ پر ٹھیرتے جہاں آپ ٹھیرے تھے ۔ ہر اُس ٹیلے اور وادی سے گزرتے جہاں سے آپؐ گزرے تھے جہاں جہاں سے وہ گزرے جہاں جہا ں ٹھیرے وہی مقام محبت کی جلوہ ء گاہ بنے میرابھی دل کر رہا تھا کہ ہم بھی وادی عسفان میں رکیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قیام کی یادیں تازہ کریں لیکن بوجوہ ایسا ممکن نہ تھا۔

            سفر ہجرت میں جب آپ مدینہ جا رہے تھے تو کس مپرسی کا عالم تھا، کل تین لوگ آپ کے ہمراہ تھے اور سارا زمانہ مخالف تھا اور اب جب کہ رسول اللہ ﷺ وادی عسفان میں قیام پذیر تھے، اسوقت حضور کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام تھے اور ایک دنیا سرنگوں تھی۔

مڈ وے ریسٹورنٹ:

            ہمارا قا فلہ سوئے مدینہ رواں دواں ہے ۔ ایک جگہ رک کر نماز عصر ادا کی اور قریبی ریسٹورنٹ میں دیگر لوگوں نے کھانا کھایا اور ہم نے چائے پی ۔ اس ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے میرا خیال ام معبد سلام اللہ علیھا کے ریسٹورنٹ کی طرف چلا گیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سفر ہجرت کا ایک اور خوب صورت ورق کھل گیا۔ام معبد خزاعی کی کوٹھڑی مکے مدینے کے راستے میں تھی۔ وہ آنے جانے والے مسافروں کی خدمت کرکے کچھ کما لیتی تھی،بالکل آ ج کل کے مِڈوے ریسٹورنٹس کی طرح وہ بھی ایک قسم کا ریسٹورنٹ ہی تھا۔جب سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلہ ام معبد کی کوٹھڑی کے پاس پہنچا تو حضور نے سید نا ابو بکر کو اس کی طرف بھیجا ۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پو چھا کہ کیا کچھ کھانے کو مل جائے گا۔وہ بولی کہ میں قربان ،آج اتفاق سے میرے پاس آ پ لوگوں کی خدمت کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔اس کے گھر کے ایک کونے میں، ایک بکری بندھی تھی،حضور نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا وہ بکری کیسی ہے۔وہ بولی کہ یہ بیمار ہے ،اس لیے ریوڑ کے ساتھ نہیں گئی، اور یہ کہ دودھ بھی نہیں دیتی۔ حضور اکرم ﷺ نے کہا کہ اگر تم اجازت دو تو ہم اس سے کچھ دودھ نکال لیں۔وہ بولی مجھے کیا اعتراض ،آپ کوشش کر دیکھیں،ویسے یہ عبث ہے کیو نکہ اس نے کب کا دودھ دینا چھوڑا ہو ا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن لیا اور اللہ کا نام لے کر دودھ دوہنا شروع کیا،اور اللہ کریم نے اپنی رحمت کا نزول شروع کیا۔سب لوگوں نے خوب سیر ہو کر دودھ بھی پی لیا اورام معبد کے گھر کے سارے برتن بھی لبا لب بھر گئے،لیکن ابھی بھی اس‘‘ پچھڑ بکری’’ کے تھنوں سے دودھ تھمنے کو نہیں آ رہا تھا۔یہ معجزہ نبوت تھا جس نے ام معبد خزاعی کو مبہوت کر دیا۔اس موقع پر جس گہری نظرسے ام معبد نے حضور کے سراپے کا مشاہدہ کیا اور جس خوب صورت طریقے سے،بعد میں اس نے اپنے خاوند سے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاحلیہ مبارک بیان کیا وہ،تاریخ و سیر کی کتابوں میں ادب کا ایک شاہکار ہے۔

             راستے میں عجیب وغریب پہاڑ دیکھے، معلوم ہوتا تھا کہ ریت کے ٹیلوں پر پتھر رکھے ہوئے ہیں۔ کالے سیاہ اور چھوٹے بڑے پتھروں سے یہ ٹیلے ڈھانپے گئے تھے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عذاب والے علاقے ہیں۔ جن قوموں پر اپنے نبیوں کو جھٹلانے کی پاداش میں پتھروں کی بارش کا عذاب آیا تھا ، یہ انھی کے علاقے ہیں۔ ہم استغفار پڑھتے اور عبرت لیتے گزرتے چلے گئے۔ ان پتھروں کو ہٹایا جائے تو نیچے سے زرخیز اور عمدہ زمین نکل آ تی ہے۔

            نماز مغرب راستے میں اداکی ۔ خواہش تھی کہ نماز عشاء مسجد ِنبوی ؐ میں جاکر ادا کریں۔ لیکن ڈرائیور صاحب کی کوشش اور ہماری خواہش کے باوجود ا یسا نہ ہوسکا۔ رات کا اندھیرا چھا جانے کے باعث باقی کا علاقہ بھی ہم مشاہدہ نہ کرسکے۔ وادی غزان الکامل، وادی الضبیہ (ہرنوں والی وادی) اور وادی البیار ( کنوؤ ں والی وادی) سے گزرتے ہوئے المدینہ کی چیک پوسٹ پر پہنچ گئے۔ مدینہ شریف میں بھی غیر مسلم کا داخلہ بند ہے۔ یہاں پر پاسپورٹ چیک کرکے صرف مسلمانوں کو آگے جانے کی اجازت ہے۔

            رات چھا چکی تھی،بس مدینہ طیبہ کے مضافات میں داخل ہو چکی تھی۔تھوڑی ہی دیر میں ، جگ مگ جگ مگ کرتی روشنیوں سے مزین شہر محبوب ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ہر آدمی کی نظریں باہر کو لگی تھیں۔ڈرائیور کے لیے تو یہ روز کا معمول تھا ۔وہ جانی پہچانی سڑکوں اور راہوں سے بس کو دوڑاتا جا رہا تھا،ہم آ نکھیں پھاڑے حسن کے دیار کو تکے جا رہے تھے۔ہم منتظر تھے کہ کب ہماری آ نکھوں کی ٹھنڈک، روضہ اطہر کاسبز گنبد ہمارے سامنے آ تا ہے۔ لب پر درودو سلام تھا۔۔وہ مدینہ جس کی دید کو آ نکھیں ترستی تھی آج جب ہمارے سامنے تھا تو آ نکھیں جھپکنا بھول چکی تھیں ۔.......بس چلتی رہی....منظر بدلتے رہے.....جذب و شوق شدت اختیار کرتا گیا ........یہ حقیقت ہے کہ انتظار کے لمحات بڑے اذیت ناک ہوتے ہیں لیکن آ ج کا انتظار تو فرحت انگیزاورمن ٹھار تھا.........یہ تجربہ ہی انوکھا تھا.....اس انتظار محبت میں کیف و سرور کی ٹھنڈک تھی..........شوق دید اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا......دیدہ شوق وا کیے ،دھڑکتے دِل کے ساتھ ہم آنکھیں باہر لگائے،سبز گنبد کی جستجو کر رہے تھے اور پھر..... سبز گنبد....ہماری آ نکھوں کا نور ...ہمارے دِل حزیں کا سرور.....ہمارے سامنے تھا....لیکن ڈرائیور کی بے نیازی سے ....فوراً ہی منظر بدل گیا......ابھی تو ٹھیک سے ہم دیکھ بھی نہ پائے تھے کہ اُس نے راستہ بدل لیا۔!!اس عاجز نے آ نکھیں بند کر لیں....آنسو رواں تھے.....لب پر درود وسلام اور روح اپنے آ قا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور حاضر.....جسم پر لرزہ طاری تھا....جلال و جمال کا ایک عجیب عالم تھا کہ جس کا بیان ممکن نہیں...... اور پھر بس کے بریک چر چرائے اور وہ قصر جمعہ کے سامنے رک گئی۔مدینہ پاک میں یہ ہمارا مسکن تھا۔فقیروں کے لیے ایک فقیرانہ سا ٹھکانہ!!

ہم مدینہ میں تھے:

            ہم اب مدینہ طیبہ میں تھے اور اللہ کریم مہربانی فرمائیں، تو اگلا یک ہفتہ ہم سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان بننے جا رہے تھے۔مسجد نبوی سے بلند ہوتی ،عشاء کی اذان ،ہم نے مدینہ طیبہ کی سڑکوں پر بس میں بیٹھے سنی تھی اور اب جب ہوٹل میں پہنچے تو یہ اندازہ تھا کہ اب نماز بھی ہو چکی ہوگی،اس لیے یہی فیصلہ کیا کہ پہلے ہوٹل کا کمرہ دیکھتے ہیں ،اس میں سامان رکھتے ہیں اور بعد میں حاضری کے لیے مسجد جائیں گے۔مکہ مکرمہ سے آتے ہوئے ،راستہ میں، ایک عزیز دوست،ڈاکٹرخواجہ جنید،جوکہ طیبہ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ، سے رابطہ ہو چکاتھا جس کے مطابق،رات کا کھانا ہم نے ان کے ہاں سے کھا نا تھا۔اُن کے آ نے میں ابھی دو گھنٹے تھے،لہٰذا ہم نے سوچا کہ سامان رکھ کر پہلے مسجد نبوی میں حاضری دے لیتے ہیں۔ ہمارے اندر جو ایک قسم کی بے چینی تھی اب وہ تھمنے لگی تھی کیونکہ اب ہم مدینہ طیبہ میں تھے۔وہ مدینہ ....جہاں میرے آ قا علیہ الصلوٰۃ والسلام....ہجرت فرما کر تشریف لائے تھے.....وہ مدینہ .....جس نے اپنی آ غوش رحمت میں ،آمنہ کے در یتیم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت پنا ہ دی تھی جب ان کے اپنے شہر سے انھیں نکال دیا گیا تھا۔اہل مدینہ نے اس وقت پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھاما تھا جب ایسا کرنا اپنی موت کو اور اپنی نسلوں کو تباہ و برباد کروا لینے کے مترادف تھا.....ہم انصار ...کے شہر میں تھے،جنھوں نے،نصرت و حمایت کا حق کچھ اس طریقے سے ادا کیا تھا،کہ اس طرح نہ پہلے کسی نے یوں کیا تھا اور نہ اس کے بعد کسی نے کیا......ہم آ ج اس مدینہ میں تھے جسے تاریخ عالم میں اسلام کی پہلی تجربہ گاہ بننے کا شرف حا صل ہوا تھا۔یہ وہ خوش نصیب شہر تھا جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق و صداقت کا پر چم لہرایا تھا،جہاں میرے آ قا ﷺ نے مساوات و اخوت اور ہمدردی و غم گساری کے درس دئیے تھے۔یہ وہ عظیم شہر ہے جو انسانیت کے لیے ایک نمونہ بنا تھا۔جہاں پر قانون کی حکمرانی کا راج تھا ،جہاں طبقاتی اور معاشرتی منافرت نام کو بھی نہ تھی اور یہی وہ شہر تھا جسے میرے مدنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے،حسن و طہارت،عدل و احسان اور اعلیٰ جمہوری روایات کاامین بنایا تھا۔آج ہم اسی شہر محبوب میں تھے۔ہمار ی خوش بختی کے کیا کہنے کہ آج ہم آقا کے قدموں میں حاضری کا شرف حا صل کرنے جا رہے تھے۔

            قصر جمعہ کے لاوئج میں بیٹھا میں یہ باتیں سوچ رہا تھا۔میں اپنے ہمسفر دوستوں کا منتظر تھا ۔وہ ہوٹل کی چوتھی منزل پر واقع کمرے میں سامان کو سیٹ کر رہے تھے۔پروگرام یہ طے ہوا تھا کہ محترمہ ماں جی،کمرے میں آرام کریں گی اور ہم تینوں دوست مسجد نبوی میں حاضر ہو کر نمازعشاء ادا کریں گے اور حضور انور ،آ قائے نامدار ،پیارے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے در اقدس کی قدمبوسی کا شرف بھی حاصل کریں گے۔ اتنے میں میرے ہمسفر ساتھی تشریف لے آئے۔ہوٹل استقبالیہ سے ہم نے مسجدنبوی کا راستہ سمجھا ،جو کہ نہایت آسان اور قریبی تھا ۔ہوٹل سے باہر نکلے،دائیں ہاتھ پر شاہراہ ملک فہد تھی،اس پر چڑھے اور جوں ہی بائیں مڑے تو سامنے ہی مسجد نبوی کے مینار زیب نظر تھے۔اب ہم مدینہ طیبہ کی پاکیزہ اور معطرہواؤں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔سڑک پر رونق تھی۔زائرین کرام،مسجد سے واپس آ رہے تھے،کیونکہ نماز عشا ء ہوئے ،کم و بیش ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ قریبی لاری اڈے سے ہاکروں کی آوازیں آ رہی تھیں،مکہ..مکہ...مکہ....،یعنی مکہ مکرمہ جانے والی بسوں کی پکار تھی۔سڑک کے کنارے بسیں پارک ہوئی تھیں ،جن پر لگے سپیکرز نے مکہ...مکہ...کا شور ڈالا ہوا تھا۔بازاروں میں بھی خوب رونق تھی۔دکانیں کھلی تھیں اور ملک ملک کے گاہکوں کا اژدہام تھا۔بازار سے گزرتے،دکانوں اور گاہکوں کا نظارہ کرتے،ٹھنڈی ہوا کے مزے لیتے،ہم باب ملک فہد سے مسجد نبوی میں داخل ہو گئے۔لوہے کے جنگلے کی بنی چار دیواری سے اندر داخل ہوئے تو سامنے عظیم الشان مسجد نبوی کی عمارت بقعہ نور بنی،دعوت نظارہ دے رہی تھی۔ایک وسیع و عریض صحن تھا،جس میں نہایت قیمتی پتھرلگا تھا اور مناسب فا صلے پر کئی روشنی کے مینارچے ایستادہ تھے۔بڑا دلکشا اور فرحت انگیز منظر تھا۔

            مسجد نبوی کے چاروں طرف واقع اس کشادہ صحن میں مختلف مقامات پر وضو خانے بنے ہوئے ہیں۔باب ملک فہد سے داخل ہوں تو دائیں ہاتھ پر پڑنے والے ایک مردانہ وضو خانے میں ہم داخل ہو گئے۔یہاں تو ایک الگ دنیا آبادتھی۔یہ تین منزلہ زیر زمین عمارت ہے جس میں کثیر تعداد میں ،نہایت صاف ستھرے غسل خانے اور وضو گاہیں بنائی گئی ہیں۔ساتھ ہی زیر زمین پارکنگ کا عمدہ ترین نظام تیار کیا گیا ہے۔اوپر صحن تک آنے جانے کے لیے نہایت کشادہ سیڑھیاں اوربجلی سے چلنے والے زینے نصب کیئے گئے ہیں۔اس سارے سسٹم میں تازہ ہوا کی آمد و رفت کا عمدہ انتظام ہے جس کے باعث ،جتنا بھی رش ہو ،دم گھٹنے کا قطعاً کوئی خوف نہیں ہے۔ ( جاری ہے )