ماں کے نام

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : نظم

شمارہ : اپریل 2009

 

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں
 
فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے بھی بوڑھی نظر آتی ہے ماں
 
اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن
چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں
 
روح کے رشتوں کی گہرائیاں تو دیکھیے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
 
جانے کتنی برف سی راتوں میں ایسا بھی ہوا
بچہ تو چھاتی پہ ہے گیلے میں سو جاتی ہے ماں
 
اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح
اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں
 
گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر
ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آ جاتی ہے ماں
 
کانپتی آواز سے کہتی ہے بیٹا الوداع
سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں
 
لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم
ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں
 
وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں
 
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
 
سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو
زندگی بھر کا صلہ ایک فاتحہ پاتی ہے ماں