سوال ، جواب

مصنف : حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : فروری 2009

ماں باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کئی چیزیں عنایت کرجاتے ہیں، ایسے ہی اُنہیں کسی بیٹے یا بیٹی سے طبعاً زیادہ محبت بھی ہوتی ہے لیکن اسلامی شریعت نے اس سلسلے میں چند ایک اُصول مقرر فرمائے ہیں جن کو پیشِ نظررکھنا مسلم والدین کے لیے ضروری ہے۔ اس نوعیت کے مسائل مسلم معاشرہ میں اکثروبیشتر پیش آتے رہتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں ایسے ہی احکام سوال و جواب کی صورت میں بیان ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ ہبہ کا لفظ عربی زبان میں کسی شے کو تحفہ دینا، گفٹ کردینا، عطیہ دینا وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ بعض جزوی اصلاحات، حوالہ جات اور ترتیب کے بعد یہ مضمون ہدیۂ قارئین ہے۔ (ح م)

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: اکٹھے خرچ میں تو مساوات بیگانوں میں بھی نہیں ہوسکتی، ایک گھر میں کس طرح ہوگی؟ مثلاً سفر میں دو شخص اپنا خرچ ایک جگہ کریں تو ضرور کمی بیشی ہوگی۔ ایک وقت ایک کو بھوک پیاس نہیں ہوتی تو اس کی خاطردوسرا بھوکا نہیں رہ سکتا، کبھی ایک شخص ایک روٹی کھاتا ہے تو دوسرا دو یا تین کھا جاتا ہے۔ اسی طرح بیماری وغیرہ میں بھی پیسے کم وبیش خرچ ہوتے ہیں، سب سے احتیاط والی چیز یتیموں کا مال ہے، جس کے متعلق قرآن مجید میں سخت وعید بھی آئی ہے کہ جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ ڈالتے ہیں۔ اسی وجہ سے صحابہؓ نے یتیموں کا کھانا دانہ الگ کردیا مگر جب اس کا نبھانا مشکل ہوگیا تو ارشاد خداوندی ہوا:

وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (البقرہ: ۲۰۰) ‘‘یعنی اگر ان کو اپنے ساتھ ملا لو تو تمہارے بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادی اور مصلح کو خوب پہچانتا ہے’’۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اکٹھے خرچ میں مساوات کی کوئی صورت نہیں بلکہ ہر ایک کی ضرورت کے بقدر خرچ ہوتا ہے۔ کوئی کھانا زیادہ کھاتا ہے، کوئی کم اور کسی کے وجود پر کپڑے کا خرچ کم ہوتا ہے تو کسی کے وجود پر زیادہ، کیونکہ ان کے قدوقامت بھی برابر نہیں ہوتے۔ کسی کا وجود کمزور ہے، اس کو سردی میں زیادہ گرم کپڑے کی ضرورت ہے تو کسی کو ہلکا کافی ہے۔ کسی کے وجود پر کپڑا جلدی پھٹتا ہے اور وہ سال بھر میں کئی جوڑے چاہتا ہے، کوئی کم، بالخصوص لڑکیوں کے کپڑوں پر زیادہ خرچ ہوتا ہے بلکہ ساتھ ان کے زیور کا خرچ بھی ہے۔

جیساکہ قرآن مجید میں بھی ہے: اَوَمَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَۃِ (الزخرف:۱۸) ‘‘لڑکیوں کی پرورش زیورات میں ہوتی ہے’’۔ پھر بیماریوں وغیرہ کے موقع پر دواؤں اور حکیموں، ڈاکٹروں کی فیسوں میں ایک انداز پر خرچ نہیں ہوتا۔ اس طرح بیاہ شادی پر مختلف خرچ ہوتا ہے۔ اس طرح لڑکیوں کی شادی میں ایک قسم کے لڑکے نہیں ملتے اور نہ لڑکیاں ایک صفت، ایک لیاقت کی ہوتی ہیں تو پھر خرچ میں برابری کی کیا صورت ہے؟ اس طرح اولاد کی تربیت میں بھی تفاوت ہوتا ہے۔ ان کی لیاقت، استعداد اور ذہانت و طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ کسی کو طبابت، ڈاکٹری، کسی کو انجینئرنگ، کسی کو تجارت اور کسی کو عالمِ دین بنا کر خادمِ اسلام بنا دیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو بھی ان کے حسب ِ حال تعلیم دی جاتی ہے تو ان کے خرچ و اخراجات برابر کس طرح ہوسکتے ہیں؟

یہی صورت حال بیویوں کے بارے میں بھی ہے کہ ان میں بھی برابری کا حکم ہے مگر اس قسم کے اُمور میں ان کے درمیان بھی تفاوت ہوجاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے مہر مختلف تھے، ولیمے مختلف اور ان سے بات چیت مختلف تھی۔ ایک مرتبہ رسولؐ اللہ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کو سفر میں ساتھ لے گئے مگر رات کو اپنی سواری حضرت عائشہؓ کی سواری کے ساتھ رکھتے اور انہی سے بات چیت کرتے۔ حضرت حفصہؓ کو اس بات سے بڑی غیرت محسوس ہوئی۔ چنانچہ یہ لمبا قصہ صحیح بخاری میں باب القرعۃ بین النساء اذا أرادا سفرًا میں موجود ہے۔ اس طرح محبت میں بھی برابری نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ اختیاری شے نہیں بلکہ طبعی ہے۔ ایسے ہی جب تک طبعی میلان نہ ہو، مباشرت وغیرہ بھی نہیں ہوسکتی۔ البتہ ہرگھر میں باری باری جانا اختیاری شے ہے، اس لیے رسولؐ اللہ باری تقسیم کرنے کے بعد فرماتے: اللھم ھذہ قسمتی فیما أملک فلا تلمنی فیما تملک ولا أملک (ترمذی: ۱۱۴۰) ‘‘یااللہ! یہ میری تقسیم ہے، اس شے میں جس کا میں اختیار رکھتا ہوں، پس جس کا تو اختیار رکھتا ہے اور میں نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ فرما’’۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حوائجِ ضروریات اور تربیت میں برابری ناممکن ہے بلکہ ان میں وہی یتیموں والا اصول مدنظر رکھنا چاہیے یعنی وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (البقرہ:۲۲۰) ‘‘خدا مفسد کو اصلاح کرنے والے سے جانتا ہے’’۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے ہر ایک کی اصلاح اور بھلائی کی کوشش ہونی چاہیے، آگے ان کے اور والدین کے حسب ِ حال کسی بات میں تفاوت ہوجائے تو اس پر مؤاخذہ نہیں۔ البتہ حوائج اور ضروریات کے علاوہ زائد عطیہ میں ضرور برابری چاہیے۔ چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث میں جو نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ:

سألت أمی أبی بعض الموھبۃ من مالہ ، ثم بدا لہ موھبھا لی فقالت: لا أرضی حتٰی تشھد النبی فأخذ بیدی وأنا غلام فأتی بی النبی فقال: ان أمہ بنت رواحۃ سألتنی بعض الموھبۃ لھذا قال: ألک ولد سواہ؟ قال: نعم قال: فأراہ قال: لا أشھد علی جور (بخاری: ۲۶۵۰، مسلم: ۱۶۲۳)

آپ کے فرمان لا أشھد علی جُور ‘‘یعنی میں ظلم پر شہادت نہیں دیتا’’ میں اسی قسم کے عطیہ کا ذکر ہے اور ایک حدیث میں تصریح آتی ہے کہ سوّوا بین اولادکم فی العطیۃ (بیہقی:۶؍۱۷۷) چنانچہ فتح الباری کے حوالہ سے اس کا ذکر آگے آتا ہے، یعنی ضروریات کے علاوہ کوئی عطیہ دینا ہو تو اس میں برابری ضروری ہے۔ اسی بنا پر علما نے لکھا ہے کہ اگر کوئی سبب ایسا پیدا ہوجائے جس سے بعض اولاد کو عطیہ دینا پڑے تو اس صورت میں بعض کو دینے میں بھی کوئی حرج نہیں، مثلاً کوئی دائم المرض یا مقروض ہو تو اس صورت میں ان کو خاص بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری (۱۰؍۵۴۶) میں اس کی تصریح کی ہے اور علامہ شوکانیؒ نے نیل الاوطار (۵؍۲۴۲) میں بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ درحقیقت عطیہ نہیں بلکہ اولاد کی ضروریات میں داخل ہے کیونکہ دائم المرض اور مقروض ہونا ایک بڑی ضرورت اور مجبوری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضروریات تو کجا، اس عطیہ میں بھی برابری نہیں جو ضروریات میں داخل ہو۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: عطیہ میں بیٹے بیٹیوں میں برابری کا حکم ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حدیث میں لا أشھد علی جور فرمایا ہے، اس میں یہ بھی ہے: أکل ولدک نحلت مثلہ (صحیح مسلم: ۱۶۲۳) یعنی نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں: جب میرے والد نے مجھے ایک غلام ہبہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ بنانا چاہا تو آپؐ نے فرمایا: کیا اپنی تمام اولاد کو تو نے اس کے مثل ہبہ کیا ہے؟’’ میرے والد نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: اس ہبہ سے رجوع کرلے اور ایک روایت میں ہے کہ کیا تو نے اپنی باقی اولاد کو بھی اس کی مثل دیا ہے؟ کہا: نہیں، تو فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اولاد میں عدل کرو۔ ان الفاظ ‘‘اس کے مثل ہبہ کیا ہے یا اس کی مثل دیا ہے؟’’ سے معلوم ہوتا کہ اس بارے میں ذکور وأناث میں کوئی فرق نہیں کیونکہ اولاد کا لفظ لڑکے اور لڑکیوں سب کو شامل ہے اور اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:

قال: ‘‘أیسرک أن یکونوا الیک فی البرّ سواء’’ قال: بلی قال: ‘‘فلا اذًا’’

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تیری اولاد تیرے ساتھ برابر نیکی کرے؟ کہا: ہاں، تو آپؐ نے فرمایا: پس میں اس ہبہ پر گواہ نہیں بن سکتا’’۔ (ایضاً)

ان الفاظ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ تحفہ/ہبہ وغیرہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق نہیں، کیونکہ عموماً والدین چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد ہمارے ساتھ برابر نیکی کرے، خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ اس بارے میں لڑکے اور لڑکیوں میں برابری کی جائے۔ مذکورہ حدیث کی بعض روایتوں میں اگرچہ اولاد کے عام لفظ کی جگہ بیٹوں کا لفظ بھی آیا ہے مگر حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری (۱۰؍۵۳۹) میں کہا ہے کہ اگر صرف لڑکے ہی ہوں اور اگر لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں تو پھر لڑکوں کا ذکر محض غلبہ کی بنا پر ہے، اس کے بعد حافظ ابن حجرؒ نے بحوالہ ابن سعدؒ، نعمانؓ کے والد کی ایک بیٹی کا بھی تذکرہ ہے جس کا نام اُبیہ ہے جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جن روایتوں میں لڑکوں کا ذکر ہے وہ محض غلبہ و اکثریت کی بنا پر ہے جیسے والد اور والدہ، دونوں کو والدین ہی کہہ دیتے ہیں اور حافظ ابن حجرؒ نے یہ بھی کہا ہے کہ حدیث میں تسویہ (برابری کرنے کا حکم) اسی امر کی طرف شہادت دیتا کہ لڑکے لڑکیوں میں فرق نہیں، پھر اس کی تائید میں ایک روایت بھی ذکر کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: سووا بین أولادکم فی العطیۃ فلو کنت مفضلا أحدا لفضلت النساء (بیہقی: ۶؍۱۷۷) یعنی ‘‘اولاد کو عطیہ دینے میں برابری کرو۔ پس اگر علامہ شوکانی نے نیل الاوطار (۵؍۲۴۲) میں سعید بن یوسف نامی راوی ضعیف بتایا ہے مگر حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں: واسنادہ حسن ، یعنی اس کی اسناد حسن ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی ضعف ہوگا جس سے حدیث صحت کے درجہ سے نکل کر حسن کے درجہ کو پہنچ گئی، مثلاً حافظہ میں معمولی نقص ہوگا وغیرہ۔ بہرصورت اس حدیث سے تائید ضرور ہوتی ہے۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ عطیہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں برابری کی جائے۔

نوٹ: اس حدیث سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ اولاد میں ضروریات اور حوائج کے اندر برابری کا حکم نہیں بلکہ عطیہ میں برابری کا حکم ہے، جیساکہ اُوپر تحقیق ہوچکی ہے کیونکہ اس حدیث میں صراحت موجود ہے کہ اولاد میں عطیہ کے اندر برابری کرو۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: صورتِ مسؤلہ میں بیوی کی عدت پوری ہوچکی ہے، اس لیے اب وہ بیوی نہیں رہی۔ اب اس کا کوئی حق نہیں اور بیٹا مشرک ہے اور مشرک کافر ہے اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔ البتہ لڑکی وارث ہوسکتی ہے، اگرچہ اس کو دو ہزار روپیہ دے کر الگ کردیا ہے لیکن اس سے اس کی وراثت کا حق منقطع نہیں ہوتا کیونکہ وراثت موت کے وقت ہوتی ہے، اگر موت کے وقت زید کے پاس کچھ مال ہوگا تو لڑکی وارث ہوگی اور اگر موت سے پہلے صحت اور تندرستی میں زید سارا مال کسی ادارہ وغیرہ کو دے دے تو اس صورت میں لڑکی کا کوئی حق نہیں کیونکہ اس کی زید کو شرعاً اجازت ہے جیسے مشہور ہے کہ حضرت عمرؓ نے فی سبیل اللہ نصف مال دیا اور حضرت ابوبکرؓ نے سارا مال دیا۔ رہا بیماری میں دینا تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ بیماری لمبی ہو جس میں موت کا واقع ہونا کم ہوتا ہے، جیسے دمہ، کھانسی، بواسیر وغیرہ جو عمربھر ساتھ رہتی ہیں اور کچھ علاج معالجہ سے صحت بھی ہوجاتی ہے تو ایسا بیمار تندرست کے حکم میں ہی ہے کیونکہ عموماً انسان تھوڑا بہت بیمار رہتا ہی ہے، جیساکہ حضرت ابوبکرؓ اس زہر سے فوت ہوئے جو ہجرت کے موقعہ پر غارِ ثور میں کسی شے کے کاٹنے سے جسم میں سرایت کرگیا تھا۔ اسی طرح رسولؐ اللہ اسی زہر سے فوت ہوئے جو ۷ہجری میں خیبر کے موقع پر یہود نے دعوت کے بہانے سے بکری کے گوشت میں آپ کو کھلا دیا تھا۔ آپؐ کے تالو کا گوشت جس کو پنجابی میں ‘کامی’ کہتے ہیں، اس زہر کے اثر سے سیاہ پڑ گئی تھا۔ حضرت عائشہؓ کو آپؐ نے فرمایا کہ ہمیشہ مجھے اس سے دکھ رہتا ہے اور وفات کے وقت فرمایا کہ اب اس زہر کے اثر سے میری شہ رگ کٹ گئی ہے۔ اس قسم کے واقعات سے ثابت ہوا کہ لمبی بیماری تندرستی کے حکم میں ہے، ورنہ نہ حضرت ابوبکرؓ سارا مال دیتے اور نہ رسولؐ اللہ قبول فرماتے۔

اور اگر خطرناک بیماری ہو جس میں عموماً موت واقع ہوتی ہے تو اس کی پھر دو حالتیں ہیں ایک یہ کہ اس کے بعد صحت ہوجائے تو اس بیماری کے اندر تصرفات تندرستی والا ہی حکم رکھتے ہیں اور اگر اس بیماری میں موت واقع ہوگئی تو یہ مرض الموت ہے۔ چنانچہ تلخیص الحبیر اور مُحلّی ابن حزم وغیرہ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عائشہؓ کو باغ کی کھجوریں ہبہ کیں۔ حضرت عائشہؓ سے کسی وجہ سے کاٹنے میں دیر ہوگئی۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکرؓ مرض الموت سے بیمار ہوگئے جس میں موت کے آثار ظاہر ہوگئے، چونکہ ہبہ میں قبضہ شرط ہے اور بغیر قبضہ کے ہبہ نہیں ہوتا اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اے بیٹی! اگر تو میری بیماری سے پہلے قبضہ کرلیتی تو یہ تیری چیز ہوجاتی۔ اب یہ مال وارث کا ہے یعنی دوسرے وارثوں کی طرح ہی تجھے اس سے حصہ ملے گا، اب یہ ہبہ نہیں رہا اور اس کو وصیت اس لیے نہیں بنایا کہ وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔ خلاصہ یہ کہ صورتِ مسؤلہ میں دیکھنا چاہیے کہ بیماری کس قسم کی ہے، سو اسی کے مطابق فیصلہ ہوگا۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: ہندہ بقائمی ہوش و حواس صحت و تندرستی میں ہر ایک کو ہبہ کرسکتی ہے، صرف اولاد میں برابری کا حکم آیا ہے، دوسرے ورثا کے متعلق رسول اللہﷺ نے کچھ نہیں فرمایا۔ ہاں مرضِ موت میں اس کی اجازت نہیں کیونکہ مرضِ موت کا ہبہ درحقیقت وصیت ہے، ایسے ہی حدیث میں ہے کہ لاوصیۃ لوارث، یعنی وارث کے لیے وصیت نہیں۔ (ترمذی:۲۱۲۰)

ہندہ کا ہبہ مذکورہ تکمیل کو نہیں پہنچا کیونکہ ہبہ میں موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیا ہے) کا قبضہ شرط ہے جو ہبہ مذکورہ میں نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عائشہؓ کو کچھ ہبہ کیا، مگر حضرت عائشہ نے اس پر قبضہ نہ کیا، اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ بیمار ہوگئے، موت کے آثار نمودار ہوئے تو فرمایا: اے عائشہؓ! تو نے قبضہ نہیں کیا۔ اب یہ مال ترکہ میں شامل ہے اور اس میں تجھے کوئی خصوصیت حاصل نہیں۔ یہ روایت تلخیص الحبیر کتاب الہبہ میں مذکور ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہندہ کا ہبہ مکمل نہیں، اس لیے دیگر ورثاء بھی اس میں حصہ دار ہیں۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

سوال: زید کا ایک بیٹا بکر اور تین بیٹیاں ہندہ، کلثوم اورخدیجہ ہیں۔ زید اپنے لڑکے بکر کے ساتھ رہتا ہے۔ بیٹے بکر نے اپنی بہنوں اور اپنی بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنے کی غرض سے اپنے باپ زید پر ناجائز دباؤ ڈال کر کل جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ کو اپنے بیٹوں کے نام سے ہبہ بلامعاوضہ کرا لیا جس کو تقریباً آٹھ نو سال گزر گئے۔ لیکن عملاً زید اسی مکان میں بودوباش رکھتا ہے اور اس نے کبھی مکان کا تخلیہ کر کے اسے خالی نہیں کرایا۔ چند روز ہوئے کہ زید فوت ہوگیا اور اس کے وارث مذکورہ تینوں لڑکیاں اور ایک لڑکا بکر ہے۔ ہندہ نے جب اپنے بھائی بکر سے ترکہ طلب کیا تو بکر نے جواب دیا کہ والد کی جو کچھ جائیداد تھی، خود ان کے حین حیات میں ہبہ ہوچکی ہے، البتہ انہوں نے کچھ ذاتی رقم خرچ کے لیے علیحدہ رکھی ہوئی تھی، ان میں سے جو کچھ بچا ہوگا، اس میں سے تم کو حصہ مل جائے گا، سوال یہ ہے کہ:

۱- ایسا ہبہ جس سے ورثاء شرعی محروم ہوں اور وہ غیروارث کو مل جائے، کیا جائز ہے یا نہیں؟

۲- آیا بیٹیوں کو اپنے باپ کی وراثت میں سے حصہ ملے گا یا نہیں اور یہ حضرت نعمان بن بشیرؓ کے واقعہ أکل أولادک نحلت (کیا تم نے تمام اولاد کو ایسا ہی تحفہ دیا ہے؟) کے ضمن میں داخل ہے یا نہیں؟

۳- ہبہ بلاقبضہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: نعمان بن بشیرؓ کی حدیث میں صراحت ہے کہ اولاد میں عدل کرو۔ پس کسی ایک کے نام جائیداد کر دینا، چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا ہو، یہ امرحدیث کے خلاف ہے۔ زید کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ تمام جائیداد بکر کے نام کرتا اور اب بکر کو بھی اجازت نہیں کہ وہ اس جائیداد پر قبضہ کرے۔ تلخیص الحبیر میں ہے:

ان أبابکر نحل عائشۃ جذاذ عشرین وسقا فلما مرض قال ودِدت أنک حزیتیۃ أو قبضتیہ وانما ھو الیوم مال الوارث، مالک فی الموطاء عن شھاب بن عروۃ عن عائشۃ بہ وأتم منہ رواہ البیھقی من طریق ابن وھب عن مالک وغیرہ عن ابن شھاب عن حنظلۃ بن أبی سفیان عن القاسم بن محمد نحوہ وقد روی الحاکم أن النبیؐ أھدی الی النجاشی ثم قال لأم سلمۃ انی لأری النجاشی قد مات ولأری الھدیۃ التی أہدیت الیہ الا ستردد فاذا رددت الی فھی لک فکان کذلک…… الحدیث (رقم: ۱۳۲۸، ۱۳۲۹)

‘‘حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عائشہؓ کو اسّی من کھجور ہبہ کی۔ جب آپؓ بیمار ہوگئے تو فرمایا: میں چاہتا تھا کہ تو کھجوروں کو اپنے قبضہ میں کرلیتی کیونکہ آج وہ وارث کا مال ہے۔ امام مالکؒ نے اس کو موطأ میں روایت کیا ہے اور امام بیہقی ؒ نے بھی اس کو بطریق وہب، امام مالک وغیرہ سے روایت کیا ہے اور حاکمؒ نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کو ایک تحفہ بھیجا۔ پھر اُم سلمہؓ کو کہا: میں دیکھتا ہوں کہ نجاشی فوت ہوگیا ہے اور جو تحفہ میں نے اس کو بھیجا تھا، وہ ضرور لوٹا دیا جائے گا۔ پس جب وہ واپس آئے گا تو وہ تیرے لیے ہے، چنانچہ اسی طرح ہوا’’۔

ان دونوں روایتوں سے ثابت ہوا کہ ہبہ میں قبضہ ضروری ہے۔ اگر صرف ہبہ کردینے سے ہبہ مکمل ہوجاتا تو حضرت ابوبکرؓ حضرت عائشہؓ کو یہ نہ کہتے کہ ‘‘آج وہ مال وارث کا ہے’’۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُم سلمہؓ کو یہ کہتے کہ ‘‘جب واپس آئے تو وہ تیرے لیے ہے’’۔ بلکہ اس کے حق دار نجاشی کے ورثا ہوتے۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: اولاد میں سے بعض کو دینا اور بعض کو نہ دینا یہ شرعاً ناجائز، جیساکہ نعمان بن بشیرؓ والی مشہور حدیث اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔ البتہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کو کچھ ہبہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ پوتے شرعاً وراثت سے محروم ہیں۔ پس پوتوں کو جو دادا نے دیا ہے، وہی ان کا حق ہے۔ بعض بیٹوں کا ہبہ بغیر دوسرے کی رضامندی کے صحیح نہیں۔ پس جو کچھ باپ دے گیا، وہ بھی ترکہ میں شامل کرکے بدستور ترکہ /قبضہ تقسیم ہونا چاہیے۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: ایسا معاف کرنا دراصل ہبہ کی قسم سے ہے، اس کے خریدنے میں بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ کسی حدیث میں مجھے ہبہ کے خریدنے سے ممانعت تو یاد نہیں پڑتی، ویسے بغیر خریدنے کے رجوع کی ممانعت آئی ہے، البتہ اگر معاف کرنے والے نے اپنے بھائی پر صدقہ کی نیت کی تھی تو اسے خریدنا منع ہے۔ جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرؓ کو منع کرتے ہوئے فرمایا:

لَا تشترِہ وَ ان اعطاکہُ بدرھمٍ واحدٍ فانَّ العائِدَ فِی صدَقتہِ کالکلبِ یَعُودُ فِی قیئِہِ (صحیح بخاری: ۲۶۳۲، صحیح مسلم: ۴۱۳۹) ‘‘اگر وہ تمہیں یہ گھوڑا ایک درہم کے عوض بھی دے، تب بھی مت خریدنا کیونکہ صدقہ کرکے اسے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے اور پھر خود ہی اسے چاٹ لیتا ہے’’۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ۳؍۸۴)

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)