بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

مصنف : سید راشد حسین

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : فروری 2009

            کہتے ہیں بحیثیت وزیر خارجہ 80 کی دہائی میں جب صاحبزادہ یعقوب خاں بنگلہ دیش کے سرکاری دورے پر ڈھاکہ پہنچے تو ان کے میزبانوں نے انہیں اس گھر میں ٹھہرایا جہاں کبھی وہ چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر کی حیثیت میں رہتے تھے۔ پر اب فرق صاف ظاہر تھا، اب وہ میزبان نہیں، مہمان تھے۔ چنانچہ جیسے ہی صاحبزادہ یعقوب کی گاڑی قیام گاہ کے پورچ میں داخل ہوئی انہوں نے حسرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا:

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

            آسمان کو یک بیک رنگ بدلتے ہوئے تو ہم نے بھی دیکھا ہے۔ ہم بھی کبھی اس ڈھاکہ میں تھے جو ہمارا تھا۔ جہاں ہمارا بچپن گزرا تھا، جہاں ہم نے معصوم شرارتیں کی تھیں۔ جہاں میرے دادا، دادی اور نانا کی قبریں شاید اب بھی ہماری راہ تک رہی ہوں۔ جہاں ہم نے پہلے پہل کرکٹ کا بلا پکڑنا سیکھا تھا اور آصف اقبال کو ڈھاکہ سٹیڈیم میں باؤنڈری کے پاس دوڑتے دیکھا تھا۔ لیکن 16 دسمبر 71 کو یک بیک سب کچھ بدل گیا۔ مجھے وہ شام بخوبی یاد ہے۔ میرپور گیارہ نمبر کے بازار کے سامنے پیپل کے بڑے درخت کے نیچے پاکستان فوج کے اس سپاہی کا چہرہ مجھے اب بھی یاد آتا ہے جو بلک، بلک کر کہہ رہا تھا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ ہم مر جاتے۔ میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور بہت کچھ سمجھنے سے قاصر۔ کیا ہو رہا ہے، کیوں ہماری والدہ اس بات پر مصر تھیں کہ ہم پانچ بھائی اور ایک بہن ، جن میں سب سے بڑا میں تھا، ڈائیننگ ٹیبل کے حصار کے نیچے دبکے رہیں اور وہ خود کیوں میرا بلا ہاتھ میں لیے ہوئے کمرے کے دروازہ پر کھڑی تھیں جیسے کسی حملہ آور کا انتظار ہو۔

            او رہاں، 25 اور 26 مارچ کی رات تو اس سے نو ماہ پہلے آئی تھی۔ میں تو اس وقت سویا ہوا تھا لیکن میرے والد اور ان کے چچا شکور دادا کے الفاظ دھواں، آگ اور گولی تو میرے ذہن کے کسی گوشے میں آج تک رچے بسے ہیں۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ اس رات پاک فوج نے ملٹری آپریشن شروع کیا تھا اور ڈھاکہ شہر پر اپنی عملداری بحال کی تھی۔ ہائے! یہ عملداری کی کیسی بحالی تھی جس کی عمر صرف نو ماہ تھی؟ اور اسکے فوراً بعد مجھے تو وہ صبح بھی یاد ہے جب گیارہ نمبر میرپور کے لال میدان میں کہ جس کے سامنے ہمارا گھر بھی تھا، چند بنگالیوں کو جو وہیں آس پاس رہتے تھے شہید کر دیا گیا ۔ ان میں لیاقت کے دادا بھی تھے، وہ لیاقت جس کے ساتھ میں بچپن سے کھیلتا آ رہا تھا اور وہ پچھلی گلی میں رہتا تھا۔

ہمارے مکان میں آس پاس کے کئی بنگالی خاندانوں نے پناہ بھی لے لی تھی جنہیں حالات کے کچھ معمول پر آنے کے بعد بابا نے ڈھاکہ شہر کے محفوظ مقامات تک پہنچوایا تھا کہ میر پور غیر بنگالیوں کی بستی تھی۔

            ان حالات کا بابا پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس دن جو، ان کی داڑھی بڑھی تو پھر انہوں نے کبھی شیو نہیں کی۔ میرے والد ڈھاکہ کے سرکردہ صحافیوں میں تھے۔مارننگ نیوز ڈھاکہ کے کامرس ایڈیٹر تھے۔ ان کے بنگالی دوست انہیں ڈھاکہ پریس کلب میں کہا کرتے تھے کہ تم کیسے غیربنگالی ہو جس نے 25 مارچ کے بعد داڑھی بڑھا لی؟

             جن میدانوں میں بچے کھیلتے تھے وہاں لاشیں سجادی گئیں اور پھر نو مہینے بعد ہی آسمان نے ایک اور کروٹ لی۔ 16 دسمبر کا سورج بھی طلوع ہوا اور مجھے پلابی کے میدان جانا بھی یاد ہے اور وہ کون سا یوم محشر سے کم تھا؟

             میرپور کے باسیوں کو حکم ہوا کہ ہم تم پر گولیوں اور توپوں کی یلغار بند کرتے ہیں، اس شرط پر کہ تمام مرد و زن گھر سے نکل کر میدانوں میں جمع ہو جاؤ۔ عورتیں گھر کے پاس فٹبال میدان میں اور مرد پلابی کے میدان میں۔ خبر یہ تھی کہ گھروں کی تلاشی لی جائیگی اور مردوں میں شرپسندوں کو چن کر لے جایا جائے گا۔ مجھے ایک دفعہ مردوں کے ساتھ پلابی کے میدان لے جایا گیا اور دوسری دفعہ میں امی کے ساتھ فٹبال کے میدان میں تھا کیونکہ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ساتویں جماعت کا یہ لڑکا بچہ ہے یا بڑا؟ امی کے ساتھ مجھے چند گھنٹوں بعد ہی کھلے آسمان تلے پیاس کی ایسی شدت محسوس ہوئی کہ میں نے اور مجھ جیسے بہتوں نے سامنے اس تالاب سے پانی پیا جس میں بچوں کی گندگی بھی دھلائی جا رہی تھی۔ اور دوسری دفعہ جو کہ غالباً یومِ عاشور تھا میں اپنے والد مرحوم کے ساتھ، پلابی کے میدان گیا۔ راستہ بھر میرے والد میرے ناسمجھ اور معصوم ذہن میں یہ پیغام باور کراتے رہے کہ بیٹا یہ دن ہمیں صبر اور استقامت کا سبق دیتا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ہر حال میں سجدہ شکر بجا لانا ہمارا فرض ہے۔ غالباً وہ مجھے آنے والے وقت کے لیے تیار کر رہے تھے۔ اور پھر جب پلابی کے اس میدان حشر میں لوگوں کی دور، دور تک قطاریں لگ گئیں تو میرے ایک طرف خورشید بھائی بیٹھے تھے جو شپ انجینئر تھے اور چھٹیوں میں وہاں آ کر پھنس گئے تھے( ان دنوں کینیڈا میں ہیں) اور دوسری طرف بھائی شفیع تھے جو کراچی میں کسی بینک میں ملازم ہیں۔ یہ دونوں نوجوان تھے اور وہاں پرائم ٹارگٹ ہو سکتے تھے اور پھر جب معائنہ کرنے والے حضرات ہمارے سامنے سے گزر رہے تھے تو ان دونوں کا چہرہ میری آنکھوں میں آج بھی گھومتا ہے، لگتا تھا کہ ان کے جسم سے کسی نے خون نچوڑ لیا ہو۔ اپنے دانتوں میں بنگال کی سر سبز زمین سے گھاس اکھاڑ کر کچرتے ہوئے ان کی حالت زار اس قربانی کے بکرے سے قطعی مختلف نہیں تھی جس کی اب چھری کے نیچے آنے کی باری ہو! خیر سے یہ دونوں تو بچ گئے لیکن اس میدان سے اس روز سینکڑوں گاڑیاں بھر کر ایسے لوگ اٹھائے گئے جن پر شرپسند ہونے کا شبہ تھا یا کیا جاسکتا تھا۔ ان میں ہمارے سرور چچا بھی تھے۔ مہینوں اور برسوں بعد ان میں سے کچھ تو واپس آگئے،مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا 37 سال گزرنے کے باوجود آج تک کچھ پتانہیں۔

             پھر میں اپنی گلی میں رہنے والے ان خان صاحب کو کیسے بھول جاؤں جنہیں ایک شام ان کے گھر سے کچھ لوگ اٹھا کر لے گئے اور کسی میں یہ جرات نہ تھی کہ انہیں روک سکتا۔ گھر کے سامنے، لال میدان کے دوسری طرف ان کی اینٹوں کی بھٹی تھی۔ خان صاحب اس دن ایسے گئے کہ آج تک ان کی کوئی خبر نہیں ۔73 میں ان کی بیگم بیوہ ہو کر اور بچے یتیم ہو کر پنڈ دادن خان واپس ہوئے۔

             فیض نے اس سارے منظر کی تصویر کشی کی یوں کی تھی ۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

 پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد