سمندر ی ڈاکو ماضی کے آئینے میں

مصنف : عارف وقار

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : فروری 2009

            خلیجِ عدن کے نواح میں آتے جاتے جہازوں کا اِغوا اور تاوان کا مطالبہ اب روز کا معمول بن چْکا ہے لیکن تاریخی طور پہ دیکھا جائے تو دنیا میں سمندری لٹیروں کی کارروائیاں اسی روز شروع ہوگئی تھیں جس روز پہلا تجارتی جہاز سفر پہ نکلا تھا۔تاہم بحری قزاقی کو ایک باقاعدہ فن کی شکل سکینڈے نیوباً کے لٹیروں نے قرونِ وسطٰی کے زمانے میں دی۔ وائی کِنگ کہلانے والے یہ لْٹیرے شمالی یورپ کے ساحلوں پر کسی جہاز کو چین سے سفر نہ کرنے دیتے تھے ۔دسویں صدی میں یورپی سمندروں پر عرب قزاقوں کا راج رہا اور سولھویں صدی میں بحرِ ہند اور بحیرہ عرب میں یورپی لٹیروں نے حاجیوں کے جہاز لوٹنے شروع کر دیئے۔ اگر آپ سترھویں یا اٹھارویں صدی میں بحرالکاہل یا بحرِ اوقیانوس میں سفر کر رہے ہوتے تو اِس بات کا امکان بہت قوی تھا کہ گہرے سمندر میں شام کا دھندلکا پھیلتے ہی ایک اور جہاز آہستہ آہستہ آپ کے جہاز کے قریب آتا۔ آپ اپنی تسلّی کیلئے اسکے جھنڈے پہ نگاہ ڈالتے تو وہ آپ ہی کے ملک کا جھنڈا ہوتا۔ آپ اطمینان کا سانس لیتے۔۔۔ لیکن آپ کے بالکل برابر آکر وہ جہاز جھنڈا تبدیل کرلیتا۔ اب وہاں انسانی کھوپڑی اور ہڈیوں والا جھنڈا لہرانے لگتا جو اس بات کا اشارہ ہوتا کہ آپ کا جہاز بحری قزاقوں کی زد میں آچْکا ہے۔۔۔ بحری ڈاکو اسی طریقے سے کام کرتے تھے۔ شکار کے قریب پہنچ کر وہ تنبیہ کے طور پر ایک دو گولے داغتے تاکہ مسافر مزاحمت کی کوشش نہ کریں۔ اسکے بعد رسوں اور کْنڈوں کے ذریعے تجارتی جہاز کو بالکل قریب کھینچ لیا جاتا اور پھر بحری ڈاکو ایک ایک کر کے تجارتی جہاز میں کْود جاتے۔ عموماً جہاز کا عملہ مزاحم نہیں ہوتا تھا چنانچہ انھیں رسیوں سے باندھ کر جہاز کا سارا سامانِ تجارت اور سامانِ خورو نوش اپنے جہاز میں منتقل کر لیا جاتا۔ اِن لْٹیروں کی سخت جانی اور دلیری کے بڑے قصّے مشہور تھے اور ان میں سے کچھ تو عوامی ادب کا حصّہ بھی بن گئے۔

1716 سے 1718 تک کے دو برسوں میں بحرِاوقیانوس اور بحیرہ کریبین میں ایڈورڈ ٹیچ نامی ایک انگریز قزاق نے قیامت مچا رکھی تھی۔ اپنی گھنی کالی داڑھی کی وجہ سے یہ قزاق بلیک بِیئرڈ کے لقب سے مشہور تھا، جبکہ ملاح اور جہاز ران اسے دہشت البحر کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ابتدائی کامیابیوں کے بعد اس قزاق نے لڑاکا بحری جہازوں کا ایک پرائیویٹ بیڑا تیار کر لیا اور اپنی جنگی خدمات مختلف پارٹیوں کو پیش کرنے لگا۔ برطانیہ کی ملکہ این نے اس کی جنگی خدمات سے فائدہ اٹھایا اور دورانِ جنگ اسے ہسپانوی اور فرانسیسی جہازوں کی لوٹ مار پہ مامور کردیا۔

اس جنگی تجربے نے بلیک بِیئرڈ کو ایک انتہائی خطرناک سمندری ڈاکو میں تبدیل کردیا اور بڑی بڑی بحری قوتیں بھی اس سمندری شیطان سے پناہ مانگنے لگیں کیونکہ بلیک بیئرڈ نے اپنے ذاتی جہاز پر توپیں نصب کروالیں تھیں اور ڈھائی سو بحری قزاقوں کا ایک خطرناک جتھا تیار کر لیا تھا جو بے دریغ تجارتی اور مسافر بردار جہازوں اور کشتیوں کو لوٹتا تھا۔ اس دہشتناک سمندری بلا کا خاتمہ بالآخر امریکی ریاست ورجینیا کے ساحل پر ہوا کیونہ شامتِ اعمال سے اْس نے رائل نیوی کے کمانڈر رابرٹ مینارڈ سے پنگا لے لیا تھا۔ ایک انتہائی خون ریز جھڑپ میں بلیک بیئرڈ اور اسکے تمام ساتھیوں کو تہِ تیغ کردیا گیا۔ بلیک بیئرڈ کا سر کاٹ کر کمانڈر مینارڈ نے اپنے جہاز کے بادبان پر ٹانگ دیا تاکہ دیگر قزاقوں کیلئے باعثِ عبرت ہو، اسکے بعد کمانڈر اْس عظیم خزانے کے تلاش میں نکل کھڑا ہوا جو بحری قزاق بلیک بیئرڈ نے عمر بھر کی لْوٹ مار سے اکٹھا کیا تھا اور جس کی مالیت کے بارے میں بڑی داستانیں مشہور تھیں۔ لیکن افسوس کہ کمانڈر اس خزانے تک کبھی نہ پہنچ سکا۔ اور کمانڈر ہی کیا پچھلے تین سو برس کے دوران کئی من چلے اْس خزانے کی تلاش میں نکلے اور ناکام و نامراد لوٹے۔۔۔ کون جانے وہ خزانہ کہیں وجود بھی رکھتا ہے یا نہیں!

            ویسے تو لگتا ہے کہ بحری قزاقوں کے کارنامے اب محض قصّہ پارینہ ہیں اور ان کا مقام بچوں کی کہانیوں، مہم جوئی کی داستانوں اور ڈائجسٹ رسالوں میں شائع ہونے والے مواد کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحری قزاقی آج کل بھی لٹیروں کا ایک مرغوب پیشہ ہے۔ بحرالکاہل اور بحرِ ہند کے درمیانی پانیوں میں صومالیہ کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ اور آبنائے ملاکا اور سنگا پور کے علاقوں میں اب بھی ہر سال کروڑوں ڈالر کا سامان اور تاوان لْٹیروں کی نذر ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں صومالی ساحلوں کے قریب ہونے والے قزاقی کے واقعات کے بعد امریکی سربراہی میں ایک ایسی بین الاقوامی فورس کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے جو قرنِ افریقہ کے علاقے میں سمندروں کی نگرانی کرے۔ ادھر یورپی یونین بھی اپنے علاقے میں اس لعنت کو روکنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے لیکن خلیجِ عدن میں متعین ہونے والی سمندری ٹاسک فورس کے ایک ہسپانوی کمان دار کیپٹن آندرے براڑو نے اس سلسلے میں پیش آنے والی ایک عجیب و غریب مشکل کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں جب ہم کسی سمندری لٹیرے کو پکڑتے تھے تو اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے سمندر میں پھینک دیا کرتے تھے اور یوں اس مصیبت سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا مِل جاتا تھا لیکن اب ہم ڈاکو کو اِس طرح سزا نہیں دے سکتے کیونکہ اس کے بھی انسانی حقوق ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار یورپی ممالک اس سلسلے میں اتنے محتاط ہیں کہ وہ گرفتار شدہ صومالی لٹیروں کو حکومتِ صومالیہ کے حوالے بھی نہیں کرتے کیونکہ اْن کے خیال میں صومالیہ ایک ناکام ریاست ہے اور وہاں انصاف نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی چنانچہ خطرہ ہے کہ اِن لٹیروں کو وہاں جسمانی اِیذا پہنچائی جائے گی یا بے ڈھنگے پن سے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا، جبکہ یورپ میں ان لٹیروں پر مقدمہ چلا کر انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق انھیں سزادی جا سکتی ہے۔