مذہبی انتہا پسندی کاخاتمہ کیوں کر

مصنف : ڈاکٹر محمد طاہر مصطفی - یو ایم ٹی، لاہور

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جنوری 2009

(تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی میں)

میں حرفِ آغاز سے ہی اس الزام کی تردید کرتا ہوں کہ ہمارا مذہب ‘اسلام’ اور‘ ہم’ انتہا پسند ہیں۔ کیونکہ اس الزام کا مرکز و محور ‘‘مذہب’ ’ ہے اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مذہب کے تصور کا نظریاتی اور عملی پہلو سے تجزیہ کیا جائے کہ کیا اس تصور میں کہیں کوئی انتہاپسندی کا پہلو نکلتا ہے؟

مذہب کا لغوی و اصطلاحی مفہوم

مذہب کا مادہ ‘‘ذَہَبَ’’ ہے جس کے لغوی معنی چلنے کا راستہ یا زندگی گزارنے کا طریقہ ہے۔ انگریزی زبان میں مذہب کا مترادف لفظ Religion ہے جو لاطینی زبان سے ماخوذ ہے اور اس کا مفہوم عقیدہ، نظریہ اور پوجا پاٹ کا نظام ہے۔ قرآن حکیم میں مذہب کے معنی و مفہوم میں ‘‘دین’’، ‘‘منہاج’’ اور ‘‘سبیل’’کے لفظ استعمال ہوئے ہیں۔

مغربی مفکرین کے نزدیک

مذہب کا تصور

زندگی کی بعض حقیقتیں ایسی ہیں جن کو صرف سمجھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے مگر ان کی جامع تعریف مشکل ہوتی ہے۔ مثلاً محبت، سچائی، رعنائی اور عقل و دانش وغیرہ۔ یہی معاملہ مذہب کا ہے۔ اس کی تعریف مختلف مفکرین نے مختلف کی ہے۔ مغربی مفکرین میں سے ای بی ٹیلر کا موقف یہ ہے کہ مذہب سے مراد ہے روحانی مخلوقات پر ایمان لانا۔

برونائیٹ ہیڈ لکھتا ہے: ‘‘مذہب اعتقاد کی اس قوت کا نام ہے جس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ انسان اور اس کے کردار میں انقلاب پیدا کردے بشرطیکہ اُسے خلوص کے ساتھ قبول کیا جائے اور بصیرت کے ساتھ سمجھا جائے’’۔

اسی طرح مشہور عالم نفسیات پروفیسر جیمز ایچ لیوبا (James H. Leuba) نے اپنی ایک تصنیف میں مذہب کی مختلف تعریفیں نقل کی ہیں جو مذہب کے کسی نہ کسی ضروری جزو پر حاوی ہیں، مثلاً:

  • مذہب اس احساس کا نام ہے جو کسی مقدس ، بالاتر اور اَن دیکھی ذات کا وجود انسان کے قلب و دماغ پر پیدا کرتا ہے۔
  • مذہب اُن مافوق الفطرت قوتوں کی رضا جوئی کا نام ہے جو انسانی زندگی پر حکمران ہیں۔
  • مذہب اس جستجو کا نام ہے جو انسانی زندگی کے حقیقی مقاصد کے ادراک کے لیے کی جاتی ہے۔

 ہمیں بحیثیت مسلمان ان مغربی افکار کی ماہیت سے نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ان افکار کے حوالے سے بھی مذہب کی تعریف میں تشدد، ظلم و زیادتی اور انتہاپسندی کا پہلو سامنے نہیں آتا ۔

مذہب کا قرآنی تصور

 اگر ہم مذہب کے تصور کا قرآن حکیم کی تعلیمات و ارشادات کی روشنی میں تجزیہ کریں تو ہمیں اس مفہوم میں دین، شریعت، ہدایت، صراط اور طریق کی اصطلاحات ملتی ہیں۔اسلام کے تصورِ مذہب کو سمجھنے کے لیے ان اصطلاحات کا فہم بھی بہت ضروری ہے۔

دین کے لغوی معنی ہیں: انقیاد و اخلاص، مگر استعارۃً و اصطلاحاً اس سے مراد ملت اور شریعت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ان الدین عنداللّٰہ الاسلام

‘‘یعنی بے شک اللہ کے نزدیک اگر کوئی دین ہے تو وہ اسلام ہے’’۔

 ۱۰ہجری میں جب وحی کے ذریعے دین کے کامل ہونے کی خوشخبری سنائی گئی تو اس وقت بھی اسلام کے لیے دین کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیتُ لکم الاسلام دینًا۔

بقول امام ابوحنیفہ لفظ دین کا اطلاق ایمان، اسلام اور جملہ احکامِ شریعہ پر ہوتا ہے۔ علامہ جرجانی کے نزدیک دین اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ دستورِ حیات ہے۔

اس سے یہ واضح ہوا کہ اسلام میں عقیدہ و اقرار اور عمل کے مجموعے کا نام ‘‘دین’’ ہے۔اس میں عقائد، عبادات ، معاملات،اسی طرح انفرادی، اجتماعی، سیاسی، اقتصادی، عسکری، عدالتی اور بین الاقوامی تمام امور شامل ہیں۔ مگر ان سے انتہاپسندی کا کہیں کوئی عنصر سامنے نہیں آتا۔

 مذہب کے مفہوم میں قرآن حکیم نے دوسرا لفظ ‘‘شریعت’’ استعمال کیا ہے۔ ‘‘ جس کے لفظی معنی ہیں: گھاٹ، پنگھٹ، وہ جگہ جہاں سے آسانی کے ساتھ پانی کے لیے پہنچاجا سکے۔ دریا اور سمندر کے کنارے ایسی جگہ جہاں جانور پانی پینے کے لیے وارد ہو سکیں۔ دہلیز، چوکھٹ، عادت، بیان، اظہار ، وضاحت، دین، ملت، منہاج ، راستہ، مثال، نمونہ اور مذہب کو بھی شریعت کہتے ہیں۔ دینی اصطلاح میں شریعت سے مراد وہ طریقۂ زندگی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے مقرر کردے اور اس پر چلنے کا حکم دے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت کا تعلق دین اور طریقۂ زندگی سے ہے۔ اس سے بھی انتہا پسندی کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔

اسی طرح ملت کے مفہوم میں قرآن حکیم بیان کرتا ہے: قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔

‘‘یعنی کہہ دیجیے اللہ نے سچ فرمایا ہے پس راست رو ہوکر ابراہیم ؑ کے دین کی پیروی کرو اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے’’۔

قرآن مجید کے اس ارشاد میں لفظ ‘‘ملت’’ دین اور مذہب کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔امام راغب ملّت کے لفظ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ملت دین ہی کا مترادف ہے اور یہ نام اللہ تعالیٰ کے اس طریق کا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے انبیا علیہم السلام کی زبان سے بیان کیا ہے تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔

قرآن مجید نے مذہب کے مفہوم کو سبیل کے لفظ سے بھی تعبیر کیا ہے، مثلاً ارشاد ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ۔

‘‘یعنی اپنے رب کے رستے کی طرف حکمت اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دو اور ان کے ساتھ اس طریق سے بحث کرو جو عمدہ ہو’’۔

حضرت امام راغب نے السبیل کے معنی الطریق یعنی راستہ کے لیے ہیں مثلاً سبیل السّلام کے معنی طریق الجنّۃ کے ہیں یعنی وہ راستہ جو جنت کی طرف لے جاتا ہے۔

المختصر، مغربی تصور مذہب کو پیش نظر رکھیں یا اس بارے میں اسلامی طرزِ فکر کو، ہر دو افکار کے تجزیے میں کہیں بھی مذہب کے قیام و دوام یا اس کی دعوت میں تشدد، اور انتہاپسندی کا عنصر نہیں ملتا۔

مذہب اسلام کے نام پر آج جو انتشار، بے چینی، ظلم، فساد، زیادتی، قتل و غارت گری ہو رہی ہے اس کے بنیادی اسباب و محرکات دراصل دو ہیں:

۱- اسلام کے تصورِ جہاد کے بارے میں غلط فہمی

۲- مذہبی فروعی اختلافات میں متشدد ہونا۔

اب ہم ان دونوں تصورات کاجائزہ لیتے ہیں کہ کیا ان میں انتہا پسندی یا تشدد کا کوئی پہلو موجود ہے؟

اسلام کا تصورِ جہاد

جہاد کا مادہ ‘ج ھ د ’سے مشتق ہے۔ اس کے لغوی معنی ‘‘ہر وہ کوشش ہے جو کسی معین مقصد کے لیے کی جائے’’۔ یہ لفظ قرآن مجید میں کبھی لغوی معنوں میں اور کبھی اصطلاحی معنوں میں متعدد مرتبہ آیا ہے۔

اصطلاح میں جہاد سے مراد وہ محنت اور کوشش ہے جو اللہ کے لیے ، دین اسلام اور ملت کے استحکام کے لیے کی جائے۔ لیکن زیادہ معین معنوں میں جہاد اسلام کا ایک اجتماعی فریضہ ہے اور اس کی انجام دہی میں بطور عبادت ہر وہ کوشش شامل ہے جو ملّت اسلامیہ کے استحکام کے لیے کی جائے۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ جہاد صرف قتال کا نام نہیں بلکہ استحکام ملّت کے لیے ہرکوشش جہاد ہے۔ مقاصد کے حصول کے لیے قتال جہاد میں شامل ہے لیکن یہ آخری صورت ہے۔ یہ قطعی طور پر ایک غیرمنطقی بات ہوگی کہ اگر کوئی مریض کسی طبیب یا ڈاکٹر کے پاس پیٹ میں درد کا عارضہ لے کر جائے اور وہ طبیب پہلے ہی دن عملِ جراحی شروع کردے۔ عقلی اور اصولی بات یہ ہے کہ اگر کسی نے پیٹ کے درد کی شکایت کی تو طبیب پہلے دن اُسے کوئی کھانے کی دوا تجویز کرے۔ کچھ دن اگر وہ دوا کھانے سے آرام نہیں آیا تو دوسری دوا تجویز کرے۔ اس سے بھی فرق نہیں پڑتا تو ٹیسٹ کروائے۔ اب اگر ٹیسٹ کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ پیٹ میں کینسر ہے تو آخری حربے کے طور پر آپریشن یا جراحی کرے۔ کیوں کہ زندگی بچانے کے لیے اب ‘‘خون بہانا’’ لازمی ہے اور مقصد ‘‘زندگی بچانا ہے’’۔ قاتل جب کسی کے پیٹ میں چھرا گھونپتا ہے تو یہ ‘‘موت کی علامت ہے’’ اور طبیب جب کسی کے پیٹ میں نشتر گھونپتا ہے تو یہ ‘‘زندگی کی علامت ہے’’۔ بعینہٖ اگر کسی برائی کے خاتمے کے لیے جہاد مطلوب ہے تو اس کا بھی یہ تقاضا نہیں ہے کہ سب سے پہلے جہاد بالسیف سے آغاز کیا جائے بلکہ عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ پہلے جہاد بالقرآن یا جہاد بالسنت، جہاد باللسان، جہاد بالقلم اور جہاد بالمال کے نسخہ کو آزمایا جائے۔ جب یہ تدابیر کارگر ثابت نہ ہوں تب آخری تدبیر کے طور پر جہاد بالسیف یا قتال کو بروئے کار لایا جائے۔

جہاد کی اصل روح تو یہ ہے مگر ہم نے اسلام کے متعلق ہرمسئلے کا حل جہاد کی آخری تدبیر یعنی قتال کو اوّل نسخۂ اکسیر بناکر ڈھونڈنا شروع کردیاہے۔ ہم نے عالمِ اسلام کے مسائل سے لے کر مقامی سطح کے اختلافات تک کو دانش مندی، فہم و ادراک،بات چیت،تحمل، برداشت اور دُور اندیشی سے نہیں بلکہ ٹکرا کر، سر پھوڑ کر، اور خون کی نہریں بہاکر حل کرنا چاہا، نتیجہ کیا ہوا؟ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی…… اور آج ہم اسی مذہبی انتہا پسندی کے رجحان کی وجہ سے دنیا میں دہشت گرد مشہور ہوگئے اور مذہبی انتہا پسند کہلائے جانے لگے۔ حالانکہ اسلام اتفاق و اتحاد کا مذہب ہے۔ یہ اخلاق اور محبت کا پیغام ہے۔ یہ اخوت و بھائی چارے کا پیغامبر ہے اوریہ آزادئ فکر کا حامی ہے۔ یہ دین کسی پر ظلم و تشدد ہوتا نہیں دیکھ سکتا بلکہ زندگی کے ہرلمحے میں امن و سلامتی چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے امربالمعروف ونہی عن المنکر کو اپنے اصولوں اور فرائض میں شامل کرتا ہے۔ یہ مذہب انسان کی عزت و عظمت کے بارے میں اس قدر حساس ہے کہ یہ ایک انسان کی دوسرے کے ساتھ بدکلامی، بدگمانی، بہتان اوربے حیائی کو نہ صرف انسانی قدروں کے خلاف سمجھتا ہے بلکہ ان رذائل کو گناہ تصور کرتا ہے۔ اس کے برعکس مساوات، عفو و درگزراور عملِ صالح کو انسانی قدرومنزلت کی علامات اور صفات قرار دیتا ہے۔

مقام غوروفکر ہے جو مذہب انسان کی عزت و احترام کے بارے میں اس قدر حساس ہو وہ کس طرح انتہا پسند ہوسکتا ہے۔ یہاں ہم یہ دعویٰ بھی پورے وثوق سے کرسکتے ہیں کہ جو مذہب اسلام کی آڑ میں انتہاپسندی کو بروئے کار لاکر مسائل کا تشدد کے ذریعے سے حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یا تو اسلام کے متبعین ہی نہیں ہیں یا وہ اسلام کی اصل مذہبی روح کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اسلام تو خود اس پوزیشن میں ہے کہ وہ دیگر مذاہب میں انتہاپسندی کو ثابت کرسکے مگر خود یہ مذہب کسی بھی معنی و مفہوم میں انتہاپسندی کے تصورات کا حامل ہوسکتا ہے اور نہ کبھی تھا۔

مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھارت میں مذہبی انتہاپسندوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا۔ سانحۂ چرار شریف میں مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر ہندوؤں نے مسلمانوں کے کئی مزاروں، گھروں، دکانوں اور درگاہوں کو آگ لگا دی۔ ۱۹۸۴ء میں گولڈن ٹمپل آپریشن میں ۳۵ ہزار سکھوں کو مار ڈالا گیا۔ اڑیسہ، اترپردیش، کشمیر میں مذہب کے نام پر آئے دن قتلِ عام جاری ہے۔ مذہب کی بنیاد پر فرانس میں مسلمان لڑکیوں کو سر پر رومال باندھنے کی وجہ سے اسکول سے نکال دیا گیا۔ اسی طرح اسرائیل نے مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کے قبلۂ اوّل پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے ماضی و حال کا دامن ایسے کسی بھی داغ سے پاک ہے۔اسلام کا بنیادی ماخذ یعنی قرآن مجید ہرقسم کے مذہبی تعصب سے منہ موڑنے کی ہدایات سے بھر ا پڑا ہے ،مثلاً:

  • دنیا کے تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ان کا خالق بھی ایک ہی ہے۔ اس لیے نسلی یا علاقائی اختلافات کی کوئی حیثیت نہیں۔ تمام انسان بحیثیت انسان برابر ہیں۔ رنگ و نسل و زبان کا فرق باہمی تعارف کے لیے ہے۔ عزت و شرف اور فضیلت کا معیار تقویٰ ہے۔
  • مسلمانوں اور اہلِ کتاب کو قریب لانے کے لیے کہا گیا ہے کہ تمام انبیاء ایک ہی دین کی دعوت لے کر آئے تھے۔ تمام انبیاء پر ایمان لانا لازمی ہے۔ ان کے درمیان تفریق کرنا کسی بھی طرح روا نہیں ہے۔ بلکہ کسی مسلمان کا اس وقت تک ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک وہ تمام انبیاء پر ایمان نہ لائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام آسمانی کتابیں برحق ہیں اور اُن سب پر ایمان لانا بھی تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔
  • دشمنوں کے مقابلے میں بھی عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
  • اگر وہ (دشمن) فساد سے باز آجائیں تو ان پر کسی طرح کی زیادتی نہ کی جائے۔
  • اگرکفار صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی ان کی طرف جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔
  • ناحق ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔
  • اگر اللہ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے سے باز نہ رکھتا تو گرجے، یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجدیں جہاں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، برباد کردیے جاتے۔
  • اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے روکے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے۔

            مذہب اور خصوصاً مذہب اسلام کی تعلیمات کی روسے ہم نے ثابت کردیا کہ اس کا انتہاپسندی سے کسی طرح بھی کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہماری صفوں میں انتہاپسندی کا جو مرض موجود ہے اس کو دور کرنے کے لیے ہماری تجاویز یہ ہیں کہ:

  • ہر فرقہ اپنے حلقوں میں اپنے مسلک کو ضرور واضح کرے لیکن اس وضاحت میں دوسرے پر طعن تشنیع اور کافر کافر کی رَٹ نہ لگائے کیوں کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاتا ہے ہمارے پاس اختیار نہیں ہے کہ ہم اُسے کافر قرار دیں۔
  • ان اختلافات کو عوامی جلسوں اور اخبارات و رسائل کا موضوع نہ بنایا جائے۔
  • ملک میں رائج اسلامیات کے نصاب میں میٹرک کی سطح سے لے کر ڈگری لیول تک مذہب کے اصل معنی و مفہوم، اس کے مقاصد اورمذہب کے تصور رواداری اور تحمل و برداشت، نیز جہاد کے اصل مفہوم اور اس کے درجہ وار مراحل پر تفصیلی موضوعات شامل کیے جائیں۔
  • ماڈرن ازم کی آڑ میں نوجوان نسل کے ذہنوں میں مذہب سے دُوری نہ پیدا کی جائے بلکہ تمام دنیاوی چیلنجوں کا مذہب کی روشنی میں حل تعلیمی نصاب کی زینت بنایا جائے۔
  • اپنے مذہب کی حقانیت اور اس کی اصل روح کو اُجاگر کرنے میں کسی ہچکچاہٹ یا مرعوبیت کو محسوس نہ کیا جائے بلکہ پورے جاہ و جلال اور رعب کے ساتھ اپنے مذہب کی سچائی کو اجاگر کیا جائے۔
  • اپنے مذہب کی اصل روح اور اس کے تصورات الفت و محبت اور تحمل و رواداری پر مشتمل پروگرام معقول اوقات میں ریڈیو، ٹی وی پر نشر کیے جائیں۔
  • ایسے موضوعات پر ڈرامے اور کھیل نشر کیے جائیں جن سے مذہبی انتہاپسندی کی نفی ہوتی ہو اور آپس میں محبت و ہمدردی کی فضا پیدا ہوتی ہو۔
  • وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے ‘‘مذہب کا اصل تصور’’ اور ‘‘خلفائے راشدین کی آپس میں محبت و الفت’’ کے موضوع پر صوبائی اور قومی کانفرنسز منعقد کروائی جائیں۔
  • ریڈیو، ٹی وی پر جہاد کی اقسام اور مراحل پر مذاکرات نشر اور ٹیلی کاسٹ کیے جائیں۔
  • وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے نوجوان نسل میں مذہب کے اصل تصور کا شعور بیدار کرنے کے لیے تحریری انعامی مقابلے کروائے جائیں۔

٭٭٭