ابو عثمان سعید بن مسجح

مصنف : توراکینہ قاضی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اگست 2010

یزید بن معاویہؓ پہلا شخص ہے جس کے عہد سے اسلام میں عیش پرستی کا آغاز ہوا۔ اسی کے آخر عہد میں یا یوں کہیے کہ اس کے کارناموں کی یادگار میں ایک عجیب طریقہ سے عرب لوگوں میں ایک باقاعدہ فن موسیقی شروع ہوا۔ وہ ہنوز زندہ تھا کہ عبد اللہ بن زیبرؓ کے ہاتھ پر لوگوں نے مکہ میں اس کی بے اعتدالیوں سے تنگ آ کر بیعت کی۔ اس کے بعد انھوں نے خلافت کا دعویٰ کر دیا۔ اس کی خبر دمشق پہنچی تو وہاں سے ان کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر روانہ کیا گیا۔ اس کے سپہ سالار حصین بن نمیر نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ طویل عرصہ تک جاری رہا۔ پھر ایک رات جب گرج اور چمک کے ساتھ طوفان باد و باراں برپا تھا اور محاصرہ کرنے والوں کا شور و غل بلند ہو رہا تھا، ابن زبیر کو اندیشہ ہوا کہ کہیں اہل شام شہر میں تو نہیں داخل ہو گئے۔ مگر اندھیرے میں کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ حریف کی حالت کا پتہ چلنے کے لیے انھوں نے حکم دیا کہ ایک نیزے پر مشعل باندھ کر بلند کی جائے۔ ہوا بہت تیز تھی، جیسے ہی مشعل بلند کی گئی، اس کی کچھ چنگاریاں اڑ کر غلاف ِ کعبہ تک جا پہنچیں اور غلاف نے فوراً ہی آگ پکڑ لی اور بیت اللہ شریف پر بھیانک شعلے بھڑکنے لگے۔ لوگ آگ بجھانے کو دوڑے، مگر کسی کا کوئی بس نہ چلا۔ اور تمام رات خانہ کعبہ جلتا رہا اور صبح ہونے تک کھنڈر بن گیا۔ ایک قریشیہ عورت بھی اس آگ میں جل کر مر گئی۔ لوگ بے حد خوف زدہ اور سراسیمہ تھے کہ کعبہ کی اس بے حرمتی سے کہیں عذاب ِ الٰہی نہ نازل ہو جائے۔ لہٰذا سب لوگ نہایت رقت قلب اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس عورت کے جنازے میں گئے۔ ادھر ابن زبیرؓ کی یہ حالت تھی کہ رات بھر سر بسجود پڑے رہے اور بارگاہ رب العزت میں رو رو کے دعائیں کرتے رہے کہ ‘‘ با ر الٰہا! میں نے یہ دانستہ نہیں کیا، میرے اس گناہ کی پاداش میں اپنے بندوں کو ہلاک نہ کرنا۔ میں تیرے سامنے حاضر ہوں، میرے ساتھ جو سلوک چاہے کر۔’’

اب دن کو لوگوں کو ذرا اطمینان ملا تو وہ بے فکر ہو کر اپنے گھروں کو چلے۔ اس پر ابن زبیرؓ نے انھیں روکا کہ ‘‘تم عجیب ہی لوگ ہو! تمھارے گھر کی ایک اینٹ بھی گر جائے تو تم اسے اٹھا کر اس کی جگہ لگا دیتے ہو، اور مرمت اور اصلاح کے بغیر دم نہیں لیتے اور یہ خدا کا گھر گر گیا ہے اسے کیا تم یونہی ملبے کا ڈھیر بنا رہنے دو گے؟’’ ان کے کہنے سے لوگوں کو کعبہ کی تعمیر نو کی فکر ہوئی۔ ابن زبیرؓ نے چاہا کہ منہدم دیواروں کے باقی حصہ کو بھی کھود کر برابر کر دیں اور پرانے آثار پر بنیادیں اٹھائیں۔ مگر ڈر کے مارے کوئی ہاتھ نہ لگاتا تھا۔ چنانچہ ابن زبیرؓ نے پھاوڑا اٹھا کر خود کھودنا شروع کیا۔ یہ دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس کام میں شریک ہو گئے۔ اب انھوں نے دیواروں کو منہدم کر کے برابر کیا او رکعبہ کو زیادہ وسیع کر کے تعمیر کیا۔ یعنی وہ گرد کی جگہ جو حجر کہلاتی ہے اور ایک کٹہرے میں محصور ہے بیت اللہ کے اندر شامل کر لی۔ اس پر لوگوں نے اعتراض کیا تو انھوں نے کہا: ‘‘خود جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ تمھاری قوم والے نئے نئے مسلمان نہ ہوتے تو میں کعبہ کو ویسا ہی بنا دیتا جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا اور حجر کو اس کے اندر شامل کر دیتا۔’’ اس حدیث پاک کی تصدیق کے لیے زمین کھودی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ڈالے ہوئے آثار ظاہر ہو گئے۔ اور انھی پر ابن زبیرؓ نے نئی عمارت قائم کی۔ اس کے علاوہ ابن زبیرؓ نے آمنے سامنے کعبہ کے دو دروازے رکھے تھے تاکہ لوگ ایک سے داخل ہوں اور دوسرے سے نکل جائیں۔ ابن زبیر ؓ نے عمارت کعبہ کے لیے بڑا اہتمام کیا تھا۔ انھوں نے ایرانی اور رومی معمار بلوا کر اس کام پر مامور کیے۔ فارسی معماروں کی عادت تھی کہ اپنے کام کے دوران اکثر اشعار گایا کرتے تھے۔

ایک دن فارسی معمار حسب عادت کام کرنے کے ساتھ ساتھ گا بھی رہے تھے کہ خاندان بن حمج کا ایک غلام سعید نامی ادھر سے گزرا۔ اسے قدرتی طور پر گانے کا بے حد شوق تھا۔ اس طبعی شوق سے وہ اکثر گنگنایا کرتا تھا۔ اس نے جو فارسیوں کا نغمہ سنا تو اسے بھلا لگا۔ وہ بار بار جا کر ان لوگوں کا گانا سننے اور ان کے ساتھ دھنوں میں عربی اشعار گانے کی مشق کرنے لگا۔ جس میں اس کو کامیابی ہوئی۔ چند روز بعد وہ اس میں اتنی مہارت حاصل کر گیا کہ اس کے گانے سے لوگ مسحور ہو جاتے تھے۔ وہ ذہین، طباع اور ذکی تھا۔ اس کا مالک اس سے بے حد محبت رکھتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس لڑکے کی ضرور کوئی خاص شان ہونے والی ہے۔ میں کبھی کا اسے آزاد کر چکا ہوتا مگر اس کی خوبیاں ایسی ہیں جو مجھے ایسا نہیں کرنے دیتیں۔ اگر میں زندہ رہا تو اس کی عظمت اور اپنی پیشین گوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھوں گا۔ اور اگر مر جاؤں تو سب کے سامنے کہتا ہوں کہ یہ آزاد ہے۔

اسی اثنا میں ایک دن جب اس کے مالک نے اسے گاتے ہوئے سنا تو چونک پڑا اور اسے بلا کر کہا: ‘‘ذرا اسی طرح پھر گا کر سنا’’۔ اس نے اب جو گایا تو زیادہ مہارت سے اور نہایت دلکش سروں میں گایا۔ مالک نے اس کی بے حد تعریف کی اور پوچھا: ‘‘تو نے یہ دھن کہاں سے سیکھی؟’’ اس پر اس نے اسے فارسی معماروں والی بات سنائی۔ اس پر مالک کے دل میں خیال گزرا کہ اس نے ایک لطیف فن کی طرف توجہ کی ہے۔ اسے اس میں مہارت و عبور حاصل کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ چنانچہ اسے اسی وقت آزاد کر دیا۔ مگر سعید آزاد ہونے کے بعد بھی اپنے آقا کی خدمت میں رہا۔ اب وہ پہلے سے زیادہ شائستہ، تمیز دار اور مہذب بن گیا تھا۔ اس کے باپ کا نام مسجح تھا۔ اس کی کنیت ابو عثمان یا ابو عیس تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ بنی حمج کا نہیں بلکہ نوفل بن حرث بن عبد المطلب کا غلام تھا۔

بہرحال آزاد ہونے کے بعد اسے اپنا فن موسیقی کا شوق پورا کرنے کا موقع ملا۔ وہ مکہ مکرمہ سے نکل کر شام چلا گیا۔ وہاں اس نے عرصۂ دراز تک رومی گویوں کی صحبت میں بیٹھ کر اور ان کی شاگردی کر کے رومی راگوں میں مہارت حاصل کر لی۔ پھر شام کو خیر باد کہہ کر فارس چلا گیا۔ وہاں اس نے مختلف ساز بالخصوص بربط اور سرود کا بجانا سیکھا اور پوری طرح کما ل حاصل کرنے کے بعد ارض حجاز واپس آ گیا۔ اب اس نے اطمینان سے بیٹھ کر اس جانب توجہ کی کہ رومی اور فارسی دھنوں کو عربی میں منتقل کرے۔ جو دھنیں عربی زبان میں آ سکیں، ان کو تو اختیار کر کے رواج دیا جو نہ آسکتی تھیں انھیں متروک و مسترد کر دیا۔ الغرض وہی پہلا شخص ہے جس نے عربی موسیقی کو ایک باقاعدہ فن بنایا، جس کے بڑے بڑے باکمال فنکار بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں پیدا ہوئے۔ یہ ابن مسجح کی کوششوں سے ایسا وسیع اور اہم فن بن گیا تھا کہ فارابی اور ابن سینا جیسے فلاسفۂ اسلام بھی بغیر اس فن سے واقفیت اور اس میں مہارت کے بغیر اپنے آپ کو ناقص اور غیر مکمل تصور کرتے تھے۔

مکہ مکرمہ واپسی پر ایک باکمال و بے مثال ماہر موسیقی کی حیثیت سے سعید بن مسجح کی بڑی عزت و منزلت ہوئی۔ اسے ہر جگہ بلایا جانے لگا۔ کوئی محفل طرب اس کے بغیر مکمل نہ سمجھی جاتی تھی۔ جب تک لوگ کسی محفل میں اس کا نغمہ نہ سن لیتے انھیں وہ محفل پھیکی پھیکی سی محسوس ہوتی۔ اس کی بنائی ہوئی دھنیں بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے لگیں اوراس کی شہرت پر لگا کر چاروں طرف پھیلنے لگی۔ جس کسی کو بھی فن غنا سے مس تھا، ابن مسجح کی پیروی کرنے لگا۔ بعد کے مغنی بھی اس کے نقش قدم پر چلتے رہے۔

ابن مسجح کے آقا کا ایک اور کمسن غلام عبید بن سریح نامی تھا، جس کی آواز میں بہت ہی لوچ تھا اور جس نے حیرت انگیز گلا پایا تھا۔ اس غلام کو ا س نے ابن مسجح کے سپرد کر دیا اور اس سے کہا: ‘‘تم اسے موسیقی کی تعلیم دو۔’’ ابن مسجح نے اس غلام کو تعلیم دینی شروع کی۔ اور تھوڑے ہی عرصے میں اسے ایسا باکمال موسیقی دان اور بے مثال مغنی بنا دیا کہ عہد خلفا میں اسے بے حد قدر و منزلت حاصل رہی۔ وہ جہاں جاتا آنکھوں پر بٹھایا جاتا اور وہی زمانۂ اولین اسلام کا یادگار زمانہ مغنی ہے۔

عبد الملک بن مروان کے عہد میں ابن مسجح کے فن موسیقی کو یہاں تک فروغ حاصل ہوا کہ اس کے نام کی ان تمام ملکوں میں جہاں اہل عرب پہنچے تھے، شہرت ہو گئی۔ مکہ میں جتنے نوجوان شرفائے قریش تھے، اس کے فن کے دیوانے بن چکے تھے۔ شدہ شدہ کس نے خلیفہ سے شکایت جا لگائی کہ ‘‘مکہ’’ میں سعید بن مسجح نامی ایک حبشی ہے جو نواجوان قریش کو خراب کیے ڈال رہا ہے۔ اور سب اپنی دولت اس پر لٹائے دیے جا رہے ہیں۔ اس پر خلیفہ نے مکہ میں اپنے والی کو لکھا کہ ‘‘سعید بن مسجح کا مال و اسباب سب ضبط کر کے اسے میرے پاس بھجوا دو۔’’ اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ سعید بن مسجح کا سب کچھ چھین لیا گیا اور اسے دمشق روانہ کر دیا گیا۔ راستہ میں ایک شخص ملا جس کے ہمراہ خوش گلو لونڈیاں تھیں۔ اس نے انھیں علم موسیقی کا استاد سمجھ کر اپنے ساتھ لے لیا اور آپ گاتے بجاتے اپنے ہم مذاق کی صحبت کا لطف اٹھاتے دمشق جا پہنچے۔

وہاں پہنچ کر ابن مسجح نے لوگوں سے دریافت کیا کہ امیر المومنین کی خدمت میں کون زیادہ آتا جاتا ہے اور کسے ان کے مزاج میں درخور حاصل ہے؟ لوگوں نے کہا: جوانان قریش ان کی خدمت میں زیادہ بے تکلف ہیں۔ یہ دریافت کر کے ابن مسجح قریشی نوجوانوں کی ایک جماعت کے پاس گیا اور پوچھا: آپ میں کوئی ایسا بھی ہے جو ایک غریب الوطن حجازی کو اپنے یہاں جگہ دے؟ یہ سنتے ہی سب نوجوان ایک دوسرے کی صورت دیکھنے لگے کیونکہ اس وقت وہ ایک مشہور مغنیہ برق الافق کے ہاں جانے والے تھے۔ سب نے اسے ٹال دینا چاہا لیکن ایک فیاض قریشی بولا: ‘‘میں آپ کو اپنا مہمان بناؤں گا’’۔ پھر وہ اپنے رفقا سے بولا: آپ لوگ برق الافق کے ہاں چلے جائیے، میں انھیں اپنے گھر لے جاتا ہوں۔ اس پر اس کے رفقا بولے: یہ ٹھیک نہیں، برق الافق کے ہاں تم بھی چلو، اپنے ان مہمان کو بھی لے چلو۔ الغرض دمشق داخل ہوتے ہی ابن مسجح اپنے نو عمر رفقا کے ساتھ ایک مغنیہ کے گھر پہنچا۔برق الافق کے گھر سب سے پہلے انھیں کھانا کھلایا گیا، پھر شراب کا دور چلا۔ اس کے بعد گانے کی نوبت آئی۔ ایک چوکی جو پہلے ہی بچھی ہوئی تھی، اس پر دو لونڈیاں آ کے بیٹھیں، اور عشاء کے وقت تک گاتی رہیں۔ پھر وہ اٹھ گئیں اورایک نہایت حسین و جمیل نازنین کو لے آئیں جو بڑے ناز و ادا کے ساتھ چوکی پر رونق افروز ہو گئی۔ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر ابن مسجح نے بے ساختہ ایک شعر پڑھا۔ ترجمہ: ‘‘میں نے کہا یہ آفتاب ہے یا کلیسا کا چراغ ہے۔ جو پردے کے پیچھے سے تجھے نظر آ گیا یا تو خواب دیکھ رہا ہے۔’’

اس کی زبان سے یہ شعر سن کر وہ حسینہ جو برق الافق ہی تھی، بے حد برافروختہ ہوئی اور بولی: ‘‘میں کیا ایسی ہی گئی گزری ہوں کہ ایک کالا کلوٹا حبشی میری تعریف میں شعر پڑھتا ہے’’۔ اسے برہم دیکھ کر ہم صحبت بھی ابن مسجح کو گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ انھوں نے بہزار وقت منت و خوشامد کر کے برق الافق کو گانے پر راضی کیا۔ اس نے ایک چیز گائی، ابن مسجح سے نہ رہا گیا، بے ساختہ بول اٹھا: ‘‘واہ! کیا خوب گاتی ہے؟’’ اب تو اس حسینہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کا مالگ بگڑ کر بولا: ‘‘میری ایسی زہرہ جمال حسینہ بے مثال کی تعریف اور ایک حبشی کا منہ’’۔

اب اس قریشی نوجوان نے جو ابن مسجح کو اپنے ساتھ وہاں لایا تھا، نادم ہو کر اپنے گستاخ مہمان سے کہا: ‘‘مناسب ہے کہ آپ یہاں سے میرے گھر تشریف لے جائیں۔ میں تھوڑی دیر بعد آ جاؤں گا۔ یہاں آپ کا ٹھہرنا لوگوں کو گراں ہے۔’’ ابن مسجح یہ سنتے ہی جانے کے لیے اٹھا۔ مگر لوگوں نے کہا: ‘‘یہ آداب ِ محفل کے خلاف ہے کہ ہم انھیں یوں یہاں سے نکال دیں۔ آپ شوق سے یہاں تشریف رکھیے۔ مگر ذرا لحاظ رہے کہ ادب اور تمیز داری سے بیٹھیے۔ جب لوگ آپ کی تعریف نہیں چاہتے تو آپ کو خواہ مخواہ تعریف کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے؟’’ ابن مسجح نے کہا: ‘‘بہت خوب اب خاموش ہی رہوں گا’’ اور بیٹھ گیا۔

اب برق الافق نے ایک اور چیز گائی۔ اسے سن کر ابن مسجح بھڑک کر بولا: ‘‘مال زادی! تو غلط گا رہی ہے، ذرا اس طرح گا ...’’ یہ کہہ کر اس چیز کو خود گایا۔ لوگوں پر وجد سا طاری ہو گیا۔ برق الافق گھبرا کر چوکی سے اتر پڑی اور بولی: ‘‘خدا کی قسم! یہ ابو عثمان سعید بن مسجح ہیں’’۔ سب حاضرین میں کھلبلی سی مچ گئی۔ انھوں نے کہا: ‘‘ہاں! میں وہی ہوں۔’’ اب کیا تھا، لوگ ان کے آگے بچھ بچھ جانے لگے۔ مگر وہ یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ اب میں تمھارے پاس نہ ٹھہروں گا۔ سب نے خوشامد درامد کر کے انھیں منانا شروع کیا۔ ہر ایک کی تمنا تھی انھیں اپنا مہمان بنائے۔ لیکن انھوں نے اپنے میزبان کی طرف اشارہ کر کے کہا: مہمان تو میں ان کا ہو چکا، مگر اب یہاں نہ ٹھہروں گا۔

سب نے پوچھا: یہ تو بتائیے کہ آپ کا یہاں آنا کیونکر ہوا۔ اس پر انھوں نے اپنی ساری سرگذشت بیان کی جسے سن کر ان کا میزبان بولا: مجھے رات کو امیر المومنین کی خدمت میں حاضری دینی ہے۔ میں انھیں خوش مزاج پاؤں گا تو آپ کو ان سے ملا دوں گا۔ لیکن یہ تو بتائیے کہ آپ کو کیا حدی کی چیزیں یاد ہیں؟ حدی اہل عرب کا برہا ہے۔ جس کا ہمارے یہاں کے ادنیٰ امیروں میں رواج ہے۔ ابن مسجح نے کہا : اگرچہ میں نے کبھی حدی خوانی نہیں کی مگر امید ہے کہ گا لوں گا۔ اس پر میزبان بولا: تو سنیے! میرا مکان امیر المومنین کے مقابل ہے۔ آپ وہاں ٹھہر جائیے۔ جس وقت میں آپ کو امیر المومنین کے شگفتہ اور بشاش ہونے کی اطلاع کروں گا آپ مکان کی کھڑکی میں آ کر حدی کی کوئی چیز گانے لگ جائیے۔

اس قرار داد کے بعد وہ شخص انھیں اپنے گھر چھوڑ کر خلیفہ سے ملنے چلا گیا اور عبدالملک کو خوش اور شگفتہ دیکھ کر ابن مسجح کو خبر کر دی۔ انھوں نے فوراً ہی مکان کی کھڑکی میں بیٹھ کر حدی کی ایک چیز گانی شروع کر دی۔ اس نغمہ کی آواز جب خلیفہ کے کانوں میں پہنچی تو اس نے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ اس نے کہا کہ ایک حجازی شخص میرے یہاں مہمان ہوا ہے۔ وہی گا رہا ہے۔ خلیفہ نے کہا: اسے میرے پاس لایا جائے۔ چوبدار فوراً جا کر ابن مسجح کو خلیفہ کے سامنے لے آئے۔ وہ خلیفہ کے سامنے آداب بجا لائے۔ اس نے کہا: حدی کی کوئی اچھی چیز گاؤ۔ ابن مسجح نے اسے گا کر سنایا۔ خلیفہ نے پوچھا: تمھیں وہ گیت بھی یاد ہے جو قافلے کے چلتے وقت گائے جاتے ہیں؟ ابن مسجح نے کہا: جی ہاں۔ پھر خلیفہ کے کہنے پر انھوں نے دو چار چیزیں گائیں تو خلیفہ پر مستی و بے خودی سی طاری ہو گئی۔ بولا: مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تو کوئی بڑا مشہور و معروف استاد فن ہے۔ یہ نغمے جو تو نے گائے ہیں بالکل غیر معمولی ہیں۔ بتا تو کون ہے؟ اب ابن مسجح نے موقع دیکھ کر راز کھولا اور بولا: امیر المومنین میں وہ مظلوم اور ستم رسیدہ ہوں جس کا گھر بار ضبط ہوا اور زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے لیے وطن سے نکال دیا گیا ہوں۔ میرا نام سعید بن مسجح ہے۔ میں مکہ کا ایک غریب الوطن مغنی ہوں۔ عبد الملک مسکرایا اور بولا: بس ثابت ہو گیا کہ لوگ جو تمھارے اوپر اپنی دولت لٹاتے پھرتے ہیں، ایسا کرنے پر مجبور و بے بس ہیں۔ اس کے بعد اسے انعام و اکرام سے سرفراز کر کے اس کا قصور معاف کیا اور عامل حجاز کو لکھا کہ ابن مسجح کا مال و اسباب سب واپس کر دیا جائے اور آئندہ کوئی تعرض نہ کیا جائے۔

ابن مسجح کی تاریخ وفات نامعلوم ہے۔ لیکن یہ صاف واضح ہے کہ عبد اللہ بن زبیرؓ کے عہد خلافت میں اس کا نشو و نما شروع ہوا اور عبد الملک بن مروان کے زمانے میں وہ شہرت کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا ہوا تھا۔

٭٭٭