دیار غیر میں شوہر کو بیوی کا خط

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : جولائی 2010

 

ملا جب سے خط پیارے کہ چھٹی آ رہے ہو تم
میرے خوابوں پہ صبح و شام یکسر چھا رہے ہو تم
 
جب آؤ گے وہ دن میرے لئے دن عید کا ہو گا
عجب منظر میرے دلبر تیری دید کا ہو گا
 
بہت وزنی سے دو اک بیگ پیارے ہاتھ میں ہوں گے
اٹیچی کیس دس بارہ یقینا ساتھ میں ہوں گے
 
کلر ٹی وی تو ڈبے ہی سے میں پہچان جاؤں گی
فرج بھی ساتھ لائے تو میں تم کو مان جاؤں گی
 
میں ائرپورٹ پر آؤں گی اپنی جان کو لینے
سوزوکی وین بھی لاؤں گی سب سامان کو لینے
 
تمھارا ٹھاٹ دیکھوں گی تو یہ دل مسکرائے گا
کھلیں گے بکس جب گھر میں تو یہ دل گنگنائے گا
 
بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے
جاپانی ساڑھیاں میرے لیے کیا خوب لایا ہے
 
مجھے تو کچھ نہیں لینا مگر یہ دنیا بھی رکھنی ہے
پوزیشن کچھ تو اپنی اس موئی دنیا میں رکھنی ہے
 
مجھے کچھ چاہیے کپڑا یہی کرتے بنانے کو
کوئی چالیس گز کے ٹی دینے اور دلانے کو
 
دو درجن جانگیے، رومال اور بنیان کافی ہیں
دوپٹوں کے فقط اس مرتبہ دو تھان کافی ہیں
 
وہاں سے لکس صابن بھی کوئی دس بیس لے آنا
گرم سوٹوں کے کپڑے کے یہی چھ پیس لے آنا
 
میرے بھیا کی راڈو واچ اب کے بھول نہ جانا
میری تو خیر ہے، باجی کی ساڑھی ساتھ ہی لانا
 
یہ کیا لکھا ہے کہ اب کے مستقلًا آ رہے ہو تم
امیدیں پیارے مستقبل کی کیوں ٹھکرا رہے ہو تم
 
ابھی تو ہم کو رہنے کے لیے بنگلہ بھی لینا ہے
ایک ہونڈا کار اور جانے ابھی کیا کیا لینا ہے
 
میرے دلبر میری باتوں پہ تھوڑا غور کر لینا
بس ایگریمنٹ تم دو سال کا اک اور کر لینا
 
بسایا ہے سدا میں نے تمھیں اپنے خیالوں میں
دعا یہ ہے، رہو تم کھیلتے ہر دم ‘‘ریالوں’’ میں
 
خدا حافظ میرے جانی جواب اب جلد لکھ دینا
کب آئیں گی میری چیزیں جناب اب جلد لکھ دینا
٭٭٭