دیکھ لیا

مصنف : اطہر عزیز

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : جولائی 2010

 

بہترین عروج والوں کا بدترین زوال دیکھ لیا
کچھ تو احساس ہو زیاں کارو! جو نہ ہونا تھا حال دیکھ لیا
 
کون سی خوبیاں نہ تھیں ہم میں، یاد کیجیے وہ عظمتِ رفتہ
کون سی خامیاں نہیں ہم میں، یہ بھی ہونا تھا حال دیکھ لیا
 
خواہش نفس کے دباؤ میں جو نہ کرنا تھا وہ ہی کرتے رہے
ہر خطا و گناہ سے آلودہ زندگی کا مآل دیکھ لیا
 
چھوڑ کر ایک در کئی در پر جبہ سائی سے کیا ہوا حاصل
ہیں سوالی سبھی اسی در کے کر کے سب سے سوال دیکھ لیا
 
یوں تو کہنے کو سب ہی کہتے ہیں کچھ عمل کے مظاہرے بھی ہوں
کام ہوتا ہوا نظر آئے منظرِ قیل و قال دیکھ لیا
 
جب بھی احساس جاگ جائے گا جو بھی کھویا ہے اس کا دکھ ہو گا
دکھ سے ابھرے گا جذبۂ تعمیر بے حسی کا وبال دیکھ لیا
 
وحدہ لاشریک سے ہٹ کر ان گنت معبود پوج لیے
جو نہ خود اپنے کام آ سکتے یہ تھا ان کا کمال دیکھ لیا
 
بغض و نفرت، حسد، پشیمانی، خونِ انسان کی یہ ارزانی
دوستی کی طرف بھی آ دیکھ کر کے جنگ و جدال دیکھ لیا
 
دبدبہ، جوش، قوت و حشمت سب ہمیں پر تمام ہوتے ہیں
ملک آدھا گنوا کے بیٹھے ہیں یہ ہے جاہ و جلال دیکھ لیا
 
یوں نہیں یوں کی رٹ لگاتے رہے ہوتا وہ ہی رہا جو وہ چاہے
ڈھاک کے تین پات ہی نکلے ہم نے ہو کے نڈھال دیکھ لیا
 
ہر برائی کو خوشنما کر کے پیش کرنا ہے کارِ ابلیسی
میڈیا کے عمل پہ غور کریں، کیا ہے حسن و جمال دیکھ لیا
 
ہے معیشت جو ریڑھ کی ہڈی جس سے قائم ہے جسدِ قوم و وطن
کیوں جھکی جا رہی ہے سجدے میں یہ ہے سودی وبال دیکھ لیا
 
اب بھی بدلے نہیں تو کیا ہو گا کیسا ہو گا ہمارا مستقبل
بے حیا، بے ایمان، لاپروا، یہ ہیں کچھ خد و خال دیکھ لیا
 
ایک اچھے معاشرے کے لیے صرف عدالت کو ٹھیک کر لیجیے
شعبہ ہائے حیات میں اکثر کر کے اصلاح حال دیکھ لیا
 
دیکھنا ہو تو دیکھیے اطہر خامیاں خود میں خوبی اوروں میں
پھر یہ کیجیے سوال بھی خود سے، کہیے کیا ہے خیال دیکھ لیا