عالمی بدامنی کا ایک اہم سبب

مصنف : میاں محمد اشرف (بانی و چیئرمین فروغ علم اکیڈمی)

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جون 2010

آمریت / ڈکٹیٹر شپ کی حقیقت

            آمریت/ڈکٹیٹر شپ (Dictatorship) اس حکومت کو کہتے ہیں جو محکوموں کی مرضی کے بغیر ان پر مسلط ہوتی ہے۔ ایسی حکومتیں یا تو فوجی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہوتی ہیں یا پھر سیاسی جوڑ توڑ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ایسی حکومتوں کے قیام کے بعد سیاسی و جمہوری عمل معطل ہو جاتا ہے۔ اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ انتخابات ملتوی ہو جاتے ہیں اور سیاسی جماعتیں معطل ہو جاتی ہیں۔

            آمرانہ حکومتوں کا قیام زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں عمل میں آتا ہے۔ چین، شمالی کوریا، کیوبا، ہیٹی، سوڈان، زائر، شام اور عراق کی حکومتیں اس کی مثال ہیں یا تھیں۔ بعض لوگوں کا تصور ہے کہ یہ عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن یہ بات ہر حکومت پر صادق نہیں آتی۔ شمالی کوریا کے 1984 KIm II Sung ء سے 1994ء تک یعنی 46 سال تک برسراقتدار رہے۔ عراق کے صدام حسین، کیوبا کے صدر فیڈرل کاسترو 1959ء سے برسراقتدار رہے۔ چین کے صدر ماؤزے تنگ 1949ء سے 1976ء تک، اقتدار پر فائز رہے۔ اس طرح بیسویں صدی میں 20 سے زائد ڈکٹیٹر 25 سال یا اس سے بھی زائد عرصہ برسراقتدار رہے۔ ڈکٹیٹروں کی لسٹ میں ماضی قریب میں جو لوگ شامل تھے یا اب بھی ہیں ان میں برازیل کے Ernesto Geisel (1979-1974) چائیل کے آگسٹوپینوچٹ Augsto Pinchet 1989-1973، ڈومینگا کے Rafeal Trujillo (1938-1930)، (1989-1979)، ہیٹی کے Papa Doc Duvalier (1971-1957)، پیرا گوئے کےAlfredo Stroessner، زائر کے Sese Seko Mogeto (1997-1965)یوگنڈا کے عیدی امین (1979-1965)، وسطی افریقہ کے Jeam bedel Bokassa (1979-1965) وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔

            آخر الذکر ڈکٹیٹر نے اپنے مخالفین کے قتل میں حصہ لیا، Cannigalism کی رسم میں ملوث رہا۔ اس رسم کے تحت لوگ مخصوص وقت پر مخصوص مقام پر جمع ہوتے اور خور و نوش کے بعد مرد عورتیں اپنی حسب پسند شب بسر کرتے۔ اس نے 1977ء میں خود کو شہنشاہ کا لقب بھی دیا۔

ڈکٹیٹروں کے مسلط ہونے کا طریقہ

            ڈکٹیٹر عموماً فوج کے بل بوتے پر مسلط ہوتے ہیں۔ وہ یا تو خود فوجی ہوتے ہیں یا فوج کی پشت پناہی سے اقتدار پر قابض ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وہ کسی سول حکومت کو آگے لاتے اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ فلپائن اور تھائی لینڈ حکومت کو لانے اورہٹانے میں فوج نے واضح کردار ادا کیا۔ ارجنٹینا میں جون پیرو Juan peron (1955-1943) کی قومی اور اکثریتی حکومت کو برسراقتدار لانے میں فوج نے راستہ ہموار کیا۔ زائر میں Sese Soko Moguto (1997-1965,1960) کو فوجی بغاوت کے ذریعے مجبور کیا گیا کہ وہ اقتدار سیاست دانوں کو منتقل کرے۔ دوسری مرتبہ فوجی بغاوت کے نتیجے میں وہ دوبارہ صدر مقرر ہوا۔ انڈونیشیا میں فوج نے سوہارتو کو ملک کا سربراہ بنایا اور اس کی مکمل حمایت کی (1998-1967) ۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی نے مخالفین کو دبانے کے لیے (1963ء) اور پھر (1979-1977) فوج کو استعمال استعمال کیا۔

            اگرچہ فوج کا عموماً دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ قومی مفاد کے پیش نظر ایسا کرتی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ 1966 میں نائیجریا میں فوجی باغیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ قبائلی عصبیت کا خاتمہ چاہتے ہیں جبکہ حقیقتاً یہ فوجی بغاوت ابوز ‘Ibos’ کے ہاتھوں میں تھی جو بعد میں خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔ یوگنڈا میں عیدی امین (1979-1971) نے قبائلی عصبیت کو ہوا دی تاکہ وہ اقتدار پر قابض رہ سکے۔ شام میں حافظ الاسد نے فوج میں اختلاف کی وجہ سے اپنے قبیلے کی حمایت کا سہارا لیا۔

جمہوری آمریت

            شخصی آمریت کے برعکس جمہوری آمریت بھی موجود ہے۔ اس قسم کی حکومت کسی ایک طاقتور سیاسی پارٹی کے قبضہ میں ہوتی ہے جو معاشرے کے طاقتور افراد اور گرہوں کو اپنے اندر ضم کرتی ہے اور پھر ملک کی افسر شاہی پر غالب آتی ہے اور بلا شرکت غیر حکومت کرتی ہے۔ اشتراکی ممالک میں اسی قسم کی آمرانہ حکومتیں قائم ہیں جن میں کسی دوسری پارٹی کو دم مارنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ حکومتیں بیوروکریسی میں اپنے افراد شامل کرتی ہیں اور ان کے ذریعہ ملکی نظام پر قبضہ کرتی ہیں۔ عدلیہ کے جج، پولیس او رفوج کے سربراہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ہوتے ہیں۔

            اشتراکی حکومتوں کے علاوہ عام ملکی حکومتیں بھی ایک پارٹی کے قبضے میں ہو سکتی ہیں۔ گھانا کے Kwame Nkrumah (1966-1960) کی حکومت، تیونس کے حبیب بورقیبہ (1981-1963)، تنزانیہ کے جیولس نائریرے Julius Nyerere (1965-1962) اور کینیا کے ڈینیل موئی Manie Moi (1978) کی حکومتیں اس کی مثال ہیں۔

            ملکوں میں ہونے والی بغاوتیں آمرانہ حکومتوں کو مزید مستحکم کر دیتی ہیں۔ فلپائن میں جب 1972 ء میں ہنگامی حالت پیدا ہوئی تو وہاں کے ڈکٹیٹر فرنینڈس مارکوس (1986- 1965) نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ جن ملکوں میں بغاوتیں ہوئیں ان کے ناکام ہونے پر وہاں کی حکومتوں نے سیاسی جماعتوں اور دیگر مخالفین پر پابندی عائد کر کے آمرانہ حیثیت حاصل کر لی۔

عوامل جو آمرانہ حکومتوں کا راستہ ہموار کرتے ہیں

            جس پس منظر میں آمرانہ حکومتیں قائم ہوتی ہیں وہ متعدد حالات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک جہاں غربت، جہالت اور سیاسی ناتجربہ کاری ہے آمریت کے لیے بہت سازگارہیں۔ ان عوام میں سیاسی نا تجربہ کاری او رعدم استحکام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ موریطانیہ، بوٹسوانا اور ہندوستان کی مثال سے واضح ہوتا ہے کہ ان ممالک کو آزادی سے پہلے سیاسی تجربہ حاصل تھا اور ان کے معاشی حالت مستحکم تھی۔ لہٰذا وہاں آمرانہ حکومت کے لیے فضا سازگار نہیں تھی لیکن جہاں یہ صورت حال نہیں تھی وہاں آمریت کے پنپنے کا ہر موقع موجود تھا۔

            مقبوضہ ممالک کی آزادی سے پہلے ان کو پارلیمانی نظام حکومت کا تجربہ نہیں تھا۔ سیاسی جماعتوں کا وجود، انتخابی عمل، پارلیمنٹ کا قیام، جمہوری ادارے سب کچھ ناپید تھے۔ یہی وجہ ہے کہ افریقی براعظم کی اکثر ریاستیں ایک ہی انتخابی مرحلے کے بعد شخصی اور پارٹی آمریت کی نذر ہو گئیں۔ تنزانیہ میں اقتصادی ترقی کے لیے ضروری سمجھا گیا کہ یک جماعتی حکومت ہو ۔ کینیا میں کہا گیا کہ عوام ابھی جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ جنوبی امریکا میں عدم جمہوریت کی وجہ سے آمرانہ حکومتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ 1974-1964 ء کے درمیان برازیل، یوراگوئے اور ارجن ٹینا میں فوجی انقلابات نے شہری حکومتوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ اس غیر جمہوری عمل میں ملکوں کا سرمایہ دار طبقہ، جاگیردار طبقہ اور صنعت کار طبقہ پیش پیش تھا۔

            آمرانہ حکومتوں میں چونکہ جمہوری عمل معطل ہوتا ہے لہٰذا وہاں حکومتوں کی تبدیلی اکثر انقلابات کے ذریعہ آتی ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ کیوبا میں فیڈرل کاسترو نے سابقہ حکمران فل جینسیو بتستا (Fulgencio Batista) کی حکومت کا تختہ الٹا اور ایران میں رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹا گیا۔

            آمریت کے قیام میں ملکی عوام کی نااتفاقی اور غربت بھی اہم عناصر ہیں۔ جہاں تک عوام میں نااتفاقی اور باہمی اختلافات کا تعلق ہے تو اس میں نسلی عصبیت اور مذہبی عصبیت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ سامراجی طاقتوں نے اپنے مقبوضہ ممالک سے رخصت ہوتے وقت ملکی سرحدوں کا جس طرح تعین کیا اس سے مقامی آبادیاں شدیدمتاثر ہوئیں۔ ایک ملک کے ہم خیال، ہم ثقافت اور ہم مذہب گروہ منتشر ہو کر دوسرے ملک میں شامل ہو گئے اور ان کے انتشار اور اختلاف سے ایسی کھچڑی پکی کہ سیاسی و سماجی اور تہذیبی و ثقافتی نظام کا شیرازہ بکھر گیا۔ عوام میں باہمی دوری اور اجنبیت نے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کی صورت اختیار کر لی جس سے آمریت کا راستہ ہموار ہوا۔ جن ممالک میں نسلی اور مذہبی منافرت نے ہلچل مچا دی ان میں اینگولا، بینن، کیمرون، چاڈ، ایووری کوسٹ، انڈونیشیا، کینیا، سیر الیون، تنزانیہ، فلپائن، یوگنڈا اور زائر وغیرہ شامل ہیں۔

            Encyclopedia of Developing World لکھتا ہے کہ نااتفاقی سے فوج میں دھڑے بندی ہوتی ہے اور غریب نوجوان کو تھوڑی تنخواہ پر لڑنے کے لیے مجبور کرتی ہے یہی عوامل تھے جن کی وجہ سے سے 1960ء اور 1980ء کے درمیان لاطینی امریکا کا 3/4 حصہ، ایشیا کا نصف حصہ اور افریقہ کا نصف سے زائد حصہ انقلابات کی زد میں رہا۔ ترقی پذیر ممالک میں 1980ء کی دہائی میں فی سال کم از کم ایک انقلاب آیا یا انقلاب لانے کی کوشش کی گئی۔ 1990ء کی دہائی کے پہلے نصف حصہ میں جن ملکوں میں انقلابات آئے یا لانے کی کوشش کی گئی ان میں چاڈ، ٹوگو، پیرو، سیرالیون، ہیٹی، گوئٹے مالا نائیجیریا اور گیمبیا شامل ہیں۔

            عوام میں جو گروہ باہمی بداعتمادی کا شکار ہوتے ہیں، وہ فوج کو اپنا تعاون پیش کرتے ہیں جس سے فوج کو عوامی حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہ انقلاب برپا کرتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں یہ صورت حال اکثر دیکھنے میں آتی ہے۔

            پاکستان بھی چونکہ ایک ترقی پذیر ملک ہے، لہٰذا اس میں بار بار آمرانہ حکومتوں کے قیام کی تفصیل بھی وہی ہے جو دیگر ترقی پذیر ممالک کی ہے۔ ان کی آمد سے ملک کا دستور بار بار معطل ہوتا رہا، اسمبلیاں معطل ہوتی رہیں، انتخابی عمل رکتا رہا، عوام شراکت اقتدار سے محروم ہوتے رہے اور سیاسی نظام انتشار کا شکار ہوتا رہا۔ یہ وہ صورتحال ہے جس نے ملک کی اقتصادی، معاشرتی اور اخلاقی نظام کی جڑیں ہلا دیں اور ملک کو زوال کے عمیق غار میں دھکیل دیا۔

٭٭٭