سفر آرزو

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : مارچ 2010

 قسط -۷

آثار و زیارتیں

            مدینہ منورہ بلاشبہ ایک ترقی یافتہ اورجدید شہر ہے اس میں جدید زندگی کی ہر سہولت موجود ہے،لیکن یہاں آنے والے زائرین کے لیے ،اس جدید شہر کے اندر کوئی کشش نہیں ہوتی ،بلکہ اُن کے دِل و دماغ میں،قدیم اور تاریخی شہر مدینہ کی یاد سمائی ہوتی ہے اور وہ پیارے رسول ﷺ کے شہرکی تلاش میں سر گرداں ہو تا ہے۔وہ مدینہ جو میرے آقامدنی کریم ﷺ کا مدینہ تھا۔وہ کچی کچی گلیاں اور کجھور کی شاخوں والی چھتیں اور گارے مٹی کے بنے وہ مکا نات جو کبھی صحابہ کرام کا مسکن تھے ،وہ شہر محبوب اور وہ گلیاں جن کے اندر فخر کائنات چلا پھرا کرتے تھے ہم تو ان کے متلاشی ہوتے ہیں۔مدینہ طیبہ آنے والے ہر زائر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اُن مقامات کو دیکھ سکے جس کی نسبت پیارے آقا ﷺ سے بیان کی جاتی ہے۔وہ ہر اُس جگہ پر اپنی پلکیں بچھائے ،جہاں مدنی کریم کے قدم مبارک پڑے تھے۔ہم وہی مقام ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے سامنے جدید مدینہ ہوتا ہے۔ ہمارے جسم جدید مدینہ میں پھر رہے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ذہنوں میں پیارے رسول اللہ ﷺ کا شہر ہوتا ہے۔

مسجد نبوی:

            اپنے اس سفر میں ہم نے بھی کوشش کی کہ مدینہ طیبہ کی ان مشہور مشہورجگہوں کی سیر کر سکیں جن کا تذکرہ سیرت مطہرہ کی کتابوں میں پڑھتے رہتے ہیں۔ ان آثار وزیارات میں سب سے بڑا اور اہم اثر تو خود مسجد نبوی ہے۔موجودہ مسجد نبوی اتنی وسیع وعریض ہے اور اتنی شاندار اوراتنی پروقارتعمیری حسن کی مالک ہے کہ محض اس کا بیان ہی کئی صفحوں کا متقاضی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنے کم وقت کے لیے ہم وہاں گئے تھے ،پوری طرح اس مسجد کو ہی دیکھ نہیں پائے۔اس کی موجودہ عظیم الشان تعمیر سعودی فرمانروا،شاہ فہد بن عبدالعزیز کا کارنامہ ہے۔اس مقدس مسجد کو سب سے پہلے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس تعمیر فرمایا تھا۔یہ کیا کم سعادت ہے کہ ہم اُس مسجد کی زیارت کر رہے ہوتے ہیں جن کی بنیادوں میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا پسینہ مبارک شامل تھا۔ روایات کے مطابق ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اور سیدنا ابو ایوب ا نصاری کے گھر کو اپنی قیام گاہ ہونے کاشرف بخش چکے توجو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ اُس گھر کے سامنے والے پلاٹ کے بارے میں استفسار فرما یا کہ یہ کس کا پلاٹ ہے ہم یہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی،کہ‘‘ یہ پلاٹ دو یتیم نوجوانوں سہل اور سہیل کا ہے جو ہمارے ہی زیر کفالت ہیں،آپ کو اگر یہ اس نیک کام کے لیے پسند ہے تو ہم ان کو کہہ دیں گے اور وہ دے دیں گے۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،ہماری بات کروائیں ،ان سے ،ہم یہ زمین خریدیں گے مفت نہیں لیں گے۔’’سیدنا ابو ایوب انصاری ،دیگر انصار صحابہ کرام اور خود اُن دو نوجوانوں پورا زور لگایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مفت میں ہی یہ زمین برائے مسجد قبول فرما لیں لیکن میرے آقا علیہ الصلوٰۃو السلام نے یہ آ فر قبول نہ کی اور آخرکار ُان لوگوں کو قیمت لینی پڑی۔ آپ کی یہ احتیاط اور زمین خرید کر مسجد بنانے پر اصرار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مسجدیں قانونی طور پر حا صل شدہ زمینوں پرہی بنانی چاہیں اور اگر آپ اس وقت تحفہ قبول بھی کر لیتے تو کل کو دشمنان ِ دین یہ غلط پروپیگنڈہ بھی کر سکتے تھے کہ دیکھو یہ رسول لوگوں سے زمینیں چھین کر اپنے عبادت خانے تعمیر کر رہا ہے۔آپ ﷺ کی اس احتیاط نے قیامت تک کے لیے مخالفین کے منہ بند کر دیے۔زمین خرید لینے کے بعد ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو ہموار کروایا اور اُس پر مسجد تعمیر کرنے کا اعلان فرما دیا۔مسجد کی لمبائی اور چوڑائی کتنی ہو،چھت کیسی ہوگی ،میٹیریل کو نسا ہوگا ،وغیرہ وغیرہ ،سب کچھ، حضور اکرم ﷺ نے خود طے فرمایا۔تعمیر شروع ہو گئی ،میرے مدنی کریم آقا نے خود ،بنفس نفیس،تعمیر میں ہاتھ بٹانا شروع کیا۔صحابہ کرام منع کرتے رہ گئے لیکن آپ نے سب کے ساتھ مل کر مٹی بھی اُٹھائی،گارا بھی اُ ٹھایا،اینٹیں بھی لگائیں اور دوسرے سارے کام کیئے جو تعمیرات میں کرنے ہوتے ہیں۔آپ کا یہ عمل ،مساوات کاایسا درس ہے جو کسی دوسرے مذہب کے بانیان اور سربراہوں کے ہاں آپ کونہیں ملے گا۔ اینٹ گارے کی اس مسجد پر کھجور کی شاخوں اور پتوں کی چھت ڈالی گئی اور کنکریوں کا فرش بچھایا گیا۔اس کا قبلہ شام کی طرف یعنی بیت المقدس کی طرف مقرر کیا گیا بخاری کی روایت کے مطابق سید نا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ تعمیر کے دوران میں ،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر یہ شعر پڑھتے تھے

 اللھم ان الاجر اجر الاخرۃ فاغفر الانصار و المھاجرۃ

 ‘‘اے اللہ !بے شک آخرت کا فائدہ ہی اصل فائدہ ہے۔اے اللہ ! انصار اور مہاجرین کو معاف فرما دے۔’’مسجد مکمل ہوگئی،آپ ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا موذن مقرر فرمایا اور نماز با جماعت کا اہتمام شروع ہو گیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مسجد،عبادت گاہ بھی تھی ،اجتماع گاہ بھی تھی،سیاسی مرکز بھی تھا ،اسلامی ریاست کا سیکر ٹریٹ بھی تھا ،مشورہ گاہ بھی تھی اور حتیٰ کہ بیرون سے آنے والے مہمانوں کے لیے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤ س بھی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں مسجد کو مرکزی حیثیت حا صل ہوتی ہے۔غزوہ خیبر سے واپسی پر ،سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں تو سیع کا حکم دیاکیونکہ اسلام پھیل رہا تھا اور مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی۔آپ نے چوڑائی میں چالیس ہاتھ اور لمبائی میں تیس ہاتھ اضا فہ فرمایا۔اس طرح مسجد مربع شکل اختیار کر گئی ۔بعد میں ،ضرورت کے مطابق ،مسجد میں توسیع ہوتی رہی حتیٰ کہ موجودہ شکل بنی۔اب مسجد نبوی اتنی وسیع ہو چکی ہے کہ کہتے ہیں حضور ﷺ کے زمانہ پاک کا سارا مدینہ شہر اس کے اندر آ چکا ہے۔یہ ساری توسیعات،شمال میں اور مغرب اور مشرق میں ہوتی رہیں،جنوبی سمت جدھر کو قبلہ ہے،ادھر توسیع نہیں ہوئیں۔لطف کی بات یہ ہے ہر بعد کی توسیع میں پہلے والی حدود کی کسی نہ کسی نشانی کو برقرار رکھا گیا جس سے آج بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کب کب ،کس کس طرف مسجد کو وسیع کیا گیا۔ان توسیعات و تعمیرات میں ہر ایک نے یہ کوشش کی کہ مسجد پہلے سے زیادہ وسیع اور خو بصورت ہو جائے۔ہر دفعہ جب بھی تعمیر و توسیع ہوئی ،مسجد کے ساتھ لا زوال عقیدت و محبت کے مظاہر کی ایک عظیم الشان تاریخ رقم کی گئی۔خاص طور پر عثمانی ترکوں نے تیرہویں صدی ہجری میں جو توسیع کروائی اس کی تفصیل حد درجہ ایمان افروز ہے اورمسجد نبوی کی موجودہ شکل جس کی زیارت سے آجکل ہم مشرف ہوتے ہیں ،جن حیرت انگیز مراحل سے گزری اور جس جس طریقے سے اس کے نقشے بنے ،جہاں جہاں سے میٹیریل فراہم ہوا اور جس لگن اور محبت سے ایک عام مزدور سے لے کر ،کاریگروں ،انجینیروں اور نگرانی والے عملے نے کام کیا ،وہ ایک لا زوال اور سرور انگیز کہانی ہے۔عشق رسالت کے بھر پور جذبات کا اظہار ہے۔حکومت وقت نے دِل کھول کر روپیہ لٹایا ہے۔

جنوب مشرقی کونہ:

             آپ جب مدینہ طیبہ میں ہوتے ہیں تو آپ زیا دہ وقت مسجد نبوی کے جنوب مشرقی کونے کی طرف آنے جانے میں صرف کرتے ہیں،کیونکہ اسی کونے میں روضہ انور موجود ہے اور اسی کونے میں ریاض الجنۃ ہے۔اسی کونے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے کی مسجد نبوی کے آ ثار ہیں۔آئیے آپ کو اِدھر کی سیر کرواتے ہیں۔

 سرور عالم ﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد، جسمِ اطہر کی تدفین کی جگہ کے بارے میں جب سوال اٹھا تو جناب سیدناصدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ‘‘ چونکہ آپ کا ارشاد مبارک ہے کہ انبیاکرام کی مقدس ا رواح جس جگہ قفسِ عنصری سے پرواز کرتی ہیں وہی جگہ ُان کا مقامِ تدفین ہوتاہے۔ لہٰذا آپ ؐکے جسمِ اطہر کو حجرہ عائشہؓ میں دفن کیا جائے گا۔’’ تمام صحابہ کرام نے اس بات پر اتفاق کیا اور راحت قلب و جاں،فخر کل جہاں سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ انور اسی جگہ پر ہے ۔یہ حجرہ سیدہ عائشہ تھا۔اُس وقت یہ حجرہ مبارک مسجدِ نبوی سے،باہراورمشرق کی جانب متصل تھا اور ایک صدی تک مسجد کے باہر ہی رہا، اگرچہ اس دوران میں کئی حکمرانوں نے مسجد کی توسیع بھی کی۔ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب مسجد کی توسیع کی تو حجرہ مبارک کو پہلی بار مسجدنبوی کی چھت کے اندر لے لیا گیا۔ اس دن سے لے کر آج تک یہ مرقد ِانوار مسجد ِنبوی کے مین ہال کے اندر جنوب مشرقی کونہ پر ہے۔مسجد پاک سے مشرق کی سمت سے،آپ باب جبرائیل سے اندر داخل ہوں تودائیں ہاتھ پر تقریباً دس بارہ فٹ جگہ چھوڑ کر روضہ اقدس کا کمرہ ہے۔ رو ضہ اقدس کی عمارت جس پرسبزگنبد فرحت ِ محبان ہے ، ستونوں پر قائم ہے۔ ان ستونوں کے درمیانی حصہ میں چاروں طرف لوہے کی جالیاں ہیں جن پر سنہری رنگ کیا گیا ہے۔ اس مستطیل کمر ہ کے شمالی نصف حصہ میں ،بعض مورخین کے مطابق ،سیدہ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا حجرہ مبارک ہے اور جنوبی نصف حصہ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حجرہ مبار ک تھا۔ اسی حجرہ میں سرور دو عالم ﷺمع اپنے دو پیارے اصحاب حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما ، استرا حت فرما رہے ہیں۔

            اس روضہ پاک کا اندرونی منظر کیسا ہے ،مبارک قبروں کی ترتیب کیا ہے اور یہ کہ قبریں کچی ہیں کہ پکی ،غلاف ڈلے ہیں یا نہیں ،کوئی کتبہ لگا ہے یا نہیں،وغیرہ وغیرہ ،ایسے سوالات ہیں کہ جن کے جوابات ہمارے علم میں نہیں ہیں۔اگر آپ باب نسا سے (یہ بھی مشرقی جانب ہے اور باب جبرائیل سے شمال کی طرف ہے۔)اندرداخل ہوں،تو چلتے چلتے، دائیں ہاتھ پر، روضہ مبارک کے با لمقابل، آپ کو ایک پلیٹ فارم سا نظر آئے گا،اسے اصحابِ صفہ کا چبوترہ کہاجاتا ہے ۔یہ تقر یباً ایک فٹ اُ ونچاہے اوراس کی لمبائی چوڑائی کا میں کوئی اندازہ قائم نہیں کر سکا۔یہ وہ جگہ ہیں جہاں پر وہ اصحاب رہتے تھے جو دور دراز سے آ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین سیکھتے تھے۔ بائیں ہاتھ پر روضہ انور ہے ۔ تھوڑا اور آگے آئیں تو ،بائیں ہاتھ پر ہی، روضہ مبارک کے بعد ریاض الجنۃہے۔ ریاض الجنہ کے اندر جنوب مغرب کی طرف حضورﷺ کا مصلیٰ ہے، یعنی جس جگہ کھڑے ہو کر آپ نماز پڑھایا کرتے تھے۔ اس سے مغرب میں تھوڑے فاصلہ پر منبر مبارک ہے۔منبرکے سامنے شمال میں موذن کا چبوتر ہ ہے ۔ اسی جگہ پر حضرت بلالؓ اذان دیاکرتے تھے اور اب بھی موذن اسی چبوترے پر کھڑے ہوکر اذان دیتاہے یہ چبوترہ انسانی قدسے قدرے بلندہے۔اس کی چھت کے نیچے لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔مسجد کی جنوبی دیوار میں امام صاحب کے لیے محراب ہے جہاں کھڑے ہو کر وہ نماز کی امامت کراتے ہیں۔مسجد کی قبلہ والی دیوار(جنوبی دیوار)اور روضہ پاک کی جنوبی دیوار کے درمیان راستہ ہے جہاں سے گزر کر زائرین سلام عقیدت پیش کرتے ہیں اور مشرق کی جانب باب جبرائیل سے گزر کر باہر نکل آتے ہیں۔اس راستہ میں ،جب کوئی زائر جالیوں کی طرف منہ کر کے سلام پیش کر رہا ہوتا ہے تو قبلہ کی طرف اس کی پیٹھ ہوتی ہے اور اگر اسی مقام پر زائر نماز پڑھ رہا ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف اُ س کی کمر ہوگی۔ باب جبرائیل کے سامنے،مسجد پاک کی مغربی دیوار میں جو دروازہ ہے اُسے باب السلام کہتے ہیں۔مسجد پاک کے ہال کا جو مین گیٹ ہے وہ شمال کی سمت میں ہے اور اُس کا نام باب شاہ فہد ہے۔ان کے علاوہ لگ بھگ اسی کے قریب چھوٹے بڑے دروازے ہیں۔مین ہال کے باہر چاروں اطراف میں وسیع و عریض صحن ہے جس کو ایک چار دیواری سے محدود کیا گیا ہے۔اس صحن میں نہایت قیمتی پتھر لگا یا گیا ہے۔اس صحن میں وقفے وقفے سے زیر زمین وضو گاہیں تعمیر کی گئی ہیں اور ان کے ساتھ پارکنگ بھی ہے۔چار دیواری کے باہرکئی منزلہ عمارتیں ہیں جن میں تجارتی مراکز اور رہائشی ہوٹلز اورکئی قسم کے دفاتر کام کر رہے ہیں۔

جنت البقیع:

            یہ مدینہ طیبہ کا قدیمی قبرستان ہے۔مسجد نبوی شریف کے مشرق میں واقع ہے۔اس کے گرد ایک اونچی چار دیواری تعمیر کی گئی ہے جس کے باعث ،کسی آدمی کا بغیر مین گیٹ کے ،اندر جانا نا ممکن ہے اور مین گیٹ صرف مقررہ اوقات میں کھلتا ہے یا جب تدفین کے لیے، کوئی میت لائی جاتی ہے۔ہم جتنے دِن وہاں رہے ،ہر نماز کے بعد کوئی نہ کوئی جنازہ ہوتا تھا اور اکثر دو دو تین تین جنازے ہوتے تھے۔ وہاں پر قبریں پیشگی تیار ہوتی ہیں اور جب بھی کوئی جنازہ آتا ہے،فوراً ہی دفن کر دیا جاتا ہے۔مسجد میں ہی اعلان ہو جاتا ہے اور نماز کے بعد نماز جنازہ ادا کر تے ہیں پھر تیزی سے جنازے کو بقیع کے قبرستان میں لے جاتے ہیں۔جنازہ جس تیزی سے تقریباً بھاگتے ہوئے لے کر جاتے ہیں ،مجھے اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آسکی، نہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل ملی اور نہ عقل نے کوئی بات سجھائی۔کوئی نہ کوئی دلیل تو ہوگی اس تیز رفتاری کے لیے، اُن لوگوں کے پاس،بہرحال ہم ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے،بات ہے بڑی اچھنبے کی!!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،اس قبرستان میں اکثر تشریف لایا کرتے تھے حالانکہ نہ آپ کے ابا جان کی قبر تھی یہاں اور نہ ہی آپ کی امی جان کی اور نہ ہی کسی دوسرے رشتہ دار کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے یہاں مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو یہ پہلے سے ہی اہل مدینہ کا قبرستان تھا ۔سب سے پہلے مہاجرصحابی جو یہاں آکر فوت ہوئے سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ان کی وفات پر جب صحابہ کرام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پو چھا کہ انھیں کہاں دفن کریں ،تو آپ ﷺ نے فرمایا ،اہل یثرب سے اجازت لے کر بقیع کے قبرستان میں دفن کریں۔اُن کی اجازت کے بعد انھیں یہاں دفن کیا گیا۔روایت ہے کہ پیارے رسول ﷺ خود اپنے ساتھی کو لحد میں اتارنے کے لیے قبر میں اترے تھے۔اس صحابی کی قبر کی نشان دہی آج تک، بقیع میں کی جاتی ہے۔کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب بندہ سید نا عثمان بن مظعون کی قبر کے پاس کھڑا ہوگا تو کیا تصور کر رہا ہوگا!!میری آنکھوں کے سامنے سارا منظر آ گیا۔یہیں کہیں میرے آقا کھڑے ہو نگے،آپ اپنے ساتھی کو قبر میں اتار رہے تھے۔کیا قبر میں مشک و کستوری کی خوشبو نہ پھیل گئی ہوگی؟کیا قبر کے اندر کوئی اندھیرا باقی بچا ہوگا!!اور اسی قبر کے پاس ہی ،میرے آقا نے اپنے لخت جگر سیدنا ابراہیم کو بھی اپنے ہاتھوں سے دفن کیا تھا۔کیا عظیم الشان جگہ پر میں تھا۔اسی قبرستان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات کی قبریں ہیں ،سوائے سیدہ خدیجہ طاہرہ جو مکہ میں جنت المعلیٰ میں دفن ہیں اور سیدہ میمونہ ،جو مکہ سے باہر مقام سرف میں مدفون ہیں۔رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ ( جاری ہے )