لاہور جو کبھی تکیوں کا شہر تھا

مصنف : ذیشان ظفر

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : مارچ 2010

            ایک وسیع سے احاطے میں گوندنی، نیم اور برگد کے درختوں کے نیچے بیٹھے محلے کے بزرگ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر گھاس پر بچھی چٹائیوں پر چند لوگ شطرنج اور چوسر وغیرہ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اسی احاطے میں بچے کھیلنے تو لڑکیاں درختوں کے ساتھ جھولے جھولنے اور محلے کی خواتین خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔تھوڑی ادھر کو نظر گئی تو وہاں ایک اکھاڑہ نظر آیا جہاں نوجوان جسمانی ورزش کرنے اور پہلوان کشتی کا فن سیکھ رہے تھے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج جمعرات ہے اس لیے اس وسیع احاطے میں موجود تمام لوگ کچھ زیادہ ہی خوش نظر آ رہے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آج یہاں محفلِ موسیقی ہے جس میں خطے کے نمایاں کلاسیکل فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔

            ان مناظر کے بعد یہ کوئی پارک تو نہیں ہاں ایک کمیونٹی کلب ضرور لگتا ہوگا جہاں محلے کے لوگ اس دوسرے کے ساتھ فارغ اوقات میں گپ شپ اور دوسرے مشغلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اس کا اصل نام تکیہ ہے جو تقریباً دو دہائی پہلے لاہور خاص طور پر قدیم لاہور کے ہر دوسرے محلے میں موجود تھے لیکن اب لوگوں سے ان تکیوں کے بارے میں سن کر محض منظر کشی ہی کی جا سکتی ہے۔

            لاہور کو باغوں کے شہر سے تو یاد کیا جاتا ہے لیکن لاہور کے رہنے والے جانتے ہیں کہ لاہور نہ صرف باغوں کا بلکہ تکیوں کا شہر بھی تھا۔

            لاہور میں تکیوں کی تاریخ کوئی نو سو سال پرانی بیان کی جاتی ہے۔شہر جب چار دیواری کے اندر آباد ہوا کرتا تھا تو سر شام ہی داخلی دورازے بند کر دیے جاتے تھے۔ اس کے بعد دوسرے علاقے سے آنے والے مسافر داخلی دروازوں کے ساتھ بنے وسیع سر سبز احاطے ( تکیہ) جن میں سے زیادہ تر میں کسی بزرگ کا مزار بھی ہوا کرتا تھا وہاں قیام کرتے اور صبح دروازہ کھلنے کے بعد شہر میں داخل ہو اکرتے تھے جبکہ شہر اور ملحقہ علاقوں کے بچے، بزرگ اور نوجوان تکیوں کو فرصت کے لمحات گزارنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔اس کے بعد جب شہر میں وسعت آنے لگی تو مختلف علاقوں میں ایسے ہی درجنوں کی تعداد میں تکیوں کے قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا جہاں بعض روایات کے مطابق برادریوں کے تنازعات طے کرنے کے لیے پنچائتیں بھی لگتی تھیں۔

            ان میں سے ایک تکیہ مراثیاں ہے جو لاہور کی چیمبر لین روڈ پر واقع ہے۔ اس تکیے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ہندوستان اور پاکستان کے تقریباً تمام مشہور گلوکاروں اور موسیقاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔تکیہ مراثیاں کا صحن جو کبھی گھنے درختوں سے بھرا ہوا کرتا تھا اور یہاں کی شامیں کلاسیکل موسیقی کے رسیا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا کرتی تھیں وہاں آج کچھ جگہ پر کنکریٹ کی عمارتیں قائم ہو چکی ہیں اور باقی ماندہ جگہ بھی ویرانے کی تصویر پیش کرتی ہے۔

            اس تکیے کے ایک وارث ماجد علی انصاری نے بتایا کہ تکیہ مراثیاں سنہ اٹھارہ سو ساٹھ سے بہت پہلے قائم ہوا تھا ۔ یہاں محرم کی مجالس کے انعقاد کا لائسنس اٹھارہ سو ساٹھ میں ملا تھا۔‘اس وقت یہ تکیہ پورے ہندوستان میں موسیقی کی یونیورسٹی سمجھا جاتا تھا۔ برصغیر کا کوئی بھی گلوکار اور مختلف ساز بجانے والے جب تک یہاں پرفارم نہیں کرتے تھے اس وقت تک انھیں مکمل شناخت (فن کی سند) نہیں ملتی تھی۔’انھوں نے بتایا کہ اس تکیے میں فتح علی خان، علی بخش خان، غلام علی خان، چھوٹے غلام علی خان اور امراؤ خان جیسے گلوگاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ پٹیالہ گھرانے کے استاد عاشق علی خان نے اپنے آخری فن کا مظاہرہ بھی اسی تکیے میں کیا اور انھیں دفن بھی یہیں کیا گیا۔انھوں نے بتایا کہ اس وقت بھی خطے میں جتنی بھی کلاسیکل موسیقی ہو رہی ہے چاہے وہ گوالیار گھرانہ، پٹیالہ گھرانہ، قصور، دلی گھرانہ ہو، ان سب کے استاد استاد عاشق علی خان تھے۔انھوں نے بتایا کہ شروع میں اس تکیہ میں اکھاڑہ، کنواں وغیرہ ہوا کرتا تھا اور اکثر اوقات موسیقی کی محفل سجتی تھی جسے سننے کے لیے لوگ دور دور سے آیا کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں میں کلاسیکل موسیقی سننے کا رجحان کم ہوتا گیا تو ان کی نسل بھی اس کام سے دور ہوتی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ جب تکیہ ویران ہونا شروع ہوا تو معاشی مسائل حل کرنے کے لیے کچھ جگہ پر آمدن کے لیے دوکانیں وغیرہ بنا دی گئی۔ ماجد انصاری کے مطابق ‘ہمارے معاشرے میں کلاسیکل موسیقی کی اتنی قدر نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے۔ ہندوستان سے اب بھی کلاسیکل موسیقی سے لگاؤ رکھنے والے لوگ پاکستان آتے ہیں تو اس تاریخی جگہ پر لازمی آتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں حالات اس کے برعکس ہیں ۔’ماجد انصاری کے مطابق‘اس تاریخی جگہ کو بچانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے ابتدائی طور پر میں نے اس جگہ کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے محفل موسیقی کے انعقاد کے لیے کام شروع کیا ہے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیمیں جو موسیقی کے فروغ کے لیے کام کرتی ہیں وہ آگے آئیں اور اس جگہ کو دوبارہ بحال کرنے میں میرا ساتھ دیں۔’

            اسی طرح ایک اور تکیہ جسے کھائی والا تکیہ کہا جاتا ہے لاہور قلعے کے عقب میں واقع ہے اور اس میں ایک بزرگ کا مزار بھی موجود ہے۔ اس تکیہ کی تاریخ کوئی نو سال سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ یہاں کافی چیزیں تبدیل ہوئی ہیں لیکن اس میں اکھاڑہ اب بھی قائم ہے۔ساٹھ سالہ مشرف خان قیس کا اس تکیے سے تعلق بچپن سے ہے اور آج بھی ماضی کے خوشگوار لمحات کو یاد کرتے ہیں۔‘بچپن میں یہاں محفل موسیقی کا انعقاد ہوا کرتا تھا جس میں خطے کے نامور فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور بزرگوں کی محفلیں یہاں سجتی تھیں جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا ہے۔’‘یہاں چوسر اور شطرنج وغیرہ کے مقابلے شروع ہوا کرتے تھے تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد مقابلے دیکھنے کے جمع ہوا کرتی تھی لیکن اب نہ تو وہ لوگ (تماشائی) رہے اور نہ کھیلنے والے۔ انھوں نے بتایا کہ مصروفیت اور افراتفری کے اس دور میں محلے کے چند لوگ کھیلنے کے لیے یہاں آتے ہیں لیکن اب یہاں ماضی کی رونقیں نہیں رہی ہیں۔’تکیہ میں موجود اکھاڑے میں پہلوان ورزش کر رہے تھے۔اکھاڑے کے سرپرست عبدالمجید نے بتایا کہ اس اکھاڑے کی وجہ سے رستم ہند بوٹا پہلوان، گونگا پہلوان اور گاموں پہلوان جیسے نام پیدا ہوئے ہیں۔انھوں نے بتایا کے تکیوں کی وجہ سے لاہور میں اکھاڑوں کو فروغ حاصل ہوا تھا اور ان اکھاڑوں سے نامور پہلوان پیدا ہوئے جنھوں نے پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔ اسی جگہ سے پیدا ہونے والے پہلوان نے انیس سو چونسٹھ میں کامن ویلتھ مقابلوں میں گولڈ میڈیا حاصل کیا تھا۔انھوں نے بتایا کہ ‘بہت سارے تکیوں پر لوگوں نے قبضہ کر کے بڑے بڑے پلازے تعمیر کر لیے ہیں یا دکانیں بن چکی ہیں لیکن کسی نے اس المیے کی طرف دھیان نہیں دیا اور تکیہ جو لاہور کی ثقافت کا ایک اہم حصہ تھا آہستہ آہستہ ختم ہوتا نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔’

            انھوں نے بتایا کہ اس تکیہ کی کافی جگہ پر دکانیں تعمیر ہو چکی ہیں لیکن اس کے باجود انھوں نے اکھاڑے کو برقرار رکھا ہوا ہے کیونکہ حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے پہلے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ایسی جگہوں کو ختم ہونے سے بچائیں۔ریڈیو آرٹسٹ اور موسیقی کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم کارواں کے سینیئر رکن سید آفاق حسین نے بتایا کہ موجودہ دور کی آرٹ کونسلز تکیوں کی ہی ترقی یافتہ شکل ہیں۔‘ تکیہ وہ جگہ ہوتی تھی جہاں لوگ اکٹھے مل کر بیٹھتے اور سیاسی، سماجی، مذہبی گفتگو اور معاشرتی اقدار کا موازنہ کیا کرتے تھے۔’ ان کا کہنا تھا کہ تکیوں کی وجہ سے کلاسیکل موسیقی کے پروگرامز منعقد ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان جگہوں سے نامور گلوکار اور موسیقار پیدا ہوئے۔‘پاکستان میں ایک تو لوگ اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے میں ثقافت سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور فکری آسودگی اور آپس میں مل بیٹھنے کا سلیقہ نہیں رہا ہے۔’ انھوں نے کہا کہ ‘ہمارے یہاں ایسے مقامات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جہاں ثقافت پروان چڑھتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تخلیقی عمل رک چکا ہے’۔انھوں نے کہا کہ جب آرٹ کی پرموشن رک جاتی ہے تو ان لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے جو آرٹ کے دشمن ہوتے ہیں اور معاشرے میں منفی سرگرمیوں کو فروغ دینا شروع کر دیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ تکیوں میں دانشور، شاعر، پڑھے لکھے لوگ آ کر بیٹھتے تھے۔ وہاں مشاعرے ہوا کرتے تھے ارد گرد کے ماحول اور تبدیلیوں کے حوالے سے بات چیت ہوا کرتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایسے مقامات کو فروغ دینے کی بجائے انھیں لاوارث چھوڑ دیا گیا اور اب محدود تفریحی ذرائع کی وجہ سے لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔آفاق حسین کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ تکیوں کے قیمتی اثاثے کو بچانے کے لیے اقدامات کرے اور ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ لوگوں کو اس بات کا شعور دیا جائے کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔

            مبصرین کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ملک میں ادب، آرٹ، موسیقی، تھیٹر اور دیگر تفریح کی جگہیں عرصہ دراز سے مسلسل زوال پذیر ہیں۔ تکیوں جیسے مقامات مذہبی انتہا پسندی کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان تکیوں کو فوری طور پر دوبارہ سے آباد کرنے کی کم از کم ایک بار کوشش لازمی کی جانی چاہیے۔

٭٭٭