نیٹ سائنس

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : مارچ 2010

مچھلی کا تیل دل کے مریضوں کے لیے مفید ہے

            سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مچھلی کے تیل میں پایا جانے والے اومیگا تھری ایسڈز دل کی بیماری میں مبتلا افراد کی زندگی کے دورانیے میں اضافے میں مدد دے سکتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق سے یہ پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ اومیگا تھری سے کس طرح دل کی شریانوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی ڈاکٹر رامین فرزانہ فر کہتی ہیں کہ دل کی بیماری میں شریانوں کے اندرونی حصے میں گاڑھے مادے جم جاتے ہیں اور دل کی جانب خون کے بہاؤ میں رکاوٹیں ڈال دیتے ہیں۔دل کی شریانوں کی بیماری دنیا بھر میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بہت سے جائزوں سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ٹھنڈے پانی کی مچھلیوں، ٹونا، سامن اور دوسری چکنی مچھلیوں میں چربیلے مادے اومیگا تھری موجود ہوتے ہیں جو اس بیماری کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب تک کسی کو بھی صحیح طور پر یہ علم نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

            ڈاکٹر رامین نے یہ معلوم کرنے کے لیے تحقیق کی کہ آیا خلیوں کی عمر میں اضافے اور اومیگا تھری ایسڈز کے درمیان کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی تحقیق سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ جن مریضوں کے خون میں مچھلی کے تیل میں پائے جانے والے اومیگا تھری ایسیڈز کی سطح زیادہ تھی، ان کے خلیوں میں عمر بڑھنے کے ساتھ بوسیدگی کے قدرتی عمل کی رفتار بظاہر سست تھی۔وہ کہتے ہیں کہ انسانی خلیوں کے مرکزے میں واقع کروموسومز کے آخری سرے پر واقع ٹیلومیر (Telomere) کی لمبائی میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کمی آنے لگتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جوتوں کے تسموں کے سرے پر پلاسٹک کی چھوٹی سی نلکی لگی ہوتی ہے جو تسموں کی ڈوری کو کھلنے سے روکتی ہے۔ بالکل ایسے ہی ٹیلومیر کروموسوم کے دونوں سروں پر لگے ہوتے ہیں اور وہ کروموسوم کی ساخت کو برقرار رکھتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس ٹیلومیر کی لمبائی گھٹتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے کروموسوم کی ساخت برقرار نہیں رہ سکتی اور انسان مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر رامین اور ان کے ٹیم نے دل کے چھ سو مریضوں کے خون کے خلیوں میں موجود ٹیلومیر کی لمبائی کی پیمائش کی۔ وہ کسی مخصوص مدت کے دوران اومیگا تھری ایسڈز اور ٹیلومیر کی لمبائی میں تبدیلی کے درمیان کسی تعلق کا پتا چلانا چاہتے تھے۔ڈاکٹر رامین کہتی ہیں کہ جن مریضوں میں مچھلی کے تیل میں موجود اومیگا تھری ایسڈز کی مقدارسب سے زیادہ تھی، ان کے ٹیلومیر کی لمبائی میں کمی واقع ہونے کی رفتار سب سے کم تھی۔جب کہ جن مریضوں کے خون میں اومیگا تھری ایسڈز کی مقدار سب سے کم تھی، ان کے ٹیلومیر کی لمبائی کم ہونے کی رفتار سب سے زیادہ تھی۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان مریضوں میں عمر کے بڑھنے کے ساتھ قدرتی بوسیدگی کا عمل اس گروپ سے زیادہ تھا جن کے خون میں اومیگا تھری کی مقدار زیادہ تھی۔

            ڈاکٹر رامین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی اس سفارش کی تائید کرتے ہیں کہ دل کی شریانوں کی بیماری میں مبتلا افراد کو دن میں کم از کم ایک گرام اومیگا تھری استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے ماہرین کا یہ خیال تھا کہ صرف باقاعدہ ورزش اور ذہنی دباؤ پر قابو پانے سے ٹیلومیر کو صحت مند رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اس نئی تحقیق کے مطابق چکنی مچھلی کھانے یا اومیگا تھری کا استعمال بھی فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ کلیولینڈ کلینک کے ڈاکٹر مائیکل روئیزن کہتے ہیں کہ کم از کم ان سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ زندگی کے دورانیے کو بڑھانے اور معذوری کو امکانی طور پر کم کرنے کا ایک خطرے سے پاک طریقہ ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اومیگا تھری صرف دل کی بیماری کے مریضوں کے لیے ہی فائدہ مند نہیں ہیں بلکہ انہیں جوڑوں کی سوزش کم کرنے، حافظہ خراب ہونے کی رفتار گھٹانے اور مالیکیولز کے انحطاط کے عمل کو سست کرنے سے بھی منسلک کیا گیا ہے جو بڑی عمر کے افراد میں نابینا پن کی ایک سب سے عام وجہ ہے۔

 دل کے دورے سے بچنے کا آسان نسخہ کھانے میں نمک کی مقدار آدھی کر دیں

            امریکی شہر سان فرانسسکو کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک میں روزانہ نمک کی مقدار میں تین گرام، یعنی صرف ایک چمچہ، کم کرنے سے سالانہ 32ہزار فالج کے حملے اور 54ہزار دل کے دوروں کو روکا جا سکتا ہے۔ فالج یا سٹروک میں رگوں کے اندر خون کا لوتھڑا جم جانے کی وجہ سے دماغ کو خون کی فراہمی رک جاتی ہے، جس سے جسم کا کوئی حصہ مفلوج ہو سکتا ہے۔

            ان ماہرین نے نمک کی کمی کے طبی اثرات کے بارے میں پیش گوئی کے لیے ایک اچھوتا کمپیوٹر پروگرام تیار کیا ہے۔ ماہرین نے اس پروگرام کی مدد سے 35 سے 84 برس کی عمر کے دل کی بیماری میں مبتلا افراد پر ریسرچ کے بعد یہ پتا چلایا کہ اگر روزانہ نمک کے استعمال کی مقدار میں صرف ایک گرام (یعنی ایک تہائی چمچ) ہی کمی کر دی جائے تو اگلے دس سال کے لیے ہائی بلڈ پریشر کا علاج سستی ترین گولی پر اٹھنے والے خرچ سے بھی سستا ہو جائے گا۔

            کولمبیا یونیوورسٹی کے ڈاکٹر لی گولڈ مین اس ریسرچ کے شریک مصنف ہیں کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ صحت بخش خوراک کھانے کے حوالے سے صرف کیلوریز کا خیال رکھتے ہیں لیکن نمک کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ نمک کے استعمال میں کمی کی کوئی ہدایت سامنے آئی ہے۔ گذشتہ نومبر کو برطانوی میڈیکل جریدے میں شائع ہونے والے ایک جائزے میں کہا گیا تھا کہ اگر ہر شخص اپنی خوراک میں نمک کی مقدار آدھی کر دے یعنی لگ بھگ پانچ گرام یومیہ، تو اس سے فالج کی شرح میں 23 فیصد اور دل کی بیماری میں مجموعی طور پر 17 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔بہت سے مغربی ملکوں کی طرح امریکہ کے باشندے اوسطاً لگ بھگ دس گرام نمک روزانہ کھاتے ہیں جب کہ صحت کا عالمی ادارہ صرف پانچ گرام اور امریکی محکمہ زراعت ساڑھے پانچ گرام نمک روزانہ استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔نمک کے استعمال میں کمی سے اور بھی بہت سے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔ایک نئے جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ خوراک میں سے روزانہ تین گرام نمک کم کرنے سے صحت کی نگہداشت کے اخراجات میں سالانہ دس ارب سے24 ارب ڈالر تک کی بچت ہو سکتی ہے۔ جب کہ نمک کی صرف ایک گرام مزید کمی ہائی بلڈ پریشر کے تمام مریضوں کے لیے ادویات کے استعمال سے سستا علاج ثابت ہو سکتی ہے۔

             ماہرین کہتے ہیں کہ اب تک سامنے آنے والے جائزوں کے نتائج قومی پالیسی میں تبدیلی کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

ملیریا کے حفاظتی ٹیکے بنانے میں پیش رفت

            آسٹریلیا کے ماہرین نے کہا ہے کہ ملیریا میں مبتلا ہونے کے بعد انسان کے معدافعتی نظام میں پروٹینز کا جوگروپ پیدا ہوتا ہے، اس سے ملیریا کی ایک ویکسین تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ملیریا کے خلاف یہ کامیابی میلبورن کے والٹر اینڈ ایلزا ہال انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں کو حاصل ہوئی ہے۔کئی عشروں سے دنیا بھر کے سائنس دان ملیریا سے بچاؤ کی کوئی ویکسین تیار کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ یہ وہ مرض ہے جس سے ہرسال دنیا بھر میں لگ بھگ دس لاکھ اموات ہوتی ہیں۔مچھروں کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی اس بیماری کی وجہ سے ہر 30 سیکنڈ میں ایک بچہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور افریقی ممالک کے لوگ اس مرض کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔ملیریا ایک پیچیدہ پیراسائٹ سے پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کسی ویکسین سے اس کا علاج دشوار ہے۔ والٹر اینڈ ایلزا ہال انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کا کہناہے کہ اس بیماری سے جسم کا قدرتی دفاعی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔تاہم انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ کوئی نئی ویکسین تیار کی جاسکتی ہے کیونکہ ملیریا کا نشانہ بننے والے علاقوں کے لوگوں میں بالآخر اس مرض کے خلاف کچھ قوت معدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔انسٹی ٹیوٹ نے ایسے مدافعتی مادوں کا پتا چلانے کے لیے جو جسم میں کوئی قدرتی معدافعتی ردعمل پیدا کرتے ہوں اور جن سے ملیریا کا علاج ممکن ہو ، بین الاقوامی مطالعاتی جائزوں کے نتائج کا تجزیہ کیا۔ انہیں ایک ایسے پروٹین کا پتا چلا جو ملیریا کے پیرا سائٹس سے پیدا ہوتا ہے اور جو اس کی معدافعت کرتا ہے۔ڈاکٹر جیمز بی سن کا کہنا ہے کہ ایک کامیاب ویکسین جسم کے دفاعی نظام کو ملیریا کے پیراسائٹ بنانے سے روکنے میں مدد دے سکتی ہے۔یہ ویکسین بنیادی طور پر جسم کے ان حصوں میں جہاں ملیریا کے جراثیم حملہ آور ہوں ،مدافعتی نظام کے اس عمل کو تیز کرنے کی کوشش کرے گی۔وہ کہتے ہیں کہ آپ دیکھتے ہیں کہ بچے ملیریا میں بار بار مبتلا ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کا جسم ان جراثیموں کے خلاف مدافعت پیدا کر لیتا ہے۔ یہ ویکسین اسی عمل کی رفتار تیز کر دے گی تاکہ بہت سے لوگ ان جراثیموں کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہونے سے پہلے ہلاک اور شدید بیمار ہونے سے بچ جائیں۔

            میلبورن کے ماہرین کو توقع ہے کہ وہ کسی مؤثر ویکسین میں استعمال کے لیے سب سے موثر مرکبات کا پتہ چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اگرچہ ماہرین کو اب تک جو کامیابیاں ملی ہیں اس پر ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ، تاہم ان کا کہنا ہے کہ مزید کلینیکل تجربات کی ضرورت ہے اور کوئی مؤثرحفاظتی ٹیکہ تیار کرنے میں کم از کم دس سال لگ جائیں گے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ملیریا قابل علاج مرض ہے اور اس کی روک تھام ممکن ہے۔ دنیا بھر کی لگ بھگ نصف آبادی اس مرض کے خطرے سے دوچار ہے، خاص طور پر غریب ملکوں میں رہنے والے لوگ۔ملیریا سے سب سے زیادہ اموات صحارا افریقہ میں ہوتی ہیں، لیکن ایشیا ، یورپ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں بھی ملیریا حملہ آور ہوتا ہے۔

 افغانستان میں دنیا کی نایاب ترین چڑیا کی دریافت

            افغانستان میں ماہرینِ حیاتیات کو پہلی بار ایک ایسی چڑیا کے رہنے بسنے کے ایک علاقے کا پتا چلاہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں بہت کم لوگ اس پرندے کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔جنگلی حیات کے تحفظ کی سوسائٹی یا ڈبلیو سی ایس کے ماہرین نے پیر کے روز کہا ہے کہ انہیں شمال مشرقی افغانستان کے سلسلہ کوہ پامیر کے درّہ واخان کے ایک دور دراز علاقے میں ایک ایسے مقام کا پتا چلا ہے جہاں بڑی چونچ والی اس قسم کی چڑیاں اپنے گھونسلے بناتی ہیں اور انڈے دیتی ہیں۔ماہرین نے اس چڑیا کو Reed Warbler کا نام دیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گانے والی یہ چڑیا سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں اپنے گھونسلے بناتی ہو گی۔سائنس دانوں نے جنگلوں میں مختلف لوگوں کے مشاہدوں، ڈی این اے کی ساخت اور عجائب گھروں میں محفوظ نمونوں کی مدد سے اس سرکنڈے کی چڑیا کے وطن کو تلاش کیا اور پھر اپنی دریافت کی تصدیق کرنے کے لیے انہوں نے اْس علاقے میں اس قسم کے تقریباً 20 پرندوں کو پکڑنے کے بعد آزاد کر دیا۔ یہ بڑی چونچ والی سرکنڈوں کی چہچہاتی چڑیوں کی آج تک ریکارڈ کی جانے والی سب سے بڑی تعداد ہے۔ڈبلیو سی ایس کا کہنا ہے افغانستان کے دشوار گزار درّہ واخان میں حیاتیات کے کئی راز ابھی تک محفوظ اور پوشیدہ ہیں اور یہ علاقہ اْس ملک میں جنگلی حیات کے تحفظ کی خاطر مستقبل کی کوششوں کے لیے بے حد اہم ہے۔اس قسم کی چڑیا کا پہلا نمونہ۱۸۶۷ میں اْس وقت کے ہندوستان میں ملا تھا۔ اور دوسرا نمونہ ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد تھائی لینڈ میں ملا تھا۔

2010ء: اس سال کون سی مصنوعات نہیں خریدنی چاہیئں

لینڈ لائن ٹیلی فون:

            ماہرین کا اندازہ ہے کہ چند برسوں کے اندر اندر گھروں میں فراہم کیا جانے والا لینڈ لائن فون ، ماضی کے روٹری فون (ڈائل گھما کر نمبر ملانے والا فون) کی طرح ماضی کا قصہ بن سکتا ہے۔بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے امریکی مرکز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2009ء کی پہلی شش ماہی کے دوران امریکہ کے ہر پانچ میں سے ایک سے زیادہ گھروں میں صرف موبائل فون تھے اور ان کے پاس کوئی لینڈ لائن فون نہیں تھا۔اور یہ تعداد 2006ء کے مقابلے میں اسی عرصے کے دوران ساڑھے دس فی صد زیادہ تھی۔ لینڈ لائن فون کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون کے کنکشن اور ان کے ماہانہ اخراجات لینڈ لائن فون کی نسبت کہیں کم ہیں اور موبائل فون کمپنیاں مقابلتاً زیادہ سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔

ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیوز:

            جو صارفین ایک عرصے تک اپنا کمپیوٹر تبدیل نہیں کرتے اور ہزاروں گانے، ویڈیوز، فلمیں اور فوٹو کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک پر محفوظ کرتے ہیں، انہیں وقت گزرنے کے ساتھ اپنے کمپیوٹروں کے لیے بڑی ہارڈ ڈرائیوز کی ضرورت پڑے گی۔اس کا ایک حل ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیو ہے لیکن اس کا ایک اور آسان تر متبادل موجود ہے، یعنی آن لائن بیک اپ سروسز۔ ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیو کے مقابلے پر ان کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں ، یہ سہولت آپ کو میسر ہے۔ کاربونائٹ ڈاٹ کام، یا موزی ڈاٹ کام وغیرہ ایسی کمپنیاں ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے صارفین کو بیک اپ ڈیٹا تک رسائی کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔یہ سروسز فی الحال ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیوز کی خرید کی نسبت مہنگی ہیں لیکن امکان ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سستی ہوجائیں گی۔

عام موبائل فون:

            پچھلے چند برسوں کے دوران مارکیٹ میں آئی فون اور بلیک بیری سے ملتے جلتے کئی سمارٹ فون متعارف ہوئے لیکن وہ ان دو کی طرح مقبول نہیں ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ کمپنیاں اب انہی دو فونز کے استعمال میں آنے والی چیزیں بنانے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ان دنوں بلیک بیری سمارٹ فونز مارکیٹ پر چھایا ہوا ہے اور اس کے بعد آئی فون کا نمبر آتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے 2010 ء میں بھی ان کی سبقت برقرار رہے گی۔ماہرین کا خیال ہے کہ أٓنے والے برسوں میں ان سمارٹ فونز کا مقابلہ گوگل کے Android اور نیکسس ون فون سے ہوسکتا ہے جن کی مقبولیت کے گراف میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

‘پوائنٹ اینڈ شوٹ’ ڈجیٹل کیمرے:

            ایک عشرے پہلے تک ڈجیٹل کیمرے خال خال ہی نظر آتے تھے مگر اب وہ فلم کیمروں کو مارکیٹ سے تقریباًخارج کرچکے ہیں۔ڈجیٹل کیمروں کی نہ صرف قیمتیں نمایاں طورپر کمی ہوئی ہیں بلکہ ان کی قوت ، کارکردگی اور ان میں موجود سہولتوں میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا ہے جب کہ دوسری جانب ان کا حجم بہت ہی مختصر ہوگیا ہے۔ لیکن اب پروفیشنل کوالٹی کے ایس ایل آر کیمروں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے بعد پوائنٹ اینڈ شوٹ کیمروں کی افادیت میں کمی آ تی جا رہی ہے۔ ایس ایل آر کیمروں کی خصوصیات میں تصاویر کی اعلیٰ کوالٹی، کم روشنی میں بھی عمدہ کارکردگی، اور مختلف لینز استعمال کرنے کی صلاحیت شامل ہیں۔ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہر نئے موبائل فون میں پوائنٹ اینڈ کیمرا موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے الگ کیمرے کی مانگ میں کمی واقع ہو گی۔

کاغذی اخبارات اور رسائل:

            گزر جانے والا سال اشاعتی صنعت کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ نیوز پیپرایسوسی ایشن آف امریکہ کے مطابق 2008 ء میں امریکہ میں اخبارات کے اشتہاروں کی آمدنی میں تقریباً 18 فی صد تک کمی ہوئی۔جب کہ اپریل سے ستمبر 2009ء کے دوران اس سے پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 379 اخبارات کی اشاعت میں اوسطاً ساڑھے دس فی صد کمی ہوئی ۔اسی طرح جریدوں کا حال بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ 2009ء میں 360 سے زیادہ رسالے بند ہوئے۔اب بہت سے لوگ صبح کے وقت اپنے گھر اخبار منگوانے کی بجائے اب لوگ زیادہ تر آن لائن اخبار اور رسالے پڑھتے ہیں جن میں سے زیادہ تر مفت دستیاب ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے آنے والے دنوں میں ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے جو الیکٹرانک اخبار، رسالوں اور کتابوں کو پڑھنے کے لیے صرف ایک ہی ذریعے پر انحصار کریں۔

ڈی وی ڈی فلمیں:

            اب وہ دور تقریباً ختم ہوا جب لوگ فلمیں کرائے پر لاکر اپنے گھر دیکھا کرتے تھے۔ کرائے پر فلمیں فراہم کرنے والی ایک بڑی امریکی کمپنی ‘بلاک بسٹرز’ کا کہنا ہے کہ 2010ء کے آخرتک وہ اپنے لگ بھگ 22 فی صد اسٹور بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں اس کی آمدنی میں 2008 ء کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 20 فی صد کمی ہوئی۔فلموں کی ڈی وی ڈیز کی قیمت اوسطاً 20 ڈالر ہے جب کہ امریکہ میں وارنر کیبل کمپنی پانچ ڈالر میں ایک فلم آپ کو آپ کے گھر پر دکھانے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح ایک اور کمپنی ورائزن فائیوز کیبل سروس تقریباً چھ ڈالر مہینے کے عوض آپ کو ماہانہ لامحدود تعداد میں فلمیں ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت فراہم کررہی ہے۔اور ویسے بھی اب سونی بلو رے کے بعد ڈی وی ڈی کا باب بند ہونے والا ہے، اور بہت جلد ڈی وی ڈی بھی ویڈیو کیسٹ اور فلاپی ڈسک کی طرح قصہ پارینہ بن جائیں گی۔

سی ڈیز:

            گزشتہ عشرہ سی ڈی صنعت کے لیے بدترین ثابت ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب آپ اپنی پسند کے گانے انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ گانے اکثر اوقات بہت کم قیمت یا پھر مفت ہی مل جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بازار جا کر سی ڈی خریدنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کہتے ہیں اب سی ڈیز کا باب بند ہوچکا ہے۔امریکہ میں میوزک کی سی ڈیز فروخت کرنے والے بہت بڑے بڑے سٹور ، فروخت اور آمدنی میں غیر معمولی کمی کے باعث بند ہوچکے ہیں۔ 2004ء میں ‘ٹاور ریکارڈ’ نامی کمپنی دیوالیہ ہوگئی اور 2006ء-04 تک اس کے زیادہ تر اسٹور بند ہوچکے تھے۔

نصابی کتابیں:

            جب تک طالب علموں کو درحقیقت کسی بڑی کمپنی کی نئی نصابی کتاب کی ضرورت ہی نہ ہو، وہ کئی سستے متبادل ذرائع استعمال کرسکتے ہیں۔ایک تجارتی گروپ ریٹیل ایڈورٹائزنگ اینڈ مارکیٹنگ ایسوسی ایشن کے اگزیکٹیو ڈائریکٹر مائک گیٹی کہتے ہیں کہ استعمال شدہ نصابی کتابوں کی دکان پر آپ کو 70 سے 90 فی صد تک کی بچت ہوسکتی ہے۔نصابی کتابیں خریدنے کے لیے آپ سستی کتابوں کی ویب سائٹس سے مدد لے سکتے ہیں۔اسی طرح اکثر کالجوں کے بک سٹوروں پر بھی استعمال شدہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔نصابی کتابوں کی خرید کا ایک اور متبادل طریقہ کتابوں کو آن لائن ڈاؤن لوڈ کرنا ہے جو کافی سستی پڑتی ہیں۔

زیادہ پٹرول استعمال کرنیوالی گاڑیاں:

            گزشتہ دس سال کے دوران پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں میڈیا کی شہ سرخیوں میں موجود رہیں اور اب بھی یہ صورت حال برقرار ہے۔ انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کا خیال ہے کہ 2010 ء میں ایندھن کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ کاریں بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے توانائی کی بچت کرنے والی گاڑیاں بڑے پیمانے پر بنانے کے اعلان سے صارفین کا رجحان پٹرول پر چلنے والی گاڑیوں سے ہٹ سکتا ہے۔ توانائی کے امریکی محکمے کے مطابق ایندھن کی سب سے زیادہ بچت کرنے والی گاڑیوں میں ہنڈا سوک ہائی برڈ کار شامل ہے جو شہر میں ایک گیلن میں 40 میل اور ہائی ویز پر 45 میل کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ اسی طرح ٹویوٹا کی ہائی برڈ کار ایک گیلن میں 48 / 51 میل تک کا فاصلہ طے کرتی ہے۔

صحت مند بڑھاپا گزارنے کے چھ اصول

            لوگ عمر بڑھنے کے ساتھ فعال اور صحت مند رہنے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ یہ ہے مائلز شنائیڈر کی کتاب‘ ٹوبی آر ناٹ ٹوبی ہیلتھی’ کے پس پشت موجود سادہ سا تصور۔ مصنف نے اپنے قارئین کو صحت مند زندگی گزارنے کے لیے چھ عادات اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔مائلز شنائیڈر کی اس کتاب کا محرک ان کے ذاتی تجربات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تقریباً 11 سال پہلے جب میں 55 سال کا بوڑھا تھا اور میں اس وقت لفظ‘بوڑھے’ پرزور دے رہا ہوں۔ مجھے کمر اور گردن میں درد رہتاتھا۔ مجھے یہ تکالیف اس وقت شروع ہوئی تھیں جب میری عمر 30 سے 40 سال کے درمیان تھی۔ اورجب میں 40 کے عشرے میں داخل ہوا تو ان تکلیفوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جب میں 55 کی عمر کو پہنچا تو مجھے ہروقت درد رہنے لگا۔ اور ایسے میں میرے ایک دوست نے مجھے کچھ مشورے دیے۔ جن پر عمل کرنے سے مجھے افاقہ ہونے لگا اور اب میری صحت پہلے سے بہت بہتر ہے۔ اور اب میں کہہ سکتا ہوں کہ میں 66 سال کا جوان ہوں۔

علاج نہیں بلکہ طرز زندگی میں تبدیلی:

شنائیڈر لوگوں کو اپنے طرز زندگی کا نئے سرے سے جائزہ لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔جب شنائیڈر نے ،جوپاؤں کے امراض کے ایک ماہرہیں، اپنی طرز زندگی کا جائزہ لیا تو وہ کہتے ہیں کہ ان پر یہ واضح ہوا کہ انہیں کسی طبی علاج کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ آپ اپنی مدد کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آپ کو خود کو اتنا بوڑھا محسوس کرنے کی ضرورت نہیں جتنا کہ آپ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو اتنی تیزی سے بوڑھا نہیں ہونا چاہیے کہ جتنی تیز ی سے لوگ آپ کو بوڑھا ہونے کے لیے کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بڑھاپے کا ڈاکٹروں ، کریموں، ٹانک، دواؤں یا سرجری کے طریقوں ، اور ٹیسٹوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا تعلق فی الواقع صرف ان چند عادات سے ہے جن کا انتخاب آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں کرتے ہیں۔

روز انہ تین بار کھانا کھانے کی عادت اپنائیں:

            وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے اپنی صحت کی ذمہ داری صحت کے نگہداشت کے نظام پر ڈال دی ہے۔ وہ خود اپنے ساتھ خواہ جوبھی برتاؤ کریں ، اپنے ڈاکٹروں سے اپنے لیے ایسے معجزات کی توقع کرتے ہیں جن کی مدد سے وہ خود کو بہتر محسوس کرسکیں۔ شنائیڈر کہتے ہیں کہ ہونا یہ چاہیے کہ لوگ اپنی زندگیوں کو خود کنٹرول کریں اور اپنی کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی میں چھ صحت مند عادات کا خاکہ پیش کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان عادات کا آغازدن میں تین بار اچھے اور متوازن کھانے سے ہوتا ہے، جن میں کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، اور چکنائی کی مناسب مقدار کا ایک کھانا اور دوبار ہلکی پھلکی غذا شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی حکومت کی ویب سائٹ mypyramid.gov پراس حوالے سے بہت مفید معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔

ذہنی دباؤ پر قابو پانا سیکھیں:

            شنائیڈر کہتے ہیں کہ زندگی میں صرف چند سادہ سی عادات کی مدد سے آپ بیماریوں سے بچ سکتے ہیں اور اپنی صحت بہتر رکھ سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ تین مزید صحت مند عادات جن کا آپ کو علم ہونا چاہیے، یہ ہیں۔کافی مقدار میں صاف پائی پیئیں، مناسب نیند لیں اور باقاعدگی سے ورزش کریں۔ ذہنی دباؤ پر قابو پانا ایک اور اہم عادت ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو سب سے سادہ اور کم مدت کے لیے روزانہ آپ جو کچھ کرسکتے ہیں ، وہ ہے مراقبہ۔

             وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خود کوکچھ دیر کے لیے اس دنیا سے باہر نکالیں جو آپ کے لیے ذہنی دباؤ پیدا کرتی ہے۔ اور اگر ذہنی دباؤ شدید نوعیت کا ہے تو ہمیں اس حوالے سے اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہیے اور اس پریشان کن صورت حال میں سے اپنے لیے کوئی مثبت پہلو نکال لینا چاہیے۔ مثال کے طورپر اگر آپ کو روزانہ اپنے دفتر کے لیے فاصلہ کرنا پڑے اورآپ ٹریفک کے بارے میں فکر مند ہوں تو گاڑی چلاتے ہوئے کتابوں کی ریکارڈنگ یا موسیقی سننے کا سلسلہ شروع کردیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ وقت اس لیے نہیں گزار پارہے کیونکہ آپ کو زیادہ تر وقت ٹریفک کے دوران سڑک پر رہنا پڑتا ہے تو آپ سوچ میں یہ تبدیلی لائیں کو جوکچھ ہورہاہے وہ کوئی بہت زیادہ پریشان کن بات نہیں ہے۔

اپنے گھر کو آلودگی سے پاک کریں:

            کیونکہ ہمارے جسم کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے شنائیڈرنے صحت مندعادات کی اپنی فہرست میں صاف ہوا میں سانس لینے کوشامل کیا ہے۔اور اس کے لیے ان کے بقول ہوا کی آلودگی میں کمی کی ضرورت ہے خاص طورپر چاردیواری کے اندر۔وہ کہتے ہیں کہ آپ یہ یقینی بنائیں کہ آپ کا گھر جراثیموں سے پاک ہے۔ اگر گنجائش ہو اور اگر ممکن ہوتو گھر کو صاف کرنے کے لیے آرگینک چیزیں استعمال کریں اور اسی قسم کی جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کریں۔

صحت مند عادات بیماریوں سے بچاتی ہیں:

            شنائیڈر کہتے ہیں کہ کیونکہ ہم وہ مخلوق ہے جو اپنی عادات کی غلام ہے، اس لیے ہمارے لیے اپنی روزمرہ کی زندگی میں صحت مند عادات کو شامل کرنا بہت آسان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طریقے سے ہمیں معمولی نزلے زکام سے لے کر ایچ ون این ون تک ،ہرقسم کی بیماریوں کے مقابلے میں مدد مل سکتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ مناسب خوراک کھائیں گے، مناسب نیند لیں گے، باقاعدگی سے ورزش کریں گے ، خوب پانی پیئیں گے ، وٹامنز وغیر ہ استعمال کریں ، اپنے ذہنی دباؤ پر قابو پانے کی کوشش کریں گے اور زیادہ سے زیادہ صاف اور تازہ ہوا میں سانس لیں گے تو آپ کا جسمانی حفاظتی نظام اتنا مضبوط ہوجائے گا جتنا کہ وہ ہوسکتا ہے اور آپ ایک صحت مند بڑھاپا گزار سکتے ہیں۔

            مائلز شنائیڈرکہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ ان کی کتاب پڑھنے کے بعد مزید لوگ صحت مند رہنے کا انتخاب کریں گے اور اپنی بہتری کے لیے خود ذمہ داری لینے کی عادت اپنائیں گے۔