سفر آرزو

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : فروری 2010

قسط -۶

دیکھئے میری سوچ کہاں تک پہنچی !

            میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد،نہایت وسیع و عریض ہو چکی ہے۔اس کا مین ہال اتنا کشادہ ہے کہ اگر آپ قبلہ کے مخالف سمت والے دروازے (باب شاہ فہد )سے داخل ہوں اور پہلی صف تک پہنچنا چاہیں تو اس میں آپ کو دس منٹ لگ سکتے ہیں اور ہمارے ایسے لوگوں کے لیے یہ اچھی بھلی مشقت کا کام بن جاتا ہے۔یہ مشقت دِ ن میں کئی کئی بار اُ ٹھانی ہوتی ہے لیکن اس مشقت کا جو لطف اور مزا ہے وہ نا قابل بیان ہے۔مسجد کی خو بصورتی ،اندرونی ماحول اور تزئین و آرائش کاانداز اپنی جگہ انبساط و فرحت فراہم کرتا ہے اور انسان کو اتنا موہ لیتا ہے کہ یہ طویل سفر بالکل محو ہو جاتا ہے لیکن جب اس نسبت کا تصور ذہن میں آتا ہے جو اس مسجد کو اور اس جگہ کو پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے تو پھر انسان اپنے آپ کو کسی اور ہی دنیا میں محسوس کرتا ہے۔مسجد نبوی میں گزرا ہوا ایک ایک دِن اپنی الگ داستان رکھتا ہے،اور اس مسجد پاک میں گزر اہوا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے کہ اس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔

            ایک دِن،حسب معمول ،ہم صبح سویرے ہوٹل سے نکلے،ارادہ تھا کہ قبل از اذان فجرریاض الجنۃمیں کچھ نوافل ادا کریں گے۔میرے دوسرے ہمسفر تو اس ارادے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس عاجز کی ریاض الجنۃ تک رسائی نہ ہو سکی۔بڑا افسوس ہوا،لیکن مقدر مجھے ایک ایسے مقام پر لے آیا کہ میں حیران رہ گیا۔روضہ مبارک کے بالکل پیچھے مجھے جگہ مل گئی۔میرے بالکل پیچھے اصحاب صفہ کا چبوترہ تھا اور میرے اور مسجدکی قبلے والی دیوار(جنوبی دیوار) کے درمیان میں روضہ پاک تھا۔کافی دیر یہاں قیام رہا اور کئی قسم کے روحانی تجربات سے واسطہ رہا۔یہاں بیٹھے ہوئے،میری سوچوں نے بڑی دور دور تک پرواز کی۔ تصورمیں ، میں جہاں زمانہ سرکار میں گھومتا رہا، وہیں ایک سوال نے کافی وقت لیااور ذہن نے اُس کے جواب میں کیا کیاکچھ نہ سوچ ڈالا۔کوشش کرتا ہوں کہ آپ کو ان سوچوں میں شریک کروں۔سوال یہ تھا کہ

 اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج تشریف فرما ہو تے ..........تو کیا حالات ہوتے؟

             مدینہ ،چودہ صدیاں قبل کیسا تھا ،یہ تو ہم اکثر پڑھتے رہتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں،لیکن روضہ رسول کے پاس بیٹھ کر ،صبح کے اُن لمحات میں ،بندہ یہ سوچ رہا تھاکہ اگر آج اسی شہر مدینہ میں میرے آقا تشریف لے آئیں تو کیا ہوگا۔اس وقت مسلمانوں کی تعداد جو دو ارب کے قریب پہنچ رہی ہے ،اور ہماری پچاس سے زائد اسلامی ریاستیں ہیں اور یہ کہ دنیا کے بہترین وسائل ہمارے قبضے میں ہیں،اِن کی موجودگی میں،اگر آج، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری قیادت کر رہے ہوتے..... تو ہماری حالت کیا ہوتی ،ہم یقینا اوج ثریا تک جا پہنچتے ،جب یہ تصور کرتا، توبڑا فرحت انگیز نقشہ میرے سامنے آتا،جی باغ باغ ہو جاتا......لیکن جب آنکھیں کھولتا،اور امت کی حالت زار،سامنے آتی تو آنسو جاری ہو جاتے،جی کرچی کرچی ہو جاتا۔ہمارے حکمرانوں نے ہماری کیا حا لت بنا رکھی ہے۔ہمارے اہل علم حضرات کن بحثوں میں اُلجھے اور کن کاموں میں پھنسے ہیں۔اُمت کے عام آدمی کی کیا دینی حالت ہے،تو کیا یہ سب کچھ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے والے امور ہیں،جب اس پہلو سے سوچتا تو عجیب کیفیت ہو جاتی......آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ ا ٓ پ ﷺ اگر ہوتے تو یہ مدینہ ،یقیناًپوری اُمت کا سیاسی مر کز ہوتا،

لیکن آج ہمارا نہ کوئی قبلہ ہے اور نہ کوئی کعبہ،ہم بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز تو پڑھتے ہیں ، لیکن سیاسی امور میں اور کار جہاں بانی میں امریکہ بہادر کواپنا قبلہ و کعبہ مانتے اور اقوام متحدہ کی شریعت کو اپنے اوپر لا گو کرتے ہیں....ہم .....اللہ اکبر اللہ اکبر اور محمد رہبر ، محمد رہبر کے نعرے تو ضرور لگاتے ہیں،لیکن زندگی گزارنے کے لیے رہنما اصول امریکہ اور مغرب سے لیتے ہیں۔پیروی یورپ کی کرتے ہیں۔میں سوچتارہا کہ اگر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم آج بنفس ِ نفیس تشریف فرما ہوتے ،تو کیا مدینہ یونیورسٹی ،اُس وقت بھی اقوام عالم میں، ایک تھرڈ کلاس یونیورسٹی،ہی شمار ہوتی اور علم کے پیاسے اُس وقت بھی یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اپنی پیاس بجھانے جاتے۔مسلمانوں کو اِس وقت سب سے زیادہ غیر مہذب،غیر ترقی یافتہ اورعلم و عقل سے عاری قوم سمجھا جاتا تو کیا تب بھی ایسا ہو تا،جب آپ ہم میں موجود ہوتے۔یقینا نہیں۔۔۔تعلیمی ادارے ہمارے ناقص،معیشت ہماری کمزور ،سیاسی انتشار اور بے نظمی کے ہم شاہکار،آمریت، ملوکیت اور خاندانی حکومتوں کا چلن،شہر ہمارے سب سے گندے،ماحول ہمارا سب سے زیادہ آلودہ،اخلاقی قدروں میں ہم سب سے پیچھے ،کوئی کل بھی تو سیدھی نہیں،آ خر ایساکیوں ہے۔کیا نبوت کا مشن ،خاکم بہ دہن، ادھورا رہ گیا تھا ،کیا پیارے رسول کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی اور کیا تعلیمات نبوی کہیں گم ہو گئی ہیں یا تبدیل کر دی گئی ہیں اور کیا اللہ کا کلام کہیں گم ہو گیا ہے اور کیا اُس میں تحریف کر دی گئی ہے؟؟؟ وغیرہ وغیرہ ...نہیں،ہر گزنہیں....... ایساکچھ بالکل نہیں دین تو مکمل موجود ہے،حضور علیہ السلام،مکمل دین ہم تک پہنچا گئے تھے کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی۔اب تعلیمات نبویہ بھی موجود اور اسوہ پیغمبر بھی ہمارے سامنے!! اللہ کا قرآن بھی جوں کا توں موجود،کسی نئے دین یا نئے پیغمبر کی ضرورت نہیں۔ کمزوری ہے تو ہماری اپنی اور نالائقی ہے توہم سب کی اپنی!! نہ جانے یہ سوچ کیسی تھی ،بہر حال میں سوچ رہا تھا،کہ اللہ کے رسول ﷺ آج ہمارے درمیان ہوتے ،

.....تو مسلمان یقیناًسپرپاور ہوتے،نہ صرف مادی سپر پاور بلکہ اخلاقی سپر پاور بھی ۔ہماری ایک ہی ریاست ہوتی جس کے سربراہ آپ ہی ہوتے،اور یہ جو ہماری ۵۰ سے زائد،نام نہاد آ زاد ریاستیں ہیں ،کیا یہ یوں ہی آزاداور الگ الگ ہوتیں ،نہیں ،ہر گز نہیں، بلکہ یہ مدینہ کی ریاست کے صوبے ہوتے،اور کیایہی نا اہل اور غیر صالح،بد دیانت اور کرپٹ حکمران ہی ہم پر مسلط ہوتے ،نہیں،ہر گز نہیں، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندوں کے طور پر ،ان علاقوں کے حکمران ،نیک ،متقی ، خدا خوفی رکھنے والے ،دین کے عالم اور دنیاوی علوم کے ماہرین ہوتے۔......!!کیا اب ایسا نہیں ہو سکتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ،اگر ہمارے درمیان موجود نہیں تو کیا ہوا ،دین تو سارے کا سارا موجود ہے۔قرآن توپورا موجود ہے راستہ موجود شریعت موجود تو پھرمسئلہ کہاں ہے؟؟.اور ہاں یاد آیا........اُس صورت میں جب پیارے حضور ﷺ ہمارے درمیان ہوتے تم کیا پھر بھی ہمارے جج یوں ہی بکتے...یا،کیا ہمارے جرنیل یوں ہی امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکتے اور کیا ہمارے صنعت کاریوں ہی ذخیرہ اندوز ہوتے ،آٹا بھی چھپا لیتے اور چینی بھی غا ئب کر دیتے۔اُس عالم میں بھی کیا ہماری مسجدیں فرقہ بندی کے اڈے اور ہمارے مدرسے ،مولویوں کی فیکٹریاں ہوتے۔اور کیا ہمارے درمیان کوئی فرقہ بھی ہوتااور کیا ،ہر مولوی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بناتا،اور کیایہ جہادی تنظیمیں ہوتیں ،چندے ہوتے اور دین کے نام پر،پرائیویٹ جہاد جاری ہوتا؟؟اورکیا ہماری اسمبلیاں یوں ہی کرپٹ ہوتیں،(لیکن آپس کی بات ہے ،رسول کے ہوتے ہوئے اسمبلیوں کی ضرورت ہی کیا ہوتی ؟رسول کو تو براہ راست اللہ کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے )ور ان کے ممبران محض امریکہ کی مرضی کے تابع بن کر اپنی تجوریوں کو بھرنے والے ہوتے ،یا ، وہ اللہ اور اس کے رسول کے قانون پر عمل کرنے اور کروانے والے ہوتے؟کیا اُس وقت بھی ہماری نمازیں بے روح ،ہمارے روزے محض بھوک پیاس کی مشق اور ہمارے حج و عمرہ محض سیر و تفریح بن کر رہ جاتے اور ہماری زکوٰۃ محض دکھلاوااورہماری سخاوتیں صرف سستی شہرت کا ذریعہ ہو تے۔ اگر نہیں ..... تو اب ایسا کیوں ہے؟ اب سوچوں نے ایک اور رخ اختیار کیا ۔میں سوچنے لگا کہ میرے رسول ،محبوب زمانہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آج ہوتے تو آپ کا دولت کدہ کیسا ہوتا؟کیا اُس طرح کا جیسا ہم سیرت کی کتابوں میں پڑھتے ہیں یا اُ س طرح کا جیسا کہ مملکت سعودی کے موجودہ حکمرانوں کے ہے .یاپھر پاکستان کے صدر جیسا یا پھر امریکی صدر کی رہائش گاہ ایسا .....آپ کی سواری کیسی ہوتی،کون سی گاڑی ہوتی اورکس ماڈل کی ہوتی ،یا،اونٹ،گھوڑے،خچر اور گدھے ہی بطور سواری استعمال ہو رہے ہوتے ...میں سوچتا گیا..... آپ کا لباس کس فیکٹری میں تیار ہوتا ....آپ کے جوتے کہاں بنتے.....سیرت کی کتابوں کے مطابق میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نفیس طبع اور اعلیٰ ذوق کے مالک تھے ،تو آ ج ،اُن کی طرزِ رہائش میں ،انتخاب ِلباس میں اور استعمالات میں اس اعلیٰ ذوق کا اظہار کیسے ہوتا۔اُس دور میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہمانوں سے اور ملنے کے لیے آنے والے وفود سے ،مسجد نبوی کے ستونوں کے پاس بیٹھ کر ہی مل لیا کرتے تھے ،اب، آپ کا مہمان خانہ یعنی ‘‘اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس ’’یا‘‘ میٹنگ ہال ’’یا ‘‘ڈرائنگ روم ’’کس طرح کا ہوتا۔اور ان ‘‘رومز ’’میں فرنیچر جو آپ کے استعمال میں ہوتا ،وہ کہاں سے بنتا،کیا تاریخ کا پہیہ رک چکا ہوتا اور آج بھی کھجور کے پتوں سے بنی چٹائیاں ہی بطور فرنیچراور بطور بیڈ شیٹ استعمال ہوتیں یا پھر وہی اعلیٰ اور نفیس فرنیچر استعمال ہوتا جو آج کی دنیا میں ستعمال ہوتا ہے۔کیا سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ،آج ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ استعمال فرماتے یا وہی لکڑی کا مسواک ہی استعمال ہوتا جو سیرت کی کتابوں میں ہمیں ملتا ہے۔

            غرض عجیب و غریب سوچیں تھیں اور عجب ہی اپنا حال تھا۔سوال بھی تھے اور جواب بھی ۔ان سوالوں پر اور ان خیالات پر اب میں پشیمان تھا،شرمندہ تھا۔عبادت اور درود وسلام پڑھنے کے لمحات ان سوچوں میں ضائع کر دیے جن کا کوئی حاصل نہیں تھا ، اس پر شرمندہ شرمندہ سا میں وہاں سے اٹھ آیا۔

            مسجد پاک خالی ہو رہی تھی۔میں اُٹھا ،تاکہ مبارک جالیوں کے پا س جا کر درود و سلام پیش کرسکوں،لیکن ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔مجھے یقین ہو چکا تھا کہ پیارے آقا اندراپنے حجرہ مبارک میں موجود ہیں اوروہ میرے پراگندہ خیالات سے آگاہ ہو چکے ہیں،اب میں کس منہ سے اُن کے سامنے حاضر ہوں........دِل نے تسلی دی،کہ جائے امان یہیں ہے .......پناہ اورعفو و درگزرکا دروازہ یہیں کھلتا ہے ،رحمت و رافت ،محبت و شفقت کے سوتے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔اُٹھو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضر ہو کر،اقرار جرم کر لو۔ میں اُ ٹھ گیا، شرمندہ شرمندہ سا،اشک ندامت ساتھ لیے ،مبارک جالیوں کی طرف چلنا شروع کر دیا۔اگرچہ رش نہیں تھا لیکن تنہائی بھی نہ تھی۔لائن لگی تھی۔عشاق ہاتھ باندھے سر جھکائے لب پر درود و سلام سجائے چل رہے تھے۔بندہ بھی قطار میں آ گیابہت سوچادِل کو سمجھایاسرکار کے سامنے پہنچ کر یوں اور یوں عرض کروں گا،اِس اِس طرح اپنی صفائی پیش کروں گا،لب ولہجہ کیا ہوگا،الفاظ کیا ہو ں گے ،سوچتا رہا ،تولتا رہا،اور چلتا رہا ۔محبتوں کے جلو میں آ گے بڑھتا رہا،قلب و دماغ کو حا ضر رکھتے ہوئے ،جما ل یار کوآنکھوں میں سجائے ہوئے جالیوں کی طرف بڑھتا رہا۔ہم نے اپنے محبوب کے حضورسلام عقیدت پیش کرنا تھا،سلام محبت عرض کرنا تھا۔وہ چہرے بھی ہمارے سامنے تھے جن کے سلاموں کا میں امین تھا،وہ دِل گرفتہ عاشق جن کوتڑپتا چھوڑ آیا تھا ،بلا شبہ یاد تھے۔اُن کا سلام بھی آقا کے حضور پیش کرنا تھا۔کتنا فاصلہ ہو گا۔چند گز کانہیں یہ تو صدیوں کا فاصلہ تھااورمنٹوں میں طے ہو گیا۔لیکن یہ کیا ہوا،میں تومحبوب سے کوئی بات ہی نہ کر سکا ،اُن کو ایک نظر دیکھ ہی نہ سکااور باہر کرد یا گیا۔حتیٰ کہ شرمندگی اور جھجک سے میں تو جالیوں میں سے جھانک بھی نہ سکا......!میری نظر اُٹھ ہی نہ سکی .........اور سفر ختم ہوگیا۔ہماری جھولی میں،چند آنسووں چند ہچکیوں اور چند آہوں کے سوا کچھ بھی نہ بچا تھا۔ہم گناہ گاروں کو اُس محبوب جہاں کی جھلک نظر آ ہی کیسے سکتی تھی۔جمال یار کی تاب ہی کہاں تھی اس گناہ گارکو۔ہمارے لیے تو بس یہی غنیمت تھا کہ ہم درِ محبوب پر تھے۔یہ نعمت کیا کم تھی کہ اُس نے اپنے دروازے تک آنے کی اجازت عنایت فرمائی تھی۔اوراپنی گلی میں سے ،بالکل اپنے دروازے کے سامنے سے گزر جانے کی اجازت عطا کی تھی اور ہم خاموشی سے گزر گئے۔

۳

 الف۔ زبان محبوب

لمحہ دِلربا:

            میری زندگی کا وہ لمحہ سب سے قیمتی اور دِل ربا تھا جب مجھے ،مسجد نبوی میں ایک بزرگ اور صاحب علم ہستی،محترمی پروفیسر ڈاکٹر ف۔عبدالرحیم سے عربی زبان کا درس لینے کی سعادت حا صل ہوئی تھی۔محترمی ڈاکٹر صاحب سے تعارف اوراس لمحہ دل رباکی کہانی اور تفصیل بڑی دل چسپ اور لذت آمیز ہے۔وہ مسجد نبوی ،جہاں کبھی صحابہ کرام،اہل صفہ ،اور دیگرعلاقوں سے آمدہ لوگ ،پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کا درس لیا کرتے تھے،آج یہ گناہ گاراور جاہل ،وہیں عربی زبان کا درس لینے کی سعادت حاصل کر رہا تھا۔اس سعادت کے حصول کا یہ موقع کن مراحل کے بعد حاصل ہوا،اُپ کو سناتا ہوں،مجبور ہوں کہ مجھے اس کہانی کے سنانے سے لذت ملتی ہے۔جس زبان کا تذکرہ ہے ،آپ کو معلوم ہے کہ اُس کی نسبت کس کے ساتھ ہے۔قرآن کی زبان عربی ،دین کی زبان عربی،پاک پیغمبر ،فخر ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان عربی،جنت کی زبان عربی،تو اتنی نسبتیں رکھنے والی زبان سے محبت نہ ہو تو کیا ہو۔؟عربی زبان میرا عشق ہے لیکن افسوس ہے کہ عشق کایہ روگ ،اِس فقیر کواُس وقت لا حق ہوا جب بندہ اپنی عمرکی نصف سینچری مکمل کر چکا تھااورقویٰ مضمحل اور ذہن ناکارہ اور صلاحتیں جواب دیتی جارہی تھیں۔اس پر مستزاد یہ کہ،ابھی بھی پیشہ ورانہ مصروفیت اور کار کنبہ پروری میں وقت کا تمام تر حصہ صرف ہو جاتا ہے اورجو تھوڑا سا وقت بچ رہتا ہے وہ بڑھاپے کے اِس عشق کی نذر کرتا ہوں۔عربی زبان کے سیکھنے کا شوق تو بہت پرانا تھا لیکن گوناں گوں عوامل کے باعث کبھی اس پر وقت صرف نہ کر سکا۔کئی بارخود سے کوشش کی،مختلف کتابوں کی مدد سے سیکھنے کی اور کئی بار مختلف علما کرام سے مدد لینے کا منصوبہ بھی بنایا ،لیکن کار جہاں اتنا دراز تھاکہ تمام تر کوششیں ناکام رہیں اور آ خر موقع ملا بھی تو کب ،جب بڑھاپا شروع ہو چکا ہے ،کلینک میں مصروفیت بڑھ چکی ہے اور فیملی کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔زمانہ طالب علمی میں ،جب آپ سائنس کے طالب علم ہوں اور پھر میڈ یکل کی تعلیم میں ہوں توکسی دوسرے شوق کو پورا کرنے کا وقت ہی کہاں بچتا ہے۔ اس لیے وہ جو حصول علم کا اصل دور تھا ،ہم عربی زبان کی تحصیل سے محروم ہی رہے۔زمانہ طالب علمی میں گویا ،ہماری توانائیوں کا مر کزشعبہ طب ہی رہا۔پھر جب عملی زندگی میں آئے اور پرائیویٹ میڈیکل پریکٹس کو اختیار کیا،تو کسی اور کام میں دلچسپی لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ہمارا پیشہ جس لگن،اخلاص اور وقت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کا تقاضا کرتا ہے اُس کی موجودگی میں ،اس پیشے سے متعلق کسی علمی سرگرمی سے ہٹ کر ،کوئی دوسری علمی سرگرمی میں پڑنا ،بالکل نا ممکنات میں سے نہ سہی مشکل ترین امر ضرور ہے ،لہٰذا ہم بھی اسی کام میں جتے رہے اور یہ کام کرتے کرتے بیس سال بیت گئے اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور ہم عربی سے نا بلد ہی رہے۔

 عشق کی چنگاری:

            لیکن ،اس عالم مصروفیت میں بھی ،عربی زبان سے عشق کی چنگاری ،بہر حال ،کہیں نہ کہیں موجود رہی۔یہ چنگاری شعلہ نہ بن سکی ،اس کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ وہ ہے ، دین کے علوم کا اردو زبان میں موجود ہونا۔عربی زبان سے اصل لگاؤ تو اس لیے تھا نا کہ اس میں ہمارے دین کا علم تھا۔لیکن اہل علم حضرات کا اللہ بھلا کرے ،انھوں نے ہمارے ایسے جدید تعلیم یافتہ لوگوں پر یہ احسان کیا کہ دینی علوم کو اردو میں منتقل کر دیا۔اُن کے اس عظیم الشان کام کے نتیجے میں ،ہم ایک حد تک عربی زبان سے بے نیازہو گئے،لیکن عشق تو بہر حال عشق ہی ہوتا ہے۔اردو زبان،حقیقت یہ ہے کہ دینی علوم کے اعتبار سے ایک richزبان ہے۔جن علمائے کرام نے اس زبان میں دینی علوم کو منتقل کیا ،اُن میں سر فہرست ،سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور ندوی علماہیں۔

پروفیسر حافظ ظہور الحسن:

            عربی زبان کے اس سفر میں سب سے زیادہ رہنمائی ،جس ہستی سے حا صل ہوئی وہ محترمی پروفیسر ظہور الحسن ہیں۔آپ کا تعلق گجرات سے ہے۔رشتے میں آپ ہمارے چچا سسر ہیں لیکن ہمارا اصل تعلق استاد اور شاگرد کا ہے۔اُن سے رشتہ داری کے مذکورہ تعلق کو قائم ہوئے اگر چہ اٹھارہ انیس سال ہو چکے تھے لیکن عربی زبان کے حوالے سے،اُن سے ہماری کوئی شناسائی نہ تھی۔اُن کی شاگردی اختیار کرنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔محترم غامدی صاحب کی تحریروں سے متاثر ہو کر ،جب ہم نے عربی پڑھنے کا فیصلہ کر لیا ،تو سب سے پہلے ،اپنے قصبے میں موجودعربی جاننے والی شخصیات کا جائزہ لیا تو یہ فیصلہ کیا کہ شہر میں موجود واحد دینی مدرسے کے استاد حضرت مولانا ،صاحبزادہ رضا المصطفیٰ مد ظلہ عالی کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کیا جائے لیکن اس میں مسلکی اختلاف ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ہم چونکہ جماعت اسلامی میں تھے تو شہر میں ہماری شناخت ،ہمارے نہ چاہنے کے با وجود،وہابی کی حیثیت سے ہوتی تھی اور یہ حضرت بریلوی مکتبہ فکرسے تعلق رکھتے تھے۔آپ کو معلوم ہے کہ وطن عزیز میں فرقہ بندی کی جو لعنت ہے اور ہماری قوم جس بری طرح مذہبی گروہ بندی میں پھنس چکی ہے ،اُس کے باعث امت کے اندر کس کس قسم کی تفریقیں پیدا نہیں کر دی گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ معاف کرے،فرقہ پرست لوگ ،ایک دوسرے کے ہاں پانی تک پینے کے روا دار نہیں ہیں کجا کہ ان کے ہاں سے تعلیم حا صل کی جائے۔بڑے شہروں میں تو کسی حد تک یہ وبا کم ہے لیکن چھوٹے شہروں اور قصبوں میں فرقہ پرستی اور فرقہ در فرقہ کی لعنت بہت زیادہ ہے۔سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ فرقہ بندی کی بنیاد پر تقسیم کی یہ لعنت انھی معدودے چندلوگوں میں ہے جو مسجدوں میں آتے جاتے ہیں۔معاشرے کی بڑی اکثریت ،چونکہ مساجد سے دور ہے اس لیے وہ اس لعنت سے بھی دور ہے۔بہر حال فرقہ بندی کے اس ماحول میں، جب ہم نے حضرت رضا المصطفیٰ صاحب سے عربی پڑھنے کی درخواست کی،تو پہلے تو وہ بھی بہت حیران ہوئے اور ذرا دیر کو جھجکے لیکن انھوں نے کمال مہربانی سے ہمیں وقت عنایت کرہی دیا۔اُن کے پاس،تعلیم و تدریس کا، روٹین کا جو وقت تھا وہ ہمارے کلینک کا تھا اور جب ہم فارغ تھے تو وہ ان کی ذاتی مصروفیات کا وقت تھا۔یہ اُن کی بڑی عظمت اور علم دوستی کا ثبوت ہے کہ انھوں نے اپنے آرام کے وقت میں سے خاکسار کو وقت دینے کی حا می بھر لی اوریوں قریباً ۵۰ سال کی عمر میں ہم نے عربی سیکھنا شروع کر دی اور شروع میں ہی اندازہ ہو گیا کہ بڑی دیر کر دی مہر بان آتے آتے ۔ہمارے اس قدم سے ،ہمارے مذہبی احباب کے حلقے میں بے چینی پھیل گئی۔یہ ان ہونی بات تھی کہ ایک ‘‘وہابی لیڈر’’ کسی بریلوی مولوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرے،ادھر حضرت استاد کو بھی اپنے حلقے کی طرف سے اس اجازت پر مشکلات کا سامنا تھا۔غرض دونوں طرف کے مذہبی فرقہ پرستوں نے اپنی اپنی جگہ پر اس کا برا منایا اور اس سلسلے کو ختم کرنے کی کاوشیں کرنے لگے۔ ان کی کاوشیں تو ناکام ہو گئیں لیکن ہمارا یہ سلسلہ تعلیم بھی زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔اس کی وجہ یہ بنی کہ ہمیں اپنی چند خاندانی مجبوریوں کے باعث، اپنی رہائش گجرات منتقل کرنا پڑی۔کلنک تو ڈنگہ ہی میں تھا لیکن رہائش گجرات میں تھی۔روزانہ ڈیڑھ دو گھنٹے آنے جانے میں لگتے تھے۔ کچھ دیر تو یہ سلسلہ رک گیا لیکن عربی زبان سے اب جو تعلق بن گیا تھا وہ اُکساتا رہتا تھا کہ کوئی راستہ نکالا جائے اور پھر اللہ کریم نے یہ راستہ نکال دیا۔انھی دنوں جب پہلی بارہمیں عمرے پر جانے کی سعادت حاصل ہوئی ،تو ہماری دعاؤں کا ایک بڑا حصہ اس بات پر مشتمل تھا کہ ‘‘اے مولا کریم !اس عاجز کو اپنے محبوب کی زبان سکھلا دے۔انھی حالات کے اندر سے ہی ہمارے لیے تحصیل علم کا کوئی راستہ نکال دے۔’’اور پھر میرے رحیم آقا عز و جل نے یہ راستہ نکال دیا اور ہمیں استاد محترم جناب حافظ ظہور الحسن صاحب کے قدموں میں لا کر ڈال دیا۔حافظ ظہور الحسن صاحب عربی زبان کے ریٹائر پروفیسر ہیں۔ ۱۹۵۵ میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا اور یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا۔ پنجاب کے مختلف کالجوں میں عربی زبان کے استاد رہے۔دوسال خرطوم یونیورسٹی سوڈان میں رہے اور وہاں سے عربی زبان میں اسپیشلائزیشن کی۔دوران ملازمت وہ مختلف شہروں میں رہے اور ریٹائر منٹ کے بعد گجرات جو کہ ان کا آبائی شہر تھا،میں سکونت پذیرہو گئے۔ادھر ہم بھی،چند سال بعد، گجرات شفٹ ہو گئے۔ایک دِن اچانک مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ پروفیسر صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ بندہ کو عربی پڑھنے میں مدد دیں۔اُن کے بڑھاپے کی عمر اورگرتی ہوئی صحت کے باعث ،جھجک رہا تھا لیکن آخر نہ رہا گیا اور ایک دِن میں اُن کے پاس حا ضر ہوہی گیا اور عرض کی کہ میں آپ سے عربی پڑھنا چاہتا ہوں لیکن پڑھوں گا میں اپنی شرائط پر۔وہ بڑے نرم مزاج اورہمدرد ہیں۔اُن کی طبیعت میں لطافت ،ظرافت اور ہر ایک کے لیے چاہت پائی جاتی ہے۔میری بات سن کر خوب ہنسے کہ کیسا شاگرد ہے جواپنی شرائط پر شاگردی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ میں نے یہ بات اس لیے کی تھی کہ پرانے طرز تعلیم سے ڈرتا تھا اور اب تک کی گئی ناکام کوششوں کے پیچھے ایک عامل ہمارے پرانے بزرگوں کا طرزِ تعلیم بھی تھا۔پچھلے ایک دوسالوں کے تجربے سے میں یہ جان گیا تھا کہ کہاں سے شروع کیا جائے اور کیسے میں اس منزل تک پہنچ سکتا ہوں اور مجھے کس قسم کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اُن دِنوں بندہ‘‘ آسان عربی ’’نامی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا اور خواہش تھی کہ اس کی مشقیں کسی صاحب علم کو دکھائی جائیں اور اس کے اسباق کسی استاد کی نگرانی میں پڑھے جائیں۔حقیقت یہ ہے کہ زبان محبوب سے،مولانا رضا المصطفیٰ صاحب سے رشتہ شاگردی ٹوٹنے کے بعد، اصل دلچسپی اس کتاب سے پیدا ہوئی۔بہت سہل اندازمیں اسے مرتب کیا گیا ہے ۔اس سے قبل بندہ کا یہی ذہن تھا کہ عربی ایک مشکل زبان ہے اور جسے ایک بڑی مشقت کے بعد ہی پڑھا جا سکتا ہے لیکن اس کتاب نے اس تصورکو پاش پاش کر دیا۔یہ کتاب محترم لطف ا لرحمان خان صاحب نے لکھی ہے اور مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور نے چھاپی ہے ۔بہر حال ہماری تعلیم شروع ہو گئی۔آسان عربی کے تینوں حصے،اُن سے پڑھے،قرآن مجید کے بیس پاروں کا ترجمہ سیکھا۔سیرت کی کتاب ‘‘الرحیق المختوم ’’عربی والی پڑھی۔ایف اے، بی اے کی عربی کی کتابیں اور ایک آدھ ایم اے عربی کی کتاب بھی پڑھی یہ بس محض پڑھنا تھا ۔اس سے زیادہ میرے پاس وقت ہی نہ تھا ۔یہ ایک ایسی پڑھائی تھی جس میں نہ کوئی ہوم ورک تھا اور نہ کوئی امتحان نہ حا ضری رجسٹر تھا اور نہ کوئی ٹائم ٹیبل ۔کئی کئی دِن میں جاہی نہیں پاتا تھا۔جب چاہتا،چلا جاتا جب چاہتا چھٹی کر لیتا،انھوں نے کبھی برا نہ منایا ۔رات کو جاؤں یا دِن کو ،وہ ہر وقت مجھے پڑھانے کے لیے تیار ہوتے۔ہمیشہ خندہ رو اور کشادہ پیشانی سے ملتے۔طبیعت میں نرمی اور مزاج میں خاکساری کے ساتھ ساتھ اللہ کریم نے انھیں جس طرح علم سے نوازا ہے ،وہ قابل رشک ہے۔زبان پر انھیں جس طرح عبور حاصل ہے اور ستر اسی سال کی عمر میں جس طرح اُن کا حافظہ کام کرتا ہے اور جس طرح زبان پر اور قرآنی گرائمر پر انھیں دسترس حا صل ہے اور جس طرح اُن کا علم مستحضر ہے ،وہ قابل رشک اور نا قا بل بیان ہے۔حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایسی شخصیت اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔مجھے رہ رہ کر اپنے آپ پر غصہ آتا تھا کہ اس چشمہ فیض کے اتنا قریب رہ کر بھی پہلے کیوں نہ استفادہ کر سکا ۔کچھ دیرتک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن ایک بار پھرہمارے مقدر کی سختی سامنے آئی اور ہماری عربی کی تعلیم جب، بمشکل ایک راستے پر چل نکلی تھی اور اُمید ہو چلی تھی کہ ہم اپنا ٹارگٹ achieveکر سکیں گے، ہمیں اپنی رہائش کو،ایک بار پھر واپس اپنے قصبے میں منتقل کرنا پڑا،جس سے چچا جان سے ہمارا رشتہ شاگردی کٹ گیا۔

ڈاکٹر ف۔ عبدالرحیم:

            حالات ایک بار پھر بدل گئے لیکن ہماراسفر جاری تھا۔اب self studyمیں آسانی ہو چکی تھی۔راستہ بن چکا تھا۔جہاں کہیں عربی پڑھانے کی کوئی کتاب دیکھتا ،خرید لاتا۔اسی تلاش و جستجو میں ،دارالسلام لاہور کے شو روم میں عربی سکھلانے کی ایک کتاب دیکھی جس کا نام تھا ‘‘دروس اللغۃ العربیہ’’ مصنفہ ڈاکٹر ف۔عبدالرحیم،تین حصوں میں یہ کتا ب تھی،بہت خو بصورت پرنٹنگ ،نہایت اعلیٰ کاغذ اور نفیس جلد،خرید لی،گھر آکر مطالعہ کیا تویہ اپنے مو ضوع کے اعتبارسے نہایت اعلیٰ کتاب ثابت ہوئی۔اپنے ظاہری حسن سے کہیں زیادہ معنوی حسن سے مالا مال کتاب تھی۔جلد ہی دو حصے پڑھ ڈالے۔کتاب کی تفہیم کے لیے انگریزی زبان میں keyبھی موجود تھی،جس سے بے پناہ فائدہ حاصل ہوا۔عربی گرائمر کو،جسے ہمارے ہاں کے دینی مدارس میں ادق ترین،خشک ترین اور بور ترین مضمون سمجھا جاتا ہے،جس دلچسپ ،آسان فہم اور سادہ طریقے سے اس کتاب میں سمجھایا گیا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں، اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے پاکستان میں چھپنے والی عربی گرائمر کو سمجھانے والی ہر ایک کتاب خرید رکھی ہے اور دیکھ رکھی ہے۔جب تیسرا حصہ شروع کیا ،تو دِل نے چاہا کہ اس کتاب کے محترم مصنف سے رابطہ کیا جائے۔اس کے لیے بندہ نے، لاہور ،اس کتاب کے ناشر ادارے سے رابطہ کیا لیکن وہ لوگ مجھے مصنف محترم کا رابطہ نمبر فراہم نہ کر سکے۔اس تگ و دو میں ،مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ آں جناب مدینہ طیبہ میں قیام پذیر ہیں۔مدینہ طیبہ میں دارالسلام کی شاخ میں فون کیا ،کئی دِنوں کے بعد ،وہ بھی مجھے محترمی ڈاکٹر ف عبدالرحیم کا رابطہ نمبر دینے سے قاصر رہے۔مدینہ طیبہ میں موجود ایک دوست پروفیسر خواجہ جنید سے عرض کی کہ وہ آں جناب کا پتا معلوم کریں۔بحرین میں موجود ایک دوست کے ذمہ بھی لگایا لیکن کام نہ بن سکا۔یوں ہی ایک دِ ن خیال آیا کہ کتاب کے ناشر ادارے ،دارالسلام کے، ،ریاض میں موجود، ہیڈ آفس فون کیا جائے ۔کتاب میں ہی ادارے کا فون موجود تھا،فون کیااورمیری خوش قسمتی ،کہ وہاں سے بندہ کو نمبر مل گیا۔میری خوشی کی انتہا نہ رہی، جب میں نے پہلی بار محترمی ڈاکٹر صاحب سے فون پر بات کی۔ وہ کمال مہربانی سے ،بڑی شفقت سے پیش آئے اور میرے سفر کی مختصر کہانی سن کر خوش ہوئے اور ڈھیرساری دعاؤں سے نوازا اب جب عمرے کا پروگرام بنا تومیں نے اُنھیں اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور ملاقات کا شرف بخشنے کی درخواست کی جو انھوں نے بخوشی قبول کر لی ۔ پروگرام کے مطابق بندہ جس دِن مدینہ طیبہ پہنچا ،اُسی دِن فون کر کے اگلے دِن ہی ملاقات کا وقت طے کر لیا۔مسجد نبوی کے اندر،قبل از نماز مغرب اُن سے ملاقات طے تھی اور میں سارادِن انتظار کرتا رہا۔موبائل فون نے،آجکل کسی کو لوکیٹ کرنے کے کام کو نہایت آسان بنا دیاہے۔روزانہ آپ کو اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہوگا لیکن آج اس ایجاد نے اس عاجزکے لیے جتنی آسانی فراہم کی محترم ڈاکٹر صاحب سے ملاقات میں ،سچی بات ہے سائنس کی اس ایجاد کا مزا ہی آ گیا۔ انتظار کے ایک ایک لمحے اور ملاقات کے ایک ایک جزو کی تفصیل بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن سوچتا ہو ں کہ میرے اس ذاتی لطف ولذت سے قاری کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔نماز مغرب سے قبل ملاقات ہو گئی۔نماز کے بعد،عشا تک ہم مسجد نبوی کے اندر ہی بیٹھے رہے ،باہمی تعارف اور عربی زبان اور اسے سیکھنے کے رموزہی ہمارا موضوع گفتگو رہا۔آپ کا تعلق انڈیا سے ہے ۔ابتدائی تعلیم سے لے کر انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کرنے تک کی تعلیم انڈیا میں ہی پائی۔پھرازہر یونیورسٹی مصر سے عربی زبان کی تعلیم حا صل کی۔پچھلے چالیس سالوں سے مدینہ طیبہ میں ہیں۔کئی سال تک مدینہ یونیورسٹی میں عربی زبا ن پڑھاتے رہے اور آجکل شاہ فہد قرآن کمپلیکس مدینہ میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

            مدینہ طیبہ میں ہمارے حالیہ قیام کا حا صل انھی بزرگ اور صاحب علم و عمل ہستی سے یادگار ملاقاتیں ہیں۔وقت بہت کم تھا،مسجد نبوی میں نمازیں اور دراقدس صلی اللہ علیہ وسلم پرروزانہ کی حا ضری اور مدینہ منورہ میں موجود تاریخی آثار اور زیارات کے لیے آنا جانا ایسی لازمی مصروفیات سے جو وقت بچ رہتا ،بندہ کی خواہش ہوتی کہ وہ محترمی ڈاکٹر صاحب کی صحبت میں گزارا جائے،لیکن بہر حال اس میں ،اُ ن کی طرف سے بھی کئی چیزیں حا ئل تھی ،مثلاً ،ڈاکٹر صاحب کی بڑھی ہوئی عمراور کمزور صحت،اُن کی ملازمت کی مصروفیات اور حرم سے خا صی دور ،اُن کی رہائش کا ہونا وغیر وغیرہ،پھر بھی میں دِل کی گہرایؤں سے محترم ڈاکٹر صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں میرے ایسے بالکل اجنبی اور علمی اعتبارسے بالکل تہی دامن آدمی کے لیے اتنا زیادہ وقت نکالا اور راہنمائی فرمائی۔یہ سب کچھ عربی زبان کی نسبت تھی جس کے وہ ایک عالم تھے اور میں ایک طالب علم۔یہ سب کچھ اُن کی علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔اللہ کریم انھیں جزائے خیر عنایت فرمائیں۔

ب۔ شاہ فہد قرآن کمپلیکس

            قرآن مجید ،بلا شبہ ایک معجزہ ہے۔دنیا کی واحد مذہبی کتاب ہے جس کے بارے میں آج بھی پورے یقین سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ذلک الکتاب لا ریب فیہ یعنی یہ وہ کتاب ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔یہ ایک معجزہ ہے کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے با وجود ،اس کے متن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکی۔ہر دور میں ،اس کے دشمنوں نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ وہ اس کے متن کو تبدیل کر کے رائج کر سکیں یا اسی سطح کی کوئی اور کتاب تیار کر سکیں ،لیکن انھیں ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔اس کی وجہ اللہ کریم کا وہ اعلان ہے کہ یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے اور ہم ہی اس کی حفا ظت کریں گے یعنی اس کو دست برد ِ زمانہ اورتحریف و تغیر سے بچانا ہمارا ہی کام ہے ،انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون ۔(الحجر:۹) اللہ کریم یہ کام کس طرح انجام دیتے ہیں،ہمارے لیے جاننا ممکن نہیں۔ظاہر ہے متن کی حفاظت کے اس خدائی نظام کی تمام تر حقیقت کو جاننا ہمارے بس کی بات نہیں ہے لیکن بعض امورایسے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اللہ کریم کس طرح اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے انتظام فرما رہے ہیں۔ انھی خدائی حفاظتی امور میں ایک عظیم الشان کام مدینہ منورہ میں وہ فیکٹری بھی ہے جہاں قرآن مجید چھاپا جا تا ہے۔یہ صرف چھاپہ خانہ ہی نہیں بلکہ کتاب اللہ کی خدمت اور کتاب اللہ سے سعودی حکمرانوں کی محبت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ہماری نظر میں یہ ایک معجزہ ہے۔ اگرچہ اس منصوبے کے تخیل سے لے کر اس کی تکمیل اور پیداوار دینے تک میں انسانی ذہن اور انسانی کاوشیں اور انسانی وسائل ہی کارفرما نظر آتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کریم کی خا ص مہربانی سے ہی وجود میں آیا ہے۔ بلاشبہ ،قرآن مجید کی حفاظت،اس کی طباعت و اشاعت اور اس کے علوم کی تشریح وتعلیم کے لیے،ہمیشہ سے امت نے اپنے بہترین دماغ اور اپنے بہترین وسائل وقف کیے رکھے ہیں،لیکن آج کے اس جدید سائنسی دور میں ،خدمت قرآن کا جو سلسلہ سعوی حکمرانوں کے زیر نگرانی انجام دیا جا رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ محترم استاد ڈاکٹر ف۔عبدالرحیم کی دعوت پر،ہم قرآن کمپلیکس میں حاضر ہوئے۔مدینہ منورہ میں ،تبوک روڈ پر واقع ،اس ادارے کا پورا نام،مجمع الملک فھدلطباعۃالمصحف الشرف مدینہ منورہ(king Fahd quraan karim printing complex)ہے۔اس کی بنیاد ۱۶۔محرم ۱۴۰۳ھ (۱۹۸۲)کو خود شاہ فہد نے رکھی تھی۔اس ادارے کا مقصد قرآن مجید کی اعلیٰ پیمانے اور خوبصورت طریقے سے طباعت اور پوری دنیا میں اس کی اشاعت ہے۔یہ عظیم ادارہ جہاں قرآن مجید کی بے پناہ خدمت کر رہا ہے وہاں یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی بھی خدمت کر رہا ہے۔ہم جب اس کمپلیکس کے وسیع و عریض احا طے میں دا خل ہوئے تو میرے ذہن میں فوری طور پر صحابہ کرام کی وہ کاوشیں تازہ ہو گئیں جو انھوں نے قرآن مجید کی حفا ظت کے لیے سر انجام دی تھیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے تشریف لے گئے تو ،جہاں انھوں نے قرآن مجید کے ہزاروں حفاظ اور ماہرین شرح وتفسیر چھوڑے وہیں آپ ﷺ نے مکمل تحریری شکل میں بھی قرآن مجید کو امت کے حوالے کیا۔حضور اکرم ﷺ کے بعد ،سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خصوصی طور پر قرآن مجید کی لکھائی پر توجہ دی اور اس کے متن کی صحیح منتقلی کو یقینی بنایا ۔ان کے بعد ،سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے حکومتی وسائل کو اس مقصد کے لیے وقف کیے رکھا۔ان کے بعد ،سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو قرآن مجید کی طباعت و اشاعت کے لیے وہ کارنامہ سر انجام دیاکہ قیامت تک کے لیے امت نے انھیں ‘‘جامع القرآن ’’کے لقب سے نواز دیا۔انھوں نے بھی اپنے فاضل پیش رووں کی طرح ،اپنے حکومتی وسائل کو طباعت و اشاعت قرآن کے لیے وقف فرمایا تھا ،لیکن ان کا اصل کارنامہ ،جس پر انھیں جامع القرآن کہا گیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنی پوری حکومتی طاقت سے اس بات کو یقینی بنایا کہ امت میں صرف ایک ہی متن رائج ہونے پائے اس لیے انھوں نے متن میں موجود اس دور کے بعض چھوٹے موٹے اختلافا ت کوبھی بالکل ختم کروا دیا اور پوری ریاست میں ایک ہی مصدقہ قرآن مجید رائج فرمایا جو آج تک امت کے ہاتھوں میں ہے اور اللہ کریم کے فضل وکرم سے قیامت تک باقی رہے گا۔ ‘‘بڑی خو بصورت عمارت ہے ۔’’برادرم حا فظ صاحب نے کہا جو کہ میرے ساتھ تھے۔‘‘ہاں بالکل’’ میں نے عرض کی ،‘‘اس بلڈنگ کے اندر جو کام ہو رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خوبصورت اور عظیم الشان ہے۔’’حافظ صاحب کہنے لگے ،‘‘یہاں پر قرآن مجید کے ترجمے کا کام بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوتا ہے۔’’حا فظ صاحب کی اس بات کی تائید استاد محترم ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب نے فرمائی،جب ہم کچھ دیر بعد اُن کے پاس پہنچے۔‘‘وہ کہنے لگے کہ خدمت قرآنی کی سب سے اعلیٰ شکل اس کا ترجمہ ہے۔دنیا کی کم و بیش ۲۸ زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ ہو چکا ہے اور وہ یہاں سے چھپ چکا ہے۔ اس میں ،اردو ،انگریزی ،ہندی ،فارسی، پشتو،بنگالی،ترکی اور ہسپانوی شامل ہیں۔’’میں نے اُن سے پوچھا کہ ‘‘وہ کس criteriaاور کس معیارپر کسی ترجمے کو اختیار کرتے اور چھاپتے ہیں؟’’ انھوں نے کہا ،‘‘کہ یہ واقعی بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔یہاں پر ترجمہ کے لیے علما کرام کاایک بورڈ بنایا گیا ہے جس میں مختلف زبانوں کے ماہرین شامل ہیں۔جب بھی کسی زبان میں ترجمہ چھاپنا مقصود ہو تا ہے تو پہلے ہم یہ معلوم کرتے ہیں کہ آیا اس زبان میں پہلے سے کوئی ترجمہ موجود ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اسے مہیا کرکے بورڈ میں زیر بحث لاتے ہیں ،اگر وہ ہمارے معیار کے مطابق ہو تا ہے تو پھر اُسے اختیار کر لیا جاتا ہے اور اگر معاملہ بر عکس ہوتو ،پھر ہم باقاعدہ ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق ،اُس زبان کے اور عربی زبان کے ماہرین تلاش کرتے ہیں اور ان سے ترجمہ کرواتے ہیں۔’’انھوں نے مختصر وقت میں ،غیر رسمی طور پر ،ہمیں مختلف زبانوں کے تراجم میں کئی اختلافات کی مثالیں بیان فرمائیں اور اپنے ادارے میں ہونے والے کام کا تعارف کروایا۔اس ادارے میں ،قرآن مجید کی طباعت کے لیے کاغذ بھی خود تیار کیا جاتا ہے۔یہ ادارہ سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور کی نگرانی میں ایک بڑی رقم کے بجٹ سے چلتا ہے۔اس میں سالانہ دس ملین نسخہ جات چھپتے ہیں جو دنیا کے کونے کونے میں پہنچائے جاتے ہیں۔ اس ادارے میں آنے والے ہر زائر کو ایک ایک نسخہ بطور ہدیہ عنایت کیا جاتا ہے۔ہمیں بھی اس سعادت سے بہرہ ور کیا گیا اور ہماری فرمائش پر اردو ترجمے اور تفسیر والا نسخہ عطاکیا گیا۔ملاقات کے اختتام پر ،محترمی ڈاکٹر صاحب نے ،اپنی دیگر کتب ،اورمذکورہ کتاب کے اسباق کے لیکچرز پر مشتمل کیسٹس بھی خاکسار کو ہدیہ فرمائیں۔ ( جاری ہے )