نیٹ سائنس

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : جنوری 2010

معاشرتی رشتے اور درد میں کمی

impact lat dot com نامی ویب سائیٹ پر دئے گئے ایک حالیہ مطالعاتی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ تکلیف کی حالت میں کسی ایسے شخص کا ہاتھ پکڑنے سے، جسے آپ بہت چاہتے ہوں، درد کم ہوجاتا ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین نفسیات کے زیر اہتمام ہونے والے اس مطالعاتی جائزے میں کہا گیا ہے کہ درد کی شدت کم کرنے میں کسی دوسرے شخص کی موجودگی یا اس کے تصور کا اثر مردوں کی نسبت خواتین پر زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اثر بظاہر اس مسکن آور دوا جیسا ہوتا ہے جو انسان کے اعصاب کو سکون اور اسے تکلیف کی کیفیت سے باہر نکالنے میں مدد دیتی ہے۔

25 رضاکاروں پر کی جانے والی اس تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ درد کی شدت میں کسی ایسے شخص کی تصویر دیکھنے سے بھی تکلیف میں کمی آجاتی ہے جسے آپ بہت پسند کرتے ہوں۔ جریدے ‘ سائیکلاجیکل سائنس ’ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تحقیق سے معاشرتی رشتوں کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اوریہ پتاچلتا ہے کہ معاشرتی قربتیں انسان کے لیے فائدہ مند ہیں۔ ماہرین نے اس مطالعاتی جائزے کے لیے جن 25 رضاکاروں کا انتخاب کیا تھا، ان میں سے اکثر نوجوان طالب علم تھے اورکم از کم چھ مہینوں سے ان کے اپنے دوست یا جیون ساتھی کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم تھے۔

تحقیق کے دوران جن لڑکیوں کو دیاسلائی یا کسی لائیٹر وغیرہ سے معمولی طورپر جلنے کے بعد تکلیف ہورہی تھی، جب انہیں بوائے فرینڈ یا جیون ساتھی کی تصویر دکھائی گئی تو ان کی تکلیف میں کمی واقع ہوئی۔ لیکن جب انہوں نے اس شخص کا ہاتھ تھاما جس سے انہیں قلبی لگاؤ تھا، تو ان کی تکلیف نمایاں طورپر کم ہوئی۔ ٹیم کے ایک رکن اور نفسیات کے پروفیسر نومی آئزن برگر کا کہناتھا کہ جب ان خواتین کوجنہیں جلنے سے درد ہورہا تھا، اپنے جیون ساتھی یا بوائے فرینڈز کی تصویر دکھائی گئی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں درد میں افاقہ ہوا ہے لیکن جب انہیں کسی منظر، یا کسی دوسری چیز یا کسی اجنبی کی تصویر دیکھنے کے لیے دی گئی تو ان کی تکلیف میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ معاشرتی رشتے انسان کے اندورنی احساسات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ خاص طورپر جس تعلق کے بارے میں ہم اپنے دل میں اچھی سوچ رکھتے ہیں۔ اور ان کا خیال ہمیں جذباتی طورپر متاثر کرتا ہے اور تکلیف کی کیفیت سے نکلنے میں مدد دیتا ہے۔ دوسرے تجربے میں ان خواتین کو اپنے جبون ساتھی، بوائے فرنیڈ، کسی اجنبی شخص کا ہاتھ پکڑنے اور ایک گیند کو چھونے کے لیے کہا گیا۔ خواتین نے بتایا کہ گیند یا کسی اجنبی مرد کا ہاتھ چھونے سے ان کے تکلیف میں نسبتا ً کم کمی ہوئی۔ پروفیسر آئزن برگر کہتے ہیں کہ اس مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرتی رشتے ان کیفیات پر کیا اثرڈالتے ہیں جن سے ہم گزرتے ہیں اور ان کا ہماری جسمانی اور ذہنی صحت سے گہرا تعلق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تحقیق اس بات کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ بچے کو گود میں لے کر ایک ماں اپنے سارے دکھ درد بھول کر کیوں سکون اور اطمینان محسوس کرتی ہے۔ پروفیسر آئزن برگر کا مشورہ ہے کہ تکلیف یا پریشانی کی حالت میں اگر آپ اس شخصیت کو، جسے آپ بہت چاہتے ہیں، پاس نہیں بلا سکتے تو اس کی تصویر دیکھنے سے بھی آپ کو افاقہ ہوسکتا ہے۔

اور کچھ ایسی ہی بات مرزا غالب آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے اس شعر میں کہہ چکے ہیں۔

ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

ڈیپریشن اوروٹامن ڈی

ہیلتھ ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے ایک نئے مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ دل کے امراض میں مبتلا اور ایک جیسی علامتیں رکھنے والے ایسے مریض جوکافی مقدار میں وٹامن ڈی استعمال نہیں کرتے، ان میں ڈیپریشن کی سطح ان مریضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جو باقاعدگی سے وٹامن ڈی لیتے ہیں۔

وٹامن ڈی کو سورج کی روشنی کا وٹامن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انسانی جسم میں وٹامن ڈی پیدا کرنے کا قدرتی عمل سورج کی روشنی میں ہوتا ہے۔اور مناسب مقدار میں وٹامن ڈی حاصل کرنے کے لیے آپ کو دن میں صرف دس سے پندرہ منٹ تک دھوپ میں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس وٹامن کی موجودگی سے ہڈیاں کیلشیم کو زیادہ بہتر طریقے سے جذب کرسکتی ہیں۔اس لیے وٹامن ڈی کو ملٹی وٹامنز اور دودھ میں بھی شامل کیا جاتا ہے اور یہ قدرتی طورپر مچھلی میں پایا جاتا ہے۔ اسی تحقیقاتی ٹیم کے ایک اور جائزے سے معلوم ہوا کہ 50 سال کی عمر کے ان افرادکو، جن میں وٹامنز ڈی کی کمی ہو، دل کی بیماری اور سٹروک کا زیادہ خطرہ ہوتاہے۔ اور ان میں اپنی عمر کے دوسرے ایسے افراد کی نسبت، جنہیں وٹامن ڈی کی مناسب مقدار دستیاب ہوتی ہے، جلد موت کے منہ میں چلے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ دل کی بیماریوں اور اس سے ملتی جلتی علامات رکھنے والے وہ افراد جنہیں وٹامن ڈی کی مناسب مقدار نہیں ملتی، ان میں ایسے افرادکی نسبت جنہیں ان کی ضرورت کے مطابق مل جاتا ہے، ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ان حالیہ مطالعاتی جائزوں سے وٹامن ڈی کی کمی سے پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں مزید شواہد سامنے آئے ہیں اور ان شواہد سے ڈپریشن اور دل کی بیماریوں کے درمیان کسی ممکن تعلق پر بھی روشنی پڑی ہے۔

سبز چائے سے کینسر کا علاج

کیا سبز چائے کینسر کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں لیکن سائنس دان سبز چائے کو باضابطہ طورپر کینسر کے سدباب کا ایک ذریعہ قراردینے سے فی الحال گزیر کررہے ہیں۔ تاہم کئی سابقہ مطالعاتی جائزوں سمیت حال ہی میں کینسر کی تحقیق سے متعلق امریکی ادارے کے جریدے ‘ کینسر پریونشن ریسرچ’ میں شائع ہونے والے ایک نئے مطالعاتی جائزے سے بھی یہ ظاہر ہوا کہ سبزچائے منہ کے کینسر کے خطرے میں کچھ کمی لاسکتی ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس کے اینڈرسن کینسر سینٹر میں گلے، سراور گردن کے امراض سے متعلق شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر ویسلی کی پاپاڈیمیٹراکوپولو ااور ان کی ٹیم نے41 مریضوں پر تین ماہ تک کیے گئے ایک تجربے میں انہیں روزانہ تین بار 500 ملی گرام/750 ملی گرام یا ایک ہزار ملی گرام تک سبزچائے کا عرق پلایا۔ انہیں معلوم ہوا کہ جن مریضوں کو سب سے زیادہ مقدار میں سبز چائے کا عرق دیا گیا تھا، ان کے مرض کی شدت میں 58.8 فی صد کمی واقع ہوئی۔ اور جن مریضوں کوسبزچائے کے نام پر بے ضر ر نقلی عرق دیا گیا، ان میں یہ شرح 18.2 فی صد تھی۔ اس کے بعدان مریضوں کو 27 مہینوں تک مشاہدے میں رکھا گیا اور مطالعاتی جائزے کی مدت کے اختتام پر تجربے میں شامل 15 مریض منہ کے کینسر میں مبتلا ہوگئے۔ اگرچہ سبز چائے پینے والے اور نہ پینے والے مریضوں، دونوں میں منہ کے کینسر کے پیدا ہونے میں کوئی فرق نہیں تھا، تاہم جن مریضوں نے سبز چائے کا عرق استعمال کیا تھا، ان کے منہ میں کینسر کی رسولی تاخیر سے ظاہر ہوئی۔ اپنی تحقیق کے حوصلہ افزا نتائج کے باوجود ڈاکٹر پاپاڈیمیٹراکوپولو نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم سبز چائے کو کینسر کی روک تھام کا کوئی مصدقہ طریقہ قراردیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک محدود پیمانے کا مطالعاتی جائزہ تھا جس میں مریضوں کی تعداد بہت کم تھی اور انہیں سبز چائے کی جو مقدار دی گئی تھی وہ ایک دن میں آٹھ سے دس پیالیوں کی مقدار کے برابر تھی۔ اس لیے ہم اس محدود پیمانے پرکی جانے والی تحقیق سے سبزچائے کے حفاظتی اثرات کے بارے میں کوئی یقینی دعویٰ نہیں کرسکتے۔ ایموری سکول آف میڈیسن میں کینسر ریسرچ سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر ڈونگ شن نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ یقیناً صحیح سمت کی جانب ایک قدم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کینسر کے بارے میں فکرمند مریضوں کو سبز چائے پینے سے منع نہیں کررہے۔ لیکن وہ یہ ضرور کہیں گے کہ مریض مخص اس خیال سے سبز چائے نہ پیئیں کہ وہ کینسر کے خطرے کو واقعی کم کرسکے گی۔ ڈاکٹر پاپاڈیمیٹراکوپولو کا کہنا ہے کہ کینسر کی روک تھام کے سلسلے میں سبزچائے کے عمل دخل پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے، جن میں ایسے افراد کو شامل کیا جانا چاہیے جو کینسر کے شدید خطرے کا سامنا کررہے ہوں اور انہیں طویل عرصے تک سبزچائے کا عرق پینے کے لیے دیا جائے۔

ماحول دوست عمارت

ایک فرانسیسی انجنیئرنگ کمپنی نے ایک ایسی عمارت تعمیر کی ہے جسے دنیا کی سب سے زیادہ ماحول دوست عمارت کہا جارہاہے۔ اس کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ توانائی کے لحاظ سے نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ اپنی ضرورت سے زیادہ توانائی پیدا کرتی ہے۔اس دس منزلہ عمارت کی تعمیر نے دیر پا توانائی کے حصول کے لیے جاری کوششوں کوایک ٹھوس بنیاد فراہم کردی ہے۔ایلی تھس ٹاور ڈی فرانس کے شہر دی ڑاں کے ایک معروف کاروباری علاقے میں بنایا گیا ہے۔ عمارت کے ایک حصے کو دھات کی ایک سرخ شیلڈ سے ڈھانپا گیا ہے جو اصل میں سورج سے بچانے کی ایک ڈھال ہے۔ ایک معروف اوپرا ہاؤس اور ہوٹل کے درمیان واقع یہ عمارت اپنے گراؤنڈ فلور سے شمسی توانائی کے پینلوں تک، کئی لحاظ سے ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ عمارت ایک ایسے ماحول میں رہنے اور کام کرنے کے تجربے کا موقع فراہم کرے گی جسے جدید اصطلاح میں سبزکہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ہے حفظانِ ِ صحت کے عین مطابق۔فرانکوئس پوچرون، جوعمارت کا نقشہ تیار کرنے والی ایلی تھس انجنیئرنگ کمپنی کے ایک سینیئرمنیجر ہیں، کہتے ہیں کہ عمارت کے ڈیزائن اور تعمیر میں، ہر لحاظ سے توانائی کے استعمال اور دیگر قدرتی عوامل مثلا سورج کی روشنی اور بارش کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ایلی تھس کے ڈائریکٹر جنرل تھیری بیورے کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمارت سرے سے توانائی استعمال ہی نہیں کرتی۔ بیورے کہتے ہیں کہ عمارت میں زیادہ سے زیادہ روشنی داخل ہونے کیلیے دوہری تہہ دار بڑی کھڑکیاں لگائی گئی ہیں۔ چنانچہ روشن دان کے علاوہ ایسے میں بھی، جب آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوں، وہاں کام کرنے والوں کو بجلی جلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔سردیوں میں سورج کی حرارت سے عمارت کو گرم رکھنے کا کام لیا جائے گا، جب کہ گرمیوں میں عمارت پر نصب دھات کی سرخ جھالر اسے ٹھنڈا رکھنے میں مدد دے گی۔ بارش کا پانی عمارت کے غسل خانوں، نکاسی آب اور ایئر کنڈیشنگ سسٹم میں استعمال کیا جائے گا۔ جب عمارت مکمل طورپر اپنے نظام کے مطابق کام کرنے لگے گی تو اس وقت وہ اپنی ضرورت سے زیادہ توانائی پیدا کررہی ہوگی۔بیویرے کہتے ہیں کہ اب ہمارے تجرے کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ عمارت میں کام کرنے والے لوگ توانائی کے استعمال سے متعلق اپنی عادات میں کیا تبدیلیاں لاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عادتیں بدلنے سے ہی توانائی کے بارے میں ٹاور سے متعلق دعوے ثابت ہوسکیں گے۔ اس کے لیے عمارت میں کام کرنے والے والوں کو رات کے وقت اپنے کمپیوٹر بند کرنا ہوں گے، اور کم سے کم حرارت اور روشنی استعمال کرنا ہوگی۔ کمپنی نے اگلے تین سال کے دوران وہاں کام کرنے والے والوں کے طرز عمل پر نظر رکھنے اور راہنمائی کے لیے کئی سماجی ماہرین بھرتی کیے ہیں۔اس عمارت میں اپنے لیے دفتر حاصل کرنے والی ہر کمپنی کو ماحولیات سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کرنا ہوں گے۔ پہلی منزل پر واقع، ریڈیالوجی کے متعلق ایک کمپنی کی سربراہ جین یووس کوباچو ہیں وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک روشن عمارت ہے۔ ہم دن بھر قدرتی روشنی میں کام کرتے ہیں۔ ہم صبح سات بجے اپناکام شروع کرتے ہیں اور رات آٹھ بجے گھر چلے جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے ادارے کے ڈاکٹر ایکس ریز میں کم سطح کی ریڈی ایشن استعمال کرتے ہیں کہ اس کا کم استعمال صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔ دی ڑاں شہر کے میئر فرانکوئس ربسامن کو توقع ہے کہ شہر میں ایسی اور عمارتیں بھی قائم کی جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کم توانائی استعمال کرنے والے سات سو گھروں کے منصوبے پر کام ہورہاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رہائشی کمپلیکس گاڑیوں سے پاک ہوگا اور وہاں رہنے والے اپنے آنے جانے کے لیے پیدل چلیں گے یاسائیکل استعمال کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم 2020 تک گرین ہاؤس گیسوں کے موجودہ اخراج کو ایک چوتھائی تک کم کرنا چاہتے ہیں۔

کائنات کا دور ترین ستارہ دریافت

فلکیات دانوں نے کائنات کے دور ترین اور قدیم ترین مظہر کا سراغ لگایا ہے۔ یہ ایک مرتے ہوئے ہوئے ستارے میں ہونے والا دھماکا ہے جو آج سے 13 ارب سال پہلے کائنات کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد وقوع پذیر ہوا تھا۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس دریافت سے کائنات کے ارتقا کے بارے میں قابلِ قدر معلومات حاصل ہو سکیں گی۔ فلکیات دان کہتے ہیں کہ یہ واقعہ بگ بینگ کے صرف 63 کروڑ سال بعد پیش آیا جس میں دم توڑتے ہوئے ستارے سے توانائی کی گیما شعاعیں خارج ہوئی تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کائنات کی عمر تقریباً 14 ارب سال ہے۔ اس دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کا ‘تاریک دور’ اس سے پہلے لگائے جانے والے اندازوں کی نسبت جلد ختم ہو گیا تھا۔ تاریک دور کائنات کے وجود میں آنے کے فوراً بعد اور بڑے ستاروں کے بننے اور چمکنے سے پہلے کے زمانے کو کہتے ہیں۔ اس دریافت سے قبل سب سے قدیم ستارے کا ریکارڈ شدہ دھماکا حالیہ دریافت سے 20 کروڑ سال بعد ہوا تھا۔ انگلستان کی یونیورسٹی آف لیسٹر کے سائنس دان نیال تنویر اس تحقیق میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مرتے ہوئے ستارے کا یہ دھماکا (جسے سپرنووا کہا جاتا ہے) سائنس دانوں کو وقت میں ماضی کے سفر میں دور تک لے جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جو فلکیات میں نامعلوم خطہ سمجھا جاتا ہے۔ہم نے بڑی حد تک کائنات کا نقشہ تیار کر لیا ہے، اور اب ہم ان منطقوں کے نقشے تیار کر رہے ہیں جن کے بارے میں پہلے کچھ معلوم نہیں تھا۔ تنویر کہتے ہیں کہ اس دریافت سے سائنس دانوں کو آسمان میں ایک مقام مل گیا ہے جہاں خلائی دوربین ہبل کو لگایا جا سکتا ہے اور جہاں سے قدیم کائنات کے بارے میں سراغ مل سکتے ہیں۔ امریکی ماہرِ فلکیات ڈین فریل کہتے ہیں اس ستارے سے روشنی 13 ارب سال کا سفر طے کر کے زمین تک پہنچی ہے۔ اس مشاہدے سے یہ اندازہ ہو گا کہ بگ بینگ کے بعد کس قسم کے کیمیائی مادے خارج ہوئے تھے۔ فریل کا کہنا ہے کہ فلکیات دانوں کے اندازے کے مطابق یہ ابتدائی سپرنووا دھماکے بعد میں ہونے والے سپرنووا سے کہیں زیادہ بڑے اور روشن تر تھے۔ ان کے مشاہدے سے ستاروں کی پہلی نسل اور کہکشاؤں کی تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی اور یہ پتا چلے گا کہ موجودہ ستاروں میں دھاتیں کہاں سے آئیں اور کائنات میں روشنی کیسے بکھری۔ اس دریافت کے بارے میں ممتاز سائنسی جریدے ‘نیچر’ میں دو مضامین شائع ہوئے ہیں۔

بیٹی بڑھاپے میں ہوبہو اپنی ماں جیسی دکھائی دے گی

اگر آپ شادی کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی ہونے والی شریک حیات بڑھاپے میں کیسی دکھائی دے گی توآپ اس کی والدہ کو دیکھ لیں۔مغرب میں رائج اس کہاوت کے بارے میں ایک حالیہ تحقیق کے بعد سائنس دانوں نے اس کی سچائی کی تصدیق کی ہے۔ماہرین کو معلوم ہوا ہے کہ ماؤں اور بیٹیوں کے چہروں کی جلد میں عمر کے بڑھنے کیساتھ ساتھ بالکل ایک جیسی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ماہرین کو ماؤں اور بیٹیوں کے چہروں کی سکیننگ کے بعدپتاچلا کہ ان کی جلد اور خاص طورپر ان کی آنکھوں کے اردگرد کے نازک ٹشوز کے کمزور ہونے اور ان میں موجود لچک میں کمی ایک ہی انداز سے آتی ہے۔ امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں امریکن سوسائٹی آف پلاسٹک سرجنز کی کانفرنس میں پیش کی جانے والے اس ریسرچ کے محققین کا کہنا ہے کہ یہ مشابہت اس وقت سب سے زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے جب بیٹیاں لگ بھگ 35 سال کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں۔کیلی فورنیا کی لوما لنڈا یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹر میتھیو کیمپ اور ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ چہرے پر عمر کے بڑھنے کے اثرات سے متعلق اب تک جو مطالعاتی جائزے کیے گئے تھے ، وہ زیادہ تر مشاہداتی یا غیر سائنسی نوعیت کے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ سائنسی طریقوں سے درحقیقت یہ پہلی بار ثابت ہوا ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کے بڑھاپے کا حقیقی عکس ہوتی ہیں۔اس تحقیق کے لیے ماہرین نے چہرے پر عمر کے بڑھنے کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے 15 سے 90 سال کی عمر کی، ایک جیسی دکھائی دینے والی ماؤں اور بیٹیوں کے 10 گروپس پر تجربات کیے۔ اس تحقیق کے لیے انہوں نے تھری ڈی کمپیوٹر ماڈلنگ اور کمپیوٹر پر چہرے کی تصویر بنانے کے خصوصی سافٹ ویر کا استعمال کیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ماؤں اور بیٹیوں کے چہرے کی جلد کے ڈھیلے پڑنے اور سکڑنے ، خاص طورپر آنکھ کے اردگرد آنے والی تبدیلیوں کا انداز بالکل ایک جیسا تھا۔آنکھ کے اردگرد نرم ٹشوؤں کے تجزیے سے بھی ماہرین کو یہ پتا چلا کہ ان کی لچک میں کمی اور ان کی فربہی کا انداز بھی ایک جیسا تھا۔اپنے حسن کو برقرار رکھنے اور چہرے پر عمر کے اثرات کو چھپانے کے لیے برطانیہ میں کاسمیٹک سرجری کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور وہاں بریسٹ سرجری کے بعد آنکھوں اورپپوٹوں کے گرد جھریوں کی سرجری سب سے عام ہے۔ ماہرین کے کہنا ہے کہ آنکھوں کے اردگرد اور آنکھوں کے نیچے عمر بڑھنے کے اثرات اس لیے ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ عمر میں اضافے کے ساتھ وہاں کی جلد میں لچک کم ہوجاتی ہے اور پٹھے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔اس تحقیق کے نتائج سے اس پرانی کہاوت کی تائید ہوتی ہے کہ بیٹیوں کی شکلیں عمر میں اضافے کے ساتھ اپنی ماؤں جیسی ہوتی چلی جاتی ہیں۔عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں عمر بڑھنے کے اثرات زیادہ واضح طور پر ظاہر ہوجاتے ہیں کیونکہ عورتوں کے چہروں کی جلد عمر بڑھنے کا اثر زیادہ جلدی قبول کرتی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عمر بڑھنے سے ان کے چہروں کی ساخت میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔چہرے کی جلد کے ایک معروف برطانوی سرجن نارمن واٹر ہاؤس کا کہنا ہے کہ خواتین کے چہروں پر عمر اس لیے جلد ظاہر ہوتی ہے کیونکہ عمر میں اضافے کے ساتھ ان کے چہروں کی ساخت بھی بدل جاتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ نوجوانی میں جن خواتین کے چہرے بیضوی شکل کے ہوتے ہیں ، عمر بڑھنے کے ساتھ وہ زیادہ چوکور دکھائی دینے لگتے ہیں جب کہ مردوں کے چہرے ساری عمر چوکور ہی رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خواتین میں مردوں کے مقابلے میں چہروں کی سرجری کروانے کا رجحان زیادہ عام ہے۔کیونکہ سرجری کے ذریعے چہرے پر عمر ظاہر ہونے کے اثرات دور کرنے اور جھریاں ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ (ٹیلی گراف سے ماخوذ)