ازہر درانی
دوسالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں
پچھلے سال بھی ایسی ہی اک
سرد دسمبر کی شب تھی جب
دو سالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا تھا
سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی 
ماہ وسال کے پنکھ لگا کر 
اپنی ایک مخصوص ڈگر پر
اڑتا ہے
دو سالوں کے سنگم پر میں 
بیتی باتیں یاد کروں تو
ڈرتا ہوں
ڈرتا ہوں کہ جانے والے سال کا سورج 
آنے والے سال کے پہلے سورج کو 
اپنے تن کی ساری حدت بخش نہ دے
ڈرتا ہوں کہ
آنے والا موسم بھی
جانے والی زرد رتوں کا عکس نہ ہو
موسم گل کی صورت کے برعکس نہ ہو
صحنِ چمن میں شعلوں ہی کا رقص نہ ہو
سوچ رہا ہوں پچھلے سال اس لمحے 
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر 
کیسے کیسے لوگ شریک ِ محفل تھے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
سوچ رہا ہوں اگلے سال اسی لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر 
جب لکھے گا کوئی نظم تو سوچے گا
پچھلے سال کی آخری نظمیں لکھنے والے 
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
٭٭٭
فاروق اقدس
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
وہی لوگوں سے روٹی کا نوالہ
 چھین لینے کی حریصانہ پراگندہ سیاست
 سیاہ کاروں کے ہاتھوں میں چیختی، سسکتی ہماری ریاست
 جہاں مائیں۔۔۔۔جگر گوشوں کو
 اپنے خون میں ڈوبی ہوئی
 لوری سناتی ہیں
 جہاں پر خواب میں سہمے ہوئے بچوں کی آہیں ڈوب جاتی ہیں
 یہ میرے سامنے سے کیسا موسم جا رہا ہے
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
وہی سہمے ہوئے وعدے
 لہو میں تر دعائیں
 لرزتی کانپتی روتی صدائیں
 عبادت کرنے والوں کو بلاتی ہیں
 بھلائی کی طرف آؤ
 بھلائی کی طرف آؤ
 مگر ایسا نہیں ہوتا
 مگر ایسا نہیں ہوتا
 خدا اور آدمی کے درمیان
 ایک خوف کی دیوار چڑھتی اور بڑھتی جا رہی ہے
 اسی جانب اندھیروں کا سمندر جا رہا ہے
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
میرا قومی خزانہ لوٹنے والوں کے پیچھے ہاتھ کس کا ہے
 اور ایسے لالچی لوگوں کو حاصل ساتھ کس کا ہے
 وطن والوں کی خواہش ہے
 کہ یہ سب لوگ
 رسنِ صبح تک پہنچیں
 یا دارِ شام تک پہنچیں
 یہ جس انجام کے قابل ہیں
 اس انجام تک پہنچیں
 کہ ذلت کی طرف ان کا مقدر جا رہا ہے
 اسے کہنا دسبمر جا رہا ہے
٭٭٭

 

 

امجد اسلام امجد
آخری چند دن دسمبر کے 
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے
ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی
کٹ گیا ہوگا
٭٭٭