مچھر کی تاریخ

مصنف : صابر شاہ

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اکتوبر 2011

            تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ننھے مچھروں نے اپنے دور کے بعض طاقتور ترین انسانوں کو قبر میں پہنچا دیا جبکہ بعض لوگ بستر ہی کے ہو کر رہ گئے ۔ تاریخ اسلام کے طلبا جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں بابل کے طاقتور بادشاہ نمرود کی موت کا سبب بھی ایک مچھر ہی تھا جو ناک کے راستے اس کے دماغ میں داخل ہو گیا تھا اور اسے برباد کر دیا تھا۔ قصص الانبیا میں ابن عباسؓ کے حوالے سے رقم ہے کہ اللہ نے نمرود کے پاس ایک مچھر بھیجا جو اس کے ہونٹ پر بیٹھا اور جب نمرود نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اڑ کر اس کی ناک میں داخل ہو گیا ۔ نمرود نے اس سے نجات پانے کی بہت کوششیں کیں لیکن سب ناکام رہیں اور آخر مچھر اس کے دماغ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ خدا اسے چالیس روز تک ایذا پہنچاتا رہا اور آخرکار اس کی موت واقع ہو گئی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت محمد ﷺ کے کزن (چچا کے بیٹے) تھے ، وہ تفسیر القرآن کے حوالے سے مسلمانوں میں باعزت مقام رکھتے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی والدہ ام الفضلؓ لبابہ اسلام لانے والی دوسری خاتون تھیں۔

            نیشنل جیوگرافک چینل کی جولائی 2007 کی ویب سائٹ پر مچھر سے پھیلنے والی بیماری ملیریا کے بارے میں مکمل چیپٹر موجود ہے ، جس میں درج ہے کہ مشہور یونانی فاتح سکندر اعظم کی موت بھی مچھر کے کاٹنے سے ہوئی تھی ۔ اسی طرح تین امریکی صدور جارج واشنگٹن ، ابراہم لنکن اور یولیسس گرانٹ بھی اپنی زندگی میں اس مرض میں مبتلا ہوئے ۔ ویب سائٹ کے مطابق مشہور اطالوی شاعر دانتے بھی غالباً ملیریا سے ہی ہلاک ہوا تھا ۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں واشنگٹن میں ملیریا سے بچنے کے لیے اس وقت کے ایک ممتاز معالج نے شہر کے اوپر جالی کا ایک بڑا غلاف بنانے کی ناکام کوشش بھی کی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی خانہ جنگی میں یونین آرمی کے دس لاکھ افراد ملیریا کے سبب ہلاک ہوئے تھے جبکہ جنگ عظیم دوم میں ملیریا کے سبب ہونیوالی اموات اس جنگ کے سبب ہلاک ہونیوالوں سے زیادہ تھیں۔ بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کرہ ارض پر ہر دوسرے انسان کی موت کا سبب ملیریا ہے۔ تاہم جہاں تک سکندر اعظم کا تعلق ہے تو تاریخ دانوں اور طبی تحقیق کے ماہرین اس کی موت کا سبب بعض دوسرے عوامل کو بھی قرار دیتے ہیں سکندر اعظم کی موت کے اسباب میں اگرچہ ملیریا یا ٹائیفائیڈ بخار کو بھی شامل کیا جا رہا ہے ۔ برطانیہ کے ایک طبی جریدے میں 1998 میں چھپنے والے ایک مضمون میں اس کی موت کا سبب ٹائیفائیڈ بخار کے بگڑ جانے کو قرار دیا گیا ہے جس سے اس کا جسم مفلوج ہو گیا تھا جبکہ اس کی موت کے دیگر عوامل میں لبلبے کی سوزش اور ویسٹ نائل وائرس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ طبی جرائد کے مطابق ویسٹ نائل وائرس ایک مخصوص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے اور یہ ڈینگی وائرس کی طرح کا ہی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کثرت سے شراب نوشی اور دیگر عوامل بھی سکندر اعظم کی موت کا سبب سمجھے جاتے ہیں۔ اِن بیماریوں نے سکندر اعظم کو 32 سال کی عمر میں ہی موت کی راہ دکھائی۔

            2009 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یعنی ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سو برس میں ڈینگی وائرس سے 50 ملین یعنی 5 کروڑ افراد متاثر ہوتے ہیں جبکہ 2010 میں ملیریا سے متعلق شائع ہونیوالی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال 225 ملین افراد ملیریا میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح دنیا بھر میں سالانہ شرح اموات کا 2.23 فیصد یعنی سات لاکھ اکیاسی ہزار افراد ملیریا سے ہلاک ہوتے ہیں۔ 26 ستمبر 2010 کے سڈنی مارننگ ہیرالڈ میں شائع رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 25 کروڑ لوگوں کو ملیریا ہوتا ہے ، ان میں کم از کم 10 لاکھ افراد مر جاتے ہیں ۔ ڈبلیو ایچ او کی عالمی ملیریا رپورٹ کے صفحہ نمبر 7 پر درج ہے کہ اس بیماری سے 8 لاکھ لوگ سالانہ لقمہ اجل بنتے ہیں ۔ اسی رپورٹ کے صفحہ 14 پر درج ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران انسداد ملیریا پر عالمی اخراجات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور 2009 میں انسداد ملیریا پر ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر خرچ کیے گئے لیکن یہ رقم چھ ارب ڈالر کے لگائے گئے تخمینے کے مقابلے میں انتہائی کم ہے 2000 میں ملیریا کیسز کی تعداد 233 ملین تھی جو 2005 میں بڑھ کر 244 ملین ہو گئی تاہم 2009 میں اس میں کمی واقع ہوئی اور یہ کیسز گھٹ کر 155 ملین ہو گئے۔ اسی طرح 2000 میں ملیریا سے 9 لاکھ 85 ہزار افراد ہلاک ہوئے ، یہ تعداد 2009 میں گھٹ کر 7 لاکھ 81 ہزار ہو گئی ہے۔