خمینی و فردوسی کی سرزمین

مصنف : ڈاکٹر انوار احمد بگوی ، خانم فرحت احمد بگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اکتوبر 2011

قسط -۸

تہران یونیورسٹی میں جمعہ

            ایران کے انقلاب اسلامی کے حوالے سے جن مقامات کو تاریخی اور ملی اہمیت حاصل ہے، ان میں تہران یونیورسٹی اور وہاں ادا ہونے والے جمعہ کو امتیاز حاصل ہے۔ نماز جمعہ کے لیے ایک کھلی جگہ مقرر کی گئی ہے جو جامعہ کی مرکزی مسجد اور مرکزی کتاب خانہ و مرکز اسناد اور دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی کے قریب واقع ہے۔ دانشکدہ کے سامنے فردوسی کا دھاتی مجمسہ ایستادہ ہے جس کے سرپر پگڑی ہے۔جمعہ کی نماز کا یہ میدان عام سطح زمین سے قدرے گہرائی پر ہے۔ لوہے کے مضبوط12x6ستونوں پر دھاتی چھت ڈال دی گئی ہے جس کے نیچے کئی ہزار افراد بیٹھ سکتے ہیں۔

             جمعہ کا خطبہ سننے اور نماز کے لیے کشاں کشاں لوگ آتے ہیں۔ سکیورٹی کا سخت نظام ہے۔ دانش گاہ میں داخل ہو جانے کے بعد جمعہ کے اجتماع تک پہنچنے کے لیے بار بار چیکنگ سے گزرنا پڑتا ہے۔ مگر چیکنگ مستعدی اور مہارت سے کی جاتی ہے جس سے نہ تو وقت ضائع ہوتا ہے اور نہ تذلیل کا احساس جنم لیتا ہے ۔ بعض نمازی خصوصاً معمر اور بزرگ کوشش کرتے ہیں کہ مرکزی اجتماع سے پہلے کہیں جگہ مل جائے تو نماز ادا کر لیں۔ یہ اپنی جا نماز ساتھ لاتے ہیں۔ اکثر دور کی جگہوں پر خطبہ جمعہ کی آواز نہیں آتی۔ جب ہم پہنچے تو خطبہ ختم ہونے والا تھا۔ خانم الگ راستے سے خواتین کے اجتماع کو ہو لیں۔ انہیں بھی سکیورٹی چیک سے گزرنا پڑا۔ ہمیں بڑے اجتماع کی آخری صفوں میں جگہ ملی۔ کچھ نمازی خواتین چٹائیوں پر تھیں اور بعض نے اخبار بچھارکھے تھے۔ خانم کو ایک خاتون نے پاس بلا کر چٹائی پر جگہ دی اور پوچھا کہ وہ شیعہ ہے یا سنی ؟پھر اس نے رکعات کے بارے میں وضاحت کی۔ اجتماع جمعہ میں عورتوں کی خاصی تعداد شریک تھی۔ عورتوں کا پنڈال ہر طرف سے ڈھکا ہوا نہ تھا۔ لیکن یہ ایسا صحن یا میدان تھا جو مردوں کی نگاہوں سے دور بنایا گیا تھا۔ عورتوں کی جانب تمام انتظام کلی طور پر خاتون کار کنوں کے ہاتھ میں تھا۔ کوئی مرد نظر نہ آیا۔ پاس ہی ریڑھی والوں کا بازار تھا جہاں روز مرہ کی اشیاء فروخت کی جا رہی تھیں۔ نماز ختم ہوتے ہی آناً فاناً نمازی خواتین روانہ ہو گئیں اور دیکھتے دیکھتے ہی چٹائیاں سمیٹی جانے لگیں۔ ہمارے ہاں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد نفل اور سنتیں پڑھی جاتی ہیں۔ بعض ورد ووظائف پڑھتے ہیں۔ لیکن عربوں کی طرح ایرانی بھی فرض نماز ادا کرنے کے بعد جلد فارغ ہو جاتے ہیں۔

             غالباً احمد خاتمی جمعہ کے خطیب تھے اور انہوں نے ہی نماز جمعہ کی جماعت کروائی۔ خطبہ سمجھ میں تو نہ آیا البتہ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے عالم اسلام اور فلسطین کے حالیہ مسائل پر گفتگو ہو رہی ہے۔ بجا طور پر امریکہ کو مطعون قرار دیا جا رہا ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہر سازش اور ہر منصوبے میں شریک ہوتاہے۔ ان شیطانی کاموں کے لیے امریکہ کو عالم اسلام پر مسلط غیر آئینی، غیر عوامی اور غیر جمہوری قیادتوں کی ہمنوائی اور ان کا تعاون حاصل ہے۔

            حنفی طریقے پر قیام ، رکوع ، قاعدہ ،سلام غرض کسی بھی کام پر کوئی معترض نہ ہوا نہ کسی نے گھورنے کی کوشش کی ۔ بلکہ نماز ختم ہو جانے کے بعد دائیں اور بائیں جانب کے نمازیوں نے اپنے طریقے کے مطابق ہم سے مصافحہ کیا۔

تہران یونیورسٹی:

            تہران یونیورسٹی قریباً شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ یہ ایک وسیع کیمپس پر محیط ہے جو ہماری جامعہ پنجاب کی طرح مختلف حصوں میں بٹی ہوئی نہیں۔ اکثر شعبے کئی کئی منزلہ جدید عمارتوں میں قائم کئے گئے ہیں۔ دانشگا ہ میں اونچے اونچے اور گھنے درخت ہیں۔ ہر شعبے میں فارسی زبان کا راج ہے۔ ایک جگہ چند عمارات کا جھنڈ دیکھا ۔ ان کے باہر Tehran University of Medical Sciences لکھا ہوا ہے۔ ایک بڑے بورڈ پر کسی بین الاقوامی کانفرنس کا اعلان تھا۔ جو وسط نومبر میں ہونا تھی اور اس میں ایران کے علاوہ ہالینڈ، جا پان، امریکہ، کینیڈا، سنگا پور وغیرہ سے ماہرین کی شرکت متوقع تھی۔پاؒکستان کا کوئی ذکر نہ تھا۔

پنڈال:

            بڑے پنڈال میں ایک جگہ ایرانی پرچم اور دو طرف جہاز ی بینروں پر انقلابی اور تحریکی کلمات مندرج ہیں۔پرچموں کے پیچھے غالباً ان چند شہدا کے نام درج ہیں طلبہ تحریک میں جنہوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔

            جانب قبلہ ایک سٹیج ہے جس کے ساتھ بالکونی بھی موجود ہے۔ یہاں سے خطبہ جمعہ ادا کیا جاتا ہے۔ عکس بندی کے لیے پنڈال کے مرکز سے کیمرہ مسلسل چلتا رہتاہے۔ نماز کے لیے فرش پر قالینی دریاں بچھائی جاتی ہیں۔ نماز جمعہ کے لیے دانشگاہ کے تمام راستے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ صرف ایک کھلے راستے پر بار بار چیکنگ کی جاتی ہے۔ پنڈال کے اطراف میں بڑے بڑے ائیر کولر لگے ہیں۔

             پنڈال میں ایک جگہ 16ستونوں پر شہدا کے نام لکھے ہوئے ہیں اور ساتھ سرخ گلاب،درمیان میں لوح جس پر گمنام شہیدوں اور بعض شہدا کے نام کندہ ہیں۔ دو بڑے اور دو چھوٹے قندیل شیشہ ، درمیان میں پنجۂ دست جو کسی چیز کو ڈھکے ہوئے ہے۔ ایک طرف سنگی شبیہ اور کتاب قرآن مجید ہے ۔ روسٹرم یا سٹیج کے اوپر کلمۃ اللہ ھی العلیا۔

            اور ایک طرف یا حسینؓ، زہرؓا، محمدؐ، علیؓ، حسنؓ ، یا مہدی لکھا ہوا ہے۔

            جامعہ تہران کا میدان جمعہ بہت مشہور جگہ ہے۔ لیکن آرائش و زیبائش کے اعتبار سے کوئی اہتمام نظر نہیں آتا۔نمازیوں میں بھی کوئی غیر معمولی جوش و جذبہ نہ تھا۔ جمعہ کی نماز کے بعد کوئی اضافی نعت خوانی یا تلاوت بھی نہ تھی اور نہ کسی مقصد کے لیے چندہ دینے کا کوئی اعلان تھا۔ نماز ادا کرنے کے بعد نمازی خاموشی سے منتشر ہو گئے۔

             دانشگاہ تہران کے اندر ایک جامع مسجد ہے جہاں طلبہ اور عملہ نماز ادا کرتا ہے۔ مسجد کا صحن چار آہنی ستونوں کے چھت کے نیچے پھیلا ہوا ہے ۔ مسجد کی سادگی قابل توجہ ہے ، کوئی آرائش و زیبائش نہیں ہے ۔ محراب مسجد پر آیت قرآنی اُدخلو بسلام مرقوم ہے۔ مسجد سال 1365خورشیدی میں تعمیرہوئی ہے۔

             صحن کے چاروں طرف بر آمدہ ہے جس کے سامنے ایک جانب چاروں طرف قرآنی سورتیں اور آیات کندہ ہیں۔ ساتھ فارسی میں ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ مندرج آیات کا تعلق مسجد ، عبادت اور اخلاق سے ہے۔ مسجد کے نوٹس بورڈ پر مختلف علمی اور مذہبی مذاکروں اور نشستوں کا اعلان ہے۔

            جمعہ کے روز مختلف ادارے اپنے کاموں ، ارادوں اور ترقیوں سے آگاہ کرنے کے لیے اخبارات، اعلانات اور لٹریچر مفت تقسیم کرتے ہیں۔ردّی کی کثرت سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام لوگ اس نوع کی تحریروں کو سنجیدہ نہیں لیتے ۔

            جس جگہ سے ہم دانشگاہ سے باہر نکلے، معلوم ہوا پہلے وہ ایک کمرشل بازار تھا۔ ایران میں مکانات کے کرائے اور زمین کی قیمت نا قابل بیان حد تک خوفناک ہے۔ اتنی مہنگائی کے باوجود دانشگاہ کے ارباب حل و عقد نے ملحقہ پورا بازار خرید لیا جس کے لیے بہت زیادہ رقم صرف کرنا پڑی۔بہر حال اس زمینی وسعت سے جامعہ کو نئے شعبوں کی کئی منزلہ جدید عمارات بنانے میں مدد ملی۔ اس کے بر عکس جامعہ پنجاب کو لیجئے ۔اس کی تعمیر نو کے لیے شہر سے باہر ایک وسیع قطعہ زمین مخصوص کیا گیا تھا مگر ہر چند سال بعد کسی عوامی بہبودکی آڑ میں اس کا رقبہ کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک حصہ بدستور خالی ہے اور اس پر زرعی اجناس کاشت کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں بھیکے وال چوک کو کھلا کرنے کے لیے کئی ایکڑ زمین سڑک کے سپرد ہو گئی۔ حالانکہ ٹـریفک بالائے زمین یا زیر زمین بھی گزر سکتی تھی۔ ہماری حکومتوں اور تعلیمی اداروں کے طرز عمل کا دانشگاہ تہران سے موازنہ کیجئے ، دانش اور علم کے ساتھ ہمارے اخلاص کا بھرم کھل جاتا ہے۔

اسلحے پر پابندی:

            ایران میں سر عام اسلحے کی نمائش پر سخت پابندی ہے۔ ہمیں کسی جگہ ایسی گاڑی دکھائی نہیں دی جس میں پاکستان کی طرح جدید اسلحے سے لیس محافظ مونچھوں کو تاؤ دے رہا ہو۔ نہ ہی ہمیں کوئی وی آئی پی نظر آیا جو خود کار اسلحے کی چھاؤں میں کسی دفتر میں داخل/ خارج ہو رہا ہو۔ اسلحہ سرد اور گرم ،دو طرح کا ہوتا ہے۔ گرم میں بارودی اسلحہ شامل ہے اور سرد میں خنجر ، چھرااور اُسے رجسٹر کروانا ضروری ہے۔

مرکز آفرینش ہائے فرہنگی ایران:

            یہ ایک تربیتی مرکز ہے جہاں بچوں کو مختلف فنون، نقش و نگار، پتلی سازی ، ظروف سازی وغیرہ کی تربیت دی جاتی ہے۔ اب تک 2000کے لگ بھگ کتابیں اس موضوع پر چھپ چکی ہیں۔ فنون میں بھی ایران کی تاریخ اور قومی تفاخر نمایاں ہیں۔

موزہ فرش:

            ایرانی دست کاری کے فنون میں غالباً قالین بافی کا نمبر خطاطی اور نقاشی سے پہلے آتا ہے۔ یہ عجائب گھر ایک خوبصورت اور جدید عمارت میں بنایا گیا ہے۔ اس میں قالین کی صنعت سے متعلق ایک شاندار کتاب خانہ بھی ہے جس میں دیگر موضوعات کی کتابیں بھی موجود ہیں۔ادارے کا اپنا رسالہ…… مجلہ فرش دستباف ایران ہے۔تالار نمائش ( Auditorium ) ہے۔ دو منزلہ مقصدی عمارت میں مختلف ہال ( جسے فارسی میں سالن کہتے ہیں ) اور کونے( Corner ) بنائے گئے ہیں۔ وہاں صدیوں یا قرنوں کے اعتبار سے مختلف ادوار کی مصنوعات کو یکجا سجایا گیا ہے۔ قالینوں پر نقش و نگار ، جیو میٹری کی اشکال، مستطیل، دائرے ، مربع ، چوکور، مستقیم، مخمس، مسدس، پھول، پرندے، حیوانات، اشعار، مناظر، استعمال ہونے والے رنگ اور اون کی اقسام، بنائی کے آلات اور پرانی کھڈیاں رکھی گئی ہیں۔ ایک مصور نمونہ آدمؑ و حواؑ کا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ ، حکیم فردوسی ، دارا ، شیخ سعدی، شاہ عباس، قآنی، بابا طاہر کی شبیہیں، دریاں اور کھیس ، روٹی لپیٹنے والے رومال یا کندوری بھی نظر آئے۔ کرمان کے ایک قالین پر بہت سے ممالک کے سر براہان اور مناظر ہیں ۔ ان میں پاکستان کے کسی سربراہ کی شبیہ نہیں ہے ۔ نادر شاہ کادربار اور اطراف میں جنگی مناظربھی دکھائی دیئے۔ ایران کے ایک نقشے میں مراکز فرشافی بجلی کے قمقموں سے روشن دکھائے گئے ہیں۔ ایک قالین پر نبی کریمﷺ کی خوبصورت تصویر بنی ہوئی ہے۔ نو جوان چہرہ، سفید رنگت، مسکراتے ہوئے ، سر پر سبز عمامہ، گریباں کھلاہوا ، ایک شانے پر چادر، اوپر روضہ اور نیچے براق۔ ایک قالین پر حضرت سلیمانؑ کا دربار اور عدالت( کا شان قضاؤت) بنائے گئے ہیں۔

            اہل ایران نے اپنی قابل فخر دستکاری کے نادر نمونے ملک کے کونے کونے سے تلاش کیے اور انہیں بڑی نفاست اور قرینے سے پیش کیا ہے۔ حیف کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے ثقافتی ورثے ابھی تک منتشر ہیں۔ بیورو کریسی نے اگر کوشش کی ہے تو انگریزوں کی مال روڈ اور اس پر واقع بڑے گوشت کی ٹولٹن مارکیٹ جیسی بے ہنگم عمارتوں ہی کو بچایا ہے۔ انگریزی آثار کو بچانے کا کام فوجی اداروں نے بھی کیا ہے۔اور اس سلسلے میں انگریز فوجیوں کی مضحکہ خیز یادوں کوبھی محفوظ کر رکھا ہے۔ ابھی تک دھرتی کے اور قوم کے آثار سنبھالنے کی طرف توجہ مبذول نہیں ہوئی ۔ اپنی شناخت کے بغیر کس طرح کوئی اپنی تاریخ پر فخر کر سکتا ہے؟قومی آثار کے بغیر کیسے ایک قوم کے نقوش ابھر سکتے ہیں؟

کاخ موزہ سعد آباد:

            شاہ ایران کی سرکاری رہائش سعد آباد میں درج ذیل عجائب گھر بنا دیئے گئے ہیں اور ٹکٹ لگا کر انہیں عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے:

  1. کاخ موزہ ملت
  2. کاخ موزہ سبز
  3. موزہ ہنر ہائے زیبا
  4. موزہ مرد شناسی
  5. موزہ نظامی
  6. موزہ طبعی
  7. موزہ شہزاد
  8. موزہ آب کار
  9. موزہ ہنر ملل
  10. گنجینہ خط کتابت میر عمار
  11. مرکز آموزش موسیقی خلاق(Creative Music Training Centre)
  12. کاخ نگارستان دست کاری میوزیم

            شاہی محلات تہران کے ایک جانب پہاڑی کے دامن میں وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ بلند و بالا درخت ،ہموار اور سبز گھاس کے اونچے نیچے تختے، چشموں کا رواں پانی ، پتوں میں سر سراتی خنک مگر خراماں ہوا۔ محلات جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ان سب تک پیدل پہنچنا آسان نہیں۔ متعلقہ میوزیم کا ٹکٹ موجود ہو تو اندر کی شٹل بس سروس کے ذریعے جا یا جا سکتا ہے ۔ واپس البتہ خود آنا پڑتا ہے۔ مختلف محلات یا میوزیم کا الگ الگ ٹکٹ ہے۔ سیاح صدر دروازے سے ایک بار مختلف جگہوں کے لیے ٹکٹ خرید سکتا ہے۔ بالائی سبز محل بانی رضا پہلوی سے منسوب ہے۔ شاہی حمام، مہمان خانے، خوابگاہ زیریں رضا شاہ دوم کا ہے۔ سامان زیادہ تر فرانس کا بنا ہوا ہے۔ شیشے، لکڑی اور سونے کا استعمال عام ہے۔

             ایران میں قومی وسائل کی فراوانی کے باوجود دولت کی نا منصفانہ تقسیم کے پیش نظر پہلوی خاندان کا رہن سہن غیر حقیقی اور غیر انسانی شمار کیا جا سکتا ہے۔ مگر پاکستانی امراء ، سول و فوجی افسران اور حکمران جو 1947ع کے بعد معرض وجود میں آئے اور اب ملک کے وسائل اور حکومتی اختیار و اقتدار کے وارث ہیں اور جن کے بچے زیادہ تر امریکہ میں زیر تعلیم ہیں، ان کے گھر بار، رہن سہن، نوکر چاکر ،گاڑیاں، اسلحہ، دیگر اور سازو سامان دیکھے جانے والے ایرانی شاہی نوادرات سے کہیں زیادہ پر تعیش ،اعلیٰ اور مہنگے ہیں۔ اس اڑھائی فیصد طبقے کا بقایا عوام کے رہن سہن کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں بھی ایرانی شاہی محلات جیسے عبرت خانوں کی ضرورت اجاگر ہو جاتی ہے!محلات کا دورہ کرتے سکولوں کے بچے غول در غول نظر آئے ۔ صاف یونیفارم ، بچیوں کے سر پر سکارف اور قطاروں میں ۔سارے محلات صاف ستھرے تھے کسی جگہ کوئی بد نما ریمارکس یا تبصرہ نہ تھا۔

زیر زمین ریلوے:

            میترو چند سال پہلے چین کی مدد سے زیر زمین ریلوے سروس تعمیر کی گئی ہے۔ نہایت خوبصورت، انتہائی سبک ، بہت منظم ، شہر کے چار کونوں کو ملاتی اور مسافروں کی ایک بہت بڑی تعداد کو کم سے کم خرچ اور بہت تھوڑے وقت میں منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔ حصہ خواتین الگ ہے۔ مگر خاندان ہو تو ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ ہجوم کے باوجود دھکم پیل مفقودہے۔ہر پڑاؤ پر صاف اور واضح اعلان نشر ہوتا ہے۔ گاڑی کے ڈبوں کے اندر، پٹڑیوں ،پلیٹ فارم یا سیڑھیوں پر کہیں بھی کچرا نظر نہیں آتا۔ عام طور پر جہاں اترتے ہیں وہیں ٹکٹ چیک کئے جاتے ہیں۔ بعض دوسرے ملکوں میں بہت سے لوگ کچرا دان کا خیال نہیں کرتے اور لا پروائی سے استعمال شدہ ٹکٹ اچھا ل دیتے ہیں۔ ایران کی اکلوتی میترو میں ایسا نہیں ہوتا۔

ڈبے کے اندر لکھا ہے:۔

            ہر کس تربیت و ادب ندارد، از عقل ہم بہرہ ای ندارد ( پیما مبر اعظمؐ فرمود )

             سال بھر ہر روز میترو استعمال کرنے کا مجموعی رعایتی کرایہ280,000 ریال یا 1800پاکستانی روپے ہیں۔ یہ خرچ روزانہ کے حساب سے قریباً 5روپے بنتا ہے۔ روز جتنی بار چاہیں، میلوں سفر کرتے رہیں۔

مصلیٰ تہران:

            شہر کے بیچوں بیچ یہ ایک وسیع قطعہ زمین ہے جو بڑے مذہبی اجتماع مثلاً عیدین وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میدان میں دو خوبصورت مینار ہیں۔ تراشیدہ گھاس کے تختے ہیں۔ چاروں طرف جالی کی باڑھ ہے۔ گویا یہ ایک ایسا پارک ہے جو مذہبی بھی ہے اور تفریحی بھی۔ یہ شہر کے حسن میں اضافہ کرتا ہے اور حفظان صحت کے اعتبار سے تازہ فضا بھی فراہم کرتا ہے۔

سابق امریکی سفارت خانہ:

            طالیقی کے مقام پر مضبوط اونچی چار دیواری کے اندر وہ بد نام زمانہ عمارت ہے جو شاہ ایران کے زمانے میں اقتدار ، اختیار اور سازشوں کا گڑھ تھا۔ ایک روز تہران یونیورسٹی کے جری طلبہ نے یلغار کی اور امریکی سفارت خانے کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا ۔ امریکی عملے کا محاصرہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ اس حوالے سے سابق صدر بش کے والد سینئر بش کے عہد صدارت میں ایران پر مداخلت کی سازش خدا کی تدبیر اور قہر سے خائب و خاسر ہوئی۔ سفارت خانے سے حاصل شدہ مواداب تاریخی ریکارڈ بن چکا ہے جو امریکہ اور اس کے تابع شاہ ایران کے خلاف فرد جرائم بھی ہے۔ پاکستان میں امریکی سفارت کار اور اکثر سیاست کار خود ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے کوشاں بلکہ بے تاب رہتے ہیں۔ قومی قیادت کو ایران کے حالات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ امریکہ مضبوط یہودی لابی اور اپنے تاریخی پس منظر کے باعث کبھی مسلمانوں یا عالم اسلام کا دوست ، خیر خواہ اور ہمدرد نہیں بن سکتا۔اس عمارت میں اب ایک قومی عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔

گشت ارشاد:

            تہران میں گزرتے ہوئے دو ایک جگہ وین دیکھی جن پر ‘‘ گشت ارشاد’’ تحریر ہے۔ یہ دراصل ایران کی وہ پولیس فورس ہے جو تحدید و احتساب کا کام کرتی ہے۔ اس کا مقصد عوام کو ڈنڈے ، گالی یا زور زبر دستی سے راہ راست پر لانا نہیں بلکہ ان افراد کو تلقین اور نصیحت کرنا ہے جو کھلے بندوں معاشرے میں غیر اسلامی لباس یا غیر اخلاقی حرکات میں ملوث نظر آئیں۔ بھاگتی وین کے سوا کسی جگہ اسے ٹخنوں پر شلوار یا ٹھوڑی پر ڈاڑھی کی لمبائی کے لیے حیص بیص کرتے نہیں دیکھا۔ انسانی جسم کی ان دو انتہاؤں کا تمثیلاً ذکر اس لیے کیا کہ ہمارے مذہبی محتسب دوسرے کی مذہبیت جانچنے کے لیے کچھ اسی طرح کے قیاس لگاتے ہیں۔گشت ارشاد ایک مفید ادارہ ہے جو ‘‘ نہی عن المنکر’’ کے لیے معاشرے کے افراد اور اداروں میں اخلاقی حدود کی پاسداری اور مذہبی اقدار کے احترام کے لیے موثر کردار ادا کر سکتا ہے ۔

لیڈیز پولیس:

            ایران میں لیڈیز پولیس بھی موجود ہے ان کے رول کے بارے میں معلومات نہ مل سکیں۔ تا ہم مسلم معاشرے میں عورتوں کے لیے جہاں سہولیات کا الگ سے انتظام ہونا چاہیۓ، وہاں ان کی حفاظت، عزت اور خدمت کے لیے علیحدہ زنانہ پولیس از بس ضروری ہے۔ ایران میں اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہاں آبادی میں عورتوں کی شرح دیگر اسلامی ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔

لیڈیز ٹیکسی سروس:

            تہران میں ایسی ٹیکسی سروس نظر آئی جس کی ڈرائیور حجاب ، پتلون اور پیٹی کوٹ میں ملبوس خاتو ن ہے۔ عورتوں کے لیے اسلامی ملک میں ایسی سہولت یقینا ان کی حفاظت، عزت، خدمت میں اضافہ کا باعث بنے گی۔ دوسری طرف کام کرنے والی عورتوں کے لیے روز گار کی فراہمی یقینی بنائے گی۔ خانوادوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ ٹیکسی سروس ایک مفید جدت ہے جو مغرب کی رفاہی سوچ سے بہت بلند اور منفرد ہے۔

تہران میں آخری روز:

            آخری روز ہماری بڑی مصروفیت میں تہران شہر کا وزٹ اور سعد آباد میں شاہی محلات کا دورہ تھا اور وقت ملنے پر بازاروں میں ونڈو شاپنگ کا بھی۔ محلات کیا تھے اب تو عبرت سرا تھی۔ اونچے نیچے گھاس کے تختے۔ پانی گزرنے کے راستے۔ جگہ جگہ تعمیر کردہ محلات۔ ہر طرف ویرانی کے ڈیرے۔ اب ان تمام جگہوں کو سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ سعد آباد کی وسعت اور دامن کوہ کی وجہ سے سبزہ و ہریالی ہوائے خنک ،اونچے اونچے صنوبر کے درختوں پر سکوت طاری تھا۔ بازار میں جانے کا حوصلہ اس لیے نہ پڑا کہ ‘‘زبان یا رمن ترکی’’تھی اور سمجھنے سمجھانے کا مرحلہ سخت پریشان کن لگتا تھا۔ایک بڑے سٹور میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں ضرورت کی تمام اشیاوافر مقدار میں موجود تھیں۔ ظاہر ہے تہران کا ایک بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور عام شہری کی دسترس سے باہر تھا۔خریدار بھی خوشحال طبقہ نظر آتا تھا۔ اشیا کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ نہیں تھیں لیکن کوالٹی کے اعتبار سے کم تر۔ سارا مال مقامی طور پر تیارشدہ تھا۔ ہماری طرح سمگل شدہ نظر نہیں آتا تھا۔ سٹور میں رش کے باوجود شور اور دھکم پیل نہیں تھی۔

واپسی:

            لاہور آنے والی فلائٹ چونکہ صبح سویرے تہران سے اڑتی تھی اس لیے رات2:30بجے سڑک کنارے سے ٹیکسی پکڑی جو آسانی سے اور تھوڑے مول تول کے بعد مل گئی۔ سامان کم تھا اس لیے بیٹھنے میں کوئی مشکل نہ پیش آئی۔ البتہ ڈرائیور نے ایک حجاب و عبایہ پوش خاتون اور ایک بچہ رات گئے ساتھ بٹھایا ہوا تھا۔ دونوں جاگ رہے تھے اور خوب باتیں کر رہے تھے۔ سڑکیں روشن مگر قریباً خالی تھیں ۔ چنانچہ ڈرائیور رفتار کی مقررہ حد سے باہر نکل گیا۔ خدا جانے یہ کیسے ہوا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک ٹریفک سار جنٹ نے روک لیا اور تیز رفتاری پر چالان کر دیا۔ ڈرائیور نے بہتیری منت و زاری کی مگر پولیس والے نے ایک نہ سنی۔3:30بجے امام خمینی فرودگاہ بین الملی(امام خمینی انٹرنیشنل ائیر پورٹ) پہنچ گئے۔ یہاں آ کر ڈرائیور مصر ہوا کہ اسے چار تو مان جرمانہ ہوا ہے اس میں سے دو تو مان مسافر ادا کریں! یہ منطق اور فوری انصاف ہماری سمجھ سے باہر تھا۔ ریز گاری کے لیے اندر کوئی دکان تھی اور نہ کرنسی بدلنے کا کھوکھا۔بڑی مشکل سے کچھ دے دلا کر جان چھوٹی۔ اندر ہجوم کم تھا اور باہر خنکی زیادہ تھی۔ بورڈنگ پر پاکستانی کھلاڑیوں کی ایک ٹیم نظر آئی جواب واپس وطن لوٹ رہی تھی۔ ٹیم کے ہر رکن کے پاس بجلی کے سامان اور کراکری کے بڑے بڑے ڈبے تھے۔ دیکھنے میں ٹیم سے زیادہ سامان کے ڈبے تھے جو مسافروں کو خود ہی دھکیل کر جہاز تک لے جانے تھے۔ اکثر مسافر یہاں پنجابی زبان پر گزارہ کر رہے تھے۔ واپسی کی اڑان نان سٹاپ اور ہموار تھی۔ جہاز میں ناشتہ ملا مگر کافی کے بغیر۔ اخبارات بھی ایک روز پرانے تھے۔ تا ہم بر وقت لاہور پہنچ کر نسبتاً آرام اور عزت کے ساتھ امیگریشن سے فارغ ہوئے اور ائیرپورٹ سے نکل کر باہر بچوں کو منتظر پایا۔ ( جاری ہے )