سوال ، جواب

مصنف : مولانا طالب محسن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اکتوبر 2011

جواب:آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ مغرب میں قانونی طور پر کسی فرد کے کسی عمل کو ممنوع ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں ہے جب تک وہ فعل دوسروں کے جسم وجان کے ضرر رساں یاان کے کسی حق کو تلف کرنے کا باعث نہ ہو۔اس کے برعکس اسلام میں وہ تمام چیزیں بھی ممنوع ہیں جو انسان کے اخلاقی وجود کے منافی ہیں۔ شراب کوسورہ بقرہ کی آیت ۲۱۹میں اثم یعنی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ‘اثم’ کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘اثم کا لفظ…………اخلاقی مفاسد اور گناہوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ج۱، ص۵۱۴)اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت ۹۰میں اسے ‘رجس’ گندگی اور عمل شیطان قرار دیا گیا ہے۔ یہ آیت بھی شراب کے اخلاقی قباحت ہونے ہی کو واضح کرتی ہے۔سورہ نساء کی آیت ۴۳ سے واضح ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت کا اصل باعث اس کا نشہ آور ہونا ہے۔ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ جب تم نشے میں ہو تو نماز نہ پڑھو۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ شراب کی حرمت کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس آیت میں نشے اور جنابت دونوں کو نماز کے لیے مانع قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے اشتراک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ‘‘نشہ اور جنابت دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرکے اور دونوں کو یکساں مفسد نماز قرار دے کر قرآن نے اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ دونوں حالتیں نجاست کی ہیں، بس فرق یہ ہے کہ نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی۔ شراب کو قران نے جو ‘رجس’ کہا ہے یہ اس کی وضاحت ہو گئی۔’’ (تدبر قرآن، ج۲، ص۳۰۲)میں نے قرآن کا منشا بیان کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسلام کا نقطہ نظر آپ کے سامنے آگیا ہو گا۔ لیکن مغرب میں پہلے اس اصول کو منوانا ضروری ہے کہ انسان کے اخلاقی وجود کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ جب تک یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی قرآن کا یہ موقف ان کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:دارقطنی سمیت کسی حدیث کی کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔ البتہ تاریخ بغداد میں یہ روایت منقول ہے۔حرف العین من آباء الحسنین میں رقم۳۸۷۴کے تحت یہ روایت فیرزان کے قول کی حیثیت سے نقل ہوئی ہے اس کتاب میں یہ روایت جس صورت میں موجود ہے وہ کسی طرح بھی قابل اعتنا نہیں ہے۔دارقطنی حدیث کی کمزور کتب میں شمار ہوتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس سوال کا لب ولہجہ مناسب نہیں ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا کسی بات کو غلط قرار دینا چاہتا ہے لیکن براہ راست غلط کہنے کے بجائے اسے ایک تلخ سوال کی صورت میں بیان کررہا ہے۔ہمارا پورا دین قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔ قرآن مجید ہمارے عقیدہ وعمل دونوں کی اصلاح کرتا ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں کئی اعمال بھی پوری وضاحت کے ساتھ زیر بحث آئے ہیں۔ سنت دین کے اعمال کے منتقل ہونے کا ذریعہ ہے جو اللہ تعالی کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کے طور پر اپنے ماننے والوں کو سکھائے۔ آپ کا سوال ان لوگوں سے بنتا ہے جو صرف قرآن مجید کو دین کا ماخذ مانتے ہیں۔ سنت کے ذریعے جو دین ہمیں ملا ہے قرآن مجید اس کا ذکر ایک معلوم ومعروف عمل کی حثییت سے کرتا ہے۔ اس لیے اس کو اسے بیان کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن جہاں اسے کسی چیز کی اصلاح کرنا تھی اس نے عملی حصے کو بھی واضح کیا ہے جیسے وضو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید نے شرک کی تردید کرتے ہوئے یہ تنقید کی ہے کہ تمھارے پاس تمھارے اس عقیدے کی خدا کی وحی میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ گویا قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات وصفات اور ملکوت کے بارے میں کوئی بات ظن وتخمین یا عقلی استدلال سے کہنا غلط ہے اس کے لیے خود خدا کا کوئی بیان ہونا ضروری ہے۔ اس کی روشنی میں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں مابعد الطبیعاتی حقائق کی صحیح تعین صرف وحی سے ہو سکتی ہے۔ اسی بات کو کچھ لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ عقائد کا ماخذ قرآن ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کفار اور یہود کے اس نوعیت کے مطالبات زیر بحث آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خارق عادت امور صادر ہوں۔ اللہ تعالی نے ان کے جواب میں قرآن مجید کو پیش کیا ہے۔ شق قمر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ بعض سچی پیشین گوئیاں قرآن میں مذکور ہیں۔ احادیث میں متعدد خارق عادت واقعات مذکور ہیں۔ آپ نے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ واقعہ ہر اعتبار سے ایک معجزہ ہے۔جو واقعات اخبار آحاد سے نقل ہو رہے ہیں۔ ان پر محدثانہ تنقید تو ہوسکتی ہے لیکن بطور اصول ان کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دونوں اسماء وآیات کے اس نوع کے استعمال سے بالکل خالی ہیں۔اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف مسائل و مشکلات میں نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ نے ممکنہ تدبیر کی ہے اور اللہ تعالی سے مدد کی دعا مانگی ہے۔بعینہ یہی رویہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا نظر آتا ہے۔تعویز سے متعلق روایات عام طور پر سند کے اعتبار سے کمزور روایات ہیں۔ دین کے محکمات میں ان کی کوئی تائید نہ ہونے کی وجہ سے یہ اور کمزور ہو جاتی ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور قرآن مجید کا تعلیم کیا ہوا طریقہ تو وہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے۔رہا یہ سوال کہ وظائف میں کوئی تاثیر ہے یا نہیں، تو اس کا کوئی جواب ہمیں قرآن مجید یا صحیح احادیث میں نہیں ملتا۔ فیصلے کی بنیاد صرف مشاہدہ اور تجربہ ہی رہ گیا ہے۔ میرے علم کی حد تک فائدہ پہنچنے کی روایات بہت سی ہیں لیکن اس فن کو اس طرح مرتب نہیں کیا گیا کہ کوئی حتمی بات نہ سہی اعتماد ہی کا اظہار کیا جا سکے۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ وظائف کا یہ استعمال دینی اعتبار سے غلط ہے لیکن اس کی سفارش بھی نہیں کرتے۔ اسی سے جبت اور توہم پرستی کی راہیں نکلتی ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں دینی نقصان ہے۔ پھر یہ بعض اوقات صحیح تدبیر اور خدا پر اعتماد کا متبادل بن جاتے ہیں۔ اس پہلو سے یہ دنیوی نقصان کا باعث ہو سکتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اصلاً یہ دنیا تدبیر پر چل رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت تدبیر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی تدبیر کی کامیابی اور ناکامی میں ایک حصہ تدبیر کے حسن وقبح کا ہوتاہے لیکن اصل چیز خدا کی تائید یا عدم تائید ہے۔ کھیتی کی مثال دیکھیے۔ اگر کسان ہل نہیں جوتے گا، بیج نہیں ڈالے گااور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرے گا تو کوئی پیداوار نہیں آئے گی۔ لیکن جب وہ یہ سب کچھ کرتا ہے تو اس کھیتی کی کامیابی کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔کسان کی تدبیر کے دائرے سے باہر کے امکانات کی موافقت بھی ضروری ہے۔مثلا موسم اور دوسری آفات کا نہ ہونا۔ چنانچہ صحیح تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی توفیق ہی سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ناکامی پیش آئے تو دونوں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک یہ کہ تدبیر میں کیا کمی رہ گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کو کیا آزمایش کرنا پیش نظر تھی۔ ہم اگرچہ پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی عمل کے جو نتائج نکلے ہیں ان میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مایوسی اور بے ہمتی کا شکار ہونے کے بجائے نئے عزم سے اور بہتر تدبیر کے ساتھ نئی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔باقی رہا تقدیر کا معاملہ تو رزق کے معاملے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو کم اور کسی کو بے حساب رزق دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالی یہ فیصلہ کسی حکمت ہی کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صحیح تدبیر کریں اللہ تعالی کے ساتھ بندگی اور توکل کے تعلق کو قائم رکھیں اور جو کچھ نتائج نکلیں کامیابی کی صورت میں اسے شکر کی آزمایش سمجھیں اور ناکامی کی صورت میں اسے صبر کی آزمایش کے طور پر دیکھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:ہمارے ملک میں مساجد بالعموم محلے کے زیر انتظام چل رہی ہیں۔ اصولا جمعہ اور عیدین کی نماز کا اہتمام حکومت کو کرنا چاہیے اور علاقے کے حاکم یا اسی کے مقرر کردہ امام کو امامت کرانی چاہیے۔آپ کے مسئلے کا دینی حل یہی ہے۔ لیکن اس اصول پر مسئلہ حل ہو جائے اس کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے۔لہذا مسئلہ حل کرنے کا اس کا سوا کوئی راستہ نہیں کہ ہم کوئی اچھی حکمت عملی اختیار کریں۔دیہی علاقوں میں صورت حال جیسا کہ آپ کے علاقے کی مثال سے بھی واضح ہے کافی پیچیدہ ہوتی ہے۔ وہاں لوگ علاقے کے بڑے لوگوں کی گرفت میں ہوتے ہیں اور انھیں بڑے شہروں کے رہنے والے لوگوں کی طرح فیصلے کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر یہ بڑے لوگ نیک اور خوش اخلاق ہوں تو لوگ اطمینان سے رہ لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں تکلیف دہ حالات سے دوچار رہتے ہیں۔پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ اس صورت حال کو مان کر سوچنا چاہیے۔ وہ خارجی حالات جن کو تبدیل کرنے میں بہت سی دشواریاں حائل ہوں اور جن سے ٹکرانے کے نتیجے میں مشکلات بڑھ تو سکتی ہوں ان کے دور ہونے کا کوئی امکان نہ ہوان سے معاملہ حکمت اور دانش سے کرنا چاہیے۔میری تجویز یہ ہے کہ مسجد کے انتظام کو پہلے مرحلے میں ایک کمیٹی کے سپرد کرنا چاہیے۔ یہ کمیٹی ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جو نائب ناظم یا علاقے کے مؤثر لوگوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے معاملہ کر سکتے ہوں۔ یہ کمیٹی کسی جھگڑے کو مول لیے بغیر آہستہ آہستہ علاقے کے بڑے لوگوں سے فیصلے کرنے کا حق منوا لے۔ شروع میں اگر اس طرح کا کوئی بڑا آدمی کمیٹی میں شامل ہو تو منزل جلدی حاصل ہو سکتی ہے۔اس معاملے میں مولوی صاحب کا کردار بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اگر کوئی ایسا آدمی امام صاحب کی حیثیت سے دستیاب ہو جائے جسے اس طرح کے لوگوں سے نمٹنے کا تجربہ ہو اور وہ اپنے اخلاق وکردار اور علم سے ان کے دل میں اپنا احترام پیدا کر لے تو اس طرح کی ناگوار صورت حال کے امکانات مزید کم ہو جاتے۔

محکمہ اوقاف کے حوالے سے مجھے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کو محکمہ اوقاف سے رابطہ کرنا چاہیے اور ان کے قواعد وضوابط معلوم کرکے آپ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ مسجد اس محکمے کے زیر انتظام آجائے۔ علاقے کے بڑے لوگ اس کے بعد مداخلت سے باز آجائیں گے اس کا امکان مجھے کم ہی نظر آتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)