باپ بیٹی اور ماں بیٹا

مصنف : ثمینہ انصاری (جدہ)

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : اگست 2011

            مجھے آج تک یاد ہے میں جب چھوٹی سی تھی اور اپنے پاپا کی بہت لاڈلی تھی۔ وہ دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلنے سے قبل آواز دیتے کہاں ہے ، میری نادیہ ؟ میں بھاگی ہوئی جاتی۔ پاپا مجھے گود میں لیکر پیار کرتے۔ مجھے اتنی خوشی ہوتی کہ سارا دن مسحور سی رہتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے اپنی امی سے بھی بہت محبت ہے مگر نجانے کیوں ، پاپا کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔میرا بڑا بھائی ،سلیم امی کا لاڈلا تھا۔ وہ اسکول سے آنے کے بعد سائے کی طرح امی کے ساتھ لگا رہتا مگر مجھے پاپا کی آمد کا انتظارہوتا تھا۔ میں امی سے صرف یہ پوچھنے جاتی کہ پاپا کے آنے میں کتنی دیر باقی ہے ؟ وہ مجھے کچھ کھانے کو دیتیں تو میں کہہ دیتی کہ پاپا کے ساتھ کھاؤں گی۔ میرا دل چاہتا کہ میں اپنے ہاتھوں سے پاپا کو روٹی پکا کر کھلاؤں ، ان کو کپڑے استری کر کے دوں ، ان کی خدمت کروں۔وقت گزرتا گیا میں اور میں میٹرک میں پہنچ گئی۔ اس وقت تک تو صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ میں نے پاپا کے تمام کام سنبھال لئے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں امی کا ہاتھ بٹانا چاہتی تھی اور دوسری بات یہ کہ مجھے پاپا سے بے حد پیار تھا۔اگر کبھی ہمارے والدین میں کسی قسم کی" کھٹ پٹ " ہوجاتی تو مجھے اپنے پاپا پر بے حد رحم آتا اور میرا دل چاہتا کہ میں امی سے کہہ دوں کہ اب بس کر دیں۔ جیسے ہی یہ تنازع ختم ہوتا ، میں پاپا سے کہتی کہ اپنے دل سے امی کی تمام باتیں نکال دیں۔ میں آپ کو ٹینشن میں نہیں دیکھ سکتی۔ امی کا موڈ خوشگوار ہوگا میں انھیں سمجھا دونگی اور پھر میں ایسا ہی کرتی تھی۔ادھر سلیم بھائی جان امی کو سمجھاتے کہ آپ فکر نہ کریں ، آپ کا بیٹا بڑا ہوگیا ہے۔ میں آپ کو افسردہ نہیں دیکھ سکتا۔

            ہر روز صبح، شام میں اور شام، صبح میں ڈھلتی رہی۔ وقت گزرنے کاپتا ہی نہیں چلا۔ ایک روز پاپا کے قریبی اعزہ کے ہاں سے میرے لئے پیغام آیا ، امی اور پاپا نے ہاں کردی۔ مجھے صرف اس بات کی خوشی تھی کہ میں پاپا کے رشتہ داروں کے ہاں بیاہ کر جا رہی تھی۔ شادی کے بعد بھی میرا دل پاپا کی خدمت کے لئے بے چین رہتا تھا۔ میں آنوں بہانوں میکے آتی ، کام کاج میں امی کا ہاتھ بٹاتی اور پاپا کی خدمت کرتی۔میری شادی کو چند سال ہی گزرے تھے کہ پاپا کا انتقال ہوگیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے دنیا سے محبت وشفقت معدوم ہوگئی۔ اب میں نے تمام توجہ شوہر کی خدمت پر مرکوز کر دی کیونکہ میں میکے جاتی تو اپنے پیارے پاپا کی اس قدر یاد آتی کہ آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلتے مگر میں بھائی جان کو دیکھتی کہ وہ اسی گھر میں امی کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔

            اللہ کریم نے مجھے دوبیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ہے۔ آج پاپا کے انتقال کو بیس برس گزر چکے ہیں۔اب میرے بچپن کی کہانی میرے ہی گھر میں دہرائی جا رہی ہے۔ میری بیٹی نازش اپنے ابو سے بے حد پیار کرتی ہے۔ ان کا خیال رکھتی ہے۔ ان کے دفتر سے آنے کا انتظار کرتی ہے۔ کھانے کے لئے بلاؤں تو کہتی ہے آپ لوگ کھا لیں ، میں ابو کے ساتھ کھانا کھا لوں گی۔یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے ابو کے وہ تمام کام جو میری ذمہ داری تھے، سنبھال لئے ہیں۔ وہ ان کے کپڑے دھونے ،بوٹ پالش کرنے ، ان کے لئے کھانا اور انہی کی پسند کی چپاتی پکانے کے تمام کام خود ہی کرنے لگی۔ اور یہ حالت ہو گئی کہ جب میں چائے بنا کر دیتی تووہ کہتے کہ" تم نے کیوں بنائی ، نازش سے کہو مجھے چائے بناکر دے۔ اس کے ہاتھ کی چائے کا تو جواب ہی نہیں۔ انکی یہ بات سن کر مجھے غصہ بھی آجاتا مگر میں سوچتی کہ پھر کیا ہوا، بیٹی ہی تو ہے۔

            ادھر میرے دونوں بیٹے میرے ساتھ یوں رہتے جیسے وہ کوئی اور نہیں بلکہ چوکیدار ہیں جو میرے پہرے پر مامور ہیں۔ ان کے پاپابھی انھیں یہی کہتے ہیں کہ ماں کا خیال رکھا کرو۔ نازش نہ صرف باپ کا بلکہ دونوں بھائیوں کا بھی بے حد خیال رکھتی ہے۔سچ پوچھئیے تووہ میری ہی خدمت کر رہی ہے کیونکہ ان کے کام وہ نہیں کرے گی تو مجھے ہی کرنے پڑیں گے۔

            میں نے یہ صورتحال اپنے ہی گھر میں نہیں دیکھی بلکہ لڑکیوں کا عمومی رویہ یہی دیکھا کہ انھیں باپ سے زیادہ محبت ہوتی ہے جبکہ لڑکے اپنی ماں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔

            اگر ہم ان حقائق کی تحقیق کریں تو یہ امر واضح ہوگا کہ درحقیقت لڑکی میں دوسروں کا خیال رکھنے اور ان کی خدمت کرنے کا جذبہ قدرتی طور پر ہی ودیعت ہوتا ہے جسے "ممتا " کہا جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ قدرتی جذبہ شادی سے پہلے ماں باپ کی خدمت اورماں بننے کے بعد اولاد کی ممتا کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اسی طرح لڑکوں کو ماں سے محبت یوں زیادہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو صنف قوی سمجھتے ہیں۔ ان کی یہ سوچ بھی قدرت کی عطا کی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ ماں کو، عورت ہونے کے ناتے کمزور تصور کرتے ہیں اور اس کا سہارا بننے کے لئے ہر دم کوشاں رہتے ہیں۔