رسول کریم ﷺ کے آباؤ اجداد

مصنف : افتخار احمد افتخار

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : اگست 2011

قسط -۶

            نبی اکرم ﷺ کے والد حضرت عبداﷲ کے دادا کانام ہاشم تھا وہ اپنی قوم کے سردار تھے اور قابل تکریم لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔ہاشم عبد مناف کے بیٹے تھے ہاشم میں وہ ساری خوبیاں موجود تھیں جو اہل قریش سے منسوب کی جاتی ہیں ۔وہ مکہ کے بڑے تاجر تھے اُن کا نام تو دراصل عمرو تھا مگر لوگ اِن کو ہاشم کے نام سے جانتے تھے جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک دفعہ جب اہل مکہ عرب کی روایتی خشک سالی اور قحط سے دوچار تھے اور ہر طرف فاقہ کشی کی نوبت آ پہنچی تھی اور لوگوں کے لیے کھانے کوکچھ نہ تھا تب ہاشم کا شام سے آنے والا قافلہ مکہ میں اترا جس کے پاس بہت سی گندم تھی ۔ہاشم نے اپنی قوم کی حالت دیکھی تو ساری گندم کا آٹا بنوا کر اس کی روٹیاں پکوائیں اس کے بعد انھوں نے کئی اونٹ ذبح کئے اور اُن کا سالن بنوایا۔ جب یہ روٹیاں اونٹ کے سالن میں بھگوئی گئیں تو اس سے جو کھانا تیار ہوا اسے عرب ثرید کہتے تھے اور شوربے میں روٹیوں کو توڑ توڑ کر ڈالنے کو وہ ہشم کہتے تھے چونکہ اس کھانے کا اہتمام اپنی قوم کے لیے عمرو نے کیا تھا اس لیے اُن کا نام ہاشم پڑ گیایعنی روٹیاں توڑ توڑ کر شوربے میں ملانے والا۔ عربوں نے ہاشم کی اس فیاضی کو اپنی روایت کے مطابق نظم کیا اور ہاشم کی مدح کی اور اس سلسلے میں بہت سے اشعار ہیں اُن میں سے کچھ اشعار یہاں پیش کئے جاتے ہیں

 عَمْرُو العُلٰی ھَشَمَ الثَّرِےْد لِقَومِہ ٖ

 وَ رِجَالُ مَکَّۃ َ مسنتون عِجا ف

            بلند مرتبہ عمرو نے اپنی قوم کے لیے روٹیاں توڑ کر ثرید تیار کی اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مکے کے لوگ شدید قحط کا شکار تھے اور بھوک سے لاغر ہو رہے تھے ۔

 تَحمل ھاشمٌ ما ضاق عنہ

 واعٰیی ان یقوم بہٖ ابن بیض

            ہاشم نے وہ بوجھ اٹھا لیا جس کے برداشت کرنے اور اسے اٹھا کے کھڑا ہونے سے شریف انسان تھک گئے تھے۔

 ا تا ھم با لغرائر مُتًّا فا تِ

 من ارض الشام بالبُرّ النضیض

            لوگوں کے لیے وہ ملک شام سے عمدہ اور صاف گیہوں کی بوریاں بھر بھر کے لائے جس کے سب ہی مشتاق ہو تے ہیں ۔

 فادمع اھل مَکّۃ من ھَشِےْمَ

 وشاب الخ ر باللحم الغریض

            انھوں نے بڑی وسعت اور فراخی کے ساتھ روٹیاں توڑ توڑ کر مکہ والوں کو پیش کیں اور فربہ گوشت سے انھیں ترو تازہ کر دیا۔

 فظلّ القوم ُ بین مکللا ھتِ

 من الشیزا ء حائرھا یقیض

            سب لوگوں نے لکڑی کے پیالوں پہ ہاتھ مارا جو بھرے ہوئے تھے لبریز تھے اور اِن کے کنارے چھلک رہے تھے ۔

 ےٰا َ ےُّھَاالرَّجُلُ الْمُحَوِّل ُ رَحْلَہٗ

 اَ لَّا نَزَ لْتَ بِاٰلِ عَبْدِ ا لدَّار ٖ

            اے وہ شخص جس نے اپنا کجاوہ الٹا ہوا ہے کیا تو عبدالدار کی اولاد کے پاس مہمان نہیں ٹھہرا۔

 ھَبَلَتْکَ اُمُّکَ لَوْ نَزَلْتَ بِرِحْلِہِمْ

 مَنَعُوْ کَ مِنْ عَدَمٍ وَ مِنْ اَقْتَار

            تیری ماں تجھے روئے اگر تو اِن کے صحن میں اترتا تو وہ مجھے افلاس اور تنگ دستی سے بچا لیتے

 اَلْخَالِطِےْنَ غَنِےُّہُمْ بِفَقِےْرِ ھِمْ

 حَتّٰی ےَعُوْدَ فَقِےْر ُ ھُمْ کَالْکَا فِیْ

             وہ اپنے غنی کو اپنے فقیر کے ساتھ ملا دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کا فقیر ان کے ہاں سے جب لوٹتا ہے تو وہ بھی ایک غنی کی طرح اپنی ضروریات کا کفیل بن جاتا ہے۔ سقایہ اور رفادہ کے منصب بھی انھیں کے پاس تھے نیز ہاشم ہی اپنی قوم کے سردار قرار پائے تھے جس کی وجہ سے قوم قریش اِن کے تابع تھی اور اِن کا حکم مانتی تھی اور اِن کی رائے پہ عمل کیا جاتا تھا حضرت ہاشم حاجیوں کے لیے کھانا بھی تیار کرتے تھے تا کہ اس سے وہ لوگ کھائیں جو دور دراز کی مسافت طے کر کے اﷲ کے گھر کی محبت اپنے دل میں لیے حج کو چلے آتے تھے ۔رفادہ اسی کو کہتے ہیں۔ مورخین نے بیان کیا ہے کہ حضرت ہاشم جب ذوالحجہ کا چاند دیکھ لیتے تو اپنی قوم کو بیت اﷲ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیتے جب اُن کی قوم اکٹھی ہوجاتی تب وہ کعبے کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر اِن کو خطاب کرتے ۔اُن کا ایک ایسا ہی خطاب یہاں پیش کیا جارہا ہے جس سے نہ صرف اُن کی شخصیت اور خیالات کو جاننے کا موقع ملے گا بلکہ اپنی قوم کی فلاح کے وہ جس قدر مشتاق تھے اور بیت اﷲ کے حقوق کے معاملے میں وہ کس قدر مستعد تھے ان امور پہ بھی اُن کی دسترس کا پتہ چلتا ہے ۔‘‘ اے قوم قریش تم عربوں کے سردار ہو ۔ اِن میں سب سے زیادہ خوبصورت چہروں والے ہو اور اِن سے زیادہ بڑی عقلوں والے ہو۔ تمہارا نسب عرب بھر میں اعلیٰ ہے عربوں میں جس قدر تمہارے قریبی رشتے دار ہیں اس قدر کسی دوسرے قبیلے کے نہیں ہیں ۔ اے قوم قریش تم اﷲ کے گھر کے پڑوسی ہو اﷲ نے تمہیں اس گھر کے والی ہونے کا شرف بخشا ہے اور حضرت اسماعیل کی دیگر اولادوں کو چھوڑ کر تمہیں اپنے جوار کے لیے مخصوص کیا ہے ۔ نیز یہ دیکھو کہ اﷲ کے گھر کے زائرین اس گھر کی تعظیم کرنے کے لیے آ تے ہیں لہٰذا وہ اﷲ کے گھر کے مہمان ہوتے ہیں اِن کی عزت و تکریم کا حق سب سے بڑھ کر تم ہی کو حاصل ہے لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اﷲ کے مہمانوں اور زائرین کی تعظیم کرو کیونکہ جب وہ آ تے ہیں تو وہ پریشان، تھکن سے چور اور غبار آلود ہوتے ہیں اور ہر شہر سے وہ لاغر اونٹنیوں پہ سوار چلے آتے ہیں جو تیر کی طرح باریک ہو چکی ہو تی ہیں لہٰذا تم اﷲ کے گھر کے مہمانوں اور اِن زائرین کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑنا۔ اس کعبے کے رب کی قسم اگر میرا مال اس کا متحمل ہوتا تو میں خود اس کی ذمہ داری لیتا اور تمہیں تکلیف نہ دیتا ۔ میں اپنے پاک اور حلال مال میں سے جو نہ تو قطع رحمی کا ثمرہ ہے اور نہ اس کے سبب کسی پہ ظلم کیا گیا ہے اور نہ اس میں حرام مال شامل ہوا ہے کچھ رقم نکالتا ہوں لہٰذا تم میں سے جو شخص ایسا کرنا چاہے میں اُسے اِس گھر کی عظمت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ اس گھر کے زائرین کی عزت کی خاطر اور انھیں تقویت دینے کے لیے تم میں سے کوئی شخص پاک مال کے سوا کچھ نہ نکالے جو نہ تو کسی سے ظلماً لیا گیا ہو اور نہ ہی اس مال کے ضمن میں قطع رحمی کی گئی ہو اور نہ یہ مال کسی سے زبردستی چھینا گیا ہو’’

            حضرت ہاشم کو جب اپنی قوم کا سردار چنا گیا تب بھی آپ نے اپنی قوم سے خطاب کیا تھا اور اُنھیں اِن امور کی طرف بلایا جن کو معروفات کہا جاتا ہے یعنی وہ امور جن سے شریف اخلاق جنم لیتے ہیں اور انسان برے اعمال سے دور ہٹ جاتا ہے۔ آپ نے کہا‘‘ لوگو! ہم ابراہیم کی آل اور اسماعیل کی اولاد ہیں ہم نضر بن کنانہ اور قصی بن کلاب کے بیٹے ہیں ہم مکے کے مالک اور حرم کے مکین ہیں۔ ہم حسب کی بلند چوٹی اور بزرگی کی کان کے مالک ہیں اس لیے تم میں سے ہر شخص پہ واجب ہے کہ ہر قسم یا معاہدہ جس کا پورا کرنا اس پر واجب ہے اُس میں اِس کی مدد کرے اور اس کی دعوت کو قبول کرے سوا اِن امور کے جن میں قبیلہ کی مخالفت اور قطع رحمی پائی جاتی ہو ۔اے قصی کے بیٹو!تم ایک درخت کی دو ٹہنیوں کی طرح ہو اِن میں سے کوئی ایک بھی توڑ دی گئی تو دوسری ٹہنی خود ہی ویران ہو جائے گی۔ کوئی تلوار میان کے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتی اور جو شخص اپنے قبیلے پہ تیر چلاتا ہے وہ تیر خود اسی کو آ کے لگتا ہے ۔ جو شخص مباحثہ کرتے ہوئے غصے میں آ جائے وہ سر کشی کی طرف نکل جاتا ہے ۔لوگو حلم ،شرف کی بات ہے اور صبر کامیابی ہے اور احسان خزانہ ہے سخاوت سرداری ہے اکھڑ پن بے وقوفی ہے۔ ایام رنگ بدلتے رہتے ہیں اور زمانہ حوادث کا نام ہے انسان اپنے عمل کی وجہ سے پکڑا جاتا ہے لہٰذا تم لوگوں سے اچھا برتاؤ کیا کرو تاکہ تعریف حاصل کر سکو اور بے کار باتوں کو چھوڑ دو تاکہ بے وقوف تم سے علیحدہ رہیں۔ اپنے ہم نشینوں کی عزت کیا کرو تاکہ تمہاری مجلس آباد رہے اپنے ساتھی کی حمایت کیا کرو تاکہ وہ تمہارے پڑوس میں رہنے کی خواہش کرے ۔ اپنی ذات سے بھی انصاف کیا کرو تاکہ لوگ تم پہ اعتماد کریں۔ تم مقارم اخلاق کو اپناؤ کیونکہ یہی بلندی ہے ۔ کمینے اخلاق سے بچو کیونکہ یہ شرافت کو گرا دیتے ہیں اور بزرگی کو تباہ کر دیتے ہیں جاہل کو ڈانٹ دینا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ کوئی گناہ کر بیٹھے۔ قبیلے کا سردار ان کے بوجھ اٹھاتا ہے حلیم الطبع انسان کا مقام ان لوگوں کے لیے نصیحت کا سبب ہے جو اس سے فائدہ اٹھانا چائیں ’’

            اپنے ذاتی خصائص و صفات میں عبد مناف کا کوئی جواب نہ تھا اور وہ حقیقی معنوں میں اپنی قوم کے سردار تھے اس لیے زندگی میں انہوں نے مناصب کی جس طرح تقسیم کی کسی نے اُس پہ اعتراض نہ کیا۔ انھوں نے مناصب کو عبدالدار کے سپرد کر دیا تھا پھر وقت اسی طرح گذرتا رہا حتیٰ کہ عبد مناف اور ان کے بھائی عبدالدار ابدی نیند جا سوئے۔ اس کے بعد عبد مناف کے بیٹوں نے سوچا کہ بیت اﷲ کے تمام مناصب اُن کے چچا کے بیٹوں کے پاس ہیں جو انصاف کی بات نہیں ہے بلکہ وہ خود کو اس کا زیادہ اہل گردانتے تھے۔ جس کی وجہ سے اُن کے درمیان مخاصمت پیدا ہوتی چلی گئی جو اتنی بڑھی کہ نوبت جنگ تک جا پہنچی۔قصی نے عبدالدار کو حجابہ ،لوا، رفادہ، سقایہ اور ندوہ جیسے اہم مناصب سونپ دئیے تھے جس کا اولادِ عبد مناف کو رنج تھا اس لیے ہاشم و عبد شمس ومطلب و نوفل سب نے مل کر اس بے انصافی کے خلاف آواز اٹھائی مگر بنی عبدالدار نے اِن مناصب کو تقسیم کرنے سے انکار کر دیا ۔چنانچہ قوم قریش دو حصوں میں منقسم ہو گئی ۔قبائل بنی اسد بن عبدالعزیٰ، بنی زہرہ بن کلاب ، وبنی تیم بن مرہ اور بنی حارث بن فہر نے بنی عبدمناف یعنی ہاشم و عبد الشمس کا ساتھ دیا جب کہ دوسری طرف بنی مخزوم، بنی سہم اور عدی بن کعب وغیرہ نے بنی عبدالدار کا ساتھ دیا۔ بنو عبد مناف کی طرف سے خوشبو سے بھرا ایک پیالہ بیت اﷲ کے دروازے کے سامنے رکھ دیا کہ جو لوگ اِن کا ساتھ دینا چاہیں وہ اپنا ہاتھ اس خوشبو سے بھرے پیالے میں ڈبوئیں اس طرح وہ جان گئے کہ عربوں میں سے کون کون سے خاندان اور قبائل اُن کے ساتھ اور کون کون سے قبائل اُن کے مخالف ہیں ۔خوشبو کے پیالے میں ہاتھ ڈبونے کی وجہ سے بنو عبد مناف کے حامیوں کو مطیبون کہا گیا جس کے معنی ہیں خوشبو والے۔ ان کے مقابل بنی عبدالدار نے خون سے بھرا یک پیالہ بیت اﷲ میں رکھ دیا کہ اس معاملے میں جو لوگ اُن کے حامی ہیں وہ اس میں اپنی انگلیاں ڈبو لیں اس طرح وہ جان گئے کہ کون کون اس وقت اِن کے ساتھ ہے اور کون مخالف ہے اور خون کے پیالے کی وجہ سے لوگوں نے انھیں لعقۃ الدم کا نام دیا جس کے معنی ہیں خون چاٹنے والے۔ چنانچہ دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک گروہ نے اپنے حلیفوں سے سخت قسمیں لیں کہ وہ اپنے حامیوں کا ساتھ اس وقت تک نہ چھوڑیں گے جب تک کہ سمندر بھیڑ اور دنبے کی اون کو تر کرتے رہیں گے ۔

            جب جنگ کی چکی چلنے کو تھی تب عربوں کے بعض اہل دانش نے سوچا کہ اس طرح تو سب تباہ ہو جائے گا۔بنو مخزوم بنو سہم بنو جمح بنو عدی بن کعب کے عقل و دانش والے لوگ اکٹھے ہوئے اور انھوں نے متحارب خاندانوں کو جنگ سے رک جانے اور مذاکرات کا سگنل دیا ۔اس طرح جنگ وقتی طور پہ ٹل گئی اور پھر بڑے غور و غوض کے بعد یہ طے پایا کہ رفادہ قیادہ اور سقایہ کے مناصب بنی عبد مناف کو دے دئیے جائیں گے جب کہ حجابہ اور لؤا کے مناصب بنی عبدالدار کے پاس رہیں گے اس طرح یہ متحارب خاندان ایک معاہدے پہ متفق ہوگئے اور عرب ایک بڑی جنگ کی تباہی سے بچ گئے ۔اس معاہدے میں کہا گیا کہ گھڑ سوار دستوں کی قیادت عبد شمس بن عبد مناف کریں گے۔ عبدشمس کی وفات کے بعد یہ منصب امیہ کو ملا اور اِن کی وفات کے بعد یہ منصب اُن کے بیٹے ابو سفیان کے حصے میں آ یا ۔

             رفادہ کا منصب ہاشم کے بعد عبدالمطلب کو، ان کے بعد ابو طالب کو اور ان کے بعد ان کے بھائی حضرت عباسؓ کے پاس رہا ۔یہ منصب ایک طویل مدت تک بنی عباس کے پاس رہا یہاں تک کہ بغدادا ور مصر سے خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہو گیا۔

            مورخین نے لکھا ہے کہ جب حضرت ہاشم پیدا ہوئے تو اکیلے پیدا نہ ہوئے تھے کہ اُن کے ساتھ اُن کے جڑواں بھائی عبد شمس بھی پیدا ہوئے تھے جب ہاشم پیدا ہوئے تو ان کے سر کے ساتھ عبد شمس کے پاؤں کا انگوٹھا جڑا ہوا تھا جس کو تیز دھار آلے سے الگ کیا گیا توکچھ خون بہا۔ جس پہ قیافہ شناسوں نے کہا تھا کہ اِن بھائیوں کی اولادوں کے درمیان خونزیزی ہو گی۔

             جب ہاشم اہل قریش کے سردار بنے اور اپنے عمدہ اوصاف کی وجہ سے عرب بھر میں شہرت حاصل کی تو عبد شمس کے بیٹوں نے اِن سے حسد کرنا شروع کر دیا۔ہاشم مکہ کے والی بھی تھے اور اہل قریش کے سردار بھی وہ عربوں کے صاحب ِ دانش لوگوں میں بھی شامل تھے اور عرب کے بڑے سخیوں میں بھی اُن کا نام آتا تھا ۔ اُن کی فصاحت اور خطابت تک پہنچنا بھی بہت دشوار تھا اس کے علاوہ وہ اِن کے حکم بھی تھے اور مفاخرت میں عربوں کے مابین فیصلے کیا کرتے تھے ۔بنی عبد شمس نے اِن امور کو اختیار کرنے کوشش بھی کی مگر وہ ہاشم کی رفعت کو نہ چھو سکے اور نہ اُن کی شہرت کو پہنچ سکے جس کی وجہ سے حاسد بن گئے ۔ آخر اسی حسدمیں انھوں نے ہاشم کو مفاخرت کی دعوت دے دی جسے ہاشم نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ وہ اس کو مناسب نہیں جانتے تاہم جب نبی عبد شمس نے یا امیہ نے شہر مکہ میں لوگوں کو یہ کہنا شروع کیا کہ ہم شرف میں بنو ہاشم سے بلند مرتبہ رکھتے ہیں اس لیے بنو ہاشم میدان سے بھاگ گئے ہیں۔ جب یہ بات بنوہاشم کے لوگوں نے سنی تو انھوں نے ہاشم سے اس معاملے کو دریافت کیا حضرت ہاشم نے کہا !میں اس مفاخرت کو پسند نہیں کرتا ’’۔لوگوں نے کہا !ہم آپ کو اس پہ مجبور کر دیں گے اس لیے کہ یہ خاندان کے نام کا معاملہ ہے ’’۔ہاشم انکار کرتے رہے مگر لوگوں نے انھیں نہ چھوڑا !تب ہاشم نے اُن سے کہا ! کہ وہ اس مفاخرت پہ تیار ہیں بشرطیکہ جو ہارے وہ دوسرے کو سیاہ آنکھوں والی پچاس اونٹنیاں ادا کرے اور مکہ چھوڑ کے چلا جائے ’’۔لوگوں نے یہ شرط بنو امیہ تک پہنچائی ’’۔جسے انھوں نے قبول کر لیا ’’۔جس کے بعد بنو ہاشم نے بنو امیہ کی طرف سے دی جانے والی مفاخرت کی دعوت قبول کر لی’’۔اور دونوں گروہوں کی رضا مندی سے عسفان کے کاہن الخزاعی کو حکم مقرر کر لیا گیا’’۔چنانچہ مقرر ہ دن جب لوگ کاہن الخزاعی کے ٹھکانے پر پہنچے توا س سے پہلے کہ لوگ کاہن کو اس مقصد سے آگاہ کرتے جس کے لیے وہ اس کے پاس آئے ہیں ’’۔اس نے کہنا شروع کر دیا ’’۔قسم ہے روشن چاند کی اور چمکنے و الے ستارے کی اور برسنے والے بادل کی اور اِن پرندوں کی جو فضاؤں میں ہیں’’۔اور جب تک مسافرپہاڑوں کے ذریعے راستہ پاتے رہیں گے خواہ وہ نجد کو جا رہے ہوں خواہ غور کو ہاشم فخر میں امیہ سے سبقت لے گیا ہے ’’۔ کاہن نے امیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا !کیا تو ایسے شخص سے مقابلہ کرتا ہے جو تم سے زیادہ بلند قامت ہے ’’۔تم سے زیادہ بڑی کھوپڑی والا ہے ’’۔تم سے زیادہ خوبصورت ہے ’’۔اور تم سے کم واجب ملامت ہے ’’۔اس کی اولاد تم سے زیادہ ہے ’’۔اور وہ صفر کے مہینے میں تجھ سے زیادہ سخاوت کرنے والا ہے ’’۔س لیے میں تم پہ ہاشم کو فوقیت دیتا ہوں ’’۔یہ سن کر امیہ نے کہا !یہ بھی تو زمانے کی ایک دغا تھا کہ ہم نے تجھ کو حکم بنایا ’’۔تاہم بنو امیہ نے عسفان کے کاہن الخزاعی کا فیصلہ قبول کر لیا’’۔امیہ نے پچاس کالی آنکھوں والی اونٹنیاں حضرت ہاشم کے حوالے کیں اور مکہ چھوڑ کر شام کی طرف چلا گیا جہاں اس نے جلاوطنی کے دس سال گزارنے تھے ’’۔ہا شم نے اِن اونٹوں کو ذبح کر دیا اور سب لوگوں کو اِن اونٹوں کا گوشت کھانے کی اجازت تھی اور لوگ گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹ کر لے جا رہے تھے ’’۔

            ہاشم نے جب ہوش سنبھالا تب انھوں نے دیکھا کہ اُن کی قوم غربت اور پس ماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی بسر کر رہی ہے دوسری طرف اُن کی خود داری تھی جو اُن کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے روکتی تھی چنانچہ اُن کے ہاں ایک عجیب رسم نے جنم لیا جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم سے نہیں دی جا سکتی اُس رسم کا نام ‘‘ احتفاد ’’ تھا جس میں ہوتا یہ کہ جب کسی خاندان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ رہتا تب بھی وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی کوشش نہ کرتے بلکہ وہ اپنے حالات کو لوگوں سے چھپاتے تھے یاتو وہ اپنے خیمے میں روپوش ہو جاتے یا پھر مکہ کے نزدیکی پہاڑوں پہ چلے جاتے اور جب تک اُن کے حالات کی کسی کو خبر ہوتی وہ بھوک اور پیاس سے سسک سسک کر دم توڑ دیتے جب کئی خاندانوں کی اس طرح موت ہوگئی تو ایک دن حضرت ہاشم نے اپنی قوم جمع کیا اور اُن سے خطاب کیا ‘‘ اے گروہ قریش ! قبیلہ کی عزت افراد کی کثرت سے ہوتی ہے ۔ اہل عرب میں اگرچہ مال کی فراوانی اور کثرت کے اعتبار سے تمہیں برتری حاصل ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے بعض خاندان ‘‘ احتفاد ’’ کی نظر ہو رہے ہیں جو ایک قبیح رسم ہے جس نے سارے قبیلے کا سر شرم سے جھکا دیا ہے اس لیے اگر تم میری بات مانو اور میری پیروی کرو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ۔میں نے تمہاری اس ابتری کا ایک حل سوچا ہے قوم نے حضرت ہاشم کو جواب دیا آپ نے ہمیشہ ہمارے لیے اچھا ہی سوچا ہے اور ہمیں آپ پہ پورااعتماد ہے اس لیے ہم وہی کریں گے جو آپ چاہیں گے۔ تب حضرت ہاشم نے اپنی قوم سے کہا کہ میں نے سوچا ہے کہ میں تم میں سے دولت مند کنبوں کو اُن کے مفلس کنبوں سے ملا دوں جب تم لوگ اپنے تجارتی کارواں لے کر موسم سرما میں شام کو اور موسم گرما میں یمن کی طرف جاؤ تو آپ اپنے اِن نادار بھائیوں کو اپنے ساتھ رکھو یہ آپ کی خدمت کریں گے آپ کے مفادات کا تحفظ کریں گے جس کے عوض تم اِن لوگوں کو اپنے مال سے بقدر استطاعت دو گے اس طرح یہ لوگ تمہارے مال یعنی نفع میں بھی شامل ہو جائیں گے اور تمہارے کاروبار میں بھی شریک ہوں گے اس لیے وہ لوگ تمہاری خوشحالی کے سائے میں خود بھی آسودہ زندگی بسر کر سکیں گے ۔اور اگر تم نے اِن باتوں پہ عمل کیا تو یقین کرو کہ اس کے بعد کوئی خاندان مرنے کے لیے فاران کے پہاڑوں کا رخ نہیں کرے گا ۔اس طرح ہاشم نے ہر دولت مند خاندان کے ساتھ ایک مفلس خاندان کو جمع کر دیا۔ قوم نے اُن کی باتوں پہ پوری طرح عمل کیا جس کے نتیجے میں مفلسی اُن کے ہاں سے رخصت ہوگئی اور خوشحالی اِن کے آنگن میں اتر آئی اور اس کے بعد کوئی خاندان موت کو گلے لگانے کے لیے اپنے خیمے میں روپوش نہ ہوا ’’

            ہاشم ہی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے عربوں میں ہر سال دو تجارتی سفروں کا طریقہ جاری کیا قریش روز اول سے تاجر تھے اور تجارت کے اسرار و رموز کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے عبدمناف کے چاروں بیٹوں نے مختلف ممالک کے امراء سے تعلق قائم کر رکھے تھے جس کی وجہ سے اُن کے تجارتی قافلے کو بیرونی ممالک میں سہولیات فراہم کی جاتیں تھیں۔ حضرت ہاشم کے قافلے شام کی طرف جاتے تھے کہ اُن کے تعلقات شام کے حکمرانوں سے تھے اگرچہ اُن کے قافلے روم اور غسان کی طرف بھی جاتے تھے ہاشم کے بھائی عبدشمس نے شاہ حبشہ نجاشی سے تعلق استوار کر رکھاتھا اس لیے اُن کے قافلے حبشہ کی طرف جاتے تھے عبدمناف کے تیسرے بیٹے نوفل نے کسریٰ ایران سے اچھے تعلقات استوار کر کھے تھے اس لیے اُن کے قافلے ایران کی طرف جاتے اور عبدمناف کے چوتھے بیٹے مطلب نے حیرہ میں اپنے تجارتی تعلقات بڑھا لیے تھے اس لیے وہ اہل حیرہ سے تجارت کرتے تھے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ کسی ایک شخص کے بیٹوں نے تجارت میں اتنی دولت اکٹھی نہیں کی جتنی کی عبدمناف کے بیٹوں نے کی ۔ چنانچہ ہاشم جب تک اہل قریش کے سردار رہے قریش اُن کی دانش اور فہم سے راہنمائی حاصل کرتے رہے ۔

            جب رفادہ اور سقایہ کے منصب حضرت ہاشم کو سونپے گئے تو انھوں نے اِن شعبوں کی بہتری کے لیے بہت کام کیا اس لیے کہ انھیں اُن لوگوں کی تکالیف اور مشکلات کا بیحد احساس تھا جو دور دراز سے حج کے لیے مکہ آتے تھے۔ حضرت ہاشم سمجھتے تھے کہ دور دراز سے بیت اﷲ کی زیارت کو آ نے والا ہر شخص اُن کا ذاتی مہمان ہے اس لیے قریش اُن کے حکم پہ عمل کرتے ہوئے حاجیوں کی آسائش اور راحت رسانی کا اس قدر اہتمام کرتے کہ ان کے گھر والے حسب ِمقدور معمولی اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی اِن کو فراہم کر دیتے ، اور ہاشم بن عبد مناف خود بھی ہر سال بہت سا مال اس غرض کے لیے نکالتے اور قریش کے جولو گ دولت مند تھے اُن سے بھی اعانت طلب کرتے اور دیگر بھی بہت سے لوگ سو سو مثقال سے حضرت ہاشم کی اعانت کرتے یاد رہے مشقال رومی سکہ تھا روم کا بادشاہ ہرقل تھا اور مشقال سونے کا ہوتا تھا ۔

اس دولت سے حضرت ہاشم نے حاجیوں کی پیاس بجھانے کے لیے بڑے بڑے حوض تعمیر کرائے جن کا محل وقوع چاہ زم زم سے قریب ہوتا لوگ مکے کے کنوؤں سے پانی بھر بھر کے لاتے اور اِن حوضوں کو بھرتے رہتے جن سے حاجی اپنی پیاس بجھاتے کہ عرب میں سب سے بڑی عیاشی جی بھر کے پانی پینا ہی تھی اس کے علاوہ آٹھ ذوالحجہ سے عرب حاجیوں کے لیے کھانا پکانا شروع کرتے اور مکے منیٰ اور عرفات میں جمع لوگوں کی ضیافت کی جاتی۔ اِن کھانوں میں گوشت ، گھی چھوارے اور ستو کی ثرید شامل ہوتی باوجود اس کے عرب میں پانی کم ہوتا ہے منیٰ اور عرفات میں حضرت ہاشم کی طرف سے آب رسانی کا عمدہ اہتمام موجود تھا۔ لوگ اُن حوضوں کو پانی سے بھرتے رہتے جو خالی ہو جاتے اس طرح حاجیوں کی پانی کی ضرورت ہر دم پوری ہو تی رہتی۔ مناسک حج سے فارغ ہو کر جب یہ لوگ منیٰ سے واپس آتے تب یہ ضیافت اپنے اختتام کو پہنچتی اور لوگ واپسی کے لیے اپنے اپنے مقامات کی طرف روانہ ہو جاتے ۔

            اب ہم ہاشم کی اولاد کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں اُن کے سب سے نامور بیٹے عبدالمطلب تھے جن کی ماں کا نام سلمی تھا حضرت ہاشم نے اُن کو پہلی بار سوق النبط کے تجارتی بازار میں دیکھا تھا۔ عرب کے دیگر بازاروں کی طرح یہ بازار بھی سال میں ایک بار ہی لگتا تھا جو نبطی قوم کا ایک بازار تھا جہاں یہ بازار لگتا تھا اس مقام کا نام بھی ا س بازار کی نسبت سے سوق النبط پڑ ھ گیا تھا اور یہ مدینے کے راستے میں تھا۔ حضرت ہاشم اس وقت ایک تجارتی قافلہ لے کر سوق النبط کے قریب سے گز رہے تھے کہ بازار لگا دیکھ کر انھوں نے اپنے قافلے کو یہیں رُک جانے کا حکم دیا۔ وہیں حضرت ہاشم نے سلمیٰ کو دیکھا کہ وہ خاتون اپنے ملازمین کو مختلف احکامات دے رہی ہے ’’۔حضرت ہاشم نے لوگوں سے پوچھا !یہ خاتون کون ہے جو خوبصورت بھی ہے اور دور اندیش اور مسقل مزاج بھی نظر آتی ہے ’’۔لوگوں نے انھیں بتایا کہ اِن کا نام سلمیٰ ہے ’’ہاشم نے اُن سے دریافت کیا !کیا اس کی شادی ہو چکی ہے ’’۔لوگوں نے کہا!ہاں شادی ہوئی تھی مگر اس کا خاوند انتقال کر چکا ہے ’’۔اِن کے خاوند کانام احیحہ بن الجلال تھا جس کی صلب سے سلمیٰ کے دو بیٹے ہیں جن کے نام عمرو اور معید ہیں ’’۔ اُن لوگوں نے ہاشم کو اس عورت کے بارے میں مزید بتایا کہ یہ عورت اُن میں عزت و شرف کی مالک سمجھی جاتی ہے بہت مالدار ہے اس لیے لوگ اس کو شادی کے پیغام بھیجتے ہیں مگر اُس کی کڑی شرائط کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ’’۔سلمیٰ کہتی ہے کہ وہ اس سے نکاح کرے گی جو اسے طلاق دینے کا حق تفویض کرے گا دراصل وہ چاہتی ہے کہ اگر خاوند اس کو پسند آجائے تو وہ اس کو اپنا لے گی ورنہ اپنی مرضی سے اس سے الگ ہوجائے گی ’’۔

            حضرت ہاشم خود بہت خوبصورت تھے اور انھیں یہ عورت دل سے اچھی لگی تھی ’’۔ہاشم کے متعلق علامہ محمود شکری آ لوسی نے اپنی کتاب بلوغ الارب میں کہیں لکھا ہے کہ۔’’‘‘ وہ لوگوں کی مدد کرنے والے تھے خوش رو خوش اخلاق تھے بلند و بالا قامت اور سرخ سفید رنگ کی بدولت جو بھی انھیں دیکھتا اِن کے ہاتھ چوم لیتا اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ کا نور اُن کے چہرے پہ ضوفشاں تھا’’چنانچہ جب حضرت ہاشم نے سلمیٰ کو نکاح کی دعوت دی تو اس نے بخوشی قبول کر لیا ’’۔کیونکہ حضرت ہاشم کا حسب اور نسب عربوں میں اس رفعت پہ تھا کہ مشکل ہی سے کوئی اِن سے ناتا جوڑنے سے انکار کر سکتا تھا ’’۔اس لیے سلمیٰ نے حضرت ہاشم کا پیغام خوشی سے قبول فرما لیا اور اُن کے نکاح میں آگئیں’’۔ اس رات حضرت ہاشم نے اپنی بیوی سے صحبت کی اور دوسرے دن اپنے قافلے والوں کے لیے ولیمہ کی دعوت کی ’’۔حضرت ہاشم کے ولیمے میں قریش کے چالیس لوگ شامل تھے جو اِن کے قافلے میں شامل تھے اِن کے علاوہ بنی عبد مناف بنی مخزوم اور نبی سہم کے کچھ لوگ بھی اُن کے ولیمے میں شامل ہو ئے اور کچھ لوگ وہ تھے جو اہل مدینہ میں سے تھے اور سلمیٰ کے میکے والے تھے ’’۔اپنی بیوی کے پاس کچھ دن رکنے کے بعد حضرت ہاشم اپنے تجارتی قافلے کو لے کر شام کی طرف روانہ ہو گئے جب وہ غزہ کے مقام پر پہنچے تو وہ بیمار ہوگئے اُن کا قافلہ رک گیا اور اس وقت تک رکا رہا جب تک کہ حضرت ہاشم نے وفات پائی۔ہاشم کی کنیت ابو یزید تھی اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اُن کی کنیت اُن کے بیٹے اسد کے نام پہ تھی یعنی لوگ انھیں ابو اسد کہہ کر پکارتے تھے ’’۔ادھر اُن کی آخری بیوی سلمیٰ بھی حمل سے تھیں ’’۔وقت پورا ہونے پہ اُن کے ہاں ایک بیٹے نے جنم لیا جس کے سر پہ کچھ سفید بال تھے اس لیے اُن کی ماں نے اُن کا شیبہ رکھا اور یہی شیبہ عبدالمطلب ہیں جو ہمارے پیارے رسول محمد ﷺ کے دادا ہیں ۔

 ( جاری ہے )