سوات دل نشیں کر دے ۔۔۔۔!

مصنف : راؤ تہذیب حسین تہذیب

سلسلہ : نظم

شمارہ : اگست 2011

 

کبھی وہ دن بھی ہوتے تھے 
سکوں سے ہم بھی سوتے تھے 
بہاریں مسکراتی تھیں 
وفا کے گیت گاتی تھیں 
وہ چشمے گنگناتے تھے 
پپیہے چہچہاتے تھے 
یہ خطہ تھا حسیں ایسا 
کسی ایک نازنین جیسا 
نگاہیں دیکھتی رہتیں 
مگر کچھ سوچتی رہتیں 
وہ منظر دل لبھا جاتے 
نظر سے دل میں آجاتے 
عجب وادی کی خوشبو تھی 
عجب لوگوں کو خُو بُو تھی 
ہر ایک تھا جاں نثار ان میں 
مکیں سارے نمازی تھے 
مجاہد اور غازی تھے 
محبت تھی چلن ان کا 
عجب تھا بانکپن ان کا 
یہ وادی تھی دلہن جیسی 
گلاب نسترن جیسی 
یہاں جگنو اترتے تھے 
چراغاں خوب کرتے تھے 
حسیں پریاں اترتی تھیں 
جو شب بھر رقص کرتی تھیں 
یہ وادی تھی کہ جنت تھی 
ہر ایک پل جس میں راحت تھی 
جو اس کو دیکھنے آتا 
اسی کا ہو کے رہ جاتا 
ہجوم عاشقاں ایسا 
کبھی دیکھا کہاں ایسا 
یہاں جو ایک بار آیا 
وہ مڑ کے بار بار آیا 
نظر تھکتی نہ دل بھرتے 
چلے جاتے سفر کرتے 
ہر ایک منظر سہانا تھا 
دیوانہ سب زمانہ تھا 
مکیں سارے مکاں سارے 
خوشی سے شادماں سارے 
اچانک پھر دن پھرے ایسے 
غموں میں ہم گھرے ایسے 
نظر اس کو لگی ایسی 
کسی کو کب لگی ایسی 
کوئی ایسا گیا ہو کر 
دلوں میں نفرتیں بو کر 
نہ کوئی باپ سے خوش ہے 
نہ اپنے آ پ سے خوش ہے 
نہ ماؤں کی رہی عزت 
نہ بیٹی کی بچی عصمت 
یہ انساں کھو گیا کیونکر 
یہ حیواں ہو گیا کیونکر 
یہ کیوں خوں خوار بن بیٹھا 
کھلی تلوار بن بیٹھا 
کرے سب کام مرضی سے 
دکھائی دیں جو فرضی سے 
خدا کا نام لے لے کر 
پیے اسلام لے لے کر 
ہمیں کافر بتاتا ہے 
عجب فتوے سناتا ہے 
لیے بندوق آتا ہے 
ہماری جاں کو آتا ہے 
بنا ہے پیکر نفرت 
عجب ہے دیدنی حالت 
کہیں خود کش دھماکے ہیں 
یہ بندے کس خدا کے ہیں 
اِدھر دیکھو اِدھر لاشیں 
اُدھر دیکھو اُدھر لاشیں 
کہیں گردن کٹے لاشے 
کہیں ٹکڑے کٹے لاشے 
بڑھی لوگوں میں یوں نفرت 
ہوئی عنقا یہاں الفت 
بنام مذہب و ملت 
وہ پھیلائی گئی دہشت 
کہ رشتے چیخ اٹھے ہیں 
فرشتے چیخ اٹھے ہیں 
لہو میں تر بہ تر وادی 
لہو ہے سر بہ سر وادی 
درندے دندناتے ہیں 
قیامت سب پہ ڈھاتے ہیں 
ستم کی انتہا یہ ہے 
الم کی انتہا یہ ہے 
گھروں سے کر دیا بے گھر 
پھریں انساں سبھی در در 
کرم مالک کرم ہم پر 
رحم مالک رحم ہم پر 
نبی کا واسطہ تجھ کو 
دکھا دے راستہ مجھ کو 
نوائے بے نوا سن لے 
صدا میرے خدا سن لے 
اسے آباد کر دے تو 
ہمیں پھر شاد کر دے تو 
یہاں اتریں نہ میزائل 
یہاں کوئی نہ ہو گھائل 
وہ چشمیں گنگنائیں پھر 
پپیہے چہچہائیں پھر 
چمن میں پھر بہار آئے 
گلوں پر بھی نکھار آئے 
خطائیں معاف کر مالک 
دلوں کو صاف کر مالک 
بنا دے پھر ہمیں بھائی 
کہ ہیں اسلام کے داعی 
دلوں میں پیار یوں بھر دے 
بہم شیر و شکر کر دے 
محبت کی امیں کر دے 
وفا کی سرزمیں کر دے 
اسے پھر سے حسیں کر دے 
سوات دل نشیں کر دے ……!!!