خمنیی و فردوسی کی سرزمین

مصنف : ڈاکٹر انوار احمد بگوی ، خانم فرحت احمد بگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : مئی 2011

قسط -۳

اصفہان نصف جہان
اصفہان کی طرف

            اصفہان شہر صوبہ اصفہان کا صدر مقام ہے۔ وہ تہران سے جانب جنوب414 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی آبادی25لاکھ ہے۔ اصفہان اپنی خوبصورتی اور دلکشی کے اعتبار سے نصف جہاں کہلاتا ہے۔ تہران سے یہ شہر ریل ، سڑک اور ہوائی تینوں ذریعوں سے جڑا ہوا ہے۔ اپنے سفر کے مقاصد کے پیش نظر ہم نے بذریعہ بس جانے کا فیصلہ کیا۔ علی الصبح خیابان معلم اور کُوچہ بیت امام خمینی سے نکلتے حرم معصومہ پہنچے۔ وہاں پُل آہن چی سے تا کسی خطی( سواریوں والی ٹیکسی) لے کر شہر سے باہر ہفتاد و دوتن(بہتر بدن) سٹاپ پر گئے۔ تھوڑے انتظار کے بعد ایک بس مل گئی جو اصفہان جار ہی تھی۔ کنڈیکٹر سواریوں کو آواز دے رہا تھا ۔ بس باہر سے بہتر تھی مگر اندر سے پرانی نکلی، لیکن صاف ستھری۔ گرد اورکچرے سے پاک ، معلوم ہوتا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کا محکمہ ایرانی سڑکوں پر چلنے والی بسوں کی حالت زار کا سنجیدہ نوٹس لیتا ہے۔ وہ مسافروں کو آرام و آسائش کے سلسلے میں سہولتیں فراہم کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ چنانچہ ہر سیٹ کے ساتھ پلاسٹک کا ایک چھوٹا سا ڈول لٹکا ہوا تھا۔ جہاں ڈول نہیں تھا وہاں شاپر تھا۔ مسافر جو کچھ کچرا بنائیں، سڑک پر یا بس کے اندر پھینکنے کے بجائے ڈول یا شاپر میں ڈالتے ہیں اور مسافر بن کہے واقعی اسی طرح کر رہے تھے۔ بس میں زیادہ مسافر نہ تھے۔ دو تین خاندان، کچھ جوڑے اور باقی اکیلے مرد عورت مسافر تھے۔ بس میں ٹی وی تھا مگر بندرہا۔ بس کے اندر صاف پانی کا کولر موجود تھاجس سے مسافر استفادہ کر رہے تھے۔ ہائی وے دور ویہ اور رفتار 140کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ ایران میں ٹریفک دائیں طرفہ ہے۔ ہائی وے کے ساتھ عمارات کی دیواروں پر جہاں مصنوعات کی تشہیر کے لیے وال چاکنگ کی جاتی ہے’ وہاں یہ بھی لکھا ہوا ہے:

            شہر ما، خانہ ما (ہمارا شہر ہماراگھر ہے)۔

             در حفظ و نگہداری فضائی سبز بکو شیم

            ( آئیے ماحولیاتی سر سبزے کی حفاظت کے لیے کوشش کریں)

            سڑک کے اطراف میں زیادہ آبادیاں نظر نہیں آئیں کیونکہ ہائی وے اکثر بڑے شہروں کے باہر سے گزرتی ہے۔سر سبز کھیت بہت ہی کم نظر آئے۔ شہر وں کے پاس چارہ ، مکئی اور بھیڑیں دکھائی دیں۔ بعض جگہوں پر آبپاشی کے لیے گرد شی فوارے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس طریقے سے پانی کا ضیاع کم ہوتا ہے اور جو پانی صرف ہو’ پودا اس سے اچھی طرح سیراب ہو جا تاہے۔

            راستے میں کوئے نظر آئے جن کا رنگ سفید ی مائل تھا اور سرو گردن سیاہ۔ صحت مند اور بڑے سائز کے۔ سڑک کنارے جگہ جگہ بلوط اور صنوبر کے درخت دکھائی دیئے۔ صنوبر دیکھ کربلوچستان کی وادی زیارت کے صنوبر یاد آئے جو ایسی ہی آب و ہوا میں اُگے ہیں۔ ساری بس میں ڈرائیور سمیت کوئی سگریٹ نوش نہ تھا۔ ڈرائیور البتہ سارے سفر میں مسلسل جگالی کرنے میں مصروف رہا۔ راہ میں بس تھوڑی دیر رکتی، کبھی کوئی سواری اترتی اور کہیں ایک آدھ سوار ہو جاتی تا ہم زیادہ مسافر نہ تھے۔ بس کسی سٹا پ پر وقت ضائع نہ کرتی۔ یہ بھی نہ ہوا کہ ڈرائیور نے ہائی وے سے باہر کسی اڈے پر جا کر بس روکی ہو تا کہ ہوٹل والے مسافروں کی جیب کاٹ لیں اورعملے کو مفت کھانا مل جائے۔ یوں لگتا تھا جیسے عملہ قناعت پسند ہے۔ اسے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر نہیں جس میں اکثر پاکستانی مبتلا ہیں ۔ فیکٹریوں کو ملانے والی اور بھاری سامان کی نقل و حمل کے لیے ہائی وے کے ساتھ ساتھ ایک سڑک نظر آئی جس پر سامان بردار ٹرکوں کی مصروفیت تھی۔ پاکستان میں ہماری اکلوتی موٹروے پر بھاری سامان بردار ٹرکوں نے جگہ جگہ تیسری لین کو بٹھا دیا ہے۔ اب اسے بار بار نیا بنانا پڑتا ہے۔

ایران کی جدید نسل:

            دوران سفر ایک ایرانی نوجوان مہدی سے ملاقات ہوئی ۔ جب کنڈیکٹر نے ہم سے کرایہ مانگا تو کرنسی دیتے وقت نو جوان نے مدد کی۔ مگر پاکستان کی طرح کنڈیکٹر نے ٹکٹ نہیں دیا البتہ بقایا رقم دے دی۔ ایران میں انگریزی بولنے والے کسی ایرانی سے ملاقات ایک بڑی نعمت ہے۔ مہدی قُم سے سوار ہوئے۔ اصفہان یونیورسٹی میں ایم اے انگلش کے طالب علم ہیں۔ والد قُم میں مذہبی عالم اور مدرس ہیں۔ انقلابِ اسلامی کے بعد1984ع میں پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی سے Ph.D کرنے کے بعد انگریزی کی تدریس کا ارادہ ہے۔ تعلیم کے موضوعات یہ ہیں:

 

  • TEACHING
  • LITERATURE
  • ENGLISH LANGUAGE
  • TRANSLATION
  • SOCIOLOGY AND 
  • PSYCHOLOGY OF LANGUAG

 

 

            مہدی کی انگریزی اچھی تھی،مجموعہ الفاظ اور اظہار بیان دونوں لحاظ سے۔ یہ استعداد انہوں نے CNNاور مغربی فلموں سے حاصل کی ہے۔ CNNویسے غیر قانونی ہے۔ بازار سے ہالی وڈ کی فلمیں مل جاتی ہیں ۔

            مہدی کھلے ذہن کے نوجوان ہیں مگر حجاب یعنی ایرانی پردے پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ تا ہم اس کے نفاذ کے طریقے اور اس کی شدت سے متفق نہیں۔ اکثر علمائے عصر کے طریقۂ استدلال سے بھی اختلاف رکھتے ہیں جو معقولیت اور دلیل کی شائستگی کے بغیر زور زبردستی پر مبنی ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حجاب اور ملائیت کے خلاف ہے۔ دونوں طبقے متوازی جا رہے ہیں جو غلط ہے۔ اصل میں یہ بُعد مذہبی قیادت کی کمزوری کا نتیجہ ہے جو خلیج نہیں پاٹ سکی۔ رویت ہلال کا مسئلہ ایران میں بھی ہے جہاں ہر بار ایک عید نہیں ہوتی۔ عام سکولوں میں ہفتہ وار ایک گھنٹہ کے لیے مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ بی اے تک جاری رہتا ہے۔ ( غالباً ہمارے ہاں کی اسلامیات اور مطالعۂ پاکستان کی رسمی تدریس کی طرح)۔ اس تعلیم میں عربی ،معارف اسلامی اور انگریزی شامل ہیں۔

             یہ بات بہت اہم ہے کہ اسلامی معاشرے میں دینی فہم اور مذہبی شعورپیدا کرنے کے لیے جہاں قومی زبان میں تعلیم ضروری ہے،وہاں عربی زبان اس رشتے کو مضبوط تربناتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلامی علوم کی تحصیل اور اسلامی قدروں کے احیاء کے لیے پاکستان میں عربی اور اُردو دونوں زبانوں کو سرکاری طور پر نافذ کرنا ضروری ہے۔

             ماضی میں جس خاتون کے سر کی لکیر نظر آتی تھی، مذہبی پولیس کے ہاتھوں اسے سرزنش کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب ایسا نہیں ۔ اصفہان یونیورسٹی دنیا کی خوبصورت ترین جامعات میں سے ایک ہے۔ اتنی بڑی ہے کہ طالب علم کو ہاسٹل سے جماعت تک یونیورسٹی بس کا سفر کرنا پڑتا ہے۔عام تعلیم مکمل طور پر مفت ہے۔ ہاسٹل میں رہائش، بجلی، پانی، گیس بالکل مفت۔ مہدی کا شمار ان 5ہزار طلبہ میں ہے جو مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر مفت تعلیم کے مستحق ٹھہرے۔ یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم ہے۔ ارک نامی طالبہ یونیورسٹی میں بی اے تک اس کی ہم جماعت تھی۔ اب منگیتر بھی ہے۔لڑکے لڑکی کی ملاقات آسان ہے۔ خاندان اس پر معترض نہیں ہوتے۔ اب مولویوں کی مخالفت بھی کم ہو گئی ہے۔ یونیورسٹی جاتے ہوئے وہ راستے میں اپنی منگیتر کے گھر اترے گا اور اس سے مل کر اصفہان جائے گا۔ ایرانی جوڑے ایک بچے کا کنبہ پسند کرتے ہیں۔

            مہدی قُم میں مقیم ایک 80سالہ بزرگ عالم سے بہت متاثر ہے جو کھلے ذہن کے ساتھ نوجوانوں سے ملتے اور ان کے شکوک و شبہات کے جوابات دیتے ہیں۔ ایرانی انقلاب سے ارباب( جاگیرداروں ) کا خاتمہ ہوا جس سے ایک موثر مگر مفاد پر ست طبقے کو ختم کرنے میں مدد ملی۔ اب زمین کی ایک حد مقرر ہے، کوئی بھی اس سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ تعلیم عام ہے ۔ شرح خواندگی بہت زیادہ ہے البتہ بعض لوگوں کے لیے اعلیٰ تعلیم مہنگی ہے۔

            مہدی ایک 23سالہ خوش شکل ، خوش لباس اور خوش اطوار نو جوان ہے۔ کلین شیو، سامان سفر مختصر مگر اچھا، موبائل ساتھ تھا اور کالیں بھی آ رہی تھیں۔ مدد کے لیے اس نے اپنا نمبر دیا۔ اپنی چیونگم میں ہمیں بھی شریک کیا۔ مہدی پاکستان کے بارے میں باخبر تھا مگر اس کا ذریعہ خبر سی این این تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ پاکستان کا جنرل پرویز مشرف امریکی شطرنج کا مہرہ ہے جس نے آئین ، عدلیہ اور انتظامیہ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اورجنرل پرویز مشرف کو ہواجبکہ ملک دہائیوں پیچھے چلا گیا۔پاکستان لا قانونیت کی سر زمین اور عدل سے محروم ملک ہے۔

             بے بسی اور شرمندگی کے سوا ہمار ے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔

            پہلی بار ایک بوڑھی بھکارن بس میں مانگنے آئی۔ لوگوں نے خوشدلی سے اسے خیرات دی۔ نہ وہ مانگنے کے لیے پیچھے پڑی اور نہ مسافروں نے اسے دھتکارا۔

            چار گھنٹے کے سفر کے بعد بس اصفہان کے کاوہ بس ترمینال (Terminal) پر جا رُکی۔

            شہر میں داخل ہوتے ہی سبزہ اور باڑھ شروع ہو جاتی ہے۔ ایک سڑک کا نام جابر ابن عبداللہ انصاریؓ درج تھا۔ خوش آمدید کے طور پر درج یہ خوبصورت قطعہ دکھائی دیا:

سفر افق دید را گسترش می دہد
خوبی ہا بدی را پاک می کند

بسوں کا اڈا:

            بسوں کا اڈا پاکستان کے کسی چھوٹے ایئر پورٹ سے زیادہ منظم تھا۔ آراستہ اور آرام دہ ۔ بسوں کی آمد و رفت کے الگ سٹینڈتھے۔مسافروں کی بکنگ کے دفاتر۔ شاندار مرد انہ وزنانہ جائے نماز۔ الگ الگ جائے وضو۔ بیت الخلا بغیر دستی فلش اور اندرونی کنڈی کے مگر صاف اور بے بُو۔ دکانوں میں کتب ، خورنی ،حجام، پی سی او اور کیفے شامل ہیں۔ یہاں سے ہماری منزل میدان امام تھی۔ جانے کے لیے ٹیکسی کی تلاش ہوئی جو صحیح دام میں لے جائے۔ سب سے بڑی رکاوٹ زبان تھی۔ نا چار امدادی بوتھ کا سہارا لیا جو نو واردان شہر کی سہولت کے لیے دن رات کام کرتا اور مسافروں کو رہنمائی دیتا ہے۔ ڈیوٹی پر متعین دونوں خواتین انگریزی سے نا بلد اور ہم ایرانی فارسی سے انجان۔ تا ہم ایک خاتون ورکرنے بہت مدد دی اور ساتھ جاکر ٹیکسی میں بٹھایا ۔ اشاروں کی مدد سے طے شدہ کرایہ بھی سمجھایا۔

شہر:

            اصفہان ہر اعتبار سے ایک جدید شہر ہے مگر اس کے کوچہ و بازار ، درودیوار، آثار اور باغات میں بوئے قدامت رچی بسی ہوئی ہے۔ سڑکیں بہت وسیع اور دو رویہ۔ دونوں جانب اطرافی سڑکیں اور ساتھ دکانیں۔ سبز باڑھوں اورسبز پٹیوں کی فراوانی ۔ درمیانے قد کے درخت جن کے پتے خزاں نے زرد اور سرخ کر دیئے تھے۔ بہار میں تازگی اور رنگوں کا کیا سماں ہو گا ، کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

             اصفہان میں درج ذیل مقامات قابل دید ہیں:

  1. پل شہر ستان، پل خواجو اور پل اللہ وردی خان
  2. مدرسہ چہار باغ
  3. کاخ چہل مستون
  4. امام علی مسجد
  5. عمارت علی قاپور
  6. عباسی جامع مسجد
  7. نقش جہاں چوک
  8. شیخ لطف اللہ مسجد
  9. باغ ہشت بہشت
  10. جامع مسجد
  11. مینار جُنباں

نقش جہاں

            شہر کے مختلف بازاروں اور چوکوں سے گزرتے ہوئے ٹیکسی نے ہمیں میدان امام (جسے میدان نقش جہان بھی کہتے ہیں) کے پاس بازار میں جا اتارا۔ یہ ایک مستطیل شکل کا بہت بڑامیدان ہے۔ جس کے چاروں طرف برآمدے اور در ہیں۔ ایک طرف دھاتی ظروف کی مارکیٹ ہے۔ اس کے اطراف میں قدیم تاریخ کے بڑے روشن آثار ہیں۔ اس میدان کے اندر اور نواح میں درج ذیل عمارات موجود ہیں۔

  1. مسجد امام
  2. مسجد شیخ لطف اللہ
  3. عمارتِ علی قاپو
  4. کاخ چہل ستون
  5. باغ ہشت بہشت
  6. متعدد میوزیم

            مسجد امام میں دو نفل تحیۃ المسجد ادا کئے ۔ یہ ایک چھوٹی سی تاریخی مسجد ہے جس کا اندر اور باہر معروف ایرانی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔اثنا عشریوں میں اس مسجد کا تقدس اوربہت اہمیت ہے۔ مسجد شیخ لطف اللہ صفوی عہد(1501-1732ع) کا اہم اور نفیس ترین نمونہ ہے۔ میدان امام کو ماضی میں میدان شاہ کہا جاتا تھا کہ یہاں باد شاہ گھوڑوں پر پولو کھیلتے تھے۔ یہ مسجد اسی میدان میں بنائی گئی ہے۔ 1598ع میں ایران کا دارالخلافہ ، قزوین سے اصفہان منتقل ہو گیا تھا تب شاہ عباس صفوی کی ہدایت پر یہ مسجد 1602ع/ 1028ھ میں تعمیر ہوئی۔ مسجد کے چاروں طرف بالخصوص اس کے گنبد کو رنگین اور مرصع ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔ مسجد اگرچہ رقبے میں چھوٹی سی ہے مگر نقش ونگار ، سجاوٹ اور بناوٹ میں بے مثال ہے۔گنبد پر کاشی کاری،دیواروں چھت اور محراب پر رنگین ٹائیلز ، آیاتِ قرآنی۔ ٹکٹ 4000ریال یعنی 26روپے لیکن سیاح جوتے سمیت دیکھنے جاتے ہیں۔ مسجد تک جانے کے لیے ایک بغلی راہداری سے گزرنا پڑتا ہے جو خود ایک نادر پارۂ تعمیر ہے۔

            عمارت علی قاپو 11ویں صدی ہجری کا محل ہے جو کئی منزلہ ہے۔ اب زیر مرمت ہے۔

             اصفہان کے عجائب گھروں میں یہ شامل ہیں:

 

  1. آموزش و پرورش
  2. چہل ستون
  3. ہنر ہائے معاصر
  4. علوم و فنون آزموش وپرورش
  5.  شہداء
  6. تاریخ طبیعی
  7. ہنر ہائے تزئینی
  8. ہلالِ احمر
  9. دانک

            میوزیم ہنر ہائے تزئینی ایران کی ایک تاریخی عمارت رکیب خانہ میں قائم کیا گیا ہے۔ میوزیم تاریخ طبیعی میں ایران اور دنیا کے حشرات ، طیور اور دیگر حیوانات کے حنوط شدہ اجسام محفوظ ہیں۔

چہل ستون:

            عمارت چہل ستون ایک باغ ، محل اور تالاب پر مبنی ہے ۔ یہ صفوی عہد میں 11ویں صدی قمری کے آغاز میں تعمیر ہوا تھا۔ جب اس کے بیس ستونوں کا عکس تالاب کے پانی میں پڑتا ہے تو ان کی تعداد چالیس ہو جاتی ہے۔ اس بنا پر اسے چہل ستون کہا جاتا ہے ۔ ورنہ عملی طور پر یہ صرف20ستونوں پر استوار ہے۔ شروع میں یہاں اہم مہمانوں اور سفیروں کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ لکڑی کی چھت پر نفیس کام کیا گیا ہے۔ چہل ستون کی دیواروں پر نقاشی صفوی عہد کے ہنر مند ،رضا عباسی کاشانی کا کارنامہ ہے۔ مسلمانوں میں مصوری کا آغاز ایران سے ہوا جہاں سے یہ فن ہندوستان اور دوسرے ممالک میں گیا ۔ تصاویر میں چہرے، نقوش، کیفیات اور مناظر کی بڑی خوبصورتی اور باریکی سے تصویر کشی کی گئی ہے۔ ان میں محافل طرب اور خوابگاہیں بھی ہیں۔ دربار اور میدانِ رزم بھی ۔ رنگ شوخ اور واضح، خدو خال نفیس اور نمایاں۔

            میدان امام میں چاروں طرف اور درمیان میں گزر گاہوں پر اینٹوں کا پختہ فرش ہے۔ سیاحوں کی تفریح کے لیے گھوڑا بگھی موجود ہے جس پر بیٹھ کر مستطیل میدان کی سیر کی جا سکتی ہے۔

سیاحت کاری:

            ایران میں ادارہ سیاحت و تہذیب و ثقافت کو فارسی میں ساز مان میراث فرہنگی و گرد شگری کہتے ہیں۔ اصفہان میں اس تنظیم کا ایک بروشر راہنمائی گرد شگری شہر اصفہان مطبوعہ اہدایی روابط عمومی شہر داری اصفہان مل گیا ۔ یہ ناقابل فروخت ہے اور توجہ دلائی گئی ہے کہ درصورت مطالبہ وجہ از طرف ادارہ…… یعنی قیمت مانگنے کی صورت میں فون 137پر مطلع کریں۔بروشر میں اس شہر کے 31مقامات کا ذکر کیا گیا ہے جو قابل دید ہیں۔ شناخت کے لیے ان کی تصویریں دی گئی ہیں۔ نقشے میں شہر کی سڑکوں کے نام، پارک، بیمارستان (ہسپتال)، دارو خانہ( ڈسپنسری)، پارکنگ، ہوٹل ، توالت(ٹائیلٹ)، بسوں کے روٹ اور دیگر معلومات فارسی زبان میں دی گئی ہیں۔ہوٹل ، مہمان سرائے ، مراکز تفریحی ، سینما ، علمی اور مذہبی مراکز ، میوزیم، پارکنگ، قابل دید مقامات، مراکز صحت اور نقل و حمل کے فون نمبر، محل وقوع اور ٹکٹوں کے نرخ اور اوقات کار تک مندرج ہیں۔ایک سیاح کے لیے یہ معلومات بہت قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں مگر پریشانی یہ ہے کہ یہ سب کچھ فارسی زبان میں ہے ۔ انگریزی یا اُردو ترجمے کے بغیر غیر ملکی سیاح کے لیے اس کی افادیت باقی نہیں رہتی۔

            میدان امام کے بغل میں ہنر کاروں کی دکانیں ہیں جہاں دستکاری کے نمونے بنتے اور ملتے ہیں۔ گلیوں میں گھومتے سیڑھیاں چڑھ کر ایک ریسٹورنٹ میں جا پہنچے۔ خاندان کے افراد جوتے اتارکر بڑے بڑے تخت پوشوں پر بیٹھے مصروف طعام تھے۔ بیروں نے سروں پر رومی ٹوپی جیسی سرخ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ چائے کے لیے مین ہال میں جگہ نہ تھی۔ ویٹر نے جو جگہ دکھائی وہ بھی آراستہ اور منفرد تھی۔ مگر کمرے سے باہر تھی اس لیے معذرت کر کے سیاحت جاری رکھی۔

            ہشت بہشت ایک خوبصورت پارک ہے جہاں لاہور کے باغ جناح اور شالیمار باغ کا امتزاج ملتا ہے ۔ درمیان میں پانی کی ندیاں ، روشیں ترا شیدہ ، جھاڑیاں ، گھنے درخت ، سبز گھاس ۔ گویا ارض بہشت است نصف جہاں ست۔

            خزاں کی وجہ سے پتے زردی اور سرخی مائل ہو کر گر رہے تھے۔ اس کے درمیان میں ایک عمارت ہے جو اصل میں ایک قدیم محل ہے۔ اس کا ٹکٹ 3,000/-ریال ہے۔لیکن مرمت کی وجہ سے اچھی طرح دیکھا نہ جا سکا۔ شام 5بجے ایران کے اکثر قابل دید مقامات بند ہو جاتے ہیں۔

            وہاں سے نکل کر تھوڑی دیر مختلف بازاروں، سڑکوں اور چوکوں سے گزرے۔ مردانہ لباس اور زنانہ حجاب و لباس کے اعتبار سے اصفہان کو دوسرے شہروں سے مختلف نہ پایا۔ دکانوں کے شو کیس سجے ہوئے تھے اور ان میں سامان و افر مقدار میں موجود تھا۔ لوگ خریداری کر رہے تھے ۔سڑکوں پر رش تھا ۔ فٹ پاتھ پر بھی لوگ کثر ت سے آجارہے تھے۔ فارسی نقشے کی مدد سے چند آثار ڈھونڈنے کی کوشش کی اور ایک ایسی جگہ جا پہنچے جہاں سامنے عباسی ہوٹل کی پر شکوہ عمارت تھی۔ یہاں ایک بورڈ پر پورے شہر کا نقشہ بنا ہوا تھا ۔ ایک طرف نچلی سطح پر پورا بازار تھا۔ ایران میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اکثر بڑی سڑکیں سطح زمین سے بلند بنائی گئی ہیں۔ خرچ تو آتاہے لیکن یہ پلاننگ ، ٹریفک اور انتظامات کے حوالے سے زیادہ سود مند نظر آتی ہیں۔ یہاں کی خواتین قُم سے زیادہ آزادتھی یعنی بعض چادر کے بغیر صرف حجاب تک ۔ ایک جگہ گویا ڈاکٹروں کا بازار تھا۔ ماہرین ڈاکٹروں کے نام، تمام امراض اور شعبوں کے نام فارسی زبان میں تھے۔ زبان کی وجہ سے کسی دکان کے اندر جا کر دیکھنے پوچھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ راہ چلتے لوگ شام ڈھلے اپنی اپنی منزل کو رواں تھے۔ انہیں روک کر انگریزی میں بات کرنا دونوں کے لیے امتحان تھا۔

جامع مسجد سلجوق:

            معمول کے فارسی، انگریزی ملغوبے کی مدد سے ایک ٹیکسی لی۔ حسب معاہدہ ڈرائیور راستے میں رُک گیا اور ہم مسجد جامع سلجوق دیکھنے اتر گئے ۔ دونوں طرف مصروف بازار ، درمیان سے سیڑھیاں چڑھ کر ایک راہدری میں داخل ہوئے جو ایک دروازے سے گزر کر بڑے وسیع دالان میں جا نکلتی ہے۔ یہ جامع مسجد سلجوق ہے۔ ایرانی انداز میں چاروں طرف سے بند مگر ہر سمت میں ایک بڑی محراب۔ مشرق کی جانب محراب کے نیچے متعدد افراد نماز کا اہتمام کر رہے تھے۔ مغرب کی جانب مسجد کا اصلی اور بڑا محراب ہے۔ دیواروں پر کاشی کاری، نیلی ٹائیلوں پر قرآنی سورتیں، دعائیں اور صلوٰۃ و سلام۔ اسی جانب پتھر کا ایک بڑاپیالہ پڑا ہوا ہے جس کے کناروں پر بارہ آئمہ کے اسماء کھدے ہوئے ہیں۔ وزن میں بہت بھاری سفید پتھر کا یہ پیالہ کئی لوگ مل کر ہی اٹھا سکتے ہوں گے ۔ شمالی جانب کے راستے سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو پہلے وہ کمرے دکھائی دیئے جو بطور مسجد نماز اور جماعت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ پچھلی گلی میں قدیم دور کی عمارتیں دکھائی دیں اور ہم مسجد کی بیرونی دیوار کے ساتھ مڑتے چلے گئے۔ یہ تنگ اور پرانے سٹائل کی گلیاں ہیں جو اونچی نیچی اور ٹیڑھی میڑھی ہیں۔ یہاں ایک پرانی عمارت کے باہر حمام شبخ بہائی کا بورڈ نظر آیا۔ ایک لڑکے سے پوچھنے کی کوشش کی تو معلوم ہواکہ اس جگہ کو دن میں دیکھا جا سکتا ہے۔ عمارت کی باہر سے زیادہ نگہداشت دکھائی نہ دی۔ یہ راستہ تھوڑی دیر چلنے کے بعد مسجد کے اس راستے سے مل گیا جس بازار سے ہم اندر داخل ہوئے تھے۔

             شہر میں ہر یالی اور سرسبزی کی بہتات ہے۔ عمارات بلند و بالا ، جدید ڈیزائن کی تعمیرات۔ رکشا، تانگہ، ریڑھا ندارد۔ شہر تجاوزات اوربھکاریوں سے پاک ہے۔ کوئی ٹریفک جام اور افرا تفری نہیں۔ کسی جگہ کوڑے کچرے غلاظت کے سرکاری یا غیر سرکاری ڈھیر نظر نہیں آئے۔ اصفہان ، قُم کی طرح مذہبی شہر نہیں۔ لیکن سارے شہر میں کہیں ایک بھی اشتہاری بورڈ/ نیون سائن/ ہورڈنگ نظر نہیں آیا جس پر عورت یا اس کے کسی حصہ جسم کی نمائش ہو ۔ چلتے پھرتے بھی کسی جگہ کوئی عورت معیوب لباس میں نظر نہیں آئی۔ یہاں بھی کسی کو سر راہ تھوکتے، پیشاب کرتے، مونگ پھلی یا کنو کھا کر چھلکے بکھیرتے نہیں دیکھا۔ جہاں چند لوگ کسی ضرورت کے لیے اکٹھے ہوئے ، بن کہے قطار بن جاتی ہے۔ نہ دھکم پیل، نہ جو تم پیزار۔ اکثرضروریات کی اشیاء کے دام طے شدہ اور لکھے ہوئے ہیں۔ شاید اس لیے جھگڑنے کی نوبت نہیں آتی اور مول تول کا شور سنائی نہیں دیتا۔

            بس اڈے پر پہنچ کر واپسی کی بکنگ میں بہت دقت پیش آئی۔ پہلے تو زبان کا مسئلہ تھا پھر رات کو تہران جانے والے مسافروں کی کم تعداد کی وجہ سے کم بسیں۔ اگر اڈے پر ہدایات اور معلومات انگریزی یا اُردو میں لکھی ہوتیں تو بس سے اتر کر پہلے واپسی کی بکنگ کروالیتے۔ اڈے میں واشنگ سنک کے اوپر وضو کی دُعا فارسی ترجمہ کے ساتھ تحریر ہے۔پاکستان میں ایسا کم ہی دیکھا ہے کہ وضو کی دعا لکھی ہوئی ہو اور ساتھ اس کا اُردو ترجمہ بھی ہو۔ اڈے کے ہر حصّے میں مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ جائے نماز ہے۔ بکنگ کے بعد کافی انتظارکرنا پڑا۔ انتظار گا ہ میں ایک ٹی وی پروگرام دیکھا۔ ڈرامے کے کرداروں کے مکالمات بہت لمبے تھے اور کسی ایکشن کے بغیر۔ ادا کار خواتین کے سر کے بال اور ان کے جسم پوری طرح ڈھکے ہوئے۔ فلم کے سیٹ سادہ اور کرداروں کا میک اپ زیادہ نہ تھا۔ درمیان میں اشتہارات مختصر اور سادہ خصوصاً عورت کے بغیر ۔ اڈے کے چائے خانے سے ایرانی چائے پی۔ یہاں دیوار پر حضرت علیؓ کی تصویر کا پوسٹر لگا ہوا تھا۔ پوچھنے پر چائے خانے والے نے تصدیق کی۔ آنے جانے والوں پر اس تصویر کا مطلقاً کوئی اثر نہ تھا۔ وہ چائے خانے میں معمول کی چائے نوشی اور گپ بازی کر رہے تھے۔

            پاکستانی انداز میں مقررہ وقت تک بس نہ پہنچی تھی ۔ پہلے ایک بس آئی مگر اس نے مسافر نہ لیے۔ پھر کسی اور کمپنی کی بس سے معاملہ طے ہوا ور تمام مسافرجن کے ٹکٹ کسی دوسری کمپنی کی بس کے نام سے کاٹے گئے تھے، اس میں سوار ہو گئے۔ بس دیر سے چلی اور حسب بکنگ نہ تھی مگر کسی مسافر نے صدائے احتجاج بلند نہ کی۔ بس کم و بیش نان سٹاپ تھی۔ اکیلا ڈرائیور سارا راستہ فعال رہا۔ چائے کا تھر موس ساتھ تھا، چنانچہ وہ مسلسل پینے میں مصروف رہا۔ راستے میں جہاں بس ٹھہرتی توالت ،دست شوئی اور نماز خانے کا اہتمام موجود تھا۔

            تمام ہائی وے کا ساراراستہ قمقموں سے روشن تھا ۔ چوراہوں اور پڑاؤ پر روشنیاں زیادہ ہوتی ہیں۔رات 10:30بجے اصفہان سے روانہ ہو کرہم صبح2:30بجے قُم میں ہفتا دو دو تن کے مقام پر اتر گئے۔

ہفتا دو دو تن:

            یہ جگہ مظلومانِ کربلا کے 72نفوس سے منسوب ہے مگر ٹیکسی والے مسافروں کے ساتھ حشر کوفہ والوں جیسا کرتے ہیں۔ ہم دونوں بس سے اُتر کر ایک ایسے غول کے درمیان آگئے جو رواں مگر بازاری فارسی میں دواجنبیوں کو گھیرے ہوئے تھا۔ اگر یہ یاد نہ ہو کہ ہم جمہوری اسلامی ایران کے مہمان ہیں جہاں قانون وآئین اور ضابطہ و تعزیر کی عملداری ہے اور جہاں دراز دستی بچوں کا کھیل نہیں تو ایک غیر ملکی اس شور وغوغا اور جھپٹے سے خوفزدہ ہو جائے۔ کم از کم رات 2:30بجے پاکستان کے کسی شہر کے باہر ایسا منظر ہوش خطا کرنے کے لیے کافی ہے خصوصاً جب پولیس بھی سامنے نہ ہو۔ ویسے تو ہماری پولیس نہ صرف ایسے مناظر کی سر پرست ہوتی ہے بلکہ اکثر اوقات مال غنیمت میں حصہ دار بھی۔ لفظوں کے وار سہتے آخر قریب آئی ایک ٹیکسی میں پناہ لی۔ تاکید مکرر کے لیے اسے خطی کا حوالہ دیا اور حرم معصومہ کے قریب پل آہن کا پتہ بتایا۔ اتر کر کرایہ چھ صد تو مان دینا چاہا تو وہ 3ہزارتو مان پر اڑ گیا۔

            اب سفر کا بتایا، صبح کے کرایے کا حوالہ دیا مگر وہ لڑنے مرنے پر اُتر آیا۔ سٹاپ پر کھڑے دوسرے ڈرائیور وں نے فارسی میں اس کی تائید کی۔ وہ ڈرائیور اتنے طیش میں آیا کہ ٹیکسی کا دروازہ کھول کر مصر ہوا کہ ہم دوبارہ بیٹھیں اور وہ ہمیں اسی جگہ اتار کر دم لے گا جہاں سے ہم سوار ہو ئے تھے! آخر اسے ہم نے 15صد تو مان دیئے اور جان چھڑانے کے لیے کہا کہ ہم ابھی پولیس کو بلاتے ہیں تا کہ وہ معاملہ طے کرے۔ پولیس کے نام سے ایران میں ٹیکسی والے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے غلیل سے کوّا…… آئین اور عدلیہ کے نام سے جیسے جنرل پرویز مشرف!

(جاری ہے )