صبحِ سعادت

مصنف : افتخار احمد افتخار

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : مئی 2011

قسط -۳

            یاد رہے کہ چونکہ سابق انبیاء پہ اُن کی کتابیں جن زبانوں میں نازل ہوتی رہی ہیں وہ زبانیں اب نابود ہوچکی ہیں اس لیے اُن کے ترجموں کی عبارت بھی عام فہم نہیں ہوتی تاہم توراۃ سے بیان کی گئی ان آیات کی علامہ شبلی نعمانی نے (سیرۃ النبی ) میں بہت عمدہ تفسیر کی ہے ہم یہاں اس سے کچھ استفادہ پیش کریں گے تاکہ بنو اسرائیل کے اس سفید جھوٹ کا پول کھل جائے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کو نہیں جانتے تھے ۔

            وہ فرماتے ہیں کہ ‘‘ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ اور حضرت کعبؓ کی پیش کردہ بشارتیں اور قرآن کی متعدد آیات سے جو مفہوم ظاہر ہوتا ہے اُن کو بعینہٖ اِن آیات میں بیان کیا گیا ہے جو حضرت اشیعا پہ نازل ہوئیں تھیں ’’۔جیسا کہ لفظ ‘‘ شاہد’’ ہے ’’۔

            یعنی خدا کی طرف سے وہ قوموں کے درمیان عدالت بپا کرے گا اور اس عدالت کا وہ خود گواہ ہو گا ’’۔اور نبی اکرم ﷺ کی صفت ‘‘ مبشر ’’ کے بارے میں بیان ہوا کہ ’’۔ وہ ( محمد ﷺ) اﷲ کے نیک بندوں کو اﷲ کی بادشاہی کی خبر پہنچائے گا !۔اشعیا کے اس پورے باب میں آنے والے پیغمبر یعنی محمد مصطفی ﷺ کی یہی خصوصیات بیان کی گئیں ہیں یعنی یہ کہ وہ امی ہوں گے اور اُن کی قوم کو اب تک کوئی شریعت نہ ملی ہو گی ’’۔کہ اس کی شریعت کے ذریعے نبی مکرم ﷺ اندھوں کو اس راہ سے منزل کی جانب لے جائیں گے جن کو وہ نہیں جانتے ’’۔اور پھر نبی اکرم ﷺ کو میرا بندہ اور میرا رسول کہہ کر پکارا گیا اور یاد رہے کہ یہ قرآن کا مخصوص اسلوب ہے ’’۔

            اور اشعیا میں بھی شروع ہی سے نبی اکرم ﷺ کو میرا بندہ اور میرا رسول کہہ کر پکارا گیا ہے !

            یعنی وہ میرا بندہ ہے میرا رسول ہے جس کو میں سنبھالتا ہوں اور وہ مجھ پہ توکل کرتا ہے !

            اور اشعیا میں نبی مکرم ﷺ کی یہ صفت بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ کمزوروں اور ضعیفوں کو نہ ستائے گا اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے گا وہ بازاروں میں اپنی آواز بلند نہ کرے گا یعنی وہ متین اور سنجیدہ اور برد بار ہوگا اور ہم نے نبی اکرم ﷺ میں یہ تمام صفات پائی ہیں ’’۔

            اور اشعیا میں ہے کہ ،اﷲ تعالیٰ اُن کی روح اس وقت تک قبض نہ کرے گا جب تک کہ وہ اس کج کو سیدھا نہ کر لے جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ، وہ نہ مسلا جائے گا نہ اس پہ زوال آئے گا جب تک کہ لوگ اس ستائش کو چھوڑ نہ دیں جو ان کے دلوں میں کھودی ہوئی مورتیوں کے بارے میں پائی جاتی ہے اور لا اِلہ الااﷲ کا اقرار نہ کر لیں وہ اپنی شریعت کے ذریعے اندھی آ نکھوں بہرے کانوں اور زیر پردہ دلوں کو کھول نہ لے اور انھیں ان امور پہ پشیماں نہ کر دے جو انھوں نے کھودی ہوئی مورتیوں کے بارے میں اختیار کر رکھے تھے۔

            اور ہم جانتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے ایسا ہی کیا ۔

            اور اشعیا کی یہ پیش گوئی تو حضرت محمد ﷺ پہ حرف بہ حرف پوری اترتی ہے کہ ، قیدار کے دیہات یعنی بنو اسماعیل کی نسل سے وہ قیدار بن اسماعیل کے خاندان میں پیدا ہوں گے لوگ انھیں خدا کے بندے اور خدا کے رسول کی حیثیت سے پہچان لیں گے اور وہ ایک جنگی مرد کی طرح نکلیں گے اور قریہ قریہ توحید کا اجالا پھیلائیں گے اور قیدار کے دیہہ سے مراد یہاں مکہ ہے جہاں نبی اکرم ﷺ پیدا ہوئے اور لوگوں کو اﷲ کے دین کی طرف بلایا ۔

            اور ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا!

            اشیعا میں آگے ہے کہ ‘‘ کس نے اس راست باز کو پورب کی طرف سے برپا کیا اور اپنے پالانوں کے پاس بلایا اور امتوں کو اس کے آگے دھر دیا ، اور اسے بادشاہوں پہ مسلط کیا کس نے انھیں ( کافروں کو) خاک کے مانند اس کی تلوار کے اور اڑتی بھوسی کے مانند اس کی تلوار کے حوالے کیا ’’۔یہاں بیان کیا گیا کہ !

            وہ راستباز پورب سے نمودار ہو گا ، یاد رہے کہ توراۃ کے محاورے میں پورب سے عام طور پہ سر زمین عرب مراد لی جا تی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پورب یعنی عرب سے نمودار ہو ئے ’’۔اور اشعیا میں بار بار نبی مکرم ﷺ کو میرا بندہ میرا رسول کہہ کر مخاطب کیا گیا ’’اور یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل آ یات سے ظاہر ہو رہا ہے ’’۔

            سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسرْیٰ بِِعَبْدِہ۔ ترجمہ: پاک ہے وہ خدا جو معراج میں اپنے بندہ کو لے گیا ؛ ( سورۃ بنی اسرائیل )

            فَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِمّا َنَّزْلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا۔ ترجمہ: اگر تم کو اس میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندہ پہ اتارا ہے تو۔ ( سورۃ بقرۃ )

            تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہ۔ ترجمہ: بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پہ قرآن اتارا،،، القرآن الحکیم ( سورۃ فرقان )

            وَاِنَّہ ٗ لَمَّا ٰ تَامَ عَبْدُاللّٰہ ِ یَدْعُوْہُ ۔ ترجمہ: اور جب خدا کا بندہ اس کو پکارتے ہوئے کھڑا ہوا ،،،

القرآن الحکیم۔ ( سورۃ جن )

            اور تمام آیات میں اﷲ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو میرا بندہ کہہ کر مخاطب کیا ہے چنانچہ اﷲ کے نبی اشعیا کی باتیں سچی ہیں اگرچہ بنی اسرائیل نے ہمیشہ اپنے انبیاء کا انکار کیا ہے ،،،،،

            اور نبی اکرم ﷺ کا ایک اور وصف جو اشعیا نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے سوا اﷲ کے کسی اور رسول نے رسول اﷲ کے نام سے شہرت نہیں پائی اور مسلمانوں کی زبان پہ پندرہ سو سال سے رسول اﷲ ہی چڑھا ہوا ہے اور اپنے عہد میں بھی نبی اکرم ﷺ کو اُن کے اصحاب رسول اﷲ ﷺ ہی کہہ کر پکارا کرتے تھے یہانتک کہ عیسائیوں نے بھی اُن کو اسی نام سے پکارا ہے وہ آپ ﷺ کو ( The Prophet ) کہہ کر پکارتے ہیں ’’۔

            اور نبی اکرم ﷺ چونکہ کائنات کی تمام مخلوقات اور موجودات کی محبت کے علاوہ اﷲ تعالیٰ کی محبت کے بھی حامل ہیں اس لیے قرآن حکیم میں بھی نبی اکرم ﷺ کو جابجا رسول اﷲ کہہ کر پکارا گیا ہے جیسا کہ ،،،،،

            مُحَمَّدٌّ رَّسُوْل اللّہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ۔ ترجمہ: محمد ( ﷺ ) خدا کا رسول اور جو اِن کے ساتھ ہیں ،،،، القرآن الحکیم (سورۃ فتح)

            ےَسْتَغْفِرْلَکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ ترجمہ:  خدا کا رسول تمہاری مغفرت چاہے ،،،القرآن الحکیم (سورۃ المنافقون )

            لَقَدْ جَآ ءَ کُمْ رَسُوْل ٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ۔ ترجمہ:  تمہارے پا س خود تمہاری قوم سے رسول آ یا ہے ،،،القرآن الحکیم (سورۃ توبہ )

            اَنَّ فِےْکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ ترجمہ:  تم میں خدا کا رسول ہے ،،،، القرآن الحکیم (سورۃ حجرات)

            لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ ِ اللّٰہِ اُسْوۃ ٌ حَسَنَۃ ٌ۔ ترجمہ:  تمہارے لیے خداکے رسول کے اندر اچھی پیروی ہے ،،،، القرآن الحکیم ( سورۃ احزاب )

            ےَا اَےُّھَاَالرَّسُوْلَ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَےْک َ۔ ترجمہ: اے رسول ! جو کچھ تجھ پہ اتارا گیا ہے اس کو لوگوں تک پہنچا دے،،،، القرآن الحکیم (سورۃ مائدہ )

            اس کے بعد اشعیا نے میں بیان کیا گیا کہ ’’۔

            خدا اُن ( نبی اکرم ﷺ ) سے کہتا ہے کہ میں نے اپنی روح اس پر رکھی اور اِن الفاظ کی تشریح قرآنِ حکیم میں یوں کی گئی ،،،،،

            وَکَذَالِکَ اَؤ حَےْنَا اِلَےْکَ رُوحاً مِنْ اَمْرِنَا۔ ترجمہ: ہم نے تیری طرف اپنی شان کی ایک روح وحی کی ہے ،،، القرآن الحکیم (سورۃ شوریٰ )

            نَزَّلَ بِِہِ ٖ الرُّوْح اْلَاْمِےْنُ۔ ترجمہ:  امانت دار روح اس کو لے کر اتری،،،،القرآن الحکیم (سورۃ شعراء )

            قُلْ نَزَّلَہٰ رُوْح ْالْقُدُسِ۔ ترجمہ:  کہہ دے کی روح القدس نے اس کو اتارا ہے ،،، القرآن الحکیم (سورۃ نحل )

            پھر اشعیا میں نبی اکرم ﷺ کے عمدہ اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہا گیا کہ ’’

            وہ چلائے گا نہ بازاروں میں اپنی صدا بلند کرے گا وہ غریبوں اور مسکینوں کے لیے نرم دل ہو گا اور کمزوروں کو نہ ستائے گا نہ کسی سے اپنا انتقام لے گا ’’۔

            اور آج دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم اس بات کے معترف ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے اخلاق بہت عمدہ ہیں اور اِن کی روشنی میں امت اپنے اخلاق سنوارتی ہے صحابہؓ نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اکثر و بیشتر خاموش رہتے آپ ﷺ سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے اور بے ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے اور بہت کم ہنستے تھے ’’۔

            حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے نبی اکرم ﷺ کے اخلاق دریافت کئے تو انھوں نے فرمایا !

            تم نے قرآن نہیں پڑھا ( کہ ایک مومن کے جیسے اخلاق قرآن میں بیان کئے گئے ہیں نبی ﷺ کے اخلاق اُن کا نمونہ تھے )’’۔

            حضرت حسین بن علیؓ نے اپنے باپ سے نبی اکرم ﷺ کے اخلاق دریافت کئے تو انھوں نے کہا !

            آنحضرت ﷺ نہ بد گو تھے نہ بازاروں میں شور کرنے والے تھے اور نہ کسی سے ذاتی عناد رکھتے تھے اور نہ ہی آپ ﷺ نے کسی سے اپنا انتقام لیا ہرچند کہ اہل مکہ نے آپ ﷺ کو خوب ایذا پہنچائی تھی ’’۔

             اور قرآن حکیم نے آپ ﷺ کے اخلاق کی گواہی دی ہے ’’۔

            وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُق ٍ عَظِےْمْ ن فَبُمَا رَحْمَۃ ٍ مِنَ اللّٰہِ لِنُتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَطاً غَلِےْظَ الْقَلْب ِ لَا نَفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔ ترجمہ: اور بے شک تو بڑے خلق پر ہے خدا کی رحمت کے سبب سے تُو اُن کے ساتھ نرم ہے اگر تو کڑا اور سخت دل ہوتا تویہ لوگ تیرے ارد گرد سے ہٹ جاتے۔ القرآن الحکیم (سورۃ آل عمران ۱۷ )

            لَقَدْ جَآ ءَ کُمْ رَسُوْل ٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِےْز ٌ عَلَےْہ ِ مَا عَنِتُّمْ حَرِےْصٌ عَلَےْکُمْ بِاِ لْمُوْمِنِےْنَ رَؤُف ٌ رَحِےْمٌ۔ ترجمہ: تمہاری قوم سے تمہارے پاس ایک پیغمبر آیا جس کو تمہاری تکلیف شاق گذرتی ہے وہ تمہاری فلاح کا حریص ہے اور مسلمانوں پر مہربان اور رحمت والا ہے ،،،، القرآن الحکیم (سورۃ توبہ ۱۶ )

            حضرت اشعیاء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’۔ کہ آپ ﷺ عدالت قائم کریں گے اور دائم رہیں گے’’۔

            جس کی تشریح یہ ہے کہ ’’۔

            نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آ ئے گا ’’۔ آپ ﷺ کی شریعت ہمیشہ رہنے والی ہے اور اس کو قیامت تک منسوخ نہ کیا جائے گا اور یہ بھی کہ اُن پہ اس وقت تک زوال نہیں آئے گا جب تک کہ وہ اس کجی کو سیدھا نہ کر لیں یعنی جب تک اُن کی شریعت لوگوں میں قائم نہ ہوجائے اُن کو موت نہ آ ئے گی ’’۔

            چنانچہ آپ ﷺ اس وقت تک اس دنیا فانی سے رخصت نہ ہوئے جب تک کہ آپ ﷺکی شریعت کو استحکام حاصل نہ ہوگیا چنانچہ حضرت اشیعا کی یہ پیشگوئی قرآنِ حکیم کی اس سورہ کے مطابق ہے ۔

            اِذَا جَآ ءَ نَصْرُ اللّٰہ ِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَےْتَ النَّاسَ ےَدْخُلُوْنَ فِیْ دْین ِ اللّٰہِ اَفَواجًا فَسَبّح ْ بِحَِمْدِ رَبِِِّکَ وَاسْتَغْفِرْہ ٗ اِنَّہ ٗ کَانَ تَوَاباً ترجمہ؛ جب خدا کی طرف سے نصرت آچکی اور تو نے لوگوں کو گروہ در گروہ دین اسلام میں داخل ہو تے دیکھ لیا تو اس دنیا سے تیری رخصتکے دن قریب آگئے اور اب خدا سے حمد و استغفار میں مصروف ہوجاؤ کہ وہ بہت رحم کرنے والا ہے ،،،،،، القرآن الحکیم (سورۃ نصر )

            جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے اصحابؓ سے فرمایا کہ ’’۔

            ﷲ نے اپنے بندے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو اس دنیا کو قبول کر لے یا دوسری دنیاکا سفر اختیار کر لے تو اﷲ کے اس بندے نے آ خرت کو پسند کر لیا صحابہ ؓ فوری طور پہ اِن الفاظ میں چھپے پیغام کو نہ سمجھ سکے تاہم حضرت ابو بکر صدیق ؓ سمجھ گئے کہ نبی اکرم ﷺ کیا کہنا چاہتے ہیں اس لیے وہ رونے لگے ’’۔

            اس کے بعد اشعیاء میں بیان کیا گیا کہ ’’۔ ‘‘تمام بحری ممالک اُن کی شریعت کی راہ تکیں گے ’’۔

            اور اسلام کے سوا کون سا دین سے جو مدینہ سے نکلا تو مشرق و مغرب کی طرف پھیلتا چلا گیا شمال و جنوب کو اپنی زد میں لیتا چلا گیا اور یہ نبی اکرم ﷺ ہی کی شریعت تھی جو نہر سیہون اور جیحون سے ہوتی ہوئی دجلہ و فرات سے گذری اوربحر روم سے لے کر بحر ہند تک اور وہاں سے بحر ظلمات تک پھیلتی چلی گئی اور شریعت محمدی کے نور سے دور دراز تک کے جزیرے روشن ہوگئے اور انھوں نے زندگی کے اُس اسلوب کو پا لیا جس میں دونوں جہانوں کی کامیابی کا راز مضمر تھا ’’۔

            اشعیا میں آ گے بیان کیا گیا کہ ’’۔ میں تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا ’’۔

            چنانچہ ہم دیکھا کہ جب نبی اکرم ﷺ نے اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دی تب غیر تو غیر خود اِن کے اپنے اُن کے دشمن ہو گئے مگر اﷲ کی نصرت اور تائید نے ہر لمحہ آپ ﷺ پہ اپنا سایہ قائم رکھا اور دشمن پوری شدت سے مخالفت کے باوجود ناکام رہا اور اﷲ کا حکم نافذ ہو کے رہا نبی اکرم ﷺ کامیاب ہوئے اور اُن کے دشمن خائب و خاصر و پشیماں ہوئے اس دوران ہر لمحہ قرآن کی آیات آپ کا حوصلہ بڑھانے کو اترتی رہیں ،،،،

            چند آ یات یہاں پیش کی جاتی ہیں ’’۔

            وَاِذْ قُلْنَا لَکَ اِنَّ رَبَکَ اَحَاطَ بِِِاِلنَّا س ِ O اور یاد کرو اے محمد ( ﷺ ) !جب ہم نے تم سے فرمایا کہ تمہارے پروردگار نے تم سے لوگوں کو ہر طرف سے روک رکھا ہے کہ وہ تم پر ہاتھ ڈالیں ،،،، القرآن الحکیم (سورۃ اسراء)

            مزید ارشاد ہوتا ہے کہ،،،،

            وَاصْبِرْلِحُکِْمِ رَبِِّکَ فَاِنَّکَ بِاِ عْےُنِنَا۔ اپنے رب کے حکم کا صبر کے ساتھ انتظار کرو کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ،،،،، القرآن الحکیم (سورۃ طور )

وَاللَّہ ُ ےَعْصِمُکَ مِنَ النَّا سِ ِ۔ اور تیرا خدا لوگوں سے تیری حفاظت کرے گا ۔ القرآن الحکیم (سورۃ مائدہ )

            بشارات اشعیا میں اس کے بعد ہے کہ ’’۔

            ‘‘میں تجھ کو لوگوں کے لیے عہد اور قوموں کے لیے نور بناؤں گا تو اندھوں کی آنکھوں کو کھولے گا اور بندھے ہوؤں کو قید سے نکالے گا ’’۔

            تاریخ گواہ ہے کہ بشارات کا یہ حصہ بھی کس خوبی کے ساتھ پوراہوا اور قرآن مجید نے بھی بشارات کے اس حصے کی تصدیق کی ہے اور جا بجا اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ پہ اﷲ تعالیٰ کے احسانات کی کوئی حد نہیں اور نبی اکرم ﷺ نے اﷲ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی قرآن حکیم سے کچھ مزید شواہد پیش کئے جاتے ہیں ،،،،،

            اَلَّذِےْنَ ےَتَّبِعُونَ الرَّسُوْلَ النَِّبِِِیَّ اْلُا مِیَّ الَّذِیْ ےَجدُوْنَہ ٗ مَکْتُوْبْاً عِنْدَھُمْ فِیْْ التُّو ْرَاۃ ِ وَالِانْجِےْلِ ےَا مُرُ ھُمْ بِاِلْمَعْرُوْفٍ وَےَنْھٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَےُحِلُّ لَھُمُ الطَّےِبٰتِ وَےَحِّرمُ عَلَےْھِمُ الخَبٰءٓثَ رَےَضْعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَاِلاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَاَنْتْ عَلَےْھِمْ فَالّذِےْنَ ٰ امَنُوْابِِہٖ وَعَزَّرُوْہ ُ وَنَصَرُوْہ ُ وَاتّبِعُوْا النُّوْرَالَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ اُوٰٓ لَئِکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنَ قُلْ ےَا اَےُّھَاالنَّاسُ اِنِیّ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَلَےْکُمْ جَمِےْعًا ترجمہ؛ وہ لوگ جو اَن پڑھ فرستادہ پیغمبر کی پیروی کرتے ہیں جس کو وہ اپنے ہاں تورات و انجیل میں لکھا پاتے ہیں ۔ وہ اُن کو نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور اچھی چیزیں اِن کے لیے حلال کرتا ہے اور بری چیزیں اِن پر حرام کرتا ہے اور اِن سے اِن کی پابندیوں اور زنجیروں کو جو اِن پر تھیں ہلکا کرتا ہے تو جن لوگوں نے اس کو مانا اور اس کی مدداور نصرت کی اور اس روشنی کے پیچھے چلے جو اس کے ساتھ اتاری گئی ہے وہی کامیاب ہوں گے کہہ دے اے پیغمبر ! لوگوں میں تم سب کے پاس خدا کا بھیجا ہوا آ یا ہوں،،،،،ن القرآن الحکیم (سورۃ اعراف ۱۹)

            ےَا اَےُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّراً وَّنَذِےْراً وَدَعِےًا اِلَی اللّٰہِ بِِاِ ذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُنِےْراً۔ ترجمہ ؛ اے پیغمبر ! ہم نے تجھ کو خوشخبری دینے والا ،ہوشیار کرنے والا اور خدا کی طرف سے اس کے حکم کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ! القرآن الحکیم (سورۃ احزاب )

            ےَآ اَےُّھَا النَّاس ُ تَدُجَا ءَ کُمْ بُرْھَان ٌ مِنْ رَبّکُمْ وَاَنْزْلَنَا اِلَےْکُمْ نُوْراً مُّبِئناً۔ اے لوگو! تمہارے پاس خدا کی طرف سے دلیل آ چکی ہے ہم نے تمہاری طرف وہ نور اتارا ہے جو ہر چیز کو روشن کرتا ہے ،،،، القرآن الحکیم (سورۃ نساء )

            وَالنُّوْرَ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا اور اس نور پر ایمان لاؤ جو ہم نے اتارا ہے ،،،، القرآن الحکیم (سورۃ تغابن )

            وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃ ً لِلّعٰلِمےْنَاے محمد! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے القرآن الحکیم (سورۃ انبیاء )

کِتٰبٌ اَنْزَلَنَا ہُ اِلَےْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الُّظُلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ۔ ترجمہ؛ یہ کتاب ہے جس کو ہم نے تیری طرف اتارا ہے تاکہ تو لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے آ ئے،،،، القرآن الحکیم (سورۃ ابراہیم )

            وَلٰکِنْ جَعْلْنَا ہ ُ نُوْرْاً نَّھُدِیْ بِِہٖ مَنْ نَشَا ءُ مِنْ عِبَادِنَا وَ اِنَّکَ لَتَھْدِیٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُستَقِےْم ٍ۔لیکن ہم نے اُس کو نور بنایا ہے تاکہ ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں سیدھی راہ دکھائیں اور ہم جس کو چاہیں سیدھی راہ دکھا دیتے ہیں ،،،، القرآن الحکیم (سورۃ شوریٰ )

            یہ حقیقت ہے کہ یہودی نبی اکرم ﷺ کو اُن کی بعثت کے پہلے روز سے جانتے تھے مگر اُن کا یہ حسد کہ نبوت اُن سے چھین کر یعنی بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسماعیل کی طرف منتقل کر دی گئی ہے اُن کو ایک پل چین نہ لینے دیتا تھا اور اسی حسد کے باعث انھوں نے اس ابدی سعادت سے بھی منہ موڑ لیا جس کو لے کر نبی اکرم ﷺ مبعوث ہو ئے تھے ’’۔

             خود عربوں میں بھی اس بات کا شعور پایا جاتا تھاکہ کسی بڑی تبدیلی کی داغ بیل ڈالی جاچکی ہے اگرچہ بہت سے لوگوں کو اس کا ادراک نہ تھا مگر اُن کے صاحب ِ دانش جانتے تھے کہ اُن میں نبوت اترنے والی ہے اور وہ اس کی پیروی کرنے والے ہیں اور دنیا اور آخرت کی فلاح اُن کو حاصل ہو نے والی ہے جیسا کہ حضرت عباس ؓ نے بیان کیا کہ ’’۔

            ایک دفعہ جب وہ تجارتی قافلہ لے کر یمن پہنچے

            اُن کے ساتھ بہت سے دیگر عرب بھی موجود تھے جن میں ابو سفیان بن حرب بھی شامل تھے ’’۔ ابو سفیان کے بیٹے حنظلہ ابن ابو سفیان نے اپنے باپ کو لکھا کہ مکے میں حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے ’’۔

            یہ خبر فوراً ہی یمن کے تاجروں میں پھیل گئی اور اُن کی مجالس کا اہم موضوع بن گئی’’ اور یمن میں بہت سے یہودی تھے جو اہل کتاب ہونے کی وجہ سے اس امر سے آگاہ تھے کہ نبی اکرم ﷺ تشریف لانے والے ہیں ’’۔چنانچہ یمن کے یہودی علماء کا ایک وفد ہمارے پاس پہنچا !اور انھوں نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ مکہ میں ایک نبی مبعوث ہوئے ہیں ’’۔ابوسفیان نے یہودی علماء سے کہا ’’۔

            یہ اُن کے چچا بیٹھے ہیں اِن سے پوچھ لیں کہ اصل بات کیا ہے ’’۔یہودی اس بات سے بہت خوش ہو ئے اور انھوں نے اپنارخ حضرت عباس ؓ کی طرف کر لیا ’’۔

            ایک یہودی عالم نے حضرت عباسؓ سے کہا ! میں آپ سے آپ کے بھتیجے کے بارے میں چند باتیں جاننا چاہتا ہوں ’’۔حضرت عباس ؓ نے کہا !پوچھیں ! میں آپ کے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے تیار ہوں ’’۔ یہودی عالم نے کہا !میں تم سے خدا کے نام پہ پوچھتا ہوں؟ کیا تمہارے بھتیجے میں بچپنا اور شوخی پائی جاتی ہے ’’۔بالکل نہیں !بلکہ وہ ایک سنجیدہ انسان ہیں ’’۔حضرت عباس ؓ نے جواب دیا ’’۔کیا تم نے اُن کو کبھی جھوٹ بولنے دیکھا ہے ’’۔یہودی عالم نے پوچھا !اس پہ حضرت عباس ؓ مسکرائے اور کہا !اﷲ کے بندے وہ تو ہم میں صادق اور امین کے نام سے جانے جاتے ہیں ’’۔یہودی عالم نے پوچھا !کیا انھوں نے کبھی امانت میں خیانت کی ہے ’’۔

            کبھی نہیں !حضرت عباس ؓنے جواب دیا ! یہودی عالم نے پھر پوچھا ؟کیا تمہارا بھتیجا لکھنا پڑھنا جانتا ہے ’’۔حضرت عباس ؓ کہتے ہیں یہودی عالم کے اس سوال سے میں سوچ میں پڑ گیا دراصل مجھے اس بات سے شرم محسوس ہو رہی تھی کہ میں اس کے جواب میں کہوں کہ وہ ان پڑھ ہیں اور میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ پڑھے لکھے ہیں مگر یہ بھی جانتا تھا ابو سفیان بن حرب جو میرے ساتھ ہی بیٹھا ہوا ہے فوراً اس بات کو پکڑے گا اور مجھے جھٹلائے گا اس لیے میں نے آہستہ سے کہا !

            وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ! میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ یہودی سخت گھبرا گیا اور اس حالت میں اٹھا کہ اپنی چادر تک کو نہ سنبھال سکا ’’۔میں اس کے رویے پہ حیران ہوا ’’۔میں نے اس سے پوچھا ؟ کیا ہوا ! اس نے میرے سوال کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ اپنا رخ دوسرے یہودیوں کی طرف کر لیا ’’۔اور اُن سے کہا !نوحہ کرو ! کہ تم تباہ ہو گئے نبوت بنو اسحاق سے رخصت ہو گئی ’’۔اس کے بعد تمام یہودی خاموشی اٹھے اور بغیر کوئی بات کئے خاموشی سے چلے گئے ’’۔اور ہم پھر سے اپنی تجارتی سر گرمیوں میں مشغول ہو گئے ’’۔جب ہمارا قافلہ واپس آ رہا تھا ’’۔

            تو ابو سفیان نے مجھے پکارا اور کہا !اے ابو الفضل ( حضرت عباس کی کنیت ابو الفضل تھی)۔یہودی تمہارے بھتیجے سے بہت ڈرتے ہیں ’’۔میں نے اُن کے چہروں پہ ہوائیاں اڑتی دیکھی ہیں کیا تم بھی اپنے بھتیجے پہ ایمان لے آؤ گے ’’۔حضرت عباسؓ نے ابو سفیان کی اس بات کے جواب میں کہا !شاید تم بھی اُن پہ ایمان لے آؤ ’’۔ابو سفیان ؓ نے غصے سے کہا !بخدا جب تک میں کدا کے مقام پہ اُن کا لشکر نہ دیکھ لوں ان پہ ایمان نہیں لاؤں گا ’’۔

            اور مجھے یقین ہے کہ ابرہہ کے بعد اب کو ئی لشکر کبھی کدا ( مکہ کے قریب ایک مقام ) پہ چڑھائی نہ کر سکے گا’’۔حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں اس کی بات سن کر چپ ہو رہا ’’۔پھر بہت سے برس بیت گئے ’’۔اور نبی اکرم ﷺ ایک لشکر جرار لیے کدا کے مقام پہ اترے ’’۔

            اس شام جب نبی اکرم ﷺ کے لشکروں سے اٹھنے والی روشنیوں سے مکہ روشن ہورہا تھا ’’۔ تب میں نے ابو سفیان کو دیکھا !اور میں نے اُن کو بازو سے پکڑ لیا ’’۔اور اُن سے کہا !اے ابو سفیان ! یمن سے واپسی پہ جو بات تم نے مجھ سے کہی تھی وہ تجھے یاد ہے اس نے کہا ! ہاں مجھے یاد ہے’’۔پھر تمہارا کیا خیال ہے ’’۔ابو سفیان نے کہا ! میں چاہتا ہوں کہ اُن پہ ایمان لے آؤں ’’۔مگر سمجھ نہیں آتی کہ اُن کا سامنا کس طرح کروں’’۔یاد رہے کہ ابو سفیان نے نبی اکرم ﷺ سے واضح دشمنی کا ثبوت دیا تھا اور اُن کے خلاف جنگیں لڑیں تھیں ’’۔ حضرت عباسؓ نے اُن سے کہا !تم کوئی غم نہ کرو وہ بہت نرم دل ہیں تم میرے ساتھ چلو ’’۔چنانچہ حضرت عباس ؓ ابو سفیان کو ساتھ لے کر نبی اکرم ﷺ کے خیمے میں پہنچے ۔تو آپ ﷺ نے اُن کو معاف کر دیا اور ابو سفیان ؓنے اسلام قبول کر لیا ’’۔حضرت ابن سلمہ بن سلامہ ؓنے بیان کیا کہ’’۔میں اس وقت بچہ تھا جب اہل مدینہ کا ایک یہودی ہم کو اکٹھا کر کے روز محشر کے و اقعات بیان کیا کرتا تھا ’’۔وہ یہودی عالم لوگوں سے کہا کرتا کہ ’’۔کہ لوگو ! ہو شیار ہو جاؤ موت کے بعد تم کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ہر شخص کو اس کی نیکی اور برائی کی جزا دی جائے گی جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک اعمال کئے ہوں گے وہ اﷲ کی رضا سے جنت میں جائیں گے اور برے اعمال والے لوگوں کو جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا ’’۔

            حضرت سلمہٰ بن سلامہ ؓ کہتے ہیں کہ چونکہ ہم بت پرست تھے اس لیے اس کی باتوں کو پسند نہیں کرتے تھے ’’۔تاہم اس یہودی عالم نے ہماری مخالفت اور ناپسندیدگی کی پرواہ نہ کی اور وہ مختلف مقامات پر لوگوں کو اس طرح کی باتیں کہتا رہا ’’۔

            ایک بار اسی طرح وہ لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرا رہاتھا ’’۔تب میں بھی اس محفل میں موجود تھا ’’۔کسی نے اس سے پوچھا ؟تیرا برا ہو ! کیا تو اس دور کی کسی علامت اور نشانی کو جانتا ہے ’’۔تو اس یہودی عالم نے جواب دیا ’’۔ہاں!اور اپنی انگلی سے مکہ کی طرف اشارہ کر کے کہا !ایک نبی مکہ میں مبعوث ہوگا اور اپنے ساتھ کتاب لائے گا ’’۔

            لوگوں نے پوچھا؟ کیا ہم اس کا زمانہ پائیں گے ’’۔اس نے کہا !شاید یہ بچہ جب جوان ہو تب وہ نبی مبعوث ہوں گے اور میرا خیال ہے کہ یہ بچہ اُن کو دیکھے گا ’’۔اور اس یہودی کا عالم کا اشارہ حضرت سلمیٰ بن سلامہؓ کی طرف تھا ’’۔حضرت سلمہ بن سلامہ ؓفرماتے ہیں کہ ’’۔

            پھر دن اور رات اسی طرح گذرتے رہے وہ یہودی عالم اپنی دعوت میں مصروف رہا اور ہم بت پرستی کی طرف مائل رہے تاآنکہ اﷲ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی نبوت کو ظاہر کر دیا ’’۔

            چونکہ اس یہودی عالم کی باتوں کی وجہ سے ہم نبی اکرم ﷺ کو جانتے تھے پہچانتے تھے اس لیے ہم نے دیر نہ لگائی اور نبی اکرم ﷺ کی دعوت کو قبول کر کے ایمان میں داخل ہو گئے ’’۔

            حضرت سلمہٰ بن سلامہؓ نبی اکرم ﷺ کے اُن جانباز ساتھیوں میں شامل تھے جنھوں نے بدر کے روز کفارِ قریش کا منہ توڑ کے رکھ دیا تھا ’’۔

            حضرت سلمہٰ بن سلامہؓ فرماتے ہیں ا ب وہ یہودی عالم ہمارے پڑوس میں رہتا تھااور ابھی تک زندہ تھا ’’۔ ایک دن میں نے اس کو پکڑ لیا اور اس سے پوچھا ؟تیرا برا ہو !تو ہم کو ڈراتا رہا اور نبی اکرم ﷺ کی طرف بلاتا رہا اور جب وہ تشریف لائے تو تم نے اُن پہ ایمان لانے سے انکار کر دیا ’’۔تواس یہودی عالم نے ڈھٹائی سے جواب دیا ’’۔کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ اِن کے بارے میں نہیں تھا ! ( جاری ہے )