خمنیی و فردوسی کی سرزمین

مصنف : ڈاکٹر انوار احمد بگوی ، خانم فرحت احمد بگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اپریل 2011

قسط -۲

قُم

            تہران سے قُم 145کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ مگر خمینی انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے قُم کا فاصلہ85کلو میٹر ہے۔ پروگرام کے مطابق ہمارا نکتۂ آغاز ایران کا روحانی، علمی اور فکری مرکز قُم تھا۔ تہران ،قُم ہائی وے دو ر ویہ ہے جس پر ٹریفک کسی توقف کے بغیر 140کلومیٹر فی گھنٹہ کی تیز رفتاری سے رواں ہوتا ہے۔ فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور اور مسافر دونوں کو لازماً کمربند باندھنا پڑتا ہے۔ ہائی وے پر زیادہ تر پرانی گاڑیاں نظرآئیں۔ سڑک کے کنارے بورڈ نظر آئے جن پر تحمید و تسبیح اور سبحان اللہ لکھا ہوا ہے۔ شاہراہ کے دونوں طرف پہاڑی سلسلے ہیں۔ کوئی آبادی نظرنہیں آتی۔علاقہ خشک، بے آباد، بے آب و گیاہ ہے۔ قُم سے پہلے نمک کی ایک جھیل دکھائی دی۔ زمین پر نمک کی سفید چادر اور نمک کے سفید ڈھیر نظر آتے ہیں۔ یہاں سے نمک صاف اور تیار کر کے اندرون ملک بھیجا جاتا ہے۔ کئی بستیوں کے نزدیک مختصر سے خاندان دکھائی دیئے جو سڑک کے کنارے گاڑی پارک کر کے پکنک منا رہے تھے۔ اس آزاد حالت میں بھی مستورات کا حجاب بد ستور قائم تھا۔ ہائی وے کے ساتھ حفاظتی جنگلا نہ تھا۔ دونوں جانب کے سٹیشن مختصر مگر خوبصورت اور صاف تھے۔ مسجدیں اور اشیائے ضرورت کی دکانیں موجود تھیں۔ سڑک کنارے درخت یا درمیان میں سبز پٹی نہیں تھی۔

            اسلامی جمہوری ایران میں ہم نے چار شہروں…… قُم ، اصفہان، مشہد اور آخر میں تہران کا سفر کیا جہاں کئی روز قیام رہا۔ سفر کے دوران فضائی ، بس ، ٹیکسی اور پیدل ذریعے استعمال کئے۔

            قُم ایک علمی ، مذہبی اور روحانی شہر ہے۔ یہ مذہبی مدارس کا مرکز ہے جہاں مختلف علماء اور فضلاء کے قائم کردہ ادارے تعلیم و تدریس، تحقیق و تصنیف اور نشرواشاعت میں مصروف ہیں۔ قُم میں ہزاروں ملکی اور غیر ملکی طلباء دینی علوم کی تحصیل میں مصروف ہیں۔ ایران میں 5ہزار کے لگ بھگ بر صغیر پاک و ہند کے بھی شیعہ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ان میں بعض اعلیٰ پروفیشنل ڈگریوں کے بعد ایک جامع دینی نصاب پڑھ رہے ہیں۔ 100سے زائد ادارے قرآنیات کی تدریس کرتے ہیں۔ معروف مفسر قرآن علامہ طبا طبائی کے نام سے تہران میں ایک یونیورسٹی موجود ہے، جہاں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جدید تحقیق کی جاتی ہے۔

             مذہبی نظام تعلیم وتربیت کے بارے میں زیادہ تفصیل تو معلوم نہ ہو سکی تا ہم اتنا معلوم ہوا کہ درس خارج 9سالہ کورس ہے جو بالعموم میٹرک کے بعد شروع کیا جاتا ہے۔ پروفیشنل لوگوں کے لیے کم دورانیے کے خصوصی کورسز بھی ہیں جن سے انجینئر ، ڈاکٹر اور دوسرے غیرعالم بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ معلمی اختیار کرنے اور نئے مدرسے کھولنے کے لیے صرف ایرانی علماء اور فضلاء کو اجازت ہے۔

            ہر شہر میں فقیہہ عصرکا نمائندہ تعینات ہے جو زندگی کے عمرانی اور اجتماعی نظم کی نگرانی کرتا ہے۔ نماز جمعہ کی امامت اور خطبہ بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔

            قُم سے آغاز سفر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسلامی انقلاب کے لیے اسی شہر نے دماغ اور دل کا کام دیا ۔ فکری اثاثہ اور نظریاتی جدوجہدفراہم کی۔ شہر میں ملّائیت کا اثر نفوذ پہلے بھی تھا اور آج بھی بد ستور قائم ہے۔ ولایت فقیہہ اصل میں ملّائیت کے تفوق ، رہنمائی اور فکری ضبط کا مظہر ہے۔ پارلیمان یا مقننہ اس ادارے کے تحت قرآن وحدیث سے تجاوز نہیں کرتی اور ہدایت و رہنمائی کے لیے مدد لیتی ہے۔

            قُم میں درج ذیل قابل دید مقامات ہیں۔

1) حرم حضرت معصومہؒ

2) جمکران مسجد

3) مقابر امام زادہ ابراہیم وامام زادہ جعفر

4) جامع مسجد

5) مدرسہ فیضیہ

6) اعظم مسجد

7) آستان عجائب گھر

کوچۂ امام خمینی

            معروف سکالر آیت اللہ العظمیٰ الحاج شیخ عبدالکریم ہائری یزدی جب رجب 1340ھ/ مارچ1922ع میں قُم منتقل ہو ئے تو تکمیل علم کے لیے ان کے نوجوان شاگرد خمینی بھی قُم آ گئے۔ یہاں انہوں نے مرزا محمدعلی ادیب تہرانی، سیدمحمد تقی خونساری ، سید علی یثربی کا شانی اور شیخ عبدالکریم ہائیری یزدی سے مختلف اسلامی فنون اور دینی علوم میں اکتساب علم کا سلسلہ جاری رکھا۔ علوم فقہ کے ساتھ ریاضی، فلکیات اور فلسفہ میں حاجی سید ابوالحسن رفاعی قزوینی اور عرفان وتصوف میں مرزا علی اکبر حاکمی یزدی سے اسباق پڑھے۔ شیخ ہائری یزدی کی وفات کے بعد جب شیخ برو جردی قم تھولوجیکل اسمبلی کے سر براہ مقرر ہوئے تو امام خمینی بطور معلم اور فقیہ ممتاز ہو چکے تھے خصوصاً فقہ، اصو ل فقہ، فلسفہ، عرفان اور اخلاقیات میں۔ بعد ازاں وہ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے متعدد کتابیں بھی قیام قُم کے دوران تصنیف لیں۔ 1965ع میں ایران سے جلا وطنی تک امام خمینی قُم میں مقیم رہے جب رضا شاہ پہلوی نے انہیں پہلے ترکی پھر عراق اور آخر میں فرانس وطن بدر کر دیا۔ ان کا ذاتی گھر رقبے میں چھوٹا ،سادہ اور نیم پختہ دکھائی دیتا ہے جو خیابان معلم کو چُہ امام خمینی کہلاتا ہے۔

            فروری1979ع کے انقلاب کے بعد امام خمینی قُم میں نہیں ٹھہرے بلکہ 1989ع میں وفات تک ان کا قیام تہران کے مضافات میں واقع جمران میں رہا۔

            قُم میں سند یافتہ علماء اور زیر تعلیم طلبہ کا لباس مقرر ہے۔ سفید عباء کے اوپر باریک سیاہ کپڑے کا گاؤن! سید علماء کا عمامہ سیاہ ہوتاہے اور غیر سید کا سفید ۔ ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ شیعہ علماء میں علم اور اجتہاد کے اعتبار سے کیا درجہ بندی ہے، نصاب کیا ہے، تعلیم وتربیت کیسے ہوتی ہے اور تحقیق کا معیار کیا ہے ۔ اسی طرح ہمیں خواتین میں عالمہ اور طالبہ کی پہچان نہ ہو سکی جو لباس کی بنا پر ممتاز ہوں۔ یہ بھی نہ جان سکے کہ خواتین کے مذہبی اور علمی ادارے اکٹھے ہیں یا مردوں سے الگ۔ تا ہم بعض خاتون قلم کاروں کی مطبوعات ضرور نظر سے گزریں۔

آستانہ معصومہؒ

            جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ،قُم میں حضرت معصومہؒ ، امام زادہ ابراہیم ؒ اور امام زادہ جعفرؒ کے مزارات کے علاوہ جامع مسجد ، مدرسہ فیضہّ ، اعظم مسجد اور آستان عجائب گھر موجود ہیں۔ کتاب خانہ علامہ اقبالؒ کے نام سے ایک لائبریری بھی قائم ہے۔ سب سے اہم اورمرکزی جگہ حضرت معصومہؒ کا مزار ہے جو امام رضاؒ کی ہمشیر ہیں۔ ان کے مزارمحترم کو حرم ( بمعنی پاک، مقدس، قابل احترام) اور آستانہ بھی کہتے ہیں۔ یہ 5منزلہ عمارت ہے۔ سب سے نچلے حصے میں پارکنگ، ایک منزل پر نمائش گاہ ، ایک پر مزار محترم اور زائرین کے لیے مسجدہے۔ عمارت مخمس ہے۔ سونے کا چمکتا گنبد۔ جگہ جگہ ایرانی چتر کاری کا ہنر نمایاں۔ ایک بڑا دالان۔ جمعرات کی شام زائرین بالخصوص مستورات کے ٹھٹ کے ٹھٹ زیارت کے لیے آتے ہیں۔ چہرے کھلے ، جسم ڈھکے ہوئے، مرد وزن سبھی پتلون پوش۔ عمارت وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ داخلے کے لیے بڑے بڑے دروازے ہیں۔ یہ دروازے اکثر بڑے صحنوں میں کھلتے ہیں۔ صحنوں کے چاروں طرف کمرے ہیں جو زیارات اور انتظامی کاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان صحنوں کے مرکز میں مزار واقع ہے جس تک پہنچنے کے لیے متعدد دروازے ہیں۔ مردوں کے لیے سر ڈھاپننے کی ضرورت نہیں ۔ عورتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی چادر جسم کے گرد لپیٹیں جس سے نہ صرف سارا سر بلکہ پورا جسم بھی ڈھکا رہے۔ حجاب کے ساتھ ایسی چادر نہ ہو تو مرکزی دروازے کے باہر کچھ رقم یا پاسپورٹ بطور ضمانت رکھ کر چادر مل جاتی ہے جس کا کرایہ نہیں ہوتا۔ایک کاؤنٹر سامان امانت رکھنے کے لیے بنا ہوا ہے۔ مزار پر جانے کے لیے زائرین مختلف داخلی دروازوں سے اندر جاتے ہیں۔ کفش برداری کے لیے شاپر بھی میسر ہیں جس میں جوتے ڈال کر زائر ساتھ رکھ سکتا ہے۔ امانت رکھوانے کی صورت میں جوتے ڈبوں میں رکھے جاتے ہیں اور زائر کو ایک ٹوکن مل جاتا ہے ۔ اس پر درب کفش برداری یعنی جوتے رکھنے والے دروازے کا نمبر اور ڈبے کا نمبر درج ہوتا ہے۔ عملہ نہایت مستعد اور مہذب ہے۔ ہجوم اور دروازوں کی کثرت کے باوجود زائر اصل دروازے کو گم نہیں کرتا۔ جوتے رکھنے کا کوئی معاوضہ نہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں کوئی مسجد، مزار یا یاد گار ایسی نہیں ہے جہاں سیاحوں اور زائروں کو جوتے مفت رکھنے کی سہولت میسر ہو ۔ حضرت گنج بخش ہجویریؒ کے مزار سے محکمہ اوقاف نذرانوں کے علاوہ لاکھوں روپے صرف جوتے رکھنے کے ٹھیکے سے کماتا ہے۔ اس پر کارندوں کا گھٹیا رویہ اوردرشت لہجہ ۔ مگر ہماری اوقاف انتظامیہ ، علماء اور عوامی نمائندوں کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ زائرین کو کتنی سہولتیں ، آرام اور احترام سے مل رہی ہیں۔

اللّٰھم صلی علی محمد وآلِ محمد

            ایک بڑا ہال زائرین کے لیے مخصوص ہے جہاں مسلسل وعظ و تذکیر ، صلوٰۃ و سلام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ خطاب کا رنگ واعظانہ یا ذاکر انہ نہیں بلکہ عالمانہ ہے۔تقریر فارسی زبان میں جس میں عربی آیات اور ادعیہ کی آمیزش ہوتی ہے۔ نعرہ حیدری، نعرہ رسالت، نعرہ غوثیہ یا نعرہ تکبیر، کوئی نعرہ بجز صلوٰۃ و سلام سننے میں نہیں آیا۔ خواتین ایک طرف اور مرد دوسری طرف، مختلف راہداریوں سے گزرتے ہوئے ، مزار کی طرف رواں دواں۔ بعض نماز اور نوافل پڑھتے ہوئے نظر آتے ۔ جابجا کتابوں کے سٹینڈ ہیں جن میں قرآن حکیم کے نسخے، عربی ادعیہ اور مفاتیح الجناں کے نسخے فارسی ترجمہ کے ساتھ رکھے تھے۔ اکثر زائرین اور ادعیہ پڑھتے ہوئے ملے۔ مفاتیح الجناں کم اور قرآن حکیم پڑھتے ہوئے بہت ہی کم ! مرقد کے گرد چاندی کا مستطیل سلاخی صندوق ہے جس پر اوپر کی جانب اور اطراف میں عربی آیات نقش ہیں۔ مستطیل سلاخی صندوق کا نصف حصہ مردوں کے لیے مخصوص ہے اور نصف مستورات کے لیے۔ زائرین کا ایک سیلاب ہے جو جمعرات اور جمعہ کی شام امڈا چلا آتا ہے ۔زائر ایک طرف سے داخل ہوتا اور دوسری طرف سے نکل کر مرقد کے گرد راہداریوں میں چلا جاتا ہے ۔ وقفے وقفے سے کوئی زائر‘‘ اللھم صلی علی محمد و آل محمد’’ کا ورد کرتا ہے تو سننے والے صلوٰۃ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ بعض ایک کونے میں کھڑے ہو کر زبانی یا کتاب سے دعائیں پڑھتے ہیں۔ بعض بچوں کو شانے پر بٹھا کر جالی مس کرتے ہوئے۔ کئی پنجرے کی جالی کے ساتھ لپٹے ہوئے ۔ مرقد، راہداریاں اور بغلی کمرے سب کے سب شیشہ کاری سے منقش اور مزین ہیں۔ یونی فارم میں خدام ہجوم کو کنٹرول کرتے اور راستہ کھلا رکھتے ہیں ، نرمی اور استقامت کے ساتھ۔ ان کے ہاتھوں میں پلاسٹک کے مورچھل ہوتے ہیں جن سے زائرین کومارنے کے بجائے اشارہ کرتے ہیں۔

عقیدت

            زائرین جب آستانہ کے کسی دروازے پر پہنچتے ہیں تو پہلے چوبی دروازے کو ہاتھ یا چہرے سے مس کرتے ہیں۔ پھر روبہ مرقد سینے پر دایاں ہاتھ رکھ کر سر کو خم کرتے ہیں۔ لوٹتے وقت بھی چند قدم الٹے رخ روبہ مرقد نکلتے اور اظہار عقیدت و محبت کے لیے داخل ہونے کا عمل دہراتے ہیں۔ زبان پر صلوٰۃ و سلام ہوتا ہے۔ کئی زائر کھجوروں ، ٹافیوں ، چاکلیٹوں اور مٹھائیوں کے ڈبے لیے دوسرے زائرین کو کھانے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ بقول ایک دانشور، جمعرات ، جمعہ کو اگر زیارت پر جائیں تو گھر پر کھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی، تبرک چکھتے چکھتے پیٹ بھر جاتا ہے ۔

مسجد محمدیہ

            آستان حضرت معصومہؒ کے ایک بڑے ہال میں نماز جمعہ ادا کیا جاتا ہے جسے شبستان امام خمینی اور مسجد محمدیہ بھی کہا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے ستونوں پر اونچی چھت ہے۔ یہ حصہ بعد میں تعمیر ہوا ہے دائیں بائیں خواتین کے لیے گیلریاں ہیں جہاں سے وہ نہ تو دکھائی دیتی ہیں اور نہ اُن کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ گیلریوں کے سامنے خوبصورت عربی میں سلام و صلوٰۃ کندہ ہیں۔ محراب میں اوپر دیوار پر صرف ‘‘ اللہ ’’ لکھا ہے ۔ جس کے ساتھ ‘‘ یا ’’ یعنی ‘‘ یا اللہ ’’ نہیں ہے۔ایک طرف امام خمینی اور خامنہ ای کی تصاویر ہیں۔ مووی کیمرہ مسلسل رواں رہتا ہے، غالباً تحفظ اور پاسداری کے خیال سے۔ سامنے مغربی دیوار پر ایک جانب‘‘ محمدؐ رسول اللہ ’’ اور دوسری جانب ‘‘ علی ولی اللہ ’’ لکھا ہے۔ ساتھ سورہ اخلاص بھی کندہ ہے۔ ستونوں پر اللہ اورچھت پر دھاتی اسماء حسنیٰ درج ہیں۔جمعہ کے روز معمول سے زیادہ سیکیورٹی ہوتی ہے۔ ہر نمازی کو چیک کیا جاتا ہے ۔ سامان کھول کر دیکھا جاتا ہے۔

            صحن میں یونیفارم والے خدام مورچھل لیے، آواز دے کر اگلی صفوں میں جانے اور راستہ کھلا رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لاؤڈ سپیکر کی آواز نہ گونج پیدا کرتی ہے اور نہ کانوں پہ گراں گزرتی ہے۔ نمازیوں میں 40فیصد سے زائد نو جوان تھے۔ کہیں بھی دھکم پیل یا شور شرابے کا گزر نہیں ہوتا۔

جمعہ

            جمعہ کی نماز کے بارے میں حنفی اور جعفری دونوں مکاتب بڑے بڑے اجتماعات کے قائل ہیں۔ شیعوں میں جمعہ کی امامت ، امامِ غیب کا منصب ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قُم میں صرف ایک جمعہ ہوتا ہے اور وہ مسجد محمدیہ میں انجام پاتا ہے۔ اس جمعہ کا خطبہ اور امامت نماز کا فریضہ آیت اللہ جوادی عاملی ادا کرتے ہیں جو قُم میں انقلاب اسلامی کے نمائندہ رہبر ہیں۔ خطبہ فارسی زبان میں تھا۔ خطبے میں قرآنی آیات ، احادیث اور نہج البلاغہ کے حوالے تھے۔ بیان سادہ، واعظانہ نہیں عالمانہ تھا۔ امریکی سامراج کا ذکر بھی آیا۔ اثنائے نماز ایک صاحب روسٹرم پر کھڑے ہو کر لاؤڈسپیکر پر نمازیوں کے لیے تکبیریں دہراتے رہے۔ ان کا رخ حاضرین کی طرف تھا۔وہ خود نماز میں شریک نہیں تھے۔

ہفتہ دہ کرامت

            سامنے کی دیوار پہ لگے ایک بینر پر تحریر تھا:

اول ذی قعدہ میلاد حضرت فاطمہ معصومہؒ
یازدھم ذی قعدہ ولادت حضرت امام رضاؒ مبارک باد

            یہ حسن اتفاق تھا کہ ہمارے قیام کے دوران ایران کی دو انتہائی برگزیدہ شخصیات کے ایام ولادت آ رہے تھے۔ شہر میں کہیں کہیں کپڑے کے بینر (قطعات) آویزاں تھے۔ آستان کے صدر دروازوں کے باہر اس عشرے کے علمی اور مذہبی پروگراموں کی تفصیل نمایاں طور پر چسپاں تھی۔

مسجد اور مقبرہ

            پاکستان کے بر عکس قُم ہی نہیں پورے ایران میں جگہ جگہ نہ تو مسجدیں ہیں اور نہ جگہ جگہ مقبرے و مزارات۔ لاہور میں آزادی چوک سے مینار پاکستان یا دو موریہ پل تک جائزہ لیں تو آپ کو سڑک کنارے ، پبلک مقامات پر ، کسی اجازت یا منصوبے کے بغیر کئی مسجدیں اور انجانے بزرگوں کے متعدد مقبرے مل جائیں گے جو قانون، ضابطے اور اصول سے ہٹ کر صرف ‘‘ اعلائے کلمۃ اللہ اور مخلوق کی خدمت’’ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ایران میں یا قُم میں ایسا نہیں ہے۔ قُم کی مساجد میں لاؤڈ سپیکر ہے لیکن اس کی آواز چار دیواری سے باہر نہیں جا سکتی۔ کسی مینارپر چار، چھ یا آٹھ سپیکر نصب نہیں۔ یہاں اذان ریڈیو کے مرکز سے کہی جاتی اور چوراہوں میں نصب کارپوریشن کے سپیکر سے بیک وقت شہر بھر میں نشر ہوجاتی ہے۔ پاکستان کی طرح نہیں کہ محلے کی کئی مسجدوں سے وقفے وقفے سے شروع ہونے والی اذانیں درمیان میں پہنچ کر پوری شدت سے ٹکرا جاتی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس مسجد کی آواز کون سی ہے اور مؤذن کہہ کیا رہا ہے !

            گویا پاکستانی مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا آغاز کلمہ واحدہ یعنی اذان ہی سے شروع ہوجاتا ہے ۔!

آستان عجائب گھر

            مزار مقدس کے صدر دروازے کے سامنے ایک وسیع میدان ہے۔ اس کے ایک طرف خوبصورت پائیں باغ ہے جہاں زائرین سستاتے اور بعض خورو نوش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ پولیس کا گشتی کو سیک ہے جو ہر وقت ہماری چوکی کی طرح موجود رہتا ہے مگر پکڑ دھکڑ اور روک ٹوک نہیں کرتا۔ساتھ ہی ایک قبرستان ہے جہاں شہداء کی بھی قبریں ہیں۔ میدان کے دوسری طرف دکانوں کی لمبی قطار ہے جن کے درمیان آستانہ علی ابن باقر عجائب گھر واقع ہے۔ یہ عمارت کئی منزلہ ہے۔ میوزیم میں منقش ، مرصع قندیل، شمع دان اور چراغ ، گلاب پاش، تپانچہ، سپر، زرہ، طلا پوش مع اشعار ، بارود دان ، تفنگ ، خنجر، تلوار ، در چوبی منقش مع کندہ اشعار ، سکے، زیورات، آنجہانی آر سی ڈی کے ڈاک ٹکٹ، قرآنی خطاطی ، رحل چوبی، قدیم خطی کتب کی جلدیں، کتابوں کے جلد بندی کے گتے، قلم، قلمدان، 120x42cm قلمی قرآن مع ترجمہ، کشکول، قاچار عہد کی سنگی نقاشی اور چہرے، کاسۂ سعالین لعابدار ، ظروف ، پتھر اور کاغذ پر سیدنا علی المرتضیٰؓاور سید نا حسینؓ کی تصاویر در قاچار عہد ، تعمیراتی ٹائیلس کاشی کو کبی ، کاشی زرین ، کاشی بالعاب، منقش چوبی دروازے ، چوبی ، آہنی گلدان، پارچہ زری، ابریشم اور پہلوی عہد کی گلابتوں دوزی کے نمونے موجود ہیں۔ 14صدی کی کشیدہ کاری کے نمونے بھی ہیں۔( بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں جس کا ایک نمونہ میری بیگم، فرحت کی والدہ نے بنایا اور ابھی تک بگویہ خاندان میں محفوظ ہے) منقش اور مصور سنگی لوح مزاربھی نظر آئی جس پر شعاح السلطنت بن مظفر الدین شاہ قاچار کی تصویر کھدی ہوئی ہے۔

لطیفہ

            آستان سے منسلک اس عجائب گھر کو موزہ معصومہؒ بھی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ تجسس رہا کہ حضرت معصومہؒ کا پاؤں میں پہننے والاموزہ بھی یہیں کہیں رکھا ہو گا۔ جب سارا میوزیم دیکھ چکے تو خانم سے کہا کہ وہ ان دو لڑکیوں سے جو دیکھنے میں طالبات لگ رہی تھیں اور میوزیم دیکھ رہی تھیں ،دریافت کریں کہ موزہ کہاں ہے؟فارسی انگریزی کے تھوڑے ٹکراؤ کے بعد انہوں نے ہاتھوں سے چار وں طرف اشارہ کر کے بتایا :کہ ایں موزہ است ! یعنی یہ ساری عمارت ہی تو موزہ ہے۔

            تب معلوم ہوا کہ فارسی زبان میں عجائب گھر کو موزہ کہتے ہیں۔ اور ایران میں شہر شہر ، جگہ جگہ موزے موجود ہیں جن میں اس قوم کی تاریخ ،ماضی اورتہذیب محفوظ ہے۔

            موزہ آستانہ مقدسہ قُم میں قرآن حکیم کی نفیس خطاطی کے اعلیٰ اور نادر نمونے موجود ہیں جو خط کو فی ، خط محقق ، شمسہ مذہب ، خط نسخ ، خط نستعلیق جو عہد تیموری، صفوی، سلجوقی ، قاچاری میں لکھے گئے۔

 جمکران

            ایران کے اکثر تاریخی اورمذہبی آثار بالعموم ایک بہت بڑے مستطیل میدان کے چاروں طرف بنے ہوئے ہیں۔ باد شاہ وقت نے اپنے عہد میں حسب ذوق جو بنانا چاہا، تعمیر کروا دیا۔ بعد میں آنے والے باد شاہ اپنے اپنے ذوق کے مطابق عمارات بناتے اور اضافہ کرتے رہے۔ مسجد مقدس جمکران…… قُم کے مضافات میں واقع ہے۔ وسط شہر سے جانے کا یکطرفہ کرایہ300تو مان یعنی 20روپے فی کس ہے۔ بہت سا حصہ میدان کے چاروں طرف اور اس کے بیرون زیر تعمیر ہے۔ آغاز میں مردانہ زنانہ طہارت خانے ہیں۔ وضو کے لیے بڑے میدان میں انتظام موجود ہے۔ میدان کے مغربی جانب مسجد جمکران ہے۔ شام کے جھٹپٹے میں بہت سارے افراد اور خاندان موجود تھے اور مسلسل آ جا رہے تھے۔ مسجد کے اندر جانے والوں میں زیادہ تعداد مردوں کی تھی۔ جو توں کے لیے شاپر موجود تھے۔

ظہور مہدی

            یہ مسجد اگرچہ چھوٹی سی ہے مگر اس کی تاریخی اور مذہبی حیثیت بہت زیادہ ہے۔ روایت ہے کہ شیعوں کے بارھویں غائب امام مہدیؒ یہاں ظہور پذیر ہوں گے۔ ظہور امام کے لیے پورے ایران میں جگہ جگہ سٹکر لگے ہوئے ہیں اور یہ لکھا ہوا پایا جاتا ہے:

            اَلَلھمَ عَجل لولیک الفرج یا اللہ! اپنے دوست کا ظہور جلد فرما۔

             عوام اور خواص، دونوں کوظہوراور آمد مہدی کا خاص انتظار ہے۔ ہر شخص کی تمنا ہے کہ اس نیک گھڑی میں وہ موجود ہو اور امام کے وجود سے برکت وسعادت حاصل کرے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر نوجوانوں کے ناموں کے ساتھ مہدی کا لا حقہ موجود ہے۔

مسجد جمکران

            اس مسجد کے اندر دیوار تا دیوار قالین بچھے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف اور چھت پر خوبصورت نقش ونگار، مینا کاری ، شیشہ کاری۔ عورتوں کا حصہ الگ ، سٹینڈ پر قرآن حکیم اور دعاؤں کی کتابیں۔ ایران کے ایک مطبوعہ قرآن حکیم کے شروع میں ناشر کی تصویر بھی موجود ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی شیعہ فقہ میں تصویر کشی اور مصوری کسی طرح سے بھی منع نہیں جس طرح حنفیوں اور دوسرے مکاتب فکر میں اس کی شدت سے ممانعت ہے۔ بائیں جانب ایک بورڈ پر مسجد جمکران میں نفل ادا کرنے کی ترکیب لکھی ہوئی ہے جو صلوۃ تسبیح کی طرح خاصی لمبی اور پیچیدہ ہے۔ تا ہم راقم نے دو رکعت نفل تحیۃ المسجد پر اکتفا کیا اور حنفی طریقے پر ہاتھ باندھ کر ادا کئے۔ دائیں بائیں کثیر تعداد میں لوگ غالباً نماز عصر پڑھ رہے تھے یا نوافل۔ بعض دعاؤں کی کتابیں پڑھ رہے تھے مگر کوئی زائر میری طرف متوجہ نہیں ہوا۔ مسجد میں جانب محراب اور چاروں طرف قرآنی آیات اور صلوٰۃ و سلام تحریر تھے۔

            مسجد جمکران کو زیر زمین راستے کے ذریعے حرم معصومہؒ کے ساتھ ملانے کا پروگرام ہے۔ ابھی تعمیراتی کام جاری تھا۔ یہ ایک عظیم الشان منصوبہ ہے جو دونوں روحانی مراکز کو باہم ملا دے گا۔ گنبد کی بیرونی سطح اور سامنے کے دو میناروں کی ہئیت بہت خوبصورت ہے۔ مسجد کی کرسی میدان سے اونچی ہے۔ مسجد کے صدر دروازے پر امام خمینی اور رہبر خامنہ ای کی تصاویر لگی ہیں۔ صحن کے ایک جانب فوارے اور ایستادہ وضو گاہ ہے۔ چونکہ شیعہ پاؤں پر مسح کرتے ہیں اس لیے وضو کے لیے کھڑے ہونے میں سہولت رہتی ہے۔ مسجد سے نکلتے وقت بھی لوگ پشت ٹیڑھی کر کے اور سینے پر دایاں ہاتھ رکھ کر سر جھکا کر لوٹتے ہیں۔ یہاں بھی درخت کم ہیں۔ البتہ مسجد کے میدان سے باہر بچوں اور عورتوں کے لیے تفریح کا سامان موجود ہے۔ ایرانی خاندان زیارت کے ساتھ ساتھ تفریح سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ ایک مستحسن بات ہے کہ محض رونے دھونے یا پڑھنے پڑھانے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ کھانے پینے، ہنسنے اور کھیلنے کو بھی مباح سمجھا جائے۔ہمارے مزاروں اور مقابر میں بچوں کی تفریح کا کوئی سامان نہیں ہوتا۔

گلزار شہداء

            قُم کے ایک جانب بڑا قبرستان ہے جسے گلزار شہدا ء کہتے ہیں۔وہاں راستوں کے اندر دو دو تین تین رویہ بلکہ کھلی جگہوں پر کئی کئی رویوں میں قطار اندر قطار قبریں ہیں۔ روایت کے مطابق میتیں تین تین منزلوں میں دفن ہیں۔ سب سے اوپر سفید پتھر کی سل پر مرحوم کا نام، ولدیت ، تاریخ وفات، ماتمی شعر یا رباعی اور نیچے مدفون کا مکمل حوالہ نمبر درج ہے۔ بعض سلوں پر مرنے والے کا نقش یعنی حلیہ کھدا ہوا ہے۔ ان قبروں میں عام لوگ دفن ہیں اور شہدا بھی جو انقلاب اسلامی یا عراقی جارحیت کے نتیجے میں جان بحق ہو گئے تھے۔ قبرستان میں چہل پہل تھی۔ قبرستان صاف ستھرا، منظم اور منضبط تھا۔ نواح میں آستان مقدس امام زادہ علی ابن جعفرؒ بھی موجود ہے۔

             قبرستان کے دفتر میں پورا ریکارڈ موجود ہے جہاں سے سنگ مزار پر مندرج حوالے سے مرحوم کے متعلق ضروری معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

رہن سہن

            قُم منصوبہ بندی سے بنایا گیاہے۔ اکثر سڑکیں کھلی اور دو رویہ ہیں۔ درمیان میں باڑ یا پودوں اور گھاس کی سبز پٹی(Green Belt) موجود ہے۔ تمام سڑکوں کے دونوں طرف پیدل چلنے والوں کے لیے راستے ہیں۔ یہ راستے غیر ہموار نہیں بلکہ سیمنٹ کی خوبصورت اور مختلف بیل بوٹوں سے مزین ٹائیلوں(Tiles) سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ یوں جیسے آپ چمن زار میں قدم دھر رہے ہوں! پانی کی رسد کے بڑے ڈھکنوں پر ‘‘ آب قُم ’’ لکھا ہوا۔ یہاں خرابات مثلاً فلمی کیسٹوں ، گانے والی آڈیو، ویڈیو کھیلوں، چائے پان اور سگریٹ کی دکانیں نہیں ہیں۔

            محلوں کی بعض گلیاں ٹیڑھی میڑھی مگر پکی بنی ہوئی ہیں۔ صاف ستھری ہیں ۔محلے میں کھمبے کے پاس گھروں کے کچرے کے سیاہ شاپر کا اکٹھ نظر آیا جنہیں صبح و شام ہتھ گاڑی والا عملہ اکٹھا کر کے کارپوریشن کے کوڑے ٹرک میں منتقل کر دیتا ہے۔ بجلی کی ترسیل کا نظام زمین پر ہے، زیر زمین نہیں۔ مگر کسی جگہ بجلی کے پول پر تاروں اور میٹروں کا بے تکا بلکہ خوفناک جمگھٹا نہیں جو پاکستانی زندگی میں معمول کا نظارہ ہے۔کہیں بجلی کے تار لٹکے ہوئے نہیں۔ پاکستان کی طرح لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔ آب رسانی اور گیس سپلائی کے پائپ زیر زمین ہیں۔ پینے کا پانی کھاری مگر اتنامحفوظ ہے کہ اسے صاف کی ضرورت نہیں تا ہم لوگ فلٹرڈاوراُبلا پانی ہی استعمال کرتے ہیں۔قُم میں بڑی اور مصروف سڑکوں کو غالباً ہر روز دھویا جاتا ہے۔ رات ڈھلنے کے بعد پانی کے ٹینکر اور عملہ صفائی سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ سڑکوں کے دونوں کناروں پر تیز پانی بہایا جاتا ہے جس سے آلائش دھل کر نکل جاتی ہے۔ آلودہ پانی سڑکوں کے کنارے اس بڑی کھلی نالی میں چلا جاتا ہے جو سرما میں برف کے نکاس کے لیے سڑک کے دونوں جانب بنائی گئی ہے۔ ان نالیوں میں دن کے وقت گزرنے والے کچرا نہیں پھینکتے، اس لیے صاف رہتی ہیں۔

             سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں نئی ہیں اور اکثر پرانی گاڑیاں بھی مگر زیادہ بڑی گاڑیاں نہیں ہیں۔ کسی گاڑی کو دھواں چھوڑتے نہیں دیکھا۔ رکشہ نام کی سواری نہیں ہے۔ سائیکل کی تعداد کم ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹیکسی وافر مقدار میں ہے ۔ جگہ جگہ ٹیلی فون بوتھ اور صدقات کے صندوق ہیں۔ گلی ، محلے ، بازار ، چوک، رہائشی بلاک اور مکانات کے نام اور نمبر درج ہیں اورانہیں فراخدلی سے لکھا اور لگایا گیا ہے۔اس لیے تلاش کرنا مشکل نہیں رہتا۔

             ایران میں ہند سے عربی زبان کے استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے لکھنے کا انداز بھی بالکل عربی کی طرح ہے۔ ہر مکان پر محل وقوع کی تفصیل عددی طور پر موجود ہے۔

            قُم میں باورچی خانے کے سنک یا برتن دھونے والے واش بیسن میں پلاسٹک کی ٹوکری رکھی ہوتی ہے جسے چھلنی بھی کہا جا سکتا ہے ۔ دھوتے وقت بچاکھچا خصوصاً سبزی اور دیگر ٹھوس مواد اس چھلنی میں رہ جاتا ہے اور باورچی خانے سے بغیر کچرا صاف پانی نکلتا ہے۔ یہ پانی مزید سلوک کے بغیر آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں نکاسی کے پائپ بند نہیں ہوتے اور کسی جگہ رستی لائینں اور ابلتے گٹر نظر نہیں آتے۔

            دوپہر کے بعد تھوڑی دیر کے لیے اکثر دکانیں بند ہوجاتی ہیں۔ اذان کے بعد یاجماعت کے دوران کا روبار اورٹـریفک جاری رہتا ہے۔ غالباً فٹ بال ایران کا مقبول عام کھیل ہے ۔ اکثر دکانداروں کو چھوٹی سکرین پر فٹ بال میچ دیکھتے پایا۔ الیکٹرانک کی دکانوں پر علماء و ذاکرین کے خطاب سننے کی بجائے لوگ میچ یا کوئی شکاری فلم دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

            ایرانی گھروں میں جانے کا موقع نہیں ملا۔ ایک ہندوستانی فیملی سے ملنے کا اتفاق ہوا جو عرصے سے قم میں مقیم ہے۔ گھر میں دیوار سے دیوار تک قالین ہے۔ گھر کے تمام افراد بچے اور بڑے اور مہمان سب گھر میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارتے اور کمرے سے باہر راہداری میں ترتیب سے رکھ دیتے ہیں ۔ گھر کو گویا ہماری مسجد جیسا احترام اور پاکیزگی حاصل ہے۔ جوتے جو دن بھر زمین پر لگتے اور آلودہ ہوتے ہیں، گھر کو ان کی آلائش سے بچایا جائے۔ گھر میں گو کرسیاں اور صوفے موجود ہیں لیکن ملاقات اور خورو نوش کے لیے نشست فرشی ہوتی ہے۔ فرش پر دستر خوان بچھتا ہے اور وہیں کھایا پیا جاتا ہے۔ غسل خانے کے لیے الگ جوتا ہے جو اس کے اندر ہی موجود رہتاہے۔ نہانے اور دھونے کے بعد وہیں اتار دیا جاتا ہے۔

            مرد و زن جوڑے مزار کے ارد گر د، صحنوں میں ، چوکوں اور بازاروں میں ہاتھ تھامے اوربعض ساتھ ساتھ جڑے دکھائی دیئے۔ اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا جیسا پاکستان میں معیوب اور غلط سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کسی کو اعتراض کرتے ، گھورتے یا ٹوکتے نہیں دیکھا۔ موٹر سائیکل نوجوانوں کی پسندیدہ سواری ہے۔ بھگاتے تو دیکھا مگر کسی کو لاہوری نوجوانوں کی مانند ون ویلنگ( یک پہیہ) یا بغیر سائیلنسر دوڑاتے نہیں پایا۔ موٹر سائیکل پر عورتوں اور لڑکیوں کو مردوں کی طرح پچھلی سیٹ پر ٹانگیں پسار کر بیٹھے دیکھا مگر کسی خاتون کا حجاب نہیں اترا۔ غالباً نشست کا یہ انداز قانونی ہدایت کا نتیجہ ہے۔ اس طریقے پر گرنے یا کپڑے پہیے میں آنے کا خطرہ کم ہے۔ سواروں میں ہیلمٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہماری طرح نہیں کہ غیر ضروری سختی اور وہ بھی کچھ عرصے کے لیے کی جائے تا کہ کسی حواری کے ہیلمٹ جلد اورمہنگے بِک جائیں۔ شہر کے اندر اور وہ بھی خواتین کے ہمراہ ہیلمٹ غیر ضروری ہے جیسے پنجاب کی سابقہ حکومت نے اسے جیب کا مسئلہ بنا لیا اور عام شہری کو سخت تنگ کیا۔ قُم میں ایک حکیم کی دکان نظر آئی۔ پلاسٹک کے ڈبوں ، مرتبانوں میں جڑی بوٹیاں، خشک پتے، پھل تھے۔ دکان کے باہر شیشے پر مختلف بیماریوں کے نام گویا ان کا شافی علاج دکان کے اندر موجود ہے۔ سارے شہر میں کسی جگہ ہو میو پیتھی کا کلینک/ سٹور / بورڈ نظر نہیں آیا۔ جدید طب یعنی ایلو پیتھی ہی سرکاری اور عوامی طب دکھائی دیتی ہے۔

نمائش گاہ

            حرم کو جانے والی بڑی شاہراہ کے درمیان ایک گھاٹی کو راستہ جاتا ہے۔ یہاں علمی کتابوں اور دیدنی مواد (Visual Aid) کی بڑی دکان ہے جہاں انقلاب ، علوم اور فنون اور اسلام کے بارے میں ویڈیو ، آڈیو کیسٹیس بھی ملتی ہے۔ مغرب کے بعد وہاں ہر عمر کے مرد ، عورت خریداروں کا ہجوم تھا۔ یہاں مستقل نمائش کا سٹال لگاہوا ہے۔ سر شام سڑک کنارے سکرین پر ایسی فلمیں دکھائی جاتی ہیں جن کا تعلق انقلاب اور عراق جنگ میں شہید ہونے والوں سے ہے۔ ان میں ماتمی فلمیں بھی ہوتی ہیں ۔ شاہ ایران کے عہد میں انقلاب مخالف اقدامات اور شاہی مظالم کی داستانیں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ لیکن ان فلموں کو دیکھنے سننے والے شاذ و نادر ہی دکھائی دیئے۔ شاید بار بار کا دکھانا اپنا اثر کھو دیتا ہے۔ اس اوپن سینما کے ساتھ نمائش گاہ بھی ہے جہاں سے علمی اور مذہبی کتابیں اور ویڈیو ملتی ہیں۔ نمائش گاہ میں دو بینر توجہ کھینچتے ہیں۔

            ٭ دو رکعت نماز با تفکر بہتراز یک شب بہ عبادت ایستادن ایست…… پیا مبرا کبرؐ فرمودند……غور و فکر کے ساتھ دو رکعت نماز رات بھر کھڑے ہو کر عبادت کرنے سے بہتر ہے۔

            ٭ انی احب الصلوٰۃ ( من بہ نماز عشق می در زم) …… امام حسینؓ فرمودند۔ مجھے نماز سے عشق ہے۔ ٭ ( جاری ہے )