سفارش

مصنف : احمد ندیم قاسمی

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : فروری 2011

            محلے کی بڑی گلی کے موڑ پر تین چار تانگے ہر وقت موجود رہتے ہیں ،مگر اس روز میں موڑ پر آیا تو وہاں ایک بھی تانگہ نہیں تھا مجھے خاصی دور بھی جانا تھا اور جلد ی بھی پہنچنا تھا اس لیے تانگے کا انتظار کرنے لگا ۔تانگے تو بہت سے گزرے مگر سب لگے ہوئے تھے ۔اچانک میں نے فیکے کو چوان کو اپنی طرف آتے دیکھا تو پکارا .‘‘بھئی فیکے ـ.تانگا کہاں ہے؟ تانگا لاؤ نا.’’‘‘تانگا تو بابو جی ’ آج نہیں جوڑا ۔’’ فیکے نے جواب دیا ۔میں نے دیکھا کہ فیکا جو کوچوان کا کوچوان اور پہلوان کا پہلوان تھا ،آج اتنا معصوم لگ رہا تھا جیسے پہلی جماعت میں داخلہ لینے آیا ہے ۔اس نے آج شیو بھی نہیں بنوایا تھا ۔اس کی آنکھیں بھی سونے سے محروم تھیں اور بوٹی کی طرح سرخ ہو رہی تھیں

            ‘‘کیا بات ہے فیکے ؟ ’’ میں نے پو چھا ۔وہ بولا ‘‘بابو جی ایک کام ہے ۔’’‘‘ہاں ہاں کہو.’’میں نے کہا .‘‘کام یہ ہے بابو جی کہ آپ میرے بابا کو تو جانتے ہیں نا؟’’فیکا بولا ۔اس کی ایک آنکھ چلی گئی ہے ۔’’‘‘اوہو ۔’’مجھے دکھ ہوا کیسے گئی ؟کیا کوئی حادثہ ہوا؟’’‘‘جی نہیں ’’فیکے کے چہرے پر بھولپن کا ایک اور چھینٹا پڑگیا ۔

            ‘‘لال لال تو وہ ہر وقت رہتی تھی اور اس میں سے پانی بہتا رہتا تھا ۔آپ تو جانتے ہیں آپ تو بابا کے ساتھ کئی بار تانگے پر بیٹھے ہیں ۔تو بابو جی کل کیا ہوا کہ بابا مصری شاہ میں سے گزرا توسانڈے کا تیل بیچنے والا ایک حکیم سْر مہ بیچ رہا تھا ۔بابا یہ سْرمہ لے آیا اور ہمیں بتایا کہ اس سے آنکھ کی لالی جاتی رہی گی ۔حکیم نے خدا رسول کی قسم کھا کے کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ نہ جائے تو قیامت کے دن مجھے گردن سے پکڑنا میں نے بھی کہہ دیا کہ حکیم خدا رسول کو بیچ میں ڈال رہا ہے تو ذرا سا لگالے ۔امّاں نے بھی یہی صلاح دی ۔اس نے ‘‘لقمان حکیم ،حکمت کابادشاہ ۔’’پڑھا اور آنکھ میں سلائی پھیر لی بس پھر کیا تھا بابو جی قسم کھا کر کہتا ہوں ،جب سے اب تک آنکھ لگی ہو تو اپنے باپ کا نہیں بابو جی ،آپ تھک تو نہیں گئے .؟سگریٹ والے کی کرسی اٹھا لاؤں ؟’’

            اس وقت فیکا مجھے ایسا لگا جیسے اس کے چوڑے چکلے سینے پر گْڈّے کا حیران سر رکھا ہوا ہے ـ.میں نے کہا .‘‘تم بھی حد کرتے ہو فیکے .اب آگے بھی کہو نا ۔فیکے کی آنکھوں میں ممنونیت کی نمی جاگی ۔وہ بولا ۔’’بس بابو جی خدا آپ کا بھلا کرے رات تو چیخ چاخ کے گزار دی پھر صبح کو محلے کے سارے کوچوان اکٹھے ہوئے تو ان میں سے چچا رشیدے نے کہا کہ پوست کے ڈوڈے پانی میں اْبالو اور اسے پانی سے آنکھ دھو و۔دھونی پر بابا اسی طرح تڑپتا رہا پھر کسی نے کہا کہ پالک کا ساگ اْبال کر باندھو باندھا اور جب کھولا تو بابا نے صاف کہہ دیا کہ اب کیا جتن کرتے ہو آنکھ کا دیا تو بجھ گیا ہمارے گھر میں تو پٹس پڑ گئی بابو جی ۔اسے ایک ہسپتا ل میں لے گئے ۔پھر دوسرے میں لے گئے ۔دونوں میں جگہ نہ تھی ۔دوپہر کو راج گڑھ کے ایک کوچوان نے بتایا کہ اس کا سالا میو ہسپتال میں چوکیدار ہے ۔اس کی سفارش سے جگہ تو مل گئی پر برانڈے میں ۔وہ بھی کوئی ایسی بات نہیں ۔پر بابو جی شام ہونے کو آئی ہے اور ابھی تک کوئی ڈاکٹر تو کیا کوئی نرس بھی ادھر نہیں آئی ۔آپ صاحب لوگ ہیں یہ دیکھئے ہاتھ باندھتا ہوں ۔میرے ساتھ چل کر کسی ڈاکٹر سے یہ کہہ دیجئے کہ صدیقے مریض کو ذرا سا دیکھ لے ۔’’

            میں نے کہا ۔’’وہاں ایک ڈاکٹر ہے .ڈاکٹر عبدالجبار ۔ان سے میرا سلام کہو کام ہو جائے گا ۔نہ ہوا تو کل میں تمھارے ساتھ چلوں گا ۔اس وقت مجھے ایک دعوت میں جانا ہے ۔نام یاد کر لو ڈاکٹر عبدالجبار ۔’’

            فیکا میرے بہت سے شکریے ادا کر کے چلا گیا ۔پھر مجھے ایک خالی تانگا مل گیا جب تانگا میو ہسپتال کے صدر دروازے کے سامنے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ فیکا ہسپتال کے ایک چوکیدار سے باتیں کر رہا ہے ظاہر ہے کہ ڈاکٹر عبد الجبار کا پتہ پوچھ رہا ہو گا ایک بار جی میں آئی کہ ہسپتال جا کر جبار صاحب سے کہہ دوں مگر اب تانگہ آگے نکل گیا تھا اور مجھے پہلے ہی دیر ہو گئی تھی ۔

            کچھ دور جا کر گھو ڑا پھسل کر گرا ۔اور دس منٹ تک گرا رہا ۔ پھر جب اٹھا اور چلنے لگا تو یکا یک جبار صاحب کا سکوٹر میرے تانگے کے قریب سے زنن سے گزر گیا ۔‘‘جبار صاحب !‘میں چلّا یا ۔مگر جبار صاحب میری آواز سے تیز نکلے ۔کوئی بات نہیں ،میں نے سوچا ۔ کل کہہ دوں گا ۔کل پہلا کام ہی یہی کروں گا ۔رات کو میں گھر واپس آیا تو معلوم ہوا کہ فیکا کوچوان آیا تھا اور کہہ گیا تھا کہ بابو آئیں تو مجھے بلا لیں ۔میں نے سو چا ،اس وقت کو ن بلائے ۔اگر جبار صاحب ہسپتال ہی کو جا رہے تھے اور فیکے کا کام ہو گیا ہے تو شکریہ صبح قبول کر لوں گا اور اگر کام نہیں ہوا تو جو بھی کوشش ہوگی صبح ہی کو ہو گی ۔صبح کو میں ابھی بستر سے نہیں نکلا تھا کہ فیکے نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔معلوم ہوا کہ رات جبار صاحب ڈیوٹی پر نہیں تھے ۔ان کی ڈیوٹی آج دن کی ہے ۔‘‘یعنی تمھا ر اباپ دسمبر کی اس سردی میں برآمدے ہی میں پڑا رہا ۔؟’’میں نے اپنے انداز میں تشویش ظاہر کی ۔‘‘جی ہاں ۔’’وہ بولا ۔‘‘مگر یہ تو کوئی ایسی بات نہیں بابو جی ۔آپ نے ہمارا گھر نہیں دیکھا ۔دس سال سے چھپر میں پڑے ہیں ۔’’‘‘اور اس کی آنکھ ؟’’ میں نے پوچھا .‘‘وہ تو چلی گئی بابو جی ۔’’فیکا یوں بولا جیسے اس کے باپ کی آنکھ کو ضائع ہوئے برسوں گزرچکے ہیں ۔میں نے کہا .‘‘جب آنکھ جا ہی چکی ہے تو بے چارے بڈھے کو ہسپتا لوں میں کیوں گھسیٹتے پھرتے ہو ؟وقت بھی ضائع ہوگا روپیہ بھی ضائع ہوگا ۔’’

            فیکا بولا ۔‘‘بابو جی .کیا پتہ آنکھ کے کسی کونے کھدرے میں بینائی کا کوئی بھورا پڑارہ گیا ہو ۔دیکھئے چولھا بجھ جاتا ہے تو جب بھی دیر تک راکھ میں ہاتھ نہیں ڈالتے ۔کیا پتا کوئی چنگاری سلگ رہی ہو ۔’’

            میں اس بات سے چونکا .آج تک فیکے نے مجھ سے صرف چارے کی مہنگائی اور آٹے میں ملاوٹ کے موضوع پر باتیں کی تھیں ۔پھر وہ عاجزی سے بولا ۔‘‘بابو جی ،ذرا سا میرے ساتھ چلے چلئے ۔’’میرے جسم میں سے نیند بھی پوری طرح غائب نہیں ہوئی تھی پھر نہانا تھا ،شیو کرنا تھا ،چائے پینی تھی .میں نے کہا ۔‘‘میں تمھیں اپنا کارڈ دیے دیتا ہوں وہ ڈاکٹر جبار کو دکھا دو ۔بڑے یار آدمی ہیں ۔فٹا فٹ کام کر دیں گے ،تمھارا باپ ایک بار وارڈ میں چلا جائے ۔پھر علاج کے لئے میں تو خود جا کر کہوں گا ۔’’

            وہ مجھ سے کارڈلے کر یوں چلا جیسے دنیا جہاں کی دولت لئے جارہا ہے ۔میں نے کارڈ پر لکھ دیا تھا ۔جبار صاحب ! اس کا کام کر دیجئے ،بے چارا بڑا ہی غریب آدمی ہے دعائیں دے گا ،اور مجھے یقین تھا کہ کام ہو جائے گا ۔ڈاکٹر کو صرف اتنا ہی تودیکھنا تھا کہ آنکھ پوری طرح بجھ گئی ہے یا تھوڑی بہت رمق باقی ہے ۔

            میں دن بھر گھر سے غائب سے رہا ،اور فیکا دن بھر میرے گھر کے چکر کاٹتا رہا شام کو اس نے مجھے بتایا کہ ‘‘جبار صاحب بیٹھے تو ہیں پر کوئی اندر نہیں جانے دیتا ۔کہتے ہیں باری سے آؤ ۔او ر میری باری آتی ہی نہیں گھٹنا پاجامے سے جھانک رہا ہو تو باری کیسے آئے بابو جی ۔’’

            فیکے نے ایک بار پھر مجھے چونکا دیا نہ جانے پہلوان فیکے کے اندر یہ احساس فیکا اتنے برسوں سے کہاں چھپا بیٹھا تھا ۔میں نے وعدہ کیا کہ کل ضرور چلوں گا ۔اب تو شام ہوگئی ہے ۔

            دوسرے دن سویرے ہی مجھے شیخوپورے جانا پڑ گیا ۔رات کو واپس آیا تو معلوم ہو اکہ فیکا آیا تھا ۔اس کے بعد تین دن تک میں نے زیادہ وقت گھر میں گزارا،مگر فیکا نہ آیا .چوتھے روز میں نے گلی کے موڑ پر ایک کوچوان سے فیکے کے باپ کا پوچھا ۔تو معلوم ہوا کہ اسے وارڈ میں جگہ مل گئی ہے ،اتنے میں فیکا بھی آنکلا .مجھے ذرا سی ندامت تھی اس لئے جھوٹ بولنا پڑا ۔‘‘کیوں فیکے ،جبار صاحب نے کام کر دیا نا ؟’’وہ بولا۔‘‘مگر بابو جی ،وہ تو مجھ سے ملے ہی نہیں ۔’’میں نے فوراً کہا ‘‘میں نے انھیں فون کر دیا تھا ۔’’

            فیکے کا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا اور اس کی آنکھوں میں ممنو نیت کی نمی جاگ اٹھی ‘جبھی میں کہوں نرس بار بار یہ کیو ں کہہ رہی ہے ،کہ دیکھو ،بڈھے کو تکلیف نہ ہو ۔’’

            پھر میں وہاں سے چلا آیا ۔میرے قدم آہستہ آہستہ اْٹھ رہے تھے ،مگر ذہن جیسے شکست کھا کر بھاگا جا رہا تھا ۔رات کو نیند نے ندامت دور کر دی ۔مگر صبح ہی فیکا دروازے پر موجود تھا ۔بولا ۔‘‘آپ کی مہربانی سے داخلہ تو مل گیا تھا پر اب انھوں نے بابا کو کوٹ لکھپت کے ہسپتال میں بھیج دیا ہے ۔یہ تو بڑا غضب ہو ا بابو جی ۔آج میں اماں کو ساتھ لیکر گیا .دو ۲ روپے گل ہوگئے .کچھ ہو سکے تو کیجئے ۔’’ میں نے کہا ۔‘‘میں ابھی جاکر ڈاکٹر جبار کو فون کرتا ہوں ۔’’

            میں نے فون کیا بھی مگر ڈاکٹر صاحب مل نہ سکے ۔پھر مصروفیتوں میں بات آئی گئی ہوگئی ۔پانچ چھ روز بعد میں نے فیکے کو دیکھا تو سوچا کہ نظریں چرا کے ساتھ والی گلی میں مڑ جاؤں اور وہاں سے بھاگ نکلو ں،مگر فیکا لپک کر میرے پاس آیا اور بولا ۔‘‘بابو جی ،سمجھ میں نہیں آتا آپ کے کس کس احسان کا بدلہ اتاروں گا ۔’’

            جھوٹ نے میری ندامت کو کان سے پکڑ کر ایک طرف ہٹا دیا ۔‘‘واپس آگیا نا تمھا را بابا        فیکا بولا ۔‘‘واپس بھی آگیا اور اپریشن بھی ہوگیا ۔جمعہ کو پٹی کھل رہی ہے ۔دعا کیجئے ۔’’میں نے کہا .‘‘اللہ رحم کرے گا ۔’’

            پھر وہ جمعہ کی شام کو آیا ،تو بولتے ہی زار زار رونے لگا ۔‘‘بابو جی غضب ہو گیا ،پٹی کھلی تو پتہ چلا کہ ایک آنکھ تو گئی ہی تھی ،دوسری پر بھی اثر پڑ گیا ہے ۔کہتے ہیں اب پہلے اپریشن کا زخم ملے تو دوسرا اپریشن ہوگا .اور دوسری آنکھ کا بھی ہوگا ۔’’

            میں نے اسے تسلی دی اور اسے ساتھ لیکر سامنے ہی ایک دکان سے ڈاکٹر جبار کو فون کیا ،مگر بدقسمتی سے وہ فون پر موجود نہ تھے .پھر میں نے اس سے وعدہ کیا کہ کل جا کر ڈاکٹر جبار سے ملوں گا ،وہ ہسپتال میں نہ ہوئے تو انھیں گھر میں جا کر پکڑوں گا ۔’’

            دوسرے دن میں جا تو نہ سکا البتہ ڈاکٹر جبار کو فون ضرور کیا ۔وہ پھر غائب تھے ادھر فیکا بھی غائب ہو گیا ۔

            شاید دو ڈھائی ہفتے بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔نو کر نے آکر بتایا کہ فیکا کوچوان آیا ہے ۔میں نے بھی اسے کھڑکی میں سے دیکھ لیا ۔بالکل ہلدی ہو رہا تھا ۔میں نے نو کر سے پوچھا ۔‘‘کیا تم نے اسے بتا دیا ہے کہ میں موجود ہوں ۔’’؟ ‘‘جی ہاں ’’۔نوکر بولا ‘‘بس میرے منہ سے نکل گیا ۔’’ ‘‘بڑے احمق آدمی ہو۔’’میں نے اسے ڈانٹا اور کہا ‘‘جاؤ کہہ دو کپڑے بدل رہے ہیں ۔آتے ہیں ۔’’

            کپڑے تو میں نے بدل رکھے تھے البتہ میں اپنے تیور بدلنے کی کوشش کرنے لگا پھر اچانک خیال آیا کہ کتنا چھوٹا آدمی ہوں دو پیسے یا دو روپے یا چلو دو لاکھ کی بھی بات نہیں دو آنکھوں کی بات ہے اور میں جھوٹ بولے جا رہا ہوں ۔مجھے فیکے کے سامنے اعتراف کر لینا چاہئے کہ میں تمھارے لئے کچھ نہیں کر سکا پھر میں نے وہ فقرے سوچے جو مجھے فیکے کے سامنے اس انداز سے ادا کرنے تھے کہ اسے سچی بات بھی معلوم ہوجائے اور اسے دکھ بھی نہ ہو۔

            میں باہر آیا تو فیکا بولتے ہی زار و زار رونے لگا ۔‘‘بابو جی ،کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آواز بھرا گئی۔

            میرے سوچے ہوئے فقرے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے ۔مشکل سے میں نے کہا ۔‘‘فیکے ۔ بات یہ ہے فیکے کہ ۔۔۔۔۔۔بات یہ ہے ۔۔۔۔۔’’

            آنسوؤں سے بھیگا ہوا بچوں کی طرح گول گول سرخ چہرہ لئے فیکا اٹھا ،اورش بولا ‘‘بابو جی ،کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔میں شکریہ ادا کروں تو کیسے کروں ۔میرا بابا ٹھیک ہوگیا ہے ۔اس کی دونوں آنکھیں ٹھیک ہوگئی ہیں اسے بینائی اللہ نے دی ہے اور آپ نے دی ہے ۔آپ نے مجھے خرید لیا ہے بابو جی ۔قسم خدا کی میں عمر بھر آپ کا نوکر رہوں گا ۔’’اور میں نے ایک بہت لمبی ،بہت گہری سانس لے کر کہا ۔‘‘کوئی بات نہیں فیکے ۔کوئی بات نہیں ۔’’