خدمت خلق کی حقیقت

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جنوری 2011

            خدمت خلق ایک عمرانی اصطلاح ہے جو دو لفظوں کا مرکب ہے ۔خدمت بمعنی سیوا کرنا ،دیکھ بھال کرنا ،کام آنا اور خلق بمعنی مخلوق یعنی اللہ کے پیدا کردہ جاندار ،حیوان اور انسان ۔عام طور پر خدمت خلق سے وہ کام مراد لئے جاتے ہیں جو بالعموم اجتماعی صورت میں نقد اور جنس کے ذریعے ضرورت مندوں کے لئے سر انجام دئیے جائیں ۔

             مخلوق کی خدمت کرنے کا یہ ایک پہلو ہے اور بلا شبہ بہت اہم اور نہایت شاندار ہے ۔ہمارے اکثر رفاہی ادارے اسی مشن کو پورے جذبے اور اخلاص کے ساتھ سر انجام دے رہے ہیں اور ملک کے ناداروں اور مستحق افرادکی ایک بڑی تعداد خدمت خلق کے کاموں سے استفادہ کر رہی ہے ۔

            اگر تدبر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم میں جگہ جگہ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو رزق سے تعبیر کیا گیا ہے جو وسیع تر معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔رزق میں صرف روپیہ پیسہ ہی نہیں شمار ہوتا بلکہ اس میں روحانی ،جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی صلاحیتیں اور اچھے کام کرنے کی استعداد بھی شامل ہوتی ہے جو ہماری کوشش کے بغیردینے والا خدا عطا کر تا ہے۔ضرورت مندوں کے لئے ان صلاحیتیوں کا استعمال در حقیقت انفرادی خدمت خلق ہے ۔

            رزق کے ذکر کے ساتھ جہاں پہلے ایمان کا بیان آیا ہے اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کی تفصیل آئی ہے جو اس رزق سے استفادہ کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ان لوگوں میں سب سے پہلے اپنے رشتے دار اور یتیم پھر مساکین و مسافر ،مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والے اور غلام ۔مساکین اور مدد چاہنے والوں میں بے سہارا ،لاچار ،بیمار ،طلبا ،مقروض ، چھوٹے ملازم اور معاشرے کے دیگر حاجت مند طبقے شامل ہیں ۔

            عام تصور یہی ہے کہ امداد دینے کا کام صرف صاحب حیثیت ہی کر سکتا ہے لیکن اگر غریب اپنے کم میں سے کم از کم ہی عطا کرے تو وہ ایک ارب پتی مالدار کی خیرات سے کہیں زیادہ قیمتی اور اہم ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کا دیا ہوارزق صرف مال و منال اور روپیہ چاندی تک محدود نہیں ہے منعم حقیقی کی عطا میں صحت و سلامتی ، عمر اور وقت ،دل و دماغ ،کھیت کھلیان ،چارہ اجناس ،صنعت و حرفت ،کاروبار ،اعلیٰ جذبات (صلہ رحمی ،عزت ، محبت،شفقت ،دل جوئی ،کلمہ خیر ) عدل وانصاف اور حسن اخلاق کے لوازمات بھی شامل ہیں ۔جس انسان کے پاس جو نعمت موجود ہو وہ اس میں دوسرے انسانوں کو حصہ بٹائے یہ اس رزق سے خدمت خلق ہوگی اور یقینا اللہ کے ہاں سے اجر پائے گی ۔

             چنانچہ اسلام میں حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد ایک بنیادی فریضہ ہے جس کا سب سے بڑا مظہر خدمت خلق ہے ۔

            اللہ کے دئیے ہوئے رزق میں سے دیں تو ضرورت مند دیکھ کر دیں ۔ خاموشی کے ساتھ ،لینے والے کی عزت نفس کو ملحوظ رکھ کر دیں۔ دوسروں سے چھپا کر،جتائے اور دکھائے بغیردیں۔اور جواب میں ممنونیت واطاعت کی تو قع کے بغیر دیں۔

٭٭٭

 

میں ایک عرصہ سے ایک سمندری جہاز میں نوکر ی کرتا ہوں’’پہلے پہل جب میرا سمندر سے رابطہ ہوا تو مجھے لگتا تھا۔ میں اس میں ڈوب جاوں گا۔ مگر اب مجھے لگتا ہے کہ سمندر ہی میرے اندر ڈوب گیا ہے۔

٭٭٭

جب سے دشمنوں کی پہچان ہوئی ہے۔دوستوں سے محروم ہو گیا ہوں۔

٭٭٭

شگون: وزنی ٹرک کے نیچے آکر سیاہ بلی تارکول کی سڑک پر بچھ گئی تھی۔ خدا جانے اس کا راستہ کس نے کاٹا تھا۔

٭٭٭

 احتیاط: ہنستے ناچتے خوشیاں مناتے ایک ہجوم کو قریب آتا دیکھ کر ایک بھکارن نے اپنے تین چار سال کے بچے کو جلدی سے گودمیں اٹھا لیا اور ایسی آڑ میں لے گئی جہاں سے بچہ ان رنگ رلیاں منانے والوں کو نہ دیکھ سکے۔’’ نہ بابانہ وہ بڑ بڑاتے جارہی تھی۔‘‘میرے ننگے بھوکے بچے نے اگر ہنسنا سیکھ لیا تو کل کو اسے بھیک کون دے گا۔

٭٭٭