سوال ، جواب

مصنف : مولانا عامر گزدر

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جنوری 2011

جواب : اِس حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ اکثر حجاج تردد کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِس مسئلے میں صحیح رائے یہ ہے کہ ایّامِ منٰی میں مقامی اور آفاقی،تمام حجاج نمازوں کو قصر کر کے پڑھیں۔ دورانِ حج اِن مقامات پر پوری نمازیں پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْسوہ کے خلاف ہے۔ ابلیس کے خلاف جنگ کی تمثیل کے تقاضے سے اِن ایّام میں نمازوں کو قصر کرکے پڑھنا ہی آپ کا اْسوہ ہے۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اِن ایّام میں آپ نے نمازیں قصر کر کے پڑھی ہیں۔ (بخاری،رقم:1656,1655) یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اْس حج میں مکہ کے مسلمان بھی اِن نمازوں میں آپ کے ساتھ شریک تھے اور اْنہوں نے بھی آپ کے پیچھے نمازوں کو قصر کیا۔ آپ نے اْنہیں پوری نماز پڑھنے کی تاکید نہیں کی ؛جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں اْن کو کی تھی۔(المعجم الکبیر،طبرانی،رقم:517)اِس تفصیل سے واضح ہوا کہ ایام منٰی میں نمازوں کو قصر کر کے پڑھنے کا سفر سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ یہ مناسکِ حج کے ساتھ خاص ہے۔ منٰی کی قدیم ترین مسجد، مسجدِ خَیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اْسوہ کے مطابق آج بھی تمام نمازیں قصر ہی پڑھائی جاتی ہیں۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : پاک وہند کے اکثر حجاج یہی خیال کرتے ہیں کہ کنکریاں مزدلفہ کے میدان ہی سے اْٹھانی ہوں گی۔ وہ حج میں اِسے ایک عملِ مشروع اور مناسک کا حصہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ بالعموم دیکھا گیا ہے کہ اِس میدان میں پہنچ کر لوگوں کی ایک بڑی تعداد پہلے مغرب وعشا کی نمازوں کی ادائیگی کے بجائے کنکریاں اْٹھانے میں مشغول ہوجاتی ہے۔ اور مزید یہ کہ تمام ایاّمِ تشریق کی رمی کے لیے بھی کنکریاں وہیں سے اْٹھا کر وہ اپنے پاس محفوظ کرلیتے ہیں۔شریعت کی رو سے مناسکِ حج میں اِس عمل کی قطعاً کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔ آدمی جہاں سے چاہے،جتنی چاہے، کنکریاں اْٹھاسکتا ہے۔ اِس کے لیے کوئی خاص مقام شریعت میں مقرر نہیں کیا گیا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ادائیگی حج کے باب میں آپ کے اْسوہ کی روایتوں میں بھی اِس کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ چنانچہ اِس کی اصلاح کرلینی چاہیے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : جی ہاں،رسول اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اِن دس دنوں اور اِن میں کیے جانے والے اعمالِ صالحہ کو اللہ تعالٰی کے نزدیک غیر معمولی اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔ آپ کا فرمان ہے : اِن دس دنوں میں نیک اعمال انجام دینا اللہ تعالٰی کے نزدیک جتنا زیادہ محبوب اور افضل ہے ، وہ دوسرے کسی بھی دنوں میں نہیں ہے۔ اِس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا( اِن دنوں کے سوا باقی دنوں میں کیا گیا) اللہ کی راہ میں جہاد بھی ( اِن دس دنوں میں کیے گیے نیک اعمال سے) زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: جی ہاں، اْسے بھی یہ درجہ حاصل نہیں ہے،الّا یہ کہ کوئی شخص اپنے جان ومال کے ساتھ (اللہ کی راہ میں) نکلا ہو اور پھر وہ اپنا سبھی کچھ گنوا بیٹھے (تو اْسے بہرحال ارفع مقام حاصل ہے)۔ (بخاری، رقم: 969۔احمد،رقم:1968۔ ابوداود،رقم:2438۔ ترمذی،رقم 757۔ ابن ماجہ،رقم : 1414)مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ سے یہ بات بہرحال واضح ہے کہ عملِ صالح یہاں اپنے عموم میں بیان ہوا ہے۔ کوئی متعین یا خاص نیک عمل یا عبادت یہاں قطعاً زیر بحث نہیں ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : اِس موضوع سے متعلق احادیثِ کا استقصا کر کے ہم جب دقتِ نظر کے ساتھ اْن کا علمی تجزیہ کرتے ہیں تو دو طرح کی روایات ہمارے سامنے آتی ہیں :

 ایک وہ احادیث جن میں یہ بات روایت کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحج کے پہلے نو دن خاص اہتمام سے روزے رکھا کرتے تھے ، یا اْنہیں کبھی ترک نہیں کیا کرتے تھے۔ اِس مضمون کی احادیث مسند احمد (رقم: 22388, 26511, 27416) ابوداود (رقم:2437) اور نسائی (رقم:2416,2417,2418) میں نقل ہوئی ہیں،تاہم تحقیقِ سند کے معیارات اور علماے محققین کے اِن روایتوں پر کیے گئے کلام کی رو سے اِس مضمون کی کوئی ایک روایت بھی درجہ صحت کو نہیں پہنچتی۔اِس کی بعض ضعیف؛بعض نہایت ہی کمزور اور بعض سند اور متن،دونوں ہی اعتبارات سے معلول اور ناقابل استدلال ہیں۔ چنانچہ اِس درجے کی روایتوں کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ عمل ثابت نہیں ہوتا۔اِن احادیث کے بارے میں یہی رائے عصرِ حاضر کے مندجہ ذیل علما ومحققین کی ہے : شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز،شیخ محقق شعیب الارناوط ،شیخ محدث عبد اللہ بن عبد الرحمن آل سعد،شیخ ابو محمد الالفی ،شیخ عمر بن عبد اللہ المقبل

 اِس موضوع سے متعلق دوسری وہ احادیث ہیں جن میں صراحت کے ساتھ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ عشرہ ذو الحج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کا کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا یا اِن ایام میں آپ کو روزے کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔(مسند احمد ، رقم:24193,24970,25607۔ مسلم ، رقم:1176۔ ابوداود،رقم:2439۔ترمذی،رقم:756۔ابن ماجہ،رقم:1415)

سند کے اعتبار سے یہ احادیث اہل علم کے نزدیک درجہ صحت کو پہنچی ہوئی اور قابل حجت ہیں۔ اِن میں سند ومتن کے لحاظ سے کوئی علت یا کمزوری نہیں ہے۔

 چنانچہ اِس تمام تر تفصیل سے علمی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ذو الحج کے پہلے نو دنوں میں بالخصوص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روزے رکھنا اور اِس کا خاص اہتمام کرنا قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : تحقیقِ سند کے معیار کے مطابق اِس مضمون کی تمام احادیث بھی غیر ثابت اور ناقابل حجت ہیں۔ علما ومحدثین کی ایک بڑی تعداد نے اِس باب کی تمام روایات کو پوری صراحت کے ساتھ ناقابل اعتبار و استدلال قرار دیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے عشرہ ذو الحج کے روزوں کی خاص اِس طرح کی متعین کوئی فضیلت بھی علمی طور پر ثابت نہیں ہوتی۔ (السلسلۃ الضعیف،البانی،رقم : 5142,۔ ترمذی،رقم : 758۔ ابن ماجہ ، رقم:336)

(مولانا عامر گزدر)

جواب : جی ہاں،نفلی روزے کی حیثیت سے اِس کی فضیلت بہرحال "صحیح" احادیث سے ثابت ہے۔ اِس دن کے روزے کی فضیلت کو آپ نے اپنے ایک ارشاد میں اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ یومِ عرفہ کو روزہ رکھا جائے تو اِس کے صلے میں توقع ہے کہ اللہ تعالٰی ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ بخش دیں گے۔ (مسلم،رقم:2746)

 یہاں یہ البتہ،واضح رہے کہ گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو حقوق العباد سے متعلق نہیں ہیں یا جن کے لیے توبہ اور تلافی کرنا یا کفارہ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔

 تاہم حج کے موقع پر عرفہ کا یہ روزہ آپ نے نہیں رکھا۔ (بخاری،رقم:1988,1658۔مسلم رقم:2632)

 اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ حج کی مشقت کے ساتھ آپ نے اِسے جمع کرنا پسند نہیں فرمایا۔

(مولانا عامر گزدر)

 جواب : شریعتِ اسلامی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی روایات میں حجاج ومعتمرین کے اِس عمل کے مشروع اور پسندیدہ ہونے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ سنت کی رو سے حج وعمرہ کی عبادات میں مشروع طریقہ اصلاً یہ ہے کہ آدمی حج کے لیے اپنے وطن سے الگ سفر کرے اور عمرہ کے لیے الگ۔ دْور دراز سے آنے والوں کے لیے یہ حکم زحمت کا باعث ہوسکتا تھا،چنانچہ اِسی بنا پر اللہ تعالٰی نے اْنہیں اجازت دی ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے حج کے سفر میں عمرہ بھی ادا کرلیں۔ تاہم اِس رخصت سے فائدہ اْٹھانے کی بنا پر قرآن کی رو سے اْنہیں قربانی یا روزوں کی صورت میں فدیہ ادا کرنا ہوگا (البقرہ 196:2)۔

 قرآن کے اِس حکم سے اللہ تعالٰی کا یہ منشا بالکل واضح ہے کہ اِن عظیم عبادات کی ادائیگی کا اصل اور افضل طریقہ یہی ہے کہ آدمی اِن میں سے ہر کے لیے الگ سے عزمِ سفر کرے۔ اور فدیے کے حکم سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے جب حج کے سفر میں ایک عمرہ ادا کرنے پر فدیہ عائد کردیا ہے تو پھر اْس پروردگار کے نزدیک ایک سفر میں متعدد بار عمرہ کرنا کوئی پسندیدہ عمل کیسے ہوسکتا ہے!۔

 پھر جب اللہ تعالٰی کے نزدیک ایک عمل پسندیدہ نہیں ہے تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اْس کا رسول اْس عمل کو انجام دے یا اْسے دین میں پسندیدہ قرار دے۔ چنانچہ ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور حج وعمرہ کے باب میں آپ کے اْسوہ کی روایتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حج یا عمرہ کے کسی سفر میں حدودِ حرم سے باہر جاکر کبھی کوئی عمرہ کیا ہے،نہ آپ نے اِسے مسلمانوں کے لیے کسی پسندیدہ عمل کی حیثیت سے کبھی بیان ہی فرمایا ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نفلی عمرے کے لیے مکہ مکرمہ سے باہر نکلنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔سیدہ عایشہ کو بھی آپ نے خود اِس کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ بلکہ اْن کی مراجعت (اور اصرار) پر تالیف قلب کے لیے آپ نے اْنہیں اِس کی اجازت دی تھی۔ (الاختیارات العلمیۃ،ابن تیمیۃ،ص۹۱۱)۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح آج کل بہت سے لوگ مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر عمرہ کرتے ہیں؛نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس طرح عمرہ کرنا عمر بھر میں ایک بار بھی کبھی صادر نہیں ہوا۔ بلکہ آپ نے تو اپنے تمام عمرے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے ہی کیے ہیں۔ یہاں تک کہ منصبِ رسالت کے بعد آپ تیرہ سال مکہ ہی میں مقیم رہے ، لیکن سارے عرصے میں بھی یہ بات کہ آپ نے مکہ سے باہر نکل کر کوئی عمرہ کیا ہو، قطعاً کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔ (زاد المعاد،ابن القیم،86/2)

دار الھجرت مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار مرتبہ عمرے کا قصد کیا۔ جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :

پہلی مرتبہ 6 ھجری میں آپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ عمرے کا سفر کیا۔ تاہم حدیبیہ کے مقام پر مشرکین نے آپ کو روک لیا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے صحابہ اْس سال اپنے عمرے کو اتمام تک نہیں پہنچا سکے۔ بلکہ حدیبیہ ہی کے مقام اپنے ھدی کے جانور ذبح کر کے آپ اور آپ کے صحابہ نے اپنے سر منڈوائے اور اِس طرح حالتِ احرام سے نکل آے۔

عمرے کا دوسرا سفر آپ نے اگلے سال 7 ھجری میں کیا۔ اْس سال آپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا کیا اور تین دن مکہ میں قیام کر کے واپس مدینہ روانہ ہوئے۔

مدینہ سے تیسرا عمرہ آپ نے 8 ھجری میں جعرانہ کی میقات سے کیا۔ عمرہ کے لیے یہ تینوں اسفار ہر سال آپ نے ذو القعدہ ہی کے مہینے میں کیے تھے۔

آخری عمرہ آپ نے 10 ھجری کو حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے ادا کیا۔(زاد المعاد،ابن القیم:93-90/2)

عمرے کے اِن تمام اسفار میں کوئی ایک سفر بھی ایسا نہیں ہے جس میں آپ نے یا آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم نے مکہ میں قیام کے دوران میں اْس سے باہر نکل کر کوئی عمرہ ادا کیا ہو۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ جب 8 ھجری کے ماہِ رمضان کے آخری ایام میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اپنے اْس سفر میں آپ اْنیس دن مکہ میں مقیم رہے (بخاری،رقم:4298)،لیکن حدود حرم سے باہر جاکر اْس موقع پر بھی کوئی عمرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا،نہ آپ کے صحابہ نے۔ اِس طرح عمرہ کرنا دین میں اگر کوئی مشروع اور پسندیدہ عمل ہوتا تو آپ کے اْسوہ یا آپ کے ارشادات میں اِس کے شواھد ہمیں ضرور مل جاتے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ آپ کی نسبت سے اس عمل کا کوئی استناد کسی درجے میں بھی ثابت نہیں ہوتا۔ اور بالبداہت واضح ہے کہ عبادات کی نوعیت کا کوئی عمل اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے محروم ہے تو نہ صرف یہ کہ دینِ خداوندی میں اْسے کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوتی،بلکہ اْسے غیر مشروع اور بدعت ہی قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ محقق رائے یہی ہے کہ مکہ میں مقیم رہتے ہوئے حدودِ حرم سے باہر جاکر عمرہ کرنا قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْسوہ کی رو سے ایک خلافِ سنت عمل ہے۔ علمائے سلف میں سے یہی رائے امام ابن تیمیہ اور ابن قیم کی ہے (مجموع الفتاوی،ابن تیمیہ301-248/26۔زاد المعاد،ابن القیم:176,175,94/2)۔

بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس مسئلے میں سیدنا ابن عباس،سالم،عطا،طاووس اور مجاہد کی آرا بھی اِسی قول کی تائید کرتی ہیں (مصنف ابن ابی شیب?،رقم الباب515,480,50:)۔

عصر حاضر کے جلیل القدر علما میں سے امام ناصر الدین البانی،شیخ صالح العثیمین،شیخ خالد المصلح،شیخ محمد علی فرکوس کی بھی یہی رائے ہے۔

 مسئلہ زیر بحث سے متعلق اب محض ایک سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے سیدہ عائشہ نے حدودِ حرم سے باہر جاکر تنعیم کے علاقے سے احرام باندھ کر جو عمرہ کیا تھا؛اْس کی کیا حیثیت تھی ؟ اور اْس واقعہ سے کیا ثابت ہوتا ہے ؟

 اِس باب کی تمام روایتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ حجۃ الوداع کے اْس موقع پر مدینہ منورہ سے آپ کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوئی تھیں۔ پھر جب مکہ مکرمہ پہنچیں تو وہ ایام سے تھیں؛جس کی بنا پر اپناقصد کیا ہوا عمرہ وہ ادا نہ کرسکیں۔ اور نتیجتاً اْسی حالتِ احرام میں باقی رہیں،یہاں تک کہ ایام حج کا آغاز ہوگیا اور اْنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق تمام حجاج کے ساتھ اپنے اْسی احرام میں حج ادا کیا۔ حج کے بعد اْنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!کیا آپ سب حج وعمرہ دونوں کی ادائیگی کرکے لوٹیں اور میری واپسی صرف حج کے ساتھ ہو ؟آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:اے عائشہ! اللہ کے ہاں تمہیں بھی وہی کچھ ملے گا جو اِن سب کو ملے گا۔پھر سیدہ نے کہا:(اے اللہ کے رسول!)میرے دل میں یہ بات کھٹک رہی ہے کہ میں حج کرنے تک بیت اللہ کا طواف تک نہ کرسکی تھی۔(چنانچہ سیدہ کے اصرار کو دیکھ کر)آپ نے اْن کے بھائی سے کہا:اے عبد الرحمٰن!تم اِنہیں لے کر جاؤ اور تنعیم سے لاکر عمرہ کراو۔ (مسلم، رقم:1211-1213۔بخاری،رقم :1560۔ابوداود، رقم:1785)

 اِن تمام تر تفصیلات کو پیش نظر رکھ کر ہم اگر سیدہ عائشہ کے عمرہ تنعیم کا اْس کے پورے پس منظر کے ساتھ تجزیہ کریں تو اْس سے مندرجہ ذیل اْمور ونتائج ثابت ہوتے ہیں :

ایک یہ کہ اِس عمرے کے لیے سیدہ عائشہ کو آپ سے اجازت لینی پڑی ہے۔ یہ اگر دین میں کوئی پسندیدہ اور مشروع عمل ہوتا تو آپ کو اجازت حاصل کرنے کی ہر گز کوئی ضرورت نہ پڑتی۔ دوسرے یہ کہ سیدہ کی طلبِ اجازت اور اْن کے اصرار کی وجہ اصلاً وہ عمرہ تھا جس کا احرام باندھ کر وہ مدینہ سے روانہ ہوئی تھیں؛لیکن اپنی نسوانی معذوری کی بنا پر اْسے ادا نہ کرسکی تھیں۔بالبداہت واضح ہے کہ اْن کے ساتھ یہ معاملہ اگر نہ ہوا ہوتا تو اِس عمرے پر اصرار اور اِس کا قصد وہ قطعاً نہ کرتیں۔ جیساکہ معلوم ہے کہ حجۃالوداع کے اْس موقع پر بشمول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی شخص نے مزید عمرہ کرنے کی کوئی خواہش تک ظاہر نہیں کی۔ پھر واقعہ یہ ہے کہ اْس موقع پر سیدہ عائشہ کے بھائی عبد الرحمٰن،جن کے ساتھ وہ تنعیم تک گئی ہیں؛اور جن کے لیے موقع تھا کہ صورتِ حال سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے وہ بھی مزید ایک عمرہ کرلیتے؛نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اْنہیں اِس عمرے کی کوئی ترغیب دی،نہ اپنی دینی بصیرت کی بنا پر خود اْنہوں نے اِسے کوئی عملِ مشروع سمجھا۔چنانچہ سیدہ کی رفاقت کے باوجود اْنہوں نے کوئی عمرہ ادا نہیں کیا۔

 تیسرے یہ کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس واقعہ سے زیادہ سے زیادہ یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ حج کے کسی سفر میں اگر کسی خاتون کو وہی صورتِ حال پیش آجائے جو سیدہ عائشہ کو پیش آئی تھی تو اْس کے لیے اِس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ حج کے بعد،قصد کیا ہوا اپنا عمرہ ادا کرلے۔ اِس واقعہ سے اِسی استنباط کی بنا پر امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ تنعیم کے عمرے کو "عمرۃ الحائض" کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی اِس عمرے کی اگر کوئی مشروعیت ہے تو محض اْس عورت کے لیے جو گھر سے نکلتے ہوئے اپنا قصد کیا ہوا پہلا عمرہ اپنی ماہواری کے شروع ہوجانے کی بنا پر حج سے پہلے نہ کرسکی ہو۔

 غرضیکہ اِس تمام بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک سفر میں جس طرح حج ایک ہی ہوا کرتا ہے،عمرہ بھی ایک ہی مشروع ہے۔ اِس کے برخلاف عمل کرنا خلافِ سنت ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

 جواب : حالتِ احرام میں قربانی کا جانور مْحرِم کا اپنا ہو یا کسی دوسرے کا؛اْسے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حالتِ احرام میں قربانی کے علاوہ بھی اگر ضرورت پیش آجائے تو آدمی اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کرسکتا ہے۔ شریعت میں اِس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ مْحرِم کے لیے اِس باب میں جو چیز ممنوع ہے،وہ جانور ذبح کرنا نہیں ہے،بلکہ شکار کھیلنا ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : اِس طرح کی صورت حال کسی خاتون کو خواہ حج میں پیش آئے،خواہ عمرہ میں؛احرام باندھنے سے پہلے پیش آئے یا اْس کے بعد؛بہرحال وہ احرام کی تمام پابندیوں کا لحاظ رکھے گی،تلبیہ پکارے گی،دیگر حجاج ہی کی طرح تمام مناسک ادا کرے گی اور دعا ومناجات بھی کرے گی۔ تاہم شریعت کی رو سے یہ واضح رہے کہ اِس حالت میں خواتین جس طرح نماز سے مستثنٰی ہوتی ہیں،اْسی طرح وہ نماز کی جگہوں یعنی مساجد میں بھی حاضر نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر حج وعمرہ کی عبادات میں خواتین اِس حالت میں اْن مناسک کو بھی ادا نہیں کرسکتیں جو مسجدِ حرام میں ادا کیے جاتے ہیں۔ اور وہ دو ہی مناسک ہیں :ایک بیت اللہ کا طواف دوسرے صفا ومروہ کی سعی ۔اِن کے سوا باقی تمام مناسک وہ دیگر حجاج ومعتمرین ہی کی طرح ادا کریں گی۔ طواف اور سعی کو اْنہیں بہرحال پاکیزگی کی حالت لوٹ آنے تک موخر کرنا ہوگا۔صفا ومروہ کی پہاڑیوں اور اْن کے احاطے کو جس زمانے تک مسجدِ حرام میں شامل نہیں کیاگیا تھا،اْس وقت تک عورتوں کو ایام کی اِس حالت میں سعی کی اجازت بھی حاصل تھی؛جیساکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب سیدہ عایشہ رضی اللہ عنھا ایام سے تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اْن سے فرمایا : تم اِس حالت میں سوائے طواف کے،حج کے تمام مناسک ادا کرسکتی ہو۔(بخاری،رقم:294۔مسلم،رقم:1211)

(مولانا عامر گزدر)

جواب : حج وعمرہ کے احرام کے موقع پر پاک وہند میں عام طور پر دو رکعت نماز کی ادائیگی کو مسنون اور منجملہ مناسک سمجھا جاتا ہے۔ تحقیق کی رو سے خاص طور پر احرام سے متعلق اِس طرح کی کوئی نماز شریعت میں مقرر کی گئی ہے،نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد یا آپ کے اْسوہ سے اس طرح کا کوئی عمل ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اِس کی اصلاح کرلینی چاہیے۔ آدمی اگر چاہے تو بغیر کسی نماز کے حج یا عمرہ کی نیت کر کے حالتِ احرام میں داخل ہوجائے۔ اور وہ چاہے تو اْس موقع پر اگر کسی فرض نماز کا وقت ہو تو اْس سے فارغ ہوکر تلبیہ کا آغاز کرلے ؛ جیساکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے (مسلم ، رقم : ۸۱۲۱)۔ تاہم حدیث وسنت کی رو سے خاص اِس موقع کی کوئی نماز شریعتِ مناسک کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جاسکتی۔

(مولانا عامر گزدر)

 جواب : سود قرض پر اْس معین اضافے کو کہتے ہیں جسے قرض دینے والا اپنے مقروض سے محض اِس بنا پر وصول کرتا ہے کہ اْس نے ایک خاص مدت کے لیے اْسے روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔قرآن مجید نے اِسے پوری شدت کے ساتھ ممنوع قرار دیا ہے۔(البقرہ:۵۷۲،آل عمران:۰۳۱،الروم :۹۳) کسی ضرورت مند کو قرض دے کر اْس کی مدد کرنا منجملہ اعمالِ صالحہ ہے۔ لیکن اْس پر معین اضافے اور منفعت کا مطالبہ کرنا؛اصل رقم کی واپسی کے علاوہ سود کا بار بھی مقروض پر ڈال دینا ایک ظلم اور اخلاقی نجاست ہے۔ چنانچہ اِسی بنا پر شریعت میں اِسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ اِس سے واضح ہوا کہ اس باب میں اصل جرم مقروض سے منفعت حاصل کرنا ہی ہے۔ تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو سود کی حرمت وشناعت کے باب میں شریعت کے اولیّن ماخذ قرآنِ مجید میں بھی جو کچھ بیان ہوا ہے،وہ تمام کے تمام "سود کھانے" ہی سے متعلق ہے۔ اِسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض صحیح احادیث میں بھی "سود کھانے" ہی کو ہلاک کردینے والے بعض کبائر میں شمار کر کے اْن سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے(ابوداود:2874۔ نسائی:3671)۔ یعنی بظاہر دو طرفہ عمل ہونے کے باوجود اِس باب میں اصل جرم "سود کھانے" ہی کو قرار دیا گیا ہے۔ "سود دینا" اصلاً زیر بحث ہی نہیں آیا ہے۔اِس پر ہر سوچنے سمجھنے والے کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ "سود کھانے" کی حرمت ومذمت جس طرح قرآنِ مجید اور بعض احادیث میں بیان ہوئی ہے؛اْسی طرح آخر "سود دینے" کے عمل کو قرآن نے موضوع کیوں نہیں بنایا ؟

 اِس سوال کو ہم جب تدبر کی نگاہ سے دیکھتے اور سود دینے اور لینے کے عمل کی نوعیتوں کا دقتِ نظر سے تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر اِن دونوں میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے واضح فرق ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ قرض دے کر اْس پر سود کا مطالبہ کرنا اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک ایسے شخص پر جو پہلے ہی ضرورت مند ہے؛اْس کی مدد کرنے کے بجائے،اْس پر مزید بوجھ ڈال دینے کی بنا پر ظلم ہے۔ اِس میں کسی مجبوری اور اضطرار کا ظاہر ہے کہ کوئی سوال نہیں ہے۔ چنانچہ اِسی بنا پر قرآن نے اِسے حرام قرار دیا ہے۔دوسری طرف "سود دینے" کے عمل کی نوعیت یہ ہے کہ یہ مقروض پر قرض کی اصل رقم کے علاوہ ایک مزید بار ہے،جس کے لیے کوئی شخص بھی اْس وقت تک آمادہ ہی نہیں ہوسکتا،جب تک کہ وہ کسی بھی درجے میں ضرورت مند،محتاج اور مجبور نہیں ہوجاتا۔ چنانچہ یہ "سود کھانے" کے مترادف ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اور اِسی بنا پر قرآنِ مجید اِس کی مذمت وشناعت کے بیان سے خاموش ہے۔تفہیمِ مدعا کے لیے اِس بات کی تفصیلِ مزید اِس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ "سود دینے" کی ضرورت اور مجبوری انسان کو ہمیشہ دو وجوہات کی بنا پر لاحق ہوتی ہے :ایک یہ کہ وہ اپنی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے کی استطاعت نہ رکھنے کی بنا پر ضرورت مند اور محتاج ہوجائے۔ دوسرے یہ کہ معاشرے میں فرد یا ادارے کی سطح پر کوئی اْس کی مدد کرنے والا یا محض قرض دینے والا بھی نہ ہو۔چنانچہ اِس طرح کی صورت حال میں اْس کی وہ ضرورت اگر ناگزیر ہو تو اپنے حالات کی بنا پر لامحالہ وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ ایسے افراد یا اداروں سے رجوع کرے جو سود لیے بغیر اْس کی کسی بھی طرح کی مدد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اور ایسی صورت میں اْس کے لیے واحد یہی راستہ باقی رہ جاتا ہے،جسے اختیار کیے بغیر اْس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اِس تفصیل سے بھی واضح ہوا کہ "سود دینے والا" اور "لینے والا"؛دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ بلکہ سود خور ظلم پر قائم ہے اور مقروض بہرحال مظلوم اور حالات سے مجبور ہے۔ چنانچہ دین میں دونوں کا حکم یکساں کیسے ہوسکتا ہے ؟ اور یہ بات بھی جان لینی چاہیے ہے کہ قرآنِ مجید میں انسانی حالات کی رعایت سے "رفعِ حرج"،یعنی بندوں سے حرج اور تنگی کو دور کرنے کے مندرجہ ذیل واضح اْصول بیان ہوئے ہیں:

۱۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : "وَمَا جَعَلَ عَلَیکْم فِی الدِّینِ مِن حَرَجٍ"۔

"اور اْس پروردگار نے اپنے دین میں تم پر کوئی حرج اور تنگی نہیں رکھی"۔ (الحج78:22)

۲۔ اِسی طرح ارشاد فرمایا ہے :" لاَ یْکَلِّفْ اللہْ نَفسًا اِلاَّ وْسعَھَا"۔

"اللہ کسی نفس پر اْس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا"۔ (البقرہ286:2)

 انسانی مجبوری اور حالتِ اضطرار کو پیش نظر رکھ کر ہم اگر اسلامی شریعت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا اْصولوں ہی کے تحت انسانی حالات کی رعایت سے خود اللہ تعالٰی نے بھی اپنی شریعت کے بعض اْن ابدی احکام میں بھی،جن کی حیثیت اہل ایمان کے لیے بنیادی فرائض کی ہے؛اپنے بندوں کے لیے رخصتیں عنایت فرمائی ہیں۔ اور اِس طرح کے کئی احکام اپنے ماننے والوں کے لیے خود بیان کردیے ہیں۔رخصت کے اْن احکام کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں :

1۔ ماہِ رمضان میں مسلمانوں پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔تاہم آدمی اگر بیمار ہو یا اپنی کسی ضرورت سے حالتِ سفر میں ہو تو اْس صورت میں اْس کے لیے روزہ رکھنا چونکہ باعث مشقت ہوسکتاہے،چنانچہ قرآن نے مسلمانوں کو رخصت دی ہے کہ وہ چاہیں تو ایسے ایّام میں روزہ نہ رکھیں۔ روزوں کی تعداد بعد میں پورا کرلیں۔اِس پر کوئی حرج نہیں ہے۔ (البقرہ185:2)

2۔ نماز کے لیے پانی سے وضو کرنا اْس کی لازمی شرط ہے۔ تاہم پانی سے وضو کرنا کسی موقع پر آدمی کے لیے ممکن نہ رہے تو قرآنِ مجید کی رو سے وہ تیمّم بھی کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں وضو نہ کرنے کی بنا پر اْس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ (المائدہ6:5)

3۔ پانچ وقت کی لازمی نمازوں کی رکعتیں شریعت میں متعین ہیں۔ لیکن آدمی اپنی کسی ضرورت سے حالتِ سفر میں ہو تو وہ نماز کی فرض رکعتوں میں کمی(قصر) بھی کرسکتا ہے۔ اِس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ (النسا 101:4) ۴۔ خور ونوش کے باب میں مردار،خون،سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ شریعت اسلامی میں حرام قرار دیا کیا گیا ہے۔اِس کے باوجود آدمی اگر کسی موقع پر حالتِ اضطرار میں ہو اور اْس کے لیے اپنی جان بچانا مشکل ہوجائے۔ اور اِن مْحرَّمات کے استعمال کے سوا اْس کے پاس کوئی چارہ نہ رہے تو اْس صورت میں آدمی بقدر ضرورت اِن اشیا کا استعمال کر کے بھی اپنی جان بچا سکتا ہے۔اِس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ (البقرہ173:2)5۔ اپنے ایمان کی گواہی دینا اور اْس کا اظہار کرنا دین میں ایک ایسا بنیادی عمل ہے کہ جس کی بنا پر آدمی اِس دنیا میں مسلمان کی حیثیت اور شناخت پاتا ہے۔ تاہم اپنے ایمان کی بنا پر کسی خطہ زمین میں آدمی کو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اْس کے لیے اپنی جان بچانا مشکل ہوجائے تو شرح صدر کے ساتھ سچے ایمان پر قائم رہتے ہوئے وہ اِس طرح کی صورتِ حال میں اگر اظہارِ کفر بھی کرلے تو اِس پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہے۔(النحل106:16)غرضیکہ اِس تمام تر تفصیل کو پیشِ نظر رکھ ہر صاحبِ عقل اِس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے کہ جس پروردگار نے اپنی شریعت کے فرائض وواجبات میں اپنے بندوں کے لیے اْن کے حالات کی رعایت سے اتنی رخصتیں رکھی ہیں،وہ ایک مقروض اور مظلوم کی مجبوری کو یکسر نظر انداز کرکے اپنے دین میں اْس کے لیے کیسے تنگی پیدا کرسکتا ہے ؟ اور معلوم ہے کہ اْس پروردگار نے ایسا نہیں کیا،بلکہ اصل جرم ہی سے پوری شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔سود دینے والا اگر بغیر کسی حقیقی عذر کے یہ کام کر رہا ہے یا سود خود کے ایجنٹ اور معاونین ہیں تو وہ تَعاوْن عَلی الاِثم کے اْصول پرگناہ گار ٹھیریں گے ۔

(مولانا عامر گزدر)