کیا ماہ صفر منحوس ہوتا ہے ؟

مصنف : محمد جہان یعقوب

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : دسمبر 2012

            صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے اسلام کے آنے سے پہلے بھی اس مہینے کا نام صفر ہی تھا، اسلام نے اس کے قدیم نام کو برقرار رکھا۔ اسلام سے پہلے لوگوں کا خیال تھا کہ اس مہینے میں آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں، لہٰذا وہ اس مہینے میں سفر وغیرہ نہیں کرتے تھے،اسلام نے ان تمام توہمات کویکسرباطل قرار دیا اور اس مہینے کا نام صفر المظفر قرار دیا یعنی کامیابی کا مہینہ اور اسی مہینے کو صفر الخیر بھی قرار دیایعنی بھلائی کا مہینہ۔ جوں جوں اسلامی تعلیمات سے دوری بڑھتی گئی دین کے باقی معاملات کی طرح اس مہینے کے بارے میں بھی بہت سے توہمات زبان زد عام ہو گئے جو کہ سر اسر دین کی روح کے منافی ہیں۔

            عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ اس مہینے میں لولے، لنگڑے اور اندھے جنات بڑی کثرت سے آسمان سے اترتے ہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں،اسی وجہ سے بعض لوگ اس مہینے میں صندوقوں، اور درودیوار کو ڈنڈے مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح ہم ان ضرر رساں جنات کو بھگارہے ہیں اسی بناء پر بالخصوص خواتین اپنے چھوٹے بچوں کے معاملے میں بہت محتاط اور خوف زدہ رہتی ہیں کہ کہیں یہ جنات انہیں نقصان نہ پہنچادیں۔بعض علاقوں میں صفر کے مہینے کے اختتام پر خواتین مکڑی کے جالے صاف کرتے ہوئے کہتی ہیں: ‘‘اے صفر!دور ہوجا’’۔ان تمام باتوں کی بنیاد اس مہینے میں بکثرت جنات کے زمین پر اترنے اور لوگوں کو نقصان پہنچانے کے نظریے پر ہے، جس کی کوئی اصل نہیں۔بلکہ یہ زمانہ جاہلیت کی توہم پرستی ہے،جس سے اسلا م اپنے پیروکاروں کومنع کرتاہے۔

            صفر المظفر کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو انتہائی منحوس تصور کہا جاتا ہے اور ان دنوں میں نہ صرف یہ کہ شادی، بیاہ اور سفر وغیرہ سے گریز کیا جاتا ہے بلکہ بعض مقامات پر تیرہ تاریخ کو چنے ابال کر اور بعض جگہوں پر چوری بنا کر تقسیم کی جاتی ہے۔ اب تو رفتہ رفتہ پورے صفر کے مہینے کا نام ہی تیرہ تیزی رکھ دیا گیا ہے اور پورے مہینے کو منحوس سمجھ کر اس میں کسی بھی نئے کام کا آغاز نہیں کیا جاتا۔ اس کی بظاہر وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان تیرہ دنوں میں حضور اکرم کے مرض الوفات میں شدت آگئی تھی، لہٰذا صفر کے ابتدائی تیرہ دن اور ان کی وجہ سے پورا مہینہ منحوس اور ہر قسم کی خیر و برکت سے خالی ہے۔ حالانکہ اس بات کی کوئی اصل نہیں۔ بلکہ آپ کے مرض میں شدت صفر کے آخری ایام میں پیدا ہوئی تھی۔مورخ اسلام محمد بن سعد لکھتے ہیں:‘‘28 صفر بروز بدھ کو رسول اللہﷺ کے مرض کا آغاز ہوا’’۔عوام میں مشہور ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اکرم کی بیماری میں افاقہ ہوگیا تھا اور آپ نے غسل صحت فرمایا تھا، پھر تفریح کے لیے گھر سے باہر تشریف لے گئے تھے ۔اسی بناء پر بعض خواتین گھی، چینی یا گڑ کی روٹیاں پکا کر تقسیم کرتی ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم کی صحت یابی کی خوشی میں یہ عمل کیا تھا۔ بعض لوگ اس بدھ کو اہتمام سے سیرو تفریح کے لیے باغات اور پارکوں میں جاتے ہیں اوربعض لوگ پکے ہوئے چھولے اور عمدہ قسم کے کھانے پکا کر تقسیم کرتے ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم حضور رسالت پناہ کی صحت یابی کی خوشی میں یہ عمل کرتے ہیں۔بعض علاقوں میں باقاعدہ تہوار منایا جاتا ہے۔مزدور اور کاریگر اپنے مالکان سے اس دن کھانے اور مٹھائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ان تمام رسومات کی بنیاد یہ غلط اعتقاد ہے کہ حضور اکرم صفر کے آخری بدھ کو صحت یاب ہوئے تھے، جیسا کہ ایک شعر بھی معروف ہے۔

آخری چہار شنبہ آیا ہے
غسلِ صحت نبی نے فرمایا ہے

            مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی فرماتے ہیں:‘‘آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن رسول اللہ کی صحت یابی کا کوئی ثبوت ہے، بلکہ مرضِ اقدس جس میں وفات ہوئی، اس کی ابتدا اس دن سے بتائی جاتی ہے’’۔(احکام شریعت جلد 3 صفحہ 183) مفتی اعظم امجد علی صاحب لکھتے ہیں:‘‘ان دنوں میں رسول اللہ کا مرض شدت کے ساتھ تھا، لوگوں کو جو باتیں بتائی جاتی ہیں سب خلافِ واقعہ ہیں’’۔(بہار شریعت جلد 6 صفحہ 242)

            ہم نے اس مسلک کے اساطین علم کاحوالہ اس لیے دیاہے کہ مذکورہ بالا‘‘رسوم وبدعات’’میں اسی مسلک کے پیروکارزیادہ سرگرم نظرآتے ہیں،جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرے مسالک میں ان ‘‘خرافات’’کاوجودنہیں ہے یابہت کم ہے۔

            عوام کی ایک بڑی تعداد اس مہینے میں شادی بیاہ کو ممنوع سمجھتی ہے اور مشہور ہے کہ: ‘‘جو شادی صفر میں ہوگی وہ صِفر ثابت ہوگی’’، لہٰذا لوگ اس مہینے میں شادی سے انتہائی گریز کرتے ہیں اور پہلے سے طے شدہ تاریخوں تک کو محض صفر کی وجہ سے تبدیل کردیتے ہیں اسی طرح خوشی کی دوسری کوئی تقریب بھی منعقد کرنے سے قصداً گریز کیا جاتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ صفر کا مہینہ (نعوذباللہ) نامبارک اور منحوس ہے، لہٰذا اس میں کیا جانے والا کام بھی نامبارک و منحوس ثابت ہوگا۔یہ اعتقاد سراسر غلط اور خلافِ شریعت و سنت ہے۔سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی مہینہ بھی منحوس نہیں ہے۔ متعدد احادیث میں سرور کونین نے اس بات کی نفی واضح طور پر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی چیز میں فی نفسہ کوئی نحوست نہیں ہوتی۔چناں چہ حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور نے فرمایا کہ کسی بھی چیزمیں کوئی نحوست نہیں۔ گھر، عورت، سواری (جس کو لوگ منحوس سمجھتے ہیں) ان سے بھی برکت ہوتی ہے۔(ترمذی)حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں حضور اکرم نے فرمایا: ماہِ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا۔ (مسلم) حضورﷺ کایہ بھی فرمان ہے:‘‘اللہ کے حکم کے بغیر ایک کا مرض دوسرے کو نہیں لگتا اور صفر میں کوئی نحوست نہیں اور بھوت پریت (غول بیابانی) میں اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں ہے’’۔(بخاری) اس حدیث کونقل کرنے کے بعدامام بخاری فرماتے ہیں: ماہ صفر میں بیماری، بدشگونی و نحوست، شیطان جنات کی گرفت کے اثرات کی کوئی حقیقت نہیں۔

            ان تفصیلات سے معلوم ہواکہ صفر کے مہینے میں کوئی نحوست نہیں ہے اور جس طرح سال کے کسی بھی مہینے میں نکاح کرنے کی کوئی ممانعت نہیں، اسی طرح اس مہینے میں بھی نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ بات پیدا ہوگئی ہے کہ وہ محرم کے مہینے میں اس لیے نکاح وغیرہ نہیں کرتے کہ اس میں واقعہ کربلا ہوا تھا اور ماہ صفر میں اس لیے نکاح نہیں کرتے کہ اس مہینے میں ہونے والے نکاح نامبارک و منحوس ثابت ہوتے ہیں۔ شریعت ان دونوں مہینوں میں نکاح پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتی، شریعت نے سال بھر کے ہر دن اور ہر مہینے میں نکاح اور شادی بیاہ کو جائز رکھا ہے، اور کسی مہینے یا دن میں ان امور کی ممانعت نہیں فرمائی۔ حضرت رسالت مآب ا نے اسی مہینے میں حضرت سیدہ صفیہ بنت حی سے عقدِ نکاح فرما کر اپنے عمل سے بھی ثابت فرما دیا ہے کہ صفر کے مہینے میں شادی و نکاح کرنا جائز ہے۔ کسی کی وفات پر شریعت صرف تین دن سوگ منانے کی اجازت دیتی ہے، البتہ بیوی اپنے شوہر کی وفات پر 4 ماہ 10 دن سوگ منائے گی۔ جو لوگ صفر یا محرم میں شادی بیاہ کو ناجائز سمجھتے ہیں وہ پتہ نہیں ربیع الاول میں شادی بیاہ کو کیوں جائز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی سرکا ر دو عالم کی وفات کا مہینہ ہے اگر ولادت مبارک کی خوشی ہے تو وفات کا غم کیوں نہیں؟