ماں میں نے تمہارے ساتھ جانا ہے

مصنف : اعجاز شیخ

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اگست 2012

یوم پاکستا ن کے حوالے سے ایک دکھی تحریر

لہو بر سا ، بہے آنسو ،لٹے رہرو ، کٹے رشتے 
ابھی تک نا مکمل ہے مگر تعبیر آزادی

پاکستان کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے تقریباً 10 لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے جرم میں کانگریس کی سرپرستی میں سکھوں اور ہندو غنڈوں نے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا یہ ایسی غم ناک داستان ہے جسے بیان کرتے ہوئے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک ملک سے اتنی بڑی ہجرت پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ تاہم ہمارے ادیبوں نے یہ المناک باب بیان کرنے میں قدرے بخل سے کام لیا ہے۔ اسی لیے آج نئی نسل قیامِ پاکستان کے مقصد سے کماحقہ واقف نہیں۔ انھیں تو یہ خطہ پاکستان سونے کی طشتری میں رکھا مل گیا، وہ نہیں جانتے کہ یہ سرزمین حاصل کرنے کے لیے کتنی بیٹیوں، ماؤں اور معصوم بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پاکستان ہجرت کرنے والوں میں میری ایک عزیزہ بھی شامل ہیں۔ ان کی کہانی بھی ایک ایسا دردناک باب ہے جو شاید ان کی موت کے بعد ہی ختم ہو۔ گو وہ اب 4 بچوں کی ماں ہیں۔ ان کے میاں ایک پنکھا ساز کمپنی کے مالک اور صاحبِ حیثیت ہیں۔ مگر وہ جس کرب میں مبتلا ہیں، وہ ایک ماں ہی جان سکتی ہے۔ان کی ایک پیاری، معصوم اور پھول سی بیٹی دریائے بیاس کے کنارے رہ گئی تھی۔یعنی جب ان کا قافلہ دریائے بیاس کے قریب پہنچا، تو سکھ درندوں نے حملہ کردیا اور بے یارومددگار قافلے کو تہ تیغ کرنے لگا۔ میری عزیزہ اپنی 6 اور4 سالہ بچیوں کے ساتھ درختوں کے ایک جھنڈ میں چھپ گئیں۔ بدقسمتی سے جاتے ہوئے 2 سکھوں نے ماں بیٹیوں کو چھپتے دیکھ لیا۔ تبھی ایک سکھ نے کہا ‘‘تو معراج دین دی کڑی تے نئیں؟’’ ( تم معراج دین کی بیٹی تو نہیں؟)میری عزیزہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگیں ‘‘ہاں میں اس بدنصیب باپ کی بیٹی ہوں۔ تم نے میرے ماں باپ کو شہید کردیا، لو مجھے بھی مار ڈالو۔’’مگر سکھ کہنے لگا ‘‘تیرے باپ نے ایک مرتبہ مجھ پر احسان کیا تھا اور کچہری میں میرے حق میں گواہی دی تھی۔ اس کا مجھ پر بڑا احسان ہے۔ میں تجھے دریا پار کرا دوں گا۔’’ میری عزیزہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سکھ کے ساتھ چل پڑیں۔ ابھی چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ ایک اور جتھے نے حملہ کردیا۔ شام ہونے میں ابھی تھوڑا سا وقت تھا۔ دریائے بیاس کا پانی ہر چیز بہائے لے جا رہا تھا۔ بارش اور بجلی کوندنے سے منظر اور بھی خوفناک ہوگیا تھا۔ وہ سکھ کہنے لگا ‘‘میں دونوں بچیوں سمیت تمھیں دریا پار نہیں کروا سکتا۔ صرف ایک بچی ساتھ لے لو، دوسری یہیں چھوڑ جاؤ۔’’اِسی اثنا میں شور بلند ہوا۔ جس میں مظلوموں کی چیخ و پکار اور آہیں شامل تھیں۔ سکھ جتھے بچے کچھے بے آسرا لوگوں کو مار رہے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری عزیزہ نے اپنی چھوٹی بچی کو تھوڑے سے چنے دے کر کیکر کے نیچے بٹھایا اور بڑی کو لے کر چل پڑی۔ تبھی چھوٹی بچی نے چلا کر کہا ‘‘ماں! میں نے تمھارے ساتھ جانا ہے۔’’ سکھ نے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا جس سے وہ زمین پر گر گئی۔ سالوں عشروں بعد بھی میری عزیزہ ہنستے ہنستے رو پڑتی ہے اور روتے روتے ہنس پڑتی ہیں۔ ایک دن مجھے سے کہنے لگیں ‘‘بھائی! مجھے موت کیوں نہیں آ جاتی؟ کاش وہ سکھ مجھے وہیں قتل کر دیتا۔ مجھے ایسی سزا تو نہ ملتی۔ مجھے بیٹی روبینہ بہت یاد آتی ہے۔ وہ نہ جانے کس حال میں ہوگی۔ اْس کی آواز میرے کانوں میں گونجتی ہے ‘‘ماں! میں نے تمھارے ساتھ جانا ہے-’’

٭٭٭