بیگمات کے آنسو

مصنف : خواجہ حسن نظامی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : جولائی 2012

تاریخ قسط - ۱

ہندستان میں مسلمانوں کے زوال کی خونچکاں داستان، مغلیہ خاندان پر کیا بیتی اس کا آنکھوں دیکھا حال اور انگریزوں کی بربریت کی مستند تاریخ

                ہونے کو تو غدر پچاس برس کی کہانی ہے مگر مجھ سے تو پوچھوتو کل کی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ان دنوں میری عمر سولہ سترہ برس کی تھی۔ میں اپنے بھائی سے دو برس چھوٹی اور مرنے والی بہن ناز بانو سے چھے سال بڑی ہوں۔ میرا نام سلطاعن بانو ہے۔ اباجان مرزق قویش بہادر ظلِ سبحانی حضرت بہادر شاہ کے فرزند تھا۔ بھائی یاور شاہ اور ہم بہنوں میں بڑی محبت تھی، بس ایک دوسرے پر فدا تھا۔ آکا بھائی کے لیے باہر کئی استاد طرح طرح کی باتیں سکھانے والے تھے۔ کوئی حافظ تھا اور کوئی مولوی، کوئی خوش نویس تھا اور کوئی تیرانداز۔اور ہم محل میں سینا پرونا اور کشیدہ کاڑھنا مغلانیوں سے سیکھتے تھے۔ دستور تھا کہ حضرت ظلِ سبحانی جن بچوں اور بڑوں پر خاص نظر عنایت رکھتے تھے، ان کو صبح کا کھانا شاہی دسترخوان پر حضور والا کے ہمراہ کھلایا جاتا تھا۔ چنانچہ ظلِ سبحانی مجھ کو بھی بہت چاہتے تھے اور میں ہمیشہ صبح کے وقت کھانے کے واسطے بلائی جاتی تھی۔ جب میں نے ہوش سنبھالا اور چچا ابوبکر کے لڑکے مرزا سہراب سے میری نسبت ٹھہر گئی تو حضورکے دسترخوان پر جاتے ہوئے شرم آتی تھی کیونکہ وہاں مرزا سہراب بھی کھانا کھانے آیا کرتے تھے۔ اگرچہ ہمارے کل خاندان میں باہم پردہ نہ تھا اور نہ اب ہے، شرعی نامحرم گھر میں آتے جاتے تھے، مگر میں اپنی طبیعت سے مجبور تھی۔ میں ایک آن کے لیے بھی کسی غیرمرد کے سامنے جانا گوارا نہ کرتی تھی۔ پر کیا کرتی حضور کے حکم کے خلاف دسترخوان پر کس طرح نہ جاتی۔ لیکن غنیمت یہ تھی کہ آدابِ سلطانی کے باعث سب نظریں جھکائے رکھتے تھے، مجال نہ تھی کہ ایک بچہ بھی اِدھر اُدھر دیکھے یا آواز سے بولے۔قاعدہ یہ تھاکہ جب حضور معلی کوئی خاص کھانا کسی کو مرحمت فرماتے تو وہ بچہ ہو یا جوان، عورت ہو یا مرد، اپنی جگہ سے اُٹھ کر جائے ادب پر جاتا اور جھک کر تین سلام بجا لاتا ایک دن میرے ساتھ بھی یہی اتفاق پیش آیا کہ حضور نے ایک نئی قسم کا ایرانی کھانا مجھ کو عطا کیا اور فرمایا: سلطانہ! تو تو کچھ کھاتی ہی نہیں، ادب اور لحاظ ایک حد تک اچھا ہوتا ہے نہ کہ اتنا کہ دسترخوان پر سے بھوکا اُٹھا جائے۔ میں کھڑی ہوئی اور جائے ادب پر جاکر تین آداب بجالائی مگر کچھ نہ پوچھو اس مشکل سے آئی گئی کہ دل ہی جانتا ہے۔ ہرقدم پر اُلجھتی تھی اور اوسان خطا ہوئے جاتے تھے۔اب میں سوچتی ہوں کہ وہ زمانہ کیا ہوا۔ وہ خوشی کے دن کہاں چلے گئے، جب ہم اپنے محلوں میں آزاد و بے فکر پھرا کرتے تھے۔ ظلِ سبحانی کا سایہ سر پر تھا اور لوگ ہمیں ملکہ عالم کہہ کر پکارتے تھے۔ دنیا کے اُتار چڑھاؤ ایسے ہی ہوتے ہیں۔مجھے خوب یاد ہے کہ جب حضور معلی مقبرہ ہمایوں میں گرفتار کیے گئے تو مرزا سہراب تلوار گھسیٹ کر دوڑے مگر دوسرے گورے نے ان کو گولی مار دی اور وہ ایک آہ کر کے گرپڑے اور تڑپ کر ٹھنڈے ہوگئے اور میں بت بنی تماشا دیکھتی رہی۔ اتنے میں خواجہ سرا آیا اور کہنے لگا: بیگم کیوں کھڑی ہو چلو تمھارے ابا جان نے بلایا ہے۔ میں اسی بے خودی کے عالم میں اس کے ساتھ ہولی۔ دریائی دروازے سے اُتر کر دیکھا کہ اباجان مرزا قویش بہادر گھوڑے پر سوار ننگے سر کھڑے ہیں ۔ تمام چہرے اور سر کے بال خاک آلود ہورہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی آنسو بھر لائے اور فرمایا : لو سلطانہ! ہمارا بھی کوچ ہے۔ جوان بیٹا جس کے سہرے کی آرزو تھی، آنکھوں کے سامنے ایک سکھ کی سنگین کا نشانہ بن گیا۔ یہ سنتے ہی میں نے ایک چیخ ماری اور ہائے بھائی یاورکہہ کررونے لگی۔ وہ گھوڑے سے اُتر آئے۔ مجھ کو اور ناز بانو کو گلے لگاکر پیار اور تسلی دینے لگے اور کہا: بیٹی اب لوگ میری تلاش میں ہیں۔ میں بھی دوچار گھڑی کا مہمان ہوں۔ تم ماشاء اللہ جوان اور سمجھ دار ہو، اپنی چھوٹی بہن کو دلاسا دو اور آنے والی مصیبتوں پر صبر کرو۔ خبر نہیں اس کے بعد کیا پیش آنے والا ہے۔ جی تو نہیں چاہتا کہ تم کو تنہا چھوڑ کر کہیں جاؤں، پر ایک نہ ایک تمھیں بن باپ کا بننا ہی پڑے گا۔ نازبانو تو ابھی بچہ ہے۔ اس کی دلداری کرنا اور نیکی سے زندگی بسر کرنا اور دیکھو ناز بانو! اب تم شہزادی نہیں ہو۔ کسی چیز کے لیے ضد نہ کرنا جو میسر آئے شکر کرکے کھالینا اور اگر کوئی شخص کچھ کھاتا ہو تو آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھنا ورنہ لوگ کہیں گے کہ شہزادیاں بڑی بدنیت ہوتی ہیں۔ پھر ہم دونوں کو خواجہ سرا کے سپرد کر کے کہا: ان کو جہاں ہمارے خاندان کے اور آدمی ہوں پہنچا دینا۔ اس کے بعد ہم کو پیار کیا اور روتے ہوئے گھوڑا دوڑاتے ہوئے جنگل میں گھس گئے۔ پھر پتہ نہ لگا کہ وہ کیا ہوئے۔ خواجہ سرا ہم کو لے چلا۔ یہ ہمارے گھر کا قدیمی نمک خوار تھا۔ تھوڑی دُور تک ناز بانو جو نازوں کی پلی ہوئی تھی چلی، مگر پھر پاؤں کی طاقت نے جواب دے دیا اور دو قدم چلنا دوبھر ہوگیا۔ مجھ کو بھی کبھی پیدل چلنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتی تھی مگر بانو کو لیے ہوئے چلی جاتی تھی ۔ اتنے میں نازبانو کے ایک نوک دار کانٹا چُبھ گیا اور وہ ہائے کہہ کر گرپڑی۔ میں نے جلدی سے اس کو اُٹھایا اور کانٹا نکالنے لگی مگر خواجہ سرا کھڑا دیکھا کیا اور یہ نہ ہوا کہ میرا ہاتھ بٹا لیتا بلکہ چلنے کی جلدی کرنے لگا۔ بہن بولی: آپا جان! مجھ سے پیدل نہیں چلا جاتا،ناظر کو بھیج کر گھر سے پالکی منگا لو۔ گھر اور پالکی کا نام سن کر میرا جی بھر آیا اوراس کو تسلی دینے لگی۔ خواجہ سرا نے پھر کہا کہ چلو بس ہوچکا جلدی چلو۔ ناز بانو کا مزاج تیز تھا، وہ نوکروں کو ہمیشہ سخت سُست کہہ لیا کرتی تھی اور یہ لوگ دم بخود ہوکر سن لیتے تھے۔ اسی خیال سے اس نے خواجہ سرا کو پھردو ایک باتیں سنا دیں۔ کم بخت کو سنتے ہی غصہ اتنا آیا کہ آپے سے باہر ہوگیا اور بڑی بے ترسی سے بن باپ کی دُکھیا بچی کے ایک طمانچہ مارا۔ بانو بلبلا اُٹھی۔ وہ کبھی پھول کی چھڑی سے بھی نہ پٹی تھی یا ایسا طمانچہ لگا۔اس کے رونے سے مجھ کو بے اختیار رونا آگیا۔ ہم تو روتے رہے اور خواجہ سرا کہیں چلا گیا۔ پھر خبر نہ ملی کہ وہ کیا ہوا۔ ہم دونوں بہ مشکل تمام گرتے پڑتے درگاہ حضرت نظام الدین اولیاؒ میں پہنچے۔ یہاں دہلی کے اور خاص ہمارے خاندان کے سینکڑوں آدمی تھی مگر ہر ایک اپنی اپنی مصیبت میں گرفتار قیامت کا نمونہ تھا۔ کسی نے بات تک نہ پوچھی۔ اسی اثناء میں وبا پھیلی اور پیاری بہن ناز بانو اس میں رخصت ہوگئیں، میں اکیلی رہ گئی۔ امن ہوا جب بھی مجھ دُکھیا کو سُکھ نہ ملا۔ آخر خدا کا کرنا ایسا ہی ہوا کہ انگریزی سرکار کو ہم پر ترس آیااور میرا پانچ روپیہ مہینہ وظیفہ مقرر ہوا، جو اب بھی ملتا ہے۔

٭٭٭