سرسید احمد خاں لندن کے سفر پر

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : جولائی 2012

برصغیر کی مسلم ہسٹری میں سرسید کا نام مسلمانوں کے بڑے محسنوں اور رہنماؤں میں آتا ہے۔ وہ ۱۸۱۷ء میں پیدا ہوئے اور ۱۸۹۸ء میں وفات پاگئے۔ دہلی میں مولانا شاہ عبدالعزیزؒ کے مدرسے میں پڑھے اور حضرت شاہ غلام علی نقشبندیؒ کی خانقاہ سے فیض یاب ہوئے۔ تعلیم کے بعد آگرے کے کمشنر دفتر میں نائب منشی مقرر ہوئے اور پھر ججی کا امتحان پاس کر کے منصف سمال کاز کورٹ تعینات ہوئے۔ مختلف شہروں میں ملازمت کے بعد ۱۸۷۶ء میں ریٹائر ہوکر علی گڑھ میں مقیم ہوگئے۔ مختلف خدمات کے صلے میں انگلش حکومت نے انھیں سر اور خانن بہادر کے خطاب اور KCSI سے نوازا۔

سرسید بیک وقت مجتہد، مصلح، ماہرتعلیم، منصف، مفسر اور قومی رہنما تھے۔ انھوں نے جنگ ِ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد صدقِ دل سے چاہا کہ غیرملکی غاصب حکمرانوں اور محکوم و مجبور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمی اور مخالفت کو کم کریں۔ مسلمانوں کو حکومتِ وقت کے نظامِ تعلیم کے مطابق تربیت دیں تاکہ وہ سرکاری ملازمتوں میں آکر اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں ورنہ وہ دنیاوی اُمور میں ہندوؤں سے بالکل پیچھے رہ جائیں گے۔ وہ انگریزی زبان اور سائنس پڑھنے کے ساتھ ساتھ اُردو زبان میں تعلیم کے زبردست حامی تھے۔ سرسید کا سب سے اہم کارنامہ علی گڑھ میں پہلے مسلم مدرسہ اور پھر مسلم کالج کا قیام ہے۔

سرسید مرحوم نے ۷۰-۱۸۶۹ء میں اپنے بچوں، ایک دوست اور ایک ملازم کے ہمراہ انگلستان کا سفر اختیار کیا۔ اس وقت تک ہندوستان اور یورپ میں گاڑیاں، ریڈیو اور پٹرول موجود نہ تھے۔ البتہ پہیہ اور بھاپ کا انجن ضرور ایجاد ہوچکا تھا۔ ڈاک کا سسٹم اور ریلوے وجود میں آچکے تھے۔ برقی تار یں استعمال میں آچکی تھی۔ ہندوستانیوں کے بارے میں یہ چند چیزیں سرسید کو جگہ جگہ یاد آتی تھیں۔

 

•    عام تعلیم کی کمی
•    عورتوں میں شدید جہالت
•    گندگی اور غلاظت 
•    فرسودہ رسوم و رواج 
•    ذاتی صفائی کا شدید فقدان 
•    سائنس سے ناواقفیت 
•    خودغرضی، حسد، ضد 
•    قومی اُمور میں بے حسی
•    تقلیدِ جامد 
•    عیسائیت کی اسلام پر یلغار
•    مشکل اُردو کا استعمال 
•    جدید علوم سے گریز

 

سرسید مرحوم ایک راست گو، دیانت دار، سچے مسلمان، مسلمانوں کے سچے ہمدرد اور غم خوار اور عمل کے مردِ میدان تھے۔ سچ بات کہنے میں انھیں کبھی ہچکچاہٹ نہ آئی۔ انھوں نے انگریزوں سے کوئی ذاتی مفاد نہ لیا بلکہ جو کچھ کمایا وہ سارا قوم اور ملک کی نذر کر دیا۔ وہ اگر چاہتے تو اپنی خدمات کے سائے میں انگریزوں سے زرعی مربعے، وسیع علاقے اور ہر نوع کے دنیاوی فائدے حاصل کرسکتے تھے مگر انھوں نے اپنا دامن صاف رکھا۔

سفرلندن کے حالات مصنفہ جواد الدولہ، عار ف جنگ ڈاکٹر، سرسید احمد خان بہادر کے سی ایس آئی کو شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے مرتب کیا۔ معروف ادیب اور ڈرامہ نگار سید امتیاز علی تاج، ڈائرکٹر مجلس ترقی ادب لاہور نے اس نایاب تحریر کو بڑے اہتمام سے ۱۹۶۱ء میں پہلی بار شائع کیا۔

زیرنظر تحریر شیخ محمد اسماعیل صاحب کے مرتب کردہ سفرنامے کی تلخیص ہے۔ اس خلاصے میں ان نکات کو اُجاگر کیا گیا ہے جو سرسید احمد خاں مرحوم کے زمانے میں نمایاں اور منفرد تھے یا جن کے حوالے سے پاکستان اور ہندستان کے مسلمان آج بھی غیرترقی یافتہ نظر آتے ہیں۔

سفر کے مقاصد

۱- مسلمان بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے سرسیداحمد خان مرحوم کے ذہن میں جس درس گاہ کا نقشہ تھا وہ اسی وقت بن سکتی تھی جب وہ انگلینڈ میں رائج طرزِتعلیم اور اصولِ تدریس سے بذاتِ خود واقف ہوں۔ انگریزوں کی طرزِ معاشرت اور ان کی درس گاہوں کے طریقۂ تعلیم سے آگاہ ہوں۔

۲- انگریزوں کے عہدِ حکومت میں مسلمان اس وقت ترقی کرسکتے ہیں جب وہ انگریزوں سے نفرت کرنے سے باز رہیں۔ ان کی اچھی باتوں کی تقلید کریں اور یوں مسلمان اپنے رہن سہن اور ان کے ساتھ میل جول میں انگریز حکمرانوں کو اچھی نظر سے دیکھیں۔

۳- انھی دنوں یوپی کے لیفٹیننٹ گورنر سر ولیم میور نے ‘‘لائف آف محمدؐ’’کے نام سے چار جلدوں میں ایسی کتاب لکھی جو اسلام سے شدید تعصب، مذہبی تنقید اور بانی اسلامؐ کی توہین سے بھری ہوئی تھی۔ اس کتاب کا جواب لکھنے کے لیے انڈیا آفس لائبریری اور برٹش میوزیم میں جو کتابیں اور مخطوطے موجود تھے۔ ان سے استفادہ انگلینڈ میں رہ کر ہی ممکن تھا۔

۴- انگریزی حکومت نے چھے چھے ہزار کے ۹وظیفے منظور کیے تاکہ ذہین ہندوستانی طلبہ ولایت جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ ان طلبہ میں یوپی سے سرسید مرحوم کے بڑے بڑے بیٹے سید محمود بھی منتخب ہوئے۔ ان کے ساتھ جانا گویا سفرلندن کا ایک موقع پیدا ہوگیا۔

وسائلِ سفر

حکومت کا عطا کردہ وظیفہ سید محمود کے لندن میں قیام،طعام، تعلیم وغیرہ کے لیے ناکافی تھا۔ چنانچہ اخراجات پورے کرنے کے لیے سرسیداحمد خاں نے اپنی تنخواہ جمع کی۔ اپنا قیمتی کتب خانہ بیچا اور آبائی جدی مکان رہن رکھ کر بھاری سود پر قرض لیا۔ یوں سفر کے لیے وسائل بہم پہنچائے۔

مسافرانِ انگلستان

ان مسافروں میں پانچ افراد شامل تھے:

۱- سرسیداحمد خان مرحوم ۲- سید حامد ، ۳- سید محمود(بیٹے)، ۴- مرزاخداداد بیگ (دوست) ۵- قدیمی ملازم عرف چھجو۔

سفر کاآغاز

سفر کا آغاز یکم اپریل ۱۸۶۹ء بمطابق ۱۸ ذی الحجہ ۱۲۸۵ھ صوبہ یوپی کے شہر بنارس سے ہوا جہاں سرسید سمال کاز کوٹ کے منصف (جج) تھے۔

سفر کی تواریخ

•    یکم اپریل ۱۸۶۹ء (بنارس سے روانگی بذریعہ ریل)
•    ۲ ؍اپریل " (الٰہ آباد میں قیام )
•    ۳؍اپریل " (جبل پور قیام (بیلوں کی شکرم)
•    ۶؍اپریل " (ناگ پور ، بذریعہ ریل)
•    ۸؍اپریل " (بمبئی)
•    ۱۰؍اپریل " (بمبئی سے بحری جہاز پر روانگی)
•    ۱۶؍اپریل " (عدن)
•    ۲۳؍اپریل " (سویز)
•    ۲۴؍اپریل " (سکندریہ بذریعہ ریل)
•    ۲۹؍اپریل " (مارسیلز ،فرانس)
•    یکم مئی " (مارسیلز ، ریل سے روانگی)
•    ۲ مئی " (پیرس، فرانس)
•    ۴ مئی " (لندن رسیدگی)
•    ۶؍اگست " (کے سی ایس آئی کا خطاب)
•    ۱۱ مارچ ۱۸۷۰ء (ملکہ وکٹوریہ قیصرۂ ہند سے ملاقات)
•    ۴ ستمبر ۱۸۷۰ء (لندن سے روانگی)
•    ۲؍اکتوبر ۱۸۷۰ء (بمبئی واپسی)

آمدورفت کے لیے سواری کا انتظام ڈاک کہلاتا تھا۔ جس جگہ اُونٹ گاڑی یا بیل گاڑی کا بندوبست ہوتا تھا، اسے ڈاک بنگلہ کہتے تھے اور ان حیوانی گاڑیوں سے شکرم، جبل پور سے ناگ پور تک کاراستہ بڑی تکلیف سے طے ہوا۔ بیل گاڑیوں کی رفتار بہت کم راستے میں پانی اور کھانے کی بہت تکلیف تھی۔ خشک سالی کے باعث کنویں خشک تھے یا بہت کم پانی دستیاب تھا اور وہ بھی ناصاف، پانچ میل کی مسافت پر چوکی تھی جہاں شکرم کے بیل بدلے جاتے تھے۔ ضلعی صدر مقاموں پر انگریزوں کی چھاؤنیاں، بنگلے اور سرکاری باغ موجود تھے۔

ریلوے کی عام گاڑیوں میں چار درجے ہوتے تھے: اول، دوم، سوم اور چہارم۔ پہلے پہلے سرسید کو ریلوے کے اسٹیشن وغیرہ اچھے نظر نہ آئے مگر پھر ان کے دل میں ریلوے اور اس کے انجینئروں کی عزت بڑھنے لگی۔ ریلوے لائن پہاڑوں کے اندر سے گزرتی ہے۔ پہاڑوں کا کاٹنا، سرنگیں لگانا، کہیں پُل بنانا، کہیں اترائی اور کہیں چڑھائی۔ غرض جگہ جگہ ذہانت، محنت اور لیاقت کے کرشمے نظر آئے۔بلگام نامی اسٹیشن پر تین برہمن رضاکار تمام مسافروں کو بلاتخصیص، عمدہ صاف، بہت میٹھا پانی ایسے برتنوں میں مفت پلا رہے تھے جو نہایت اچھے اور صاف خوب صورت تھے۔ اکثر ریلوے اسٹیشنوں پر مہاجنوں یا مقامی دکان داروں نے چندہ کر کے پانی پلانے کا بندوبست کر رکھا ہے۔ ایسی خدمت علی گڑھ وغیرہ میں میسر نہیں ہے۔

سرسید نے آغازِسفر میں الٰہ آباد سے بمبئی تک گاؤں گاؤں، چوکیوں پر، ریل میں، اہل کاروں اور قلیوں تک سے اُردو میں بات کی اور ہر جگہ اُردو میں ہی جواب ملا۔ گویا اُردو ہندوستان بھر کی رابطہ زبان ہے۔ بمبئی کا پالن ہوٹل بہت آرام دہ تھا۔ عمدہ پلنگ، پردے دار مسہری، کمروں میں اور جگہ جگہ گیس کے لیمپ، غسل خانہ اور بیت الخلا انگریزی طرز پر، تمام منزلوں پر پانی کی وافر فراوانی۔

شہر میں گھوڑوں کی گاڑی چلتی ہے اور بافراط ملتی ہے۔ سرسید اور ان کے ہمراہی سرخ ترکی ٹوپی پہنتے تھے۔ قریبی مسجد کا امام شافعی مذہب تھا۔ مغرب کی جماعت میں سو ،سوا سو نمازی تھے اور ان میں آدھے شافعی۔ انھوں نے پورے صدق دل پکار کر آمین کہی۔

سرسید نے ہنڈی کے ذریعے کیش کا انتظام کیا اور بحری جہاز کے درجہ اوّل کے ٹکٹ خریدے۔ بمبئی کے مقامی سرکاری اکاؤنٹینٹ کے دفتر سے دس دن کی تنخواہ کا بل مبلغ ایک سو بتیس روپے اور کئی آنے کا لیا اور پھر ٹرثرری میں آن کر اس کا روپیہ وصول کیا۔

ایک میمن سوداگر سلمان نامی سے ملے اور اسے ترغیب دی کہ چھوٹے چھوٹے نام کے مدرسوں کی جگہ تمام میمن مل کر ایک عمدہ بڑا عربی کالج بنائیں۔ میمن موجودہ حالت کا سبب باہمی ناچاقی اور شیخی و نمود بتاتا ہے۔ سرسید اُسے مشورہ دیتے ہیں کہ تم ‘‘اس کا چرچا کرنا اور کہنا ایک شخص ہندوستان سے آیا تھا اور وہ ایسی ایسی باتیں کرتا تھا’’۔

سرسید بمبئی کو ایک نفیس اور نہایت عمدہ شہر پاتے ہیں۔ بالکل ایک انگریزی شہر معلوم ہوتا ہے۔ گھر گھر آب رسانی، گھروں، بازاروں اور چوکوں میں رات کو گیس کی روشنی کا اعلیٰ انتظام ہے۔ مساجد نہایت صاف اور شیشہ آلات سے آراستہ۔ شہر میں صفائی کا بہت اعلیٰ انتظام ہے۔

بمبئی کے نمایاں طبقوں میں میمن اور پارسی شامل ہیں۔ پارسیوں کی وضع قطع ، بودوباش، تعلیم اور تجارت میں گہری دلچسپی ، انگریزی دانی، لڑکیوں کی انگریزی تعلیم کا خصوصیت سے ذکر کرتے ہیں۔ شہر میں انگلستان کی مانند اومنی بس گاڑیاں چلتی ہیں۔ دو گھوڑوں والی، تین گھوڑوں والی، اومنی بس میں دو طرفہ اور اس کی چھت پر بھی دو طرفہ بیٹھنے کی جگہ ہے۔ اُوپر اور اندر ۲۴ افراد بیٹھ سکتے ہیں۔

بڑودہ دخانی جہاز

لندن میں بنا ہوا اسٹیم سے چلنے والا بحری جہاز ہے۔ ۱۸۶۴ء سے مصروفِ سفر ہے۔ سرسید نے جہاز کا وزن، انجن کی طاقت اور اس کے حصوں کا بغور جائزہ لیا ہے۔ نہانے کا حمام، سونے کے کمرے، بیت الخلا، جہاز کی نصف چھت یعنی پیچھے کا حصہ فرسٹ کلاس مسافروں کے لیے ہے اور درحقیقت یہی جہاز کی بہشت ہے۔ نصف چھت یعنی آگے کا حصہ دوزخ ہے جہاں جہاز کا عملہ، جانور، سٹورسٹاک کا بندوبست ہے۔

۱۰؍اپریل ۱۸۶۹ء کو صدقِ دل سے آیت بسم اللّٰہ مجرمیہا ومرسہا ان ربی لغفور رحیم پڑھ کر سرسید اپنے ساتھیوں کے ساتھ زندگی میں پہلی بار جہاز پر اور پہلی بار انگلستان کا سفر شروع کر تے ہیں۔ آگے سرسید جہاز کی رفتار، طے کردہ فاصلہ، جہاز کے عملہ کا بیان کرتے ہیں۔ ملازموں میں متعدد اقوام کے افراد ہیں مگر زیادہ تر چینی اور مسلمان۔ مسلمانوں میں حبشی، مرعوب اور مسقط کے باشندے جن کے ساتھ سرسید نے عربی میں گفتگو کی۔ حبشی اور چینی بھی بقدرِ ضرورت عربی سمجھتے ہیں۔ جہاز کے تینوں درجوں کے مسافر ہیں۔ سرسید بتاتے ہیں:

‘‘تمام انگریز اور میمیں جو جہاز میں ہیں کسی سے بھی ہماری سابق کی واقفیت نہیں۔ ہماری طرف (یعنی یوپی) کا کوئی انگریز جہاز میں نہیں ہے اور اس سبب سے میں نہیں جان سکتا کہ جب یہ صاحب لوگ ہندوستان میں تھے تو ان کا مزاج اور اخلاق کیسا تھا مگر جہاز میں سب کا مزاج نہایت اچھا اور بااخلاق ہے۔

سرسید احمد خان مرحوم اُردو، فارسی اور عربی میں بخوبی گفتگو کرتے تھے، گو انگریزی میں انھیں زیادہ روانی حاصل نہ تھی۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور انگریزوں کی غلط سلط اُردو میں تاہم اچھی خاصی بات چیت کرسکتے تھے ۔ کبھی اپنے ساتھیوں سے مترجم کا کام لے لیتے۔ انھیں خود انگریزوں سے تبادلۂ خیال کرنے کا شوق تھا خاص طور پر وہ انگریز جو علمی، سماجی اور بہبودی کاموں میں متحرک تھے۔ چنانچہ جہاز پر وہ مس کارپینٹر نامی انگریزی خاتون سے ملے جسے غریب ہندوستانی عورتوں میں تعلیم پھیلانے کا شوق تھا۔ سرسید نے مس کارپینٹر کی وزیٹربک میں اپنے تاثرات اُردو میں تحریر کیے۔

جہاز پر ایک لیفٹیننٹ بے جی لارنس جو مدراس کے علاقہ میں پیمائش کے کام پر تعین ہیں اور دوسرے میجر ڈاڈ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن ناگ پور سے ملاقات ہوئی۔ دونوں مسافر عیسائیت کے بارے میں پکے اور متعصب تھے۔سرسید کے اس خیال پر کہ جب ہندوستان میں مختلف مذہب اور قوم کے لوگ بستے ہیں تو ایک مذہبی آدمی کا افسر تعلیم ہونا بے تعصب عام تعلیم میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ میجر ڈاڈ بہت متعجب ہوئے۔ جہاز پر فرام جی مہربان جی تھالتی و ادبی پارسی نوجوان سے ملے جو عدن میں ڈاک کانے میں ۵۰ روپے ماہوار پر ملازم ہے۔ اس کی صاف، شُستہ اُردو نے سرسید کو بہت متاثر کیا۔ نوجوان نے بتایا کہ گجراتی زبان میں بہت سارے الفاظ فارسی کے ہیں۔ چنانچہ ذرا سے تغیر سے گجراتی اُردو ہوجاتی ہے۔

سرسید بنیادی طور پر متجسس اور سیکھنے والی شخصیت تھے۔ فرام جی نے گجراتی میں علمِ عروض قافیہ کی ایک کتاب ‘بیت رتی’’ دکھائی جسے منچر جی شارپور جی نے تصنیف کیا ہے۔ کتاب میں سے دو عبارتیں گجراتی اور اُردو رسم الخط میں سرسید نے درج کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُردو نے اپنی وسعت سے برصغیر کی کتنی ہی علاقائی زبانوں کو سیراب کیا ہے۔

جہاز کا ڈائننگ ہال بہت بڑا ہے۔ پہلے دن سے جو جگہ طے ہوجاتی ہے۔ دورانِ سفر پھر مسافر اسی مقررہ نشست پر بیٹھتا ہے۔ جہاز میں کھانے کے معین اوقات ہیں۔ بڑے جانور مثلاً بھیڑبکری عام طریقے پر حلال کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں بھی دم مسفوح ناجائز اور حرام ہے۔ ان کے نزدیک پرندے دریائی جانوروں کی طرح ہیں۔ صرف گردن توڑ کر مار ڈالتے ہیں۔ سرسید کے مطابق شرع حقہ محمدیہ میں مسلمانوں کو ایسا کھانا درست ہے۔ چنانچہ سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے ساتھیوں کو دونوں اقسام کے گوشت کھانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ تھی۔ جہاز میں سب مسافروں کا جی ہچکولوں سے متلاتا ہے۔ محمود کی طبیعت بہت خراب ہوئی مگر اصرار کے باوجود اس نے (الکوحل) سپرٹ والی دوا پینے سے انکار کر دیا۔

جہاز پر اتوار کے روز عیسائی مسافروں نے اپنی ہفتہ وار نماز ادا کی۔ ایک عیسائی دوست نے کہا کہ سرسید کیوں شامل نہ ہوئے۔ آخر خدا تو سب کا ایک ہی ہے۔ سرسید نے جواب دیا: ‘‘وہی (خدا) تو وہاں موجود نہ تھا’’۔

جہاز میں ایک عیسائی مسافر قضائے الٰہی سے چل بسا۔ پادری نے نماز پڑھی اور لاش کو لوہے کے دو گولوں اور لکڑی کے تختے کے ساتھ سمندر برد کردیا گیا۔

سمندر میں آتے جاتے جہاز ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔ بار بار اپناعرض بلد اور طول بلد معلوم کرتے ہیں تاکہ سمت سیدھی رہے اور بھٹکنے نہ پائیں۔ جہاز میں اس کا طے کردہ فاصلہ اور رفتار بھی ناپی جاتی ہے۔ ہر چار گھنٹے کے بعد جہاز میں گھنٹہ بجایا جاتا ہے۔ یوں دن بھر میں چھے بار گھنٹہ بجایا جاتا ہے۔ گھنٹے کے لیے دو بار اور آدھ گھنٹے کے لیے ایک چوٹ۔ جہاز پر چند لوگوں کے ساتھ مل کر کھیلنے کے لیے کھیل بھی ہوتے ہیں۔

چھے دن اور چھے راتیں پانی میں رہنے کے بعد۱۶؍اپریل کو صبح سویرے زمین مقدس عرب دکھائی دی۔

سرسید کہتے ہیں: ہم کو اسے دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی اور میرے دل میں خیال گزرا کہ ‘‘سبحان اللہ اسی وادئ غیر ذی زرع میں سے خداتعالیٰ نے ایسا نبی اولوالعزم، آخرالزمان، ختم پیغمبرانؐ پیدا کیا’’۔

جہاز لنگرانداز ہوچکا تو سرسید اور ان کے چاروں ساتھی کرایے کی کشتی پر سوار ہوئے۔ ساحل پر دو گھوڑوں کی، ایک گھوڑے کی بگھیاں، فٹن، سواری کے گھوڑے، گدھے، خچر کرایے پر موجود ملتے ہیں۔ عدن کے قدیم حوض پہاڑوں کو کھود کر بنائے گئے ہیں۔ درجہ بدرجہ دس حوض، پہلا حوض بھر جائے تو اس کے کناروں سے اُبلتا پانی نچلے، پھر اور نچلے، اس طرح حوضوں میں پانی شور کرتا ہے جو لوگوں کے استعمال میں لایا جاتا ہے۔

عدن انگریزوں کی چھاؤنی ہے جہاں چند سو ہندوستانی اور گورے رہتے ہیں۔ انگریزوں نے جابجا پہاڑوں کی چوٹی پر پختہ برج بنائے اور مورچہ بندی کی ہے۔ عدن کے بازاروں میں اُردو عام بولی جاتی ہے اور بول چال کا ذریعہ ہے۔ عدن میں فوجی قلعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک تو سمندر کی طرف توجہ، دوسرا ہندوستان یا عرب ممالک میں ضرورت پڑنے پر کمک بھیجی جاسکتی ہے۔ سلطانِ روم سے قبضہ لینے کے بعد انگریزوں نے عدن کو بہت ترقی دی ہے۔عدن میں کھاری پانی کو میٹھا بنانے کی ایک مشین بھی نصب ہے۔

رات کو جہاز آبنائے باب المندب سے گزرا۔ سرسید کو اس خطرناک جگہ کو دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ چنانچہ وہ رات کو اُٹھے اور دیکھا کہ آبنائے کے دونوں طرف پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان ڈیڑھ دو میل کا فاصلہ ہے۔ صبحدم جہاز بحرقلزم میں داخل ہوگیا۔ دونوں طرف پہاڑ، ایک طرف افریقہ اور دوسری طرف عرب۔

یہاں ایک جہاز گنگا اسٹیمر پاس سے گزرا جو بڑودہ سے تین روز قبل روانہ ہوا تھا۔ دونوں جہازوں نے اشاروں کی زبان سے خوب تبادلۂ خیال کیا بلکہ ایک دوسرے کو مذاق بھی کیے۔ سرسید بتاتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی اقوام کے سوا یہ فن کسی اور قوم کے پاس نہیں ہے۔ ہر جہاز پر ایک کتاب مقفل محفوظ رہتی ہے جس میں گویا معیاری ہدایات (SOP) مندرج ہیں اور ان کے مطابق ہی جہاز پر تمام کام سرانجام دیے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی اور ان کے عروج کی وجہ سے وہ علوم و فنون ہیں جو ان کی اپنی زبانو ں میں منتقل ہوئے اور موجود ہیں، یعنی : ‘‘جب تک کہ تمام علوم و فنون ہماری زبان (اُردو) میں نہ ہوں گے (ہم) جاہل اور نالائق رہیں گے اور کبھی عام تربیت نہ ہوگی’’۔

۲۳؍اپریل کو جہاز لنگر ہوا اور مسافر سویز ہوٹل میں جا اُترے۔ (نہر سویز سرسید کے جانے سے صرف آٹھ دن پہلے، ۱۵؍اپریل ۱۸۶۹ء کو کھد کر مکمل ہوئی تھی۔ اس کا باضابطہ افتتاح ۱۷؍نومبر ۱۸۶۹ء کو ہوا۔ کھدائی کا کام ۲۵؍اپریل کو شروع ہوا تھا۔ نہر کی لمبائی ۸۷ میل اور چوڑائی ۱۴۴ فٹ ہے۔ مسافروں نے نہرسویز کے بازاروں کی سیر کی۔

مصر میں سرسید اس بات سے متاثر ہوتے ہیں کہ راستے کے شہروں کے مکانات انگریزی طر ز ہیں۔ ہوٹلوں کی کراکری اور خادموں کا لباس انگریزوں جیسا ہے۔ انھیں دریائے نیل کا ایک پل بدصورت لگا، جو ہندوستان کے انگریزی پُلوں کے مقابلے میں بھدا ہے۔ ملک میں نہروں کی فراوانی ہے۔ ہر کھیت تک نہر کا پانی پہنچ رہا ہے۔ اصل میں اہلِ مصر نہر یں بنانے کا فن جانتے ہیں۔ مصر کی ریلوے بھی ہندوستانی ریلوے سے کم تر ہے۔ البتہ مصری ریلوے پر کام کرنے والا عملہ مصری اور ترک ہیں، اور نہایت مشاق اور ہوشیار ہیں، تاہم ریلوے کا تمام سامان انگلستان یا فرانس کا بنا ہوا تھا۔ کوئی چیز اپنی ساختہ نہ تھی۔ ایک بات قابلِ غور ہے کہ مصریوں کی فنی لیاقت کی وجہ ان کے علوم کا ان کی اپنی زبان میں ہونا ہے۔

مصریوں میں صفائی کا فقدان ہے۔ ریل کی پٹڑی، اسٹیشن لالٹینیں، انجن میں پانی دینے کے آہنی ستون غرض کوئی چیز صاف نظر نہ آئی۔ اس کے برعکس صفائی اور ہر کام میں خوب صورتی یورپ والوں کا گویا جبلی معاملہ ہے اور وہ انھیں ہر حال میں ملحوظ رکھتے ہیں۔

اسکندریہ سے پونا نامی جہاز ۲۴؍اپریل کو روانہ ہوا اور بحیرۂ روم کو طے کرتا ہوا ۲۹؍اپریل کو مارسیلز میں لنگرانداز ہوا۔ اس جہاز کا تمام عملہ یورپین تھا اور یہ ۱۸۶۲ء میں تعمیر ہوا تھا۔ اس جہاز میں سید صاحب نے دیکھا کہ نہانے کا اعلیٰ انتظام ہے۔ گرم پانی، سرد پانی کی ٹونٹی۔ ایک ہتھی مروڑنے سے استعمال شدہ پانی نہانے کے حوض سے باہر نکل جاتا ہے۔ ایک ہمراہی مسٹرڈاڈ نے کہا: ہاں اب پیغمبرؐ کا ملک چُھوٹا اور کافروں کا ملک آیا’’۔ یہ طرزِ کلام سرسید کو بہت ناگوار گزرا۔ یوں نہ کہیے بلکہ یوں کہیے کہ اہل کتاب کا ملک آیا۔جہاز میں مسٹر پیٹرک سابق ڈپٹی کمشنر دہلی (بعد میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب بنے) سے بھی ملاقات ہوئی اور صوبہ پنجاب میں پنجابی انتظام کی برائی بھلائی کا ذکر آیا جو ایک ڈسپاٹک گورنمنٹ ہے، یہیں سرسید کی فرانسیسی انجینئر مسٹر ڈی لسپس سے ملاقات ہوئی جس نے نہر سویز کی کھدائی اور تعمیر کا ممکن منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ جہاز کے تمام انگریز مسافروں نے مسٹر ڈی لسپس کو مبارک باد دی اور کہا: نہر کا نام نہر ڈی لسپس ہونا چاہیے۔ جواب میں اس نے کہا کہ اس کی خوشی اور فخر اس بات میں ہے کہ اسے نہر فرانس کہا جائے۔ سرسید نے اس اظہار پر کمالِ آفرین کہی اور لکھا:

‘‘اور اپنی (ہندوستانی) قوم پر جن کا کام بجز حسد اور بُغض اور اپنی ذاتی جھوٹی شیخی جتانے اور کچھ نہیں ہے افسوس کیا اور یقین جانا کہ ایسی ہی بدخصلتوں سے ان (ہندوستانیوں) کو ایسی بدنصیبی و ذلت نے گھیرا ہے۔ لعل اللّٰہ یحدث بعد ذٰلک امرا۔

بحیرۂ روم میں پونا جہاز اٹلی اور سسلّی کے متعدد شہروں کے پاس سے گزرا۔ مارسیلز کی بندرگاہ پر مسافروں کا سامان الگ سے نکال دیا گیا۔ ہر نگ پر مسافر کے نام کی چٹ تھی۔ مسافروں نے ایک الگ کمرے میں انتظار کیا جس دوران کسٹم والوں نے سامان چیک کیا تاکہ مقررہ چیزوں پر کسٹم وصول کیا جائے۔

سرسید اور ان کے ساتھیوں کے زبانی بیان پر کسٹم افسر نے ان کا سامان کلیئر کر دیا۔ یہ مسافروں کا احترام اور ان پر اعتبار کی دلیل ہے۔ بندرگاہ پر اُترے تو مختلف اچھے ہوٹلوں کے بیجز موجود تھے۔ مقررہ ہوٹل کے مینیجر کے ساتھ گھوڑوں کی اومنی بس میں سوار ہوئے۔ شہرمارسیلز کی رات کا حال سرسیدیوں لکھتے ہیں:

راستے میں ہمارا گزر شہر مارسیلز میں ہوا۔ رات کا وقت تھا اور یہ پہلا یورپ کا شہر ہے جس کو ہم نے دیکھا۔ جب کہ ہمارا اومنی بس بازار میں پہنچا ہم دیوانوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ کبھی ایسا آراستہ بازار اور اس قدر روشنی شیشہ آلات میں ہم نے کبھی دیکھی نہ تھی۔ دیوالی میں جو روشنی ہندوستان میں ہوتی ہے اُس کی کچھ بھی حقیقت نہ تھی۔ دکانوں کا رُخ جو بازار کی طرف ہے ، نہایت آراستہ ہے اور بالکل سرتاسر شیشوں کے دروازے اور شیشے کی دیواریں بنی ہوئی ہیں ۔ ایک ایک شیشہ دس دس فٹ لمبا اور بعض اسی قدر چوڑا اور بعض اس سے کم لگا ہوا ہے، ایک دروازے میں ایک شیشہ عموماً لگا ہوا تمام اسباب جو دکان میں سجا ہوا ہے باہر سے بالکل دکھائی دیتا ہے اور ایسی خوبی سے آراستہ ہے کہ ایک باغ معلوم ہوتا ہے۔ عموماً دکانوں میں لیمپ اور فانوسیں اور جھاڑ اور سڑک پر نہایت نفیس لالٹینیں گیس کی روشنی سے روشن ہیں اور ان کا عکس جو شیشوں میں پڑتا ہے ایک عجیب کیفیت دکھاتا ہے۔ چوں کہ ایسا شہر اور اس قدر آراستہ ہونا ہمارے خیال میں بھی نہ تھا بلکہ ہم نے ہندوستان میں کسی امیر کا دولت خانہ بھی ایسا آراستہ نہیں دیکھا تھا، اس واسطے حقیقت میں ہم حیران اور متحیر ہوگئے کہ یہ کیا چیز ہے۔

اُسی بازار میں دو تین مکان نظر پڑے جو سب سے زیادہ آراستہ تھے۔ ان کی دیواریں اور دروازے جو بازار کی جانب تھے بالکل اُسی قدر بڑے بڑے شیشوں کے تھے اور چھت بھی جو ماہی پشت یاکھپرپُل نما تھی وہ بھی، بالکل اسی طرح شیشے کی تھی اور اندر نہایت نفیس چینی کے گملوں میں طرح طرح کے درخت اور پھول اور بیل دار درخت لگے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں سرو کے درخت بھی گملوں میں لگے ہوئے تھے اور نفیس نفیس نہایت خوب صورت کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور ایک میز آگے لگی ہوئی تھی اور بہت سے لوگ اس میں بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ کچھ عورتیں بھی دُور دُور دکھائی دیتی تھیں اور متعدد جھاڑ اور لیمپ اور فرشی جھاڑ گیس کی روشنی سے روشن تھے۔ میں نے ہرگز کوئی مکان ایسا خوب صورتی سے آراستہ ہوا نہیں دیکھا تھا۔ اُس وقت مجھ کو یقین ہوا کہ کوئی بہت بڑی شادی ہے اور لوگ جمع ہیں اور مکان آراستہ ہے مگر جب صبح کو دیکھااور تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ عام لوگوں کے شراب پینے کے لیے شراب خانے ہیں۔ لوگ جمع ہوتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ اور اسی طرح کے بہت سے شراب خانے ہیں اور ایک ایک سے زیادہ اور عمدہ آراستہ ہے۔ کیا خدا کی قدرت ہے کہ عام لوگوں کو بھی یہاں تک کہ قلی اور مزدوروں کو بھی ایسی آراستگی سے شراب پینی میسر ہے کہ جمشید کو کبھی خیال میں بھی میسر نہ ہوئی ہوگی!

ہوٹل مارسیلز جس کا نام ہوٹل ڈی دلوور ہے اور جس میں ہم ٹھہرے تھے، نہایت عجیب اور عمدہ ہوٹل ہے۔ بیچ میں بطور بیضوی دائرے کے صحن ہے اور چاروں طرف کمرے بنے ہوئے ہیں۔ سات منزل ہوٹل ہے اور اُوپر تلے کمرے بنتے چلے گئے ہیں اور صحن کے اُوپر شیشے کی چھت ہے جس کے سبب سے پانی برف کچھ نہیں آسکتا اور روشنی بخوبی ہے۔ ہم کو پانچویں درجے میں کمرے ملے تھے کیوں کہ اور سب گھرے ہوئے تھے۔ ایک سو بیس سیڑھیاں چڑھے تب اپنے کمروں میں پہنچے۔ ہر جگہ گیس کی روشنی تھی اور ہر کمرہ نہایت خوبی سے آراستہ تھا۔ ایک نوکر ہوٹل کا ہمارے ساتھ تھا۔وہ کمروں میں پہنچا کر چلا گیا۔

ہوٹل پہنچ کر کمرے میں سرسید کو چائے کی طلب ہوئی۔ نیچے جاکر نوکر کو کیونکر بلائیں۔ انھوں نے دیوار پر ہاتھی دانت کا ایک پھول لگا دیکھا،اُسے دبایا تو دور کہیں نوکر بیٹھے ہوئے تھے ایک گھنٹہ بجا اور چند منٹوں میں ایک نوکر آن حاضر ہوا۔ اگلی صبح انھوں نے تحقیق کی کہ کیسے ایک گھنٹی کے ساتھ تختہ ہے اور تخت پر کمروں کے حساب سے خانے بنے ہوئے ہیں۔ اسے دیکھ کر نوکر متعلقہ کمرے میں فوراً پہنچ جاتا ہے۔

شہر میں ۵۲ صابن بنانے والے، ۲۸ تیل نکالنے والے، سرخ ترکی ٹوپی بنانے والے کارخانے ہیں۔ گرجا، میوزیم، پبلک کتب خانہ، پکچر گیلری، تھیٹراور چڑیا گھر موجود ہیں۔ بازاروں میں مٹی یا تنکے کوڑے کا نام و نشان تک نہ تھا۔ عمارات صاف، مردو زن وضع دار، کیسنو میں ہر روز گانا سنا جاتا ہے ۔چھ آنہ ٹکٹ میں سرسید اور ان کے ساتھی بھی محظوظ ہوئے۔

یکم مئی کو مارسیلزسے روانہ ہوئے۔ دو گھوڑوں والی عمدہ اومنی بس موجود تھی۔ ہوٹل والوں نے سب سامان لیا اور ان پر اپنے شناختی اسٹکر لگا دیئے۔ ہوٹل کا مینیجرمسافروں کے لیے ریلوے ٹکٹ بھی لے آیا تھا۔ اس طرح کسی تردد یا مشکل کے بغیر سرزمین یورپ پر سرسید اور ان کے ساتھیوں کا ٹرین کا سفر شروع ہوا۔

تمام راستہ خوب ہریالی نظر آئی۔ ہر جگہ انسانی کاریگری اور فطرت کی خوبصورتی نے سماں باندھ رکھا تھا۔ مسلسل سفر کے بعد پیرس جا اُترے۔ ہوٹل کے سامنے ایک وسیع اورخوب صورت پارک نظر آیا۔ چمن بندی، تختہ بندی، درخت، گھاس، چمن، روشیں، اسی روز وارسیل کا شاہی محل دیکھا۔ اتنا خوبصورت، بنا سجا گویا بہشت کے کسی محل میں چلے آئے ہیں۔ چمن زار کو دیکھ کر مسافروں کی عقل دنگ رہ گئی۔ سرسید کو یہاں قلعہ دہلی کی مارپیچ نہر جو دیوانِ خاص میں سے رنگ محل جاتی تھی اور مہتاب باغ کے حوض جس کے کنارے ۳۶۰ فوارے چُھوٹا کرتے تھے اور بلامبالغہ اتنا ہی فرق پایا جتنا کہ ایک نہایت خوبصورت اور نہایت بدصورت آدمی میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ وہ خودہی اختلاف آب و ہوا لیتے ہیں مگر ساتھ ہی ہندوستان کی عمارتوں کی عمدگی، استحکام اور خوبی کی تعریف بھی کرتے ہیں۔

وارسیل کے محل میں بادشاہوں کے کمرے اور مصوری کے ساتھ شاہ کار (تیرہ کمروں میں ۱۳۰ فن پارے) بہت اعلیٰ درجے کے ہیں۔ اس دور میں الجزائرمیں فرانسیسی تسلط کے خلاف امام عبدالقادر مسلح جدوجہد کر رہے تھے۔ سرسید، امام کی بہادری کی بہت تعریف کرتے ہیں چنانچہ امام کی مستورات کے بارے میں ایک نازیبا تصویر سے انھیں دُکھ ہوتا ہے لیکن ایک دوسری تصویر سے جس میں نپولین امام عبدالقادر کو رہا کر رہا ہے اور اس کی والدہ سے جو پورے اسلامی لباس میں کھڑی ہیں، مصافحہ کر رہا ہے۔ سرسید خوش ہوتے ہیں اور نپولین کے کردار کی تعریف کرتے ہیں۔

محل کی سیر سے لوٹے تو رات کو پیرس کے بازار دیکھے۔ یہاں رات کے وقت اس قدر روشنی تھی کہ سڑک پر گرے ہوئے موتی بھی نظر آجائے۔ پیرس، مارسیلز سے زیادہ خوب صورت، آراستہ، روشن اور صاف دکھائی دیا۔ ہربازار سے دن رات بے انتہا بگھیاں، چرٹ، کیب، اومنی بس، چھکڑے اور ہاتھ کی گاڑیاں اور لوگ گزرتے ہیں مگر میل کچیل، لید یا کچرے کا نام و نشان نہیں۔ دو گھوڑوں سے چلنے والی ایک گاڑی دیکھی جو سڑک پر سے کچرا ایک برش کے ذریعے اُٹھاتی اور مخفی صدوق میں بھرے جاتی ہے۔ ہر دو سو قدم پر ایک باوردی سپاہی کھڑا ہے جس سے لوگ راستہ بھی دریافت کرتے ہیں۔ پیرس شہر میں جنگی فوج کثرت سے نظر آئی۔ فوج کی وردی بہت خوب صورت ہے، اُجلی اور صاف۔پیرس کے بازار بہت چوڑے اور خوبصورت ہیں۔ کناروں پر خوبصورت سایہ دار درخت اور نیچے بیٹھنے کے لیے جابجا کرسیاں لگی ہوئی ہیں۔ اس حسنِ انتظام کا کریڈٹ لوکل گورنمنٹ کے میونسپل کمشنروں کو جاتا ہے۔ نوئرڈیم کا گرجا، نپولین کا محل باہر سے دیکھے، بہت جاذبِ نظر، بادشاہ کی فتوحات کے نظارے سنگِ مرمر پر کھدے ہوئے ہیں اور قومی تفاخر اورعزت کو بڑھاتے ہیں۔ بازاروں میں پھرتے پھرتے اچانک بہشت کا ایک ٹکڑا، یعنی وسیع اور خوبصورت پارک نظر آتا ہے۔ سایہ دار درخت جنھیں خوبصورتی اور مہارت سے تراشا گیا ہے۔ کرسیاں، بنچیں، تالاب، سیرتماشا اور ہوٹلوں میں کھانے دیکھ کر فرانسیسیوں کی وضع داری، خوش لباسی اور خوش خوراکی کی داد دینا پڑتی ہے۔ چشمہ، آبشار اور گھوڑدوڑ کا میدان، یہاں سرسید نے ہوا سے چلنے والا پمپ دیکھا جو پانی نکال رہا تھا۔ ایک دکان سے مسافروں نے دستانے خریدے، سرسید سیلزگرل کے اخلاق اور دکان داری کے انداز سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ چار زبانوں میں بات کرسکتی تھی۔ وہاں اپنے ساتھی مرزا خداداد بیگ کے لیے دکان سے کوٹ خریدا۔ درزی نے کپڑے کی قسم پوچھی۔ مرزا صاحب کا ناپ لیا اور جھٹ سے تیار شدہ کوٹ پتلون پیش کر دیا۔ کییل سے مسافر دخانی کشتی میں سوار ہوئے۔ زبردست قے متلی کے ساتھ انگلستان کی بندرگاہ ڈوور میں جا اُترے۔ یہاں سے ریل میں سوار ہوکر لندن پہنچ گئے اور چیئرنگ کراس ہوٹل میں جااُترے۔

اپنے طریقۂ سفر سے جس میں سرسید نے عیسائیوں کا ذبیحہ بلاتردد اور بلاتکلف کھایا، سُنّی و شیعہ مسلمانوں اور ہندوؤں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ذبیحہ، سمندر اور اس نوع کی فقہی مشکلات میں اپنے نکتۂ نظر میں وسعت رکھیں اور محض اس بنا پر انگلستان کے علمی اور معلوماتی سفر سے مجتنب نہ ہوں۔

سابق کمشنر آگرہ جان ہالیٹ ٹین صاحب نے پرانی صاحب سلامت تھی۔ سرسید اور ان کے ساتھی ان دونوں میاں بیوی سے ملنے برسٹل گئے۔ اگرچہ میزبانوں کے گھر رہنے کے لیے کمرے تھے مگر سرسید نے اپنا قیام ایک ہوٹل میں رکھا۔ برسٹل اور کلفٹن میں قابلِ دید مقامات دیکھے جن میں لٹکواں آہنی پُل جو رفاہِ عام کے لیے بنایا گیا ہے بہت مضبوط اور فنی تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔ اس پُل کی تعمیر میں عوام کا بہت بڑا حصہ ہے۔ چنانچہ یہ اب ایک کمپنی کی ملکیت ہے جوآمدرفت پر تھوڑا محصول وصول کرتی ہے۔ سرسید انگریزوں کی اس بات سے بہت متاثر ہیں کہ لوگ تعلیمی، تعمیری اور رفاہی کاموں میں اپنی مدد آپ پر عمل کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب نہیں دیکھتے۔ انھوں نے جہازوں کی لنگرگاہ اور رسدگاہ بھی دیکھی جہاں گھومنے والی اور مستقل دُوربین سے ستاروں کے احوال دیکھے جاتے ہیں۔

خوش حال انگریزرہنے کے لیے ایک بڑا سا مکان دُور کہیں جنگل میں بساتے ہیں ۔ سرسید نے ۱۵،۲۰ مربع میل پر پھیلے ہوئے ایک اسٹیٹ کو دیکھا جو سر ویلم میلز کی تھی۔ اس کی خوب صورتی ، دل کشی، آرائش، سازوسامان، لائبریری، پینٹنگز، غرض ہر چیز شاندار تھی ۔ اسے دیکھ کر سرسید ہندوستان کے خوش حال نوابوں، راجوں اور رئیسوں کو یاد کرتے ہیں جن کا رہن سہن بہت خراب اور بدعادات پر مشتمل ہے۔

٭٭٭