تلاوتِ قرآن اور اسوہ صحابہؓ

مصنف : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : مئی 2012

انسانی تاریخ کے عجائب میں سے ہے کہ ایک ایسی قوم، جو تہذیب وتمدن سے یکسر ناآشنا، جنگ وجدال اور لوٹ مارکی خوگر اور حلال و حرام کی تمیز سے بے گانہ تھی،وہ ایک دم تہذیب و شرافت اور امن و امان کی علم بردار کیسے بن گئی؟ جو جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی تھی، وہ اچانک علم کی شمعیں کیوں کر جلانے لگی؟ جس کے افراد ایک دوسرے کے اس قدر خون کے پیاسے رہتے تھے کہ صدیوں کی معرکہ آرائیوں سے ان کی دشمنی کی شدت میں کمی نہ آتی تھی، وہ چشم زدن میں کیسے باہم شیرو شکر اور بھائی بھائی بن گئے۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے پر اپنی جان، مال، جائیداد، گھر بار اور دوسری قیمتی اور محبوب چیزیں نچھاور کرنے لگے؟ جن کی نجی زندگیاں بے حیائی، آوارگی، عریانیت اور فحاشی میں غرق رہتی تھیں، وہ کیسے عفت و پاکیزگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے لگے؟ تجزیہ کرنے والے جو بھی تجزیہ کریں اور اسباب و علل تلاش کرنے والے جو بھی توجیہات کریں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر یہ بنیادی تبدیلی قرآن کریم کی بہ دولت واقع ہوئی تھی۔ قرآن ہی تھا جس نے یکسر ان کی کایاپلٹ دی تھی، ان کو ذلّت و نکبت کی کھائی سے عزت و عظمت کے بامِ عروج پر پہنچادیاتھا۔ انھیں جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں لے آیاتھا اور وحشت وبربریت کے خوگر ان کے مزاج کو بدل کر انھیں تہذیب و شایستگی کاامام بنادیاتھا۔ لیکن جوں جوں قرآن کریم سے ان کا تعلق کم زور ہوتاگیا، وہ زندگی کی اعلی اقدار سے دور ہٹتے گئے، دوسری قومیں ان پر شیر ہوگئیں اور ذلّت وبے توقیری ان کا مقدر بن گئی۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی ہے ؂

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

صحابہ کرامؓ کی زندگیا ں قرآن کریم سے اثرپذیری اور اس کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنے کااولین نمونہ ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کا قرآن سے کیسا تعلق تھا؟ قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں اور وہ انھیں سنتے تھے تو ان پر کیااثر ہوتاتھا؟ ان کی تلاوت کرنے اور انھیں یاد کرنے کا، ان کا کیا معمول تھا؟ اس کے احکام و تعلیمات سے انھوں نے کس طرح اپنی زندگیوں کو آراستہ کیا تھا؟ اس کاپیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے انھوں نے کتنی جدوجہد کی تھی؟ اور اس کا حکم نافذ کرنے اور اس کااقتدار قائم کرنے کے لیے انھوں نے کیا قربانیاں دی تھیں؟

اس مضمون میں صحابہ کرامؓ کے تلاوت قرآن کے معمولات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔ قرآن کریم سے ان کے تعلق کے دیگر پہلوؤں پر ان شاء اللہ آیندہ اظہار خیال کیا جائے گا۔

قرآن کریم سے تعلق کا اوّلین اظہار اس کی تلاوت سے ہوتاہے۔ صحابہ کرامؓ اس کے غایت درجہ مشتاق رہتے تھے۔ وہ اپنے شب وروزکے زیادہ تر اوقات اس کی تلاوت میں گزارتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے قرآن مجید کو مختلف ٹکڑوں (احزاب) میں تقسیم کررکھاتھا۔

اوس نامی ایک تابعی بیان کرتے ہیں کہ: میں نے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیاکہ آپ لوگوں نے قرآن کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کررکھاہے۔ اس اعتبار سے ایک ٹکڑے میں کتنی سورتیں ہوتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: تین، پانچ، سات، نو ، گیارہ اور اخیر کی تمام چھوٹی سورتیں ایک ٹکڑے میں شامل تھیں۔ (سنن ابی داؤد، ابواب شہر رمضان، ۱۳۹۳)

صحابہ کرامؓ کے غایت شوق کایہ عالم تھاکہ وہ کم سے کم وقت میں پورا قرآن مجید پڑھ لینا چاہتے تھے۔ اس معاملے میں غلو سے روکنے اور اعتدال کی روش پر قائم رکھنے کے لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض پابندیاں عائد کردی تھیں۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ نے ایک موقع پر دریافت کیا : اے اللہ کے رسولؐ! مَیں قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کروں؟فرمایا: ایک مہینے میں۔انھوں نے عرض کیا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ فرمایا: بیس دن میں ختم کرلو۔ انھوں نے اسی طرح اور بھی کم دنوں میں ختم کرلینے پر اپنی قدرت ظاہر کی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رعایت سے پندرہ دن، پھر دس دن، پھر سات دن میں ختم کرنے کی اجازت دی، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: اِقْرا فِی سَبْعٍ وَّلَا تَزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ ‘‘سات دن میں پورا قرآن پڑھ لو، اس سے کم میں ہرگز ختم نہ کرو’’۔ (سنن ابی داؤد، کتاب شہر رمضان، باب فی کم یقرا القرآن، ۱۳۸۸، صحیح بخاری:۵۰۵۲، ۵۰۵۴، صحیح مسلم: ۱۱۵۹)

بعض روایتوں میں ہے کہ ان کے اصرار پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تین دنوں میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب انھوں نے عرض کیاکہ وہ اس سے بھی کم وقت میں پورا قرآن پڑھ سکتے ہیں تو آپؐ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا: لَایَفْقَہُ مَنْ قَرَاُہ فِی اَقَلٍّ مِّنْ ثَلَاثٍ ‘‘جو شخص تین دنوں سے کم وقت میں قرآن ختم کرے گا، وہ ٹھیک طریقے سے اسے سمجھ نہیں سکتا’’۔[بخاری، مسلم، ابوداؤد، حوالہ بالا- امام نوویؒ نے متعدد صحابہ، تابعین اور بعد کے دور کے بزرگوں کے نام تحریر کیے ہیں، جو ایک دن میں قرآن ختم کرلیتے تھے، بلکہ ان میں سے بعض ایک دن میں دو قرآن ختم کرلیتے تھے ملاحظہ کیجیے تلاوتِ قرآن اور اسوہ صحابہؓ نووی، ابوزکریا یحییٰ بن شرف، التبیان فی آداب حملۃ القرآن، تحقیق و ترویج: عبدالقادر الارنووط، دمشق، سنۃ طبع درج نہیں، ص: ۴۶-۴۹) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسا کرنا غیرمسنون معلوم ہوتاہے]

تلاوت قرآن کاایک ادب یہ ہے کہ اس کو بہت جلدی جلدی نہ پڑھاجائے کہ محسوس ہوکہ سرکابوجھ اتارا جارہاہے۔ بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھاجائے۔ اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت قرآن میں ایک ایک حرف صاف سنائی دیتاتھا۔

[سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب استحباب الترتیل فی القراۃ، کتاب قیام اللیل، باب ذکر صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل،۱۲۲۹، مسند احمد، ۲۹۴/۴، ۳۰۰، علامہ البانی نے اسے ضعیف قراردیا ہے

یہی معاملہ صحابہ کرامؓ کابھی تھا۔ ایک موقعے پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ‘‘میں ترتیل کے ساتھ صرف ایک سورہ پڑھوں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر ہے کہ بغیر ترتیل کے پورا قرآن پڑھ لوں’’۔

ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے سامنے ایک شخص نے کہا:میں مفصل سورتیں سورہ الحجرات جو چھبیسویں پارے میں ہے،سے سورہ ناس تک ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں۔ انھوں نے جواب دیا: ہَذّاًکَھَذِّ الشعر (اس کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو اشعار کی طرح جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو)۔[صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب الترتیل فی القراۃ، ۵۰۴۳، صحیح مسلم:۸۲۲]

اس موقعے پر انھوں نے مزید فرمایا: ‘‘کچھ لوگ قرآن اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ حالاں کہ قرآن مجید جب دل میں اترجائے اور اس میں جاگزیں ہوجائے تب نفع دیتاہے’’۔[صحیح مسلم، کتاب کتاب صلاۃ المسافرین، باب ترتیل القراۃواجتناب الھذ:۸۲۲]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیاہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: زَیّنُوا القُراٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ ‘‘قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو’’۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب استحباب ترتیل القرآن فی القراۃ،۱۴۶۸ ، سنن نسائی،۱۰۱۵ ، سنن ابن ماجہ۱۳۴۲)

دوسری حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالقُرآنِ فَلَیْسَ مِنَّا ‘‘جس شخص نے قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھا، وہ ہم میں سے نہیں ہیں’’۔ [سنن ابی داؤد،۱۴۶۹، ۱۴۷۰،سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۳۷، مسند احمد، ۷۲/۱، ۱۷۵، ۱۷۹]

اسی بناپر صحابہ کرامؓ بہت خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ جس سے سننے والوں پر محویت طاری ہوجاتی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کے حالات میں بیان کیاگیاہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے باہر نماز کے لیے ایک جگہ خاص کررکھی تھی، جہاں بیٹھ کر قرآن مجیدکی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ان کی آواز سن کر مشرکین مکہ کی عورتیں اور بچّے اکٹھے ہوجاتے تھے اور بڑے غورو انہماک سے قرآن مجیدسنتے تھے۔ یہ دیکھ کر مشرکین اس اندیشے میں مبتلا ہوگئے کہ کہیں قرآن ان پر اپنا اثر نہ دکھانے لگے اور وہ ایمان نہ لے آئیں۔ چنانچہ انھوں نے مکہ کے بااثر سردار ابن الدغنّہ جس نے حضرت ابوبکرؓ کو جوار دے رکھی تھی سے شکایت کی۔ اس نے انھیں اس سے روکناچاہا تو انھوں نے اس کی جوار واپس کر دی۔ (ابن ہشام، المیسرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ بیروت، ۲۰۰۹ء، ۳۴۴/۱-۳۴۵]

خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہرت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ دیکھاکہ ایک شخص بہت خوش الحانی سے قرآن مجیدکی تلاوت کررہاہے۔ دریافت فرمایاَ یہ کون ہے؟ لوگوں نے ان کا نام عبداللہ بن قیسؓ بتایا۔ آپ نے فرمایا: اُعْطِیَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ آلِ داود ‘‘انھیں نغمہ داؤدی عطا کیاگیاہے’’۔ [سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۴۱]

مشہور صحابی رسول حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ ہی کااصل نام عبداللہ بن قیسؓ تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ان سے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَورایْتَنِی وَاَنَا اَسْتَمِعُ لِقِراتِکَ البَارِحَۃَ، لَقَدْ اُوتِیْتَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ آل داودَ ‘‘میں نے گزشتہ رات تمھاری قرات سنی۔ بہت متاثر ہوا۔ تمھیں نغمہ داؤودی عطا کیاگیاہے’’۔[صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب حسن الصوت بالقراۃ للقرآن، ۵۰۴۸، صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن، ۷۹۳]

ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ: میں نے چنگ وبربط کی آواز کو بھی ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحانی قرات سے بہتر نہیں پایا۔ [ابن حجرعسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دارالمعرفۃ بیروت،۲۰۰۴ء، ۱۱۱۲/۲، تذکرہ حضرت عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعریؓ ]

یہ صرف حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ہی کی خصوصیت نہ تھی، بلکہ ان کے پورے قبیلے کا امتیازی وصف تھا۔ ایک غزوے کے لیے سفر کے دوران صحابہ کرام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا۔ اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ میں نے دن میں نہیں دیکھاتھا کہ اشعریوں نے کس جگہ اپنے خیمے لگائے ہیں، لیکن رات میں ان کی قرآن خوانی سن کر مجھے ان کی جائے قیام کا پتا چل گیاتھا۔ [صحیح بخاری، ۴۲۳۲، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل الاشعر یین،۲۴۹۹]

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحانی کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے قرآن سننے کی فرمایش کیاکرتے تھے۔ روایات میں آتاہے کہ وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو حضرت عمرؓ ان سے فرماتے تھے:ہمیں اللہ کا شوق دلاؤ، وہ فوراً قرات شروع کردیتے۔ [ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حوالہ بالا]

ان کی قرأت کو اُمہات المومنین بھی نہایت شوق سے سنتی تھیں۔ [ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دارالفکر بیروت،۱۹۹۴ء، تذکرہ ابی موسیٰ الاشعری، ۱۱/۲]

ایک مرتبہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہیں گئی ہوئی تھیں۔ انھیں گھر واپس آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو عرض کیا:آپؐ کے اصحاب میں سے ایک صاحب قرآن مجیدپڑھ رہے تھے۔ میں نے ایسی قرأت کبھی نہیں سنی۔ آپ ان کے ساتھ ہولیے۔ دیکھا تو وہ حضرت سالم مولیٰ ابن ابی حذیفہؓ تھے۔ اس موقعے پر آپؐ نے فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذیْ جَعَلَ فِی اُمَّتی مِثْلَکَ ‘‘اللہ کا شکر ہے کہ میری امت میں تم جیسے لوگ موجود ہیں’’۔ [ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،۶۸/۱]

ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت عبدالرحمن بن سائبؓ کی قرات قرآن کریم سن کر ان کی تعریف کی اور فرمایا:تم قرآن بہت خوش الحانی سے پڑھتے ہو۔ [سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب حسن الصوت بالقرآن،۱۳۳۷]

قرآن کریم نے سابقہ قوموں کے بعض اصحاب علم کاتذکرہ تحسین و توصیف کے انداز میں کرتے ہوئے ان کاایک وصف یہ بھی بیان کیاہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان پر گریہ و خشیت طاری ہوجاتی ہے: وَیَخِرُّوْنَ لِلاذَقَانِ یَبکُوْنَ وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعً (الاسراء:۱۰۹) ‘‘اور وہ روتے ہوئے منہ کے بل گرجاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتاہے’’۔

احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابھی یہی وصف مذکور ہے۔ حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات آپ نمازکے لیے کھڑے ہوئے۔ جب سورہ مائدہ کی اس آیت پر پہنچے: اِن تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (المائدہ:۱۱۸) ‘‘اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں’’۔

تو باربار اسی آیت کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ [سنن نسائی:۱۰۱۰، سنن ابن ماجہ: ۱۳۵۰]

یہی حال تمام صحابہ کرام کابھی تھا۔ وہ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے تو خود ان پر بھی بے خودی طاری ہوجاتی تھی۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہوجاتے تھے۔ قرآن کریم کی کسی آیت سے ان پر خاصا تاثر ہوتاتھا تو اسی کو بار بار دہراتے تھے۔ اس کا مضمون عذاب سے متعلق ہوتا تو اس سے اللہ کی پناہ کے طالب ہوتے تھے اور شدّت گریہ سے ان کی حالت غیرہوجاتی تھی۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ سے کچھ لوگ یمن سے ملنے آئے۔ ان کے سامنے انھوں نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور رونے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایاَ ایسا ہی حال ہمارا بھی ہوتاتھا۔

حضرت عمربن الخطابؓ نے ایک مرتبہ فجر کی نماز میں سورۂ یوسف پڑھی تو زارو قطار رونے لگے۔ دوسری روایت میں اسے عشاء کی نمازبتایاگیاہے۔ ممکن ہے، یہ الگ الگ مواقع کابیان ہو۔ روایت میں ہے کہ وہ اتنے زور زور سے رونے لگے تھے کہ پیچھے مقتدی ان کے رونے کی آواز سنتے تھے۔

حضرت عباد بن حمزہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اسماءؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ قرآن کی تلاوت کررہی تھیں۔ جب سورہ طور کی اس آیت پر پہنچیں: فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ (الطور:۲۷) ‘‘آخرکار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسادینے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا’’۔

تو اس پر ٹھہرٹھہر کر بار بار اسی کو دہرانے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے عذاب جہنم سے بچانے کی دعا کرنے لگیں۔ میں نے دیکھاکہ وہ میری طرف متوجہ نہیں ہیں تو میں وہاں سے نکل کر بازار چلاگیا۔ وہاں اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ ان کی خدمت میں پہنچا تو دیکھاکہ وہ اسی آیت پر ٹھہری ہوئی ہیں اور بار بار اسی کو پڑھ رہی ہیں اور اللہ سے دعا کررہی ہیں۔

حضرت تمیم داریؓ ایک رات سورہ جاثیہ پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے: اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اّن نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ (الجاثیہ:۲۱) ‘‘کیا وہ لوگ جنھوں نے بُرائیوں کا ارتکاب کیاہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انھیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کردیں گے’’۔

تو مسلسل اسی کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

حضرت ابورجاءؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کے چہرے پرمسلسل رونے کی وجہ سے نشانات پڑگئے تھے۔ [نووی، التبیان، ص ۶۷-۶۹]

صحابہ کرامؓ اپنے زیادہ سے زیادہ اوقات تلاوتِ قرآن کریم میں گزارتے تھے۔ وہ دن میں بھی اس کی تلاوت کرتے تھے اور رات میں بھی۔ وہ گھر میں بھی تلاوتِ قرآن میں مصروف رہتے تھے اور مسجد میں بھی۔ (بخاری: ۵۰۱۱، ۵۰۱۸، ۵۰۳۷، ۵۰۳۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے برآمد ہوئے تو مختلف صحابہؓ کو اپنے اپنے انداز سے تلاوتِ قرآن مجیدکرتے ہوئے پایا۔ آپؓ نے فرمایا: اقْرَاُ فَکُلٌّ حَسَنٌ ویَحَیٰ اَقَوَام یُقِیْمُوْنَہ کَمَا یُقَامُ القِدْحُ، یَتَعجَّلُوْنَہ وَلَایَتَاَجَّلُوْنَہ ‘‘پڑھے جاؤ، سب کا طرز اچھا ہے۔ کچھ لوگ آئیں گے جو قرآن کو تیر کی طرح سیدھا کریں گے، لیکن ان کامقصد دنیا ہوگی آخرت نہ ہوگی’’۔ [سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما یجزی الامی والاعجمی من القرأۃ،۸۳۰]

ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کِتَابُ اللّٰہِ وَاحِدٌ وَمِنْکُمْ الاحمرُ وَمِنکُمْ الاَبْیَضُ، وَمِنکُمُ الاَسْوَدُ ‘‘اللہ کاشکر ہے۔ اس کی کتاب ایک ہے، لیکن تم میں سرخ، سفید اور سیاہ قسم کے لوگ ہیں’’۔ [سنن ابی داؤد، حوالہ بالا۸۳۱]

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے مسجد میں لوگوں کی قرآن پڑھنے کی گونج سنی تو فرمایا: یہ لوگ قابل مبارکبادہیں۔ ایسے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھے۔ [نوویؒ، التبیان، ص۸۶]

سخت مصیبت اور پریشانی کے عالم میں بھی صحابہ کے اس شوق میں کوئی کمی نہ آتی تھی اور قرآن ان کے لیے تسکین اور طمانیت کا باعث بنتاتھا۔ روایت میں ہے کہ جس وقت بلوائیوں نے خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے گھر پر حملہ کیا، وہ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے اور اسی حالت میں ان کی شہادت ہوئی تھی۔ (ابن عبدالبر، الاستیصاب فی معرفۃ الاصحابہ تذکرہ عثمان بن عفان، ۷۸/۳)

تلاوت قرآن مجید کا ایک ادب یہ ہے کہ مصحف کی ترتیب کو ملحوظ رکھاجائے۔ ترتیب کی رعایت کے بغیر اِدھر اُدھر سے پڑھ لینا یا الٹی ترتیب سے پڑھنا مناسب نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کہا: فلاں شخص قرآن مجید کو الٹی ترتیب سے پڑھتا ہے۔ انھوں نے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: ذٰلِکَ مَنْکُوسُ القَلْبِ (وہ دل کااندھا ہے)۔ [النوویؒ، التبیان، ص۷۷]

قرآن کی تلاوت کرتے وقت پوری سنجیدگی، انہماک، توجہ اور وقار کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ دورانِ تلاوت اِدھراُدھر دیکھنا، کوئی دوسرا کام کرنے لگنا، کسی سے بات چیت شروع کردینا موزوں نہیں ہے۔ اس سے غیر دل چسپی اور غیرسنجیدگی کااظہارہوتاہے۔ یہ قرآن مجیدکے تعلق سے مناسب رویّہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتاہے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت شروع کرتے تھے تو جب تک اس سے فارغ نہ ہوجاتے، کسی سے بات نہ کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر،۴۵۲۶)

قرآن کی تلاوت خود کرنے کے ساتھ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے سے اسے سناجائے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات میں سے تھا۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے خواہش کی کہ مجھے قرآن مجید سناؤ۔ انھوں نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا:آپ کو قرآن سناؤں، جب کہ وہ تو آپؐ ہی پر اترا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:ہاں میں اسے دوسرے سے سننا چاہتاہوں ۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:میں نے سورہ نساء ابتداء سے پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ جب میں آیت نمبر۴۱ پر پہنچا تو آپؐ نے فرمایا:رُک جاؤ۔ وہ آیت یہ ہے: فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِن کُلِّ امَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِءْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیْداً (النساء :۴۱) ‘‘پھرسوچوکہ اُس وقت یہ کیاکریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوگواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے’’۔

میں آپ کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھاکہ آپ کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو جاری ہیں۔ [بخاری:۴۵۸۲، و دیگر مقامات، مسلم: ۸۰۰،ابوداؤد: ۳۶۶۸، ترمذی: ۳۰۲۴، ۳۰۲۵]

اُوپرگزراکہ حضرت عمرؓ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے فرمایش کرکے قرآن سناکرتے تھے۔ آج کے دور میں قرات قرآن کی ریکارڈنگ سے بھی یہ کام لیاجاسکتا ہے۔ دنیا کے مشہور قراکی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اسے ٹیپ ریکارڈ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل ، سی ڈی پلیئر اور دوسری آلات کی مدد سے سناجاسکتا ہے۔

٭٭٭