سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : اپریل 2012

قسط ۸۸

نورالقرآن

 سات تراجم ، نو تفاسیر

محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورۃ نساء ۳۶۔۴۳

وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ لا وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا ہلا ۳۶ نِالَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَیَکْتُمُوْنَ مَآ اٰتٰئھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا ہج ۳۷ وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا ہ۳۸ وَمَاذَا عَلَیْھِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَھُمُ اللّٰہُ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِہِمْ عَلِیْمًا ہ۳۹ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ ج وَاِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْھَا وَ یُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا ہ۴۰ فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَا ٓءِ شَھِیْدًا ہط ۴۱ ؔ یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُ ط وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا ہع ۴۲ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا ط وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآءَ اَحَد‘’ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا ہ۴۳

تراجم

            ۱۔ اور بندگی کرو اللہ کی، اور ملاؤ مت اس کے ساتھ کسی کواور ماں باپ سے نیکی، اور قرابت والے سے، اور یتیموں سے، اور فقیروں سے، اور ہمسایہ قریب سے، اور ہمسایہ اجنبی سے، اور برابر کے رفیق سے، اور راہ کے مسافر سے، اور اپنے ہاتھ کے مال سے۔ اللہ کو خوش نہیں آتا، جو کوئی اتراتا، بڑائی کرتا(۳۶) وہ جو بخل کرتے ہیں و اور سکھاتے ہیں لوگوں کو بخل، اور چھپاتے ہیں جو ان کو دیا اللہ نے اپنے فضل سے۔ اور رکھی ہم نے منکروں کو ذلت کی مار(۳۷) اور وہ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال، لوگوں کو دکھانے کو، اور یقین نہیں رکھتے اللہ پر، اور نہ پچھلے دن پر۔ اور جس کا ساتھی ہوا شیطان، تو بہت برا ساتھی ہے(۳۸) اور کیا نقصان تھا ان کا، اگر ایمان لاتے اللہ پر، اور پچھلے دن پر، اور خرچ کرتے ہیں اللہ کے دئیے میں سے اور اللہ کو ان کی خوب خبر ہے(۳۹) اللہ حق نہیں رکھتا کسی کا، ایک ذرہ برابر، اور اگر نیکی ہو تو اس کو دونا کرے، اور دیوے اپنے پاس سے بڑا ثواب(۴۰) پھر کیا حال ہو گا، جب بلاویں گے ہم ہر امت میں سے احوال کہنے والا، اور بلاویں گے تجھ کو، ان لوگوں پر احوال بتانے والا؟(۴۱) اُس دن آرزو کریں گے جو لوگ منکر ہوئے تھے، اور سول کی بے حکمی کی تھی، کسی طرح ملا دیجیے ان کو زمین میں۔ اور نہ چھپا سکیں گے اللہ سے ایک بات(۴۲) اے ایمان والو! نزدیک نہ ہو نماز کے جب تم کو نشہ ہو، جب تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو، اور نہ جب جنابت میں ہو، مگر راہ چلتے ہوئے، جب تک کہ غسل کر لو۔ اور اگر تم مریض ہو، یا سفر میں، یا آیا ہے کوئی شخص تم میں سے جائے ضرور سے، یا لگے ہو عورتوں سے، پھر نہ پایا پانی، تو ارادہ کرو زمین پاک کا، پھر ملو اپنے منہ کو، اور ہاتھوں کو۔ اللہ ہے معاف کرنے والا بخشتا(۴۳) (حضرت شاہ عبدالقادرؒ)

            ۲۔ اور تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اختیار کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غریب غربا کے ساتھ بھی اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور راہ گیر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمھارے مالکانہ قبضہ میں ہیں ۔ بے شک اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں سے محبت نہیں رکھتے جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہوں، شیخی کی باتیں کرتے ہوں(۳۶) جو کہ بخل کرتے ہوں اور دوسرے لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم کرتے ہوں اور وہ اس چیز کو پوشیدہ رکھتے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے اور ہم نے ایسے ناسپاسوں کے لیے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے(۳۷) اور جو لوگ کہ اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور آخری دن پر اعتقاد نہیں رکھتے اور شیطان جس کا مصاحب ہو اس کا وہ برا مصاحب ہے(۳۸) اور ان پر کیا مصیبت نازل ہو جاوے گی اگر وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر اور آخری دن پر ایمان لے آویں اور اللہ نے جو ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ خرچ کرتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتے ہیں(۳۹) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہ کریں گے۔ اور اگر ایک نیکی ہو گی تو اس کو کئی گنا کر دیں گے اور اپنے پاس سے اور اجر عظیم دیں گے(۴۰) سو اس وقت بھی کیا حال ہو گا جبکہ ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے اور آپ کو بھی ان لوگوں پر گواہی دینے کے لیے حاضر کریں گے(۴۱) اس روز جن لوگوں نے کفر کیا ہو گا اور رسول کا کہنا نہ مانا ہو گا وہ اس بات کی آرزو کریں گے کہ کاش ہم زمین کے پیوند ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ سے کسی بات کا اخفا نہ کر سکیں گے(۴۲) اے ایمان والو تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت میں مت جاؤ کہ تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو کہ منہ سے کیا کہتے ہو اور حالت جنابت میں بھی باستثناء تمھارے مسافر ہونے کی حالت کے یہاں تک کہ غسل کر لو اور اگر تم بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص استنجے سے آیا ہو یا تم نے بی بیوں سے قربت کی ہو پھر تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی (اس زمین پر دو بار ہاتھ مار کر) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر (ہاتھ) پھیر لیا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے بخشنے والے ہیں(۴۳) (مولانا تھانویؒ)

            ۳۔ اور اللہ کی بندگی کرو اوراس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا(۳۶) جو آپ بخل کریں اور اوروں سے بخل کے لیے کہیں اور اللہ نے جو انھیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپائیں اور کافروں کے لیے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے(۳۷) اور وہ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کو خرچ کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے اللہ اور نہ قیامت پر اور جس کا مصاحب شیطان ہو تو کتنا برا مصاحب ہے(۳۸) اور ان کا کیا نقصان تھا اگر ایمان لاتے اللہ اور قیامت پر اور اللہ کے دئیے میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے اور اللہ ان کو جانتا ہے(۳۹) اللہ ایک ذرہ بھر ظلم نہیں فرماتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے دونی کرتا اور اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے(۴۰) تو کیسی ہو گی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں اور محبوب تمھیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں(۴۱) اس دن تمنا کریں گے وہ جنھوں نے کفر کیا اور رسول کی نافرمانی کی، کاش انھیں مٹی میں دبا کر زمین برابر کر دی جائے اور کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے(۴۲) اے ایمان والو، نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ جب تک اتنا ہوش نہ ہو کہ جو کہو اسے سمجھو اور نہ ناپاکی کی حالت میں بے نہائے مگر مسافری میں اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا اور پانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرو بے شک اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے(۴۳) (مولانا احمد رضا خانؒ)

            ۴۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمھارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا(۳۶) جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انھیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لیے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے(۳۷) اور جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو، وہ بدترین ساتھی ہے(۳۸) بھلا ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ نے جو انھیں دے رکھا ہے اس کے نام پر دیتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں خوب جاننے والا ہے(۳۹) بے شک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے(۴۰) پس کیا حال ہو گا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے(۴۱) جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش انھیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا اور اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے(۴۲) اے ایمان والو، جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو، اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کر لو، ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے اور اگر تم بیما رہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو، بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے(۴۳) (مولانا جونا گڑھیؒ)

            ۵۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن ِ سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے(۳۶) اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں او رجو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے اُسے چھپاتے ہیں۔ ایسے کافر ِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے(۳۷) اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں او ردرحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز ِ آخرت پر۔ سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی(۳۸) آخر ان لوگوں پر کیا آفت آ جاتی اگر یہ اللہ اور روز ِ آخر پر ایمان رکھتے اور جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے۔ اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ سے ان کی نیکی کا حال چھپا نہ رہ جاتا(۳۹) اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اسے دوچند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے(۴۰) پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے(۴۱) اُس وقت وہ سب لوگ جنھوں نے رسولؐ کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے(۴۲)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے رہو۔ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، الّا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو۔ اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے(۴۳) (مولانا مودودیؒ)

            ۶۔ اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ اور والدین، قرابت مند، یتیم ، مسکین، قرابت دار پڑوسی، بیگانہ پڑوسی، ہم نشین، مسافر اور اپنے مملوک کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اللہ اِترانے اور بڑائی مارنے والوں کو پسند نہیں کرتے(۳۶) جو خود بخل بھی کرتے اور دوسروں کو بھی بخالت کا مشورہ دیتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل میں سے جو کچھ انھیں دے رکھا ہے اس کو چھپاتے ہیں، ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے(۳۷) جو اپنے مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جن کا ساتھی شیطان بن جائے تو وہ نہایت برا ساتھی ہے(۳۸) ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ اور روز ِ آخرت پر ایمان لاتے اور اللہ نے ان کو جو کچھ بخش رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے! اللہ تو ان سے اچھی طرح باخبر ہے(۳۹) اللہ ذرا بھی کسی کی حق تلفی نہیں کرے گا۔ اگر ایک نیکی ہو گی تو اس کو کئی گنا بڑھائے گا اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا (۴۰)اس دن ان کا کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور تم کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے!(۴۱) اس دن وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور جنھوں نے رسولؐ کی نافرمانی کی، تمنا کریں گے کاش ان کے سمیت زمین برابر کر دی جائے اور اُس دن وہ خدا سے کوئی بات بھی چھپا نہ سکیں گے (۴۲اے ایمان والو، نشے کے حال میں نماز کے پاس نہ جایا کرو یہاں تک کہ جو کچھ تم زبان سے کہتے ہو اس کو سمجھنے لگو او رجنابت کی حالت میں، مگر یہ کہ بس گزر جانا پیش ِ نظر ہو، یہاں تک کہ غسل کر لو۔ اور اگر تم مریض ہو، یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی جائے ضرورت سے آئے یا عورتوں سے ہم صحبت ہوا ہو پھر پانی نہ میسر آئے تو کوئی پاک جگہ دیکھو اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔ بے شک اللہ درگزر کرنے والا، بخشنے والا ہے(۴۳) (مولانااصلاحیؒ)

            ۷۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھیراؤ،والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور پڑوسی رشتہ داروں ، اجنبی ہم سایوں اور ہم نشینوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔ (اِسی طرح) مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ جو تمھارے قبضے میں ہوں۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اتراتے اور اپنی بڑائی پر فخر کرتے ہیں(۳۶) جو خود بھی بخل کرتے اور دوسروں کو بھی اِسی کا مشورہ دیتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل میں سے جو کچھ اُنھیں دیا ہے، اُسے چھپاتے ہیں۔ ایسے ناشکروں کے لیے ہم نے ذلیل کر دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے(۳۷) ـــجو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ کو مانتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ (اُن کا ساتھی شیطان ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو وہ بہت ہی برا ساتھی ہے(۳۸) اِن کا کیا نقصان تھا، اگر یہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ نے جو کچھ اِنھیں بخشا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ اِن سے خوب با خبر ہے(۳۹) اللہ کسی کی ذرہ برابر حق تلفی نہ کرے گا اور کسی کی ایک نیکی ہو گی تو اُسے کئی گنا بڑھائے گا اور (اِس کے ساتھ) خاص اپنے پاس سے اُس کو بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا(۴۰)اُس دن یہ کیا کریں گے، جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر، (اے پیغمبر) تمھیں گواہ بنا کر کھڑا کریں گے(۴۱) اُس دن وہ لوگ جو (اتمام حجت کے باوجود) منکر ہوئے اور جنھوں نے رسول کی نافرمانی کی ہے، تمنا کریں گے کہ کاش، زمین اُن پر اُن کے سمیت برابر کر دی جائے اور وہاں وہ اپنی کوئی بات بھی اللہ سے چھپا نہ سکیں گے(۴۲)ایمان والو، (خدا کی بندگی کا جو حکم تمھیں اوپر دیا گیا ہے، اُس کا سب سے بڑا مظہر نماز ہے، اِس لیے) تم نشے میں ہو تو نماز کی جگہ کے قریب نہ جاؤ،یہاں تک کہ جو کچھ کہہ رہے ہو، اُسے سمجھنے لگو اور اِسی طرح جنابت کی حالت میں بھی، جب تک غسل نہ کر لو، الاّ یہ کہ صرف گزر جانا پیش نظر ہو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کرکے آئے یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر پانی نہ ملے تو کوئی پاک جگہ دیکھو اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔ (اللہ نے تمھارے ساتھ یہ رعایت فرمائی ہے)، اِس لیے کہ اللہ درگذر کرنے والا اور بخشش فرمانے والا ہے(۴۳) (محترم غامدی)

تفاسیر

‘‘یہ خاتمہ باب کی آیات ہیں ۔معاشرتی احکام و ہدایات کا سلسلہ جو شروع سے چلا آرہا تھا وہ ان آیات پر ختم ہوررہا ہے جس طرح اللہ سے ڈرتے رہنے کی ہدایت سے اس باب کا آغاز فرمایا تھا اسی طرح اللہ کی عبادت کرتے رہنے کی ہدایت پر اس کو ختم کیا ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

بیان حقوق سے پہلے عبادت اور توحید کا ذکر کرنے کی اہمیت

‘‘بیان حقوق سے پہلے مضمون عبادت اور توحید کو ذکر کرنے میں بہت سی حکمتیں ہیں ۔جن میں سے ایک یہ ہے کہ جس شخص کو خدا تعالیٰ کا خوف اور اس کے حقوق کا اہتمام نہ ہو تو اس سے دنیا میں او ر کسی کے حق کے اہتمام کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے ،برادری ،سو سائٹی کی شرم یا حکومت کے قانون سے بچنے کے لئے ہزاروں راہیں ڈھونڈھ لیتا ہے ۔وہ چیز جو انسان کو انسانی حقوق کے احترام پر حاضر و غائب مجبور کر نیوالی ہے ۔وہ صرف خوف ِ خدا اور تقویٰ ہے’’ (معارف القرآن، ج۲ ، ص ۴۰۹، ادارۃ المعار ف کراچی)

واعبدواللہ ولاتشرکوا یہ شیئا وبالوالدین احسانا۔۔۔۔

‘‘بالوالدین احسانا میں ‘ب ’ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں احسان کا لفظ ‘بر’ کے مفہوم پر مشتمل ہے ۔یعنی یہ احسان ادائے حقوق کے ساتھ ہو ،محض چھدااتارنے کی کوشش نہ ہو ۔‘ب’ کا استعمال لفظ ‘بر ’ کے ساتھ ہی مناسبت رکھتا ہے ۔چنانچہ سورہ مریم میں ہے وبرابوالدیہ ولم یکن جباراعصیا (اور اپنے والدین کا فرمانبردار تھا ،سرکش اور نافرمان نہ تھا )اردو ترجمے میں اس طرح کے اسالیب کے ترجمے کا حق مشکل ہی سے ادا ہوتا ہے ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۹۷ ،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ ترتیب بیان ، مراتب کی ترتیب پر دلالت کرتی ہے۔ کاش ہم تعلیمات قرآنی پر عمل کرنے کی سعی کریں۔ ’’(ضیا القرآن ،ج۱ ، ص ۳۴۲، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘اصل میں ‘وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا’ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ‘ب’ اِس بات پر دلیل ہے کہ ‘اِحْسَانًا’ یہاں ‘بر’ کے مفہوم پر متضمن ہے،یعنی یہ حسن سلوک اداے حقوق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اِس کی تعلیم تمام الہامی صحائف میں دی گئی ہے۔ قرآن مجید نے یہاں اور اِس کے علاوہ بنی اسرائیل(۱۷) کی آیت ۲۳، عنکبوت (۲۹) کی آیت ۸، لقمان (۳۱) کی آیات ۱۴-۱۵ اور احقاف(۴۶)کی آیت ۱۵ میں یہی تلقین فرمائی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ چنانچہ اللہ کی عبادت کے بعد سب سے پہلے اِسی کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے والدین ہی اُس کے وجود میں آنے اور پرورش پانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لقمان اور احقاف میں یہ حکم جس طرح بیان ہوا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن میں بھی ماں کا حق زیادہ ہے۔ بچے کی پرورش کے معاملے میں باپ کی شفقت بھی کم نہیں ہوتی، لیکن حمل، ولادت اور رضاعت کے مختلف مراحل میں جو مشقت بچے کی ماں اٹھاتی ہے، اُس میں یقینا اُس کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی بنا پر ماں کا حق باپ کے مقابلے میں تین درجے زیادہ قرار دیا ہے ۔’’ (البیان ، از غامدی)

پڑوسی کی تین قسمیں

‘‘الجار ذی القربیٰ ’یعنی پڑوسی بھی ہے اور اس کے ساتھ رشتہ داری کا بھی تعلق ہے ۔ ‘الجار الجنب ۔جنب کے معنی اجنبی کے ہیں یعنی پڑوسی ہے لیکن رشتہ داری اور قرابت کاتعلق اس کے ساتھ نہیں ہے ۔‘الصاحب بالجنب’ ‘جنب ’کے معنی پہلو کے ہیں ،جو شخص وقتی اور عارضی طور پر بھی کسی مجلس ،کسی حلقے ،کسی سواری ،کسی دکان ،کسی ہوٹل میں آپ کا ہم نشین و ہم رکاب ہوجائے وہ ‘الصاحب بالجنب ’ہے ۔اسلامی معاشرہ میں ان تینوں قسم کے لوگوں کو ایک دوسرے پر حقوق جوار حاصل ہو جاتے ہیں ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۹۷ ،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘والصاحب بالجنب۔اس کے لفظی معنی ہم پہلو ساتھی کے ہیں جس میں رفیق سفر بھی داخل ہے جو ریل میں ،جہاز میں ،بس میں ،گاڑی میں آپ کے برابر بیٹھا ہو اور وہ شخص بھی داخل ہے جو کسی عام مجلس میں آپ کے برابر بیٹھا ہو ۔شریعت اسلام نے جس طرح نزدیک و دور کے دائمی پڑوسیوں کے حقوق واجب فرمائے ،اسی طرح اس شخص کا بھی حق صحبت لازم کر دیا جو تھوڑی دیر کے لیے کسی مجلس یا سفر میں آپ کے برابر بیٹھا ہو ۔جس میں مسلم و غیر مسلم اور رشتہ دار و غیر رشتہ دار سب برابر ہیں اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہدایت فرمائی جس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ آپ کے کسی قول و فعل سے اس کو ایذا نہ پہنچے ۔کوئی گفتگو ایسی نہ کریں جس سے اس کی دل آزاری ہو ،کوئی کام ایسا نہ کریں جس سے اس کو تکلیف ہو ۔مثلاًسگریٹ پی کر اس کا دھواں اس کے منہ کی طرف نہ چھوڑیں ،پان کھاکر پیک اس کی طرف نہ ڈالیں ،اس طرح نہ بیٹھیں جس اس کی جگہ تنگ ہو جائے ۔قرآن کریم کی اس ہدایت پر لوگ عمل کرنے لگیں تو ریلوے مسافروں کے سارے جھگڑے ختم ہو جائیں ۔ہر شخص اس پر غور کرے کہ مجھے صرف ایک آدمی کی جگہ کا حق ہے ،اس سے زائد جگہ گھیرنے کا حق نہیں ،دوسرا کوئی اگر قریب بیٹھا تو اس ریل میں اس کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا میرا ہے ۔بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ صاحب بالجنب میں ہر وہ شخص داخل ہے جو کسی کام اور کسی پیشہ میں آپ کا شریک ہو ۔صنعت ،مزدوری میں ،دفتر کی ملازمت میں ،سفر میں ،حضر میں ۔’’(معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۱۳، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘الصاحب بالجنب ’’ فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہے اور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہو جائے ۔مثلاً آپ بازار میں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ کے ساتھ راستہ چل رہا ہو ،یا کسی دوکان پر آپ سودا خرید رہے ہوں اور کوئی دوسرا خریدار بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ،یا سفر کے دوران میں کوئی شخص آپ کا ہم سفر ہو ۔یہ عارضی ہمسایگی بھی ہر مہذب اور شریف انسان پر ایک حق عائد کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس کے ساتھ نیک بر تاؤ کرے اور اسے تکلیف دینے سے مجتنب رہے ۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۳۵۲، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی )

خدا کا حق سب سے بڑا ہے

‘‘ان آیات میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے کہ خالق و مالک اور رب ہونے کی وجہ سے اس کا حق سب سے بڑا ہے اور اسی حق کی ادائیگی پر دوسرے حقوق کی ادائیگی کا انحصار ہے ۔جو لوگ خدا کا حق ادا نہیں کرتے وہ دوسروں کے حقوق بھی صیح طور پر ادا کرنے کی توفیق نہیں پاتے خدا کا حق عبادت ہے اورعبادت میں پرستش اور اطاعت دونوں چیزیں شامل ہیں ۔ عبادت کے لیے یہ شرط ہے کہ اس میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے اس لیے کہ اگر اس حق میں کسی دوسرے کو شریک کر دیا جائے تو یہ عبادت باطل ہو کر رہ جاتی ہے ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۹۸ ،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

 خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے

‘‘خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ انہی کو آدمی کے وجود میں آنے اور اس کی پرورش کا ذریعہ بناتا ہے ۔لیکن ان کا حق عبادت نہیں بلکہ برو احسان ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۸،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنے حقوق کے متصل والدین کے حقوق کو بیان فرماکر اس کی طرف بھی اشارہ کیا کر دیا کہ حقیقت اور اصل کے اعتبار سے تو سارے احسانات و انعامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن ظاہری اسباب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ احسانات انسان پر اس کے والدین کے ہیں ۔کیونکہ عام اسباب میں وہی اس کے وجود کا سبب ہیں ۔اور آفرینش سے لے کر اس کے جوان ہونے تک جتنے کٹھن مراحل ہیں ۔ان سب میں بظاہر اسباب ماں باپ ہی اس کے وجود اور پھر اس کے بقاء و ارتقا ء کے ضامن ہیں ۔’’ (معارف القرآن ، ج۲ ، ص ۴۰۹، ادارۃ المعارف کراچی)

والدین کا حق کیا ہے

‘‘ والدین کے معاملہ میں یہ نہیں فرمایا کہ ان کے حقوق اد اکرو یا ان کی خدمت کرو ۔بلکہ لفظ احسان لایا گیا جس کے عام مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ حسب ِضرورت ان کے نفقہ میں اپنا مال خرچ کریں اور یہ بھی داخل ہے کہ جیسی ضرورت ہو اس کے مطابق جسمانی خدمات انجام دیں ۔یہ بھی داخل ہے کہ ان کے ساتھ گفتگو میں سخت آواز سے یا بہت زور سے نہ بولیں جس سے ان کی بے ادبی ہو ۔کوئی ایسا کلمہ نہ کہیں جس سے ان کی دل شکنی ہو ۔ان کے دوستوں اور تعلق والوں سے بھی کوئی ایسا سلوک نہ کریں جس سے والدین کی دل آزاری ہو ۔بلکہ ان کو آرام پہنچانے اور خوش رکھنے کے لئے جو صورتیں اختیار کرنی پڑیں وہ سب کریں ۔یہاں تک کہ اگر ماں باپ نے اولاد کے حقوق میں کوتاہی بھی کی ہو جب بھی ان کے لئے بدسلوکی کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۱۰، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘اِس سے واضح ہے کہ والدین کے علاوہ جو تعلقات اِس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، اُن میں پہلا حق اعزہ و اقربا کا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے حسن سلوک کو صلۂ رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسانوں کے مابین وجہ تعلق ہم عمری بھی ہو سکتی ہے، ہم درسی، ہم سایگی، ہم نشینی، ہم مذاقی، ہم پیشگی اور ہم وطنی بھی، لیکن اِن تمام تعلقات میں سب سے بڑھ کر وہی تعلق ہے جو رحم مادر کے اشتراک سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ خالق فطرت کی باندھی ہوئی گرہ ہے جسے توڑنا انسان کے لیے کسی طرح زیبا نہیں ہے، لہٰذا اِس کے حقوق کی نگہداشت بھی سب سے مقدم ہے۔’’ (البیان، از غامدی)

‘‘پڑوسی کے بارے میں، البتہ قرآن کا تصور مذہب و اخلاق کی تاریخ میں ایک بالکل ہی منفرد تصور ہے۔ عام طور پر تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ پڑوسی وہ ہے جس کا مکان آپ کے مکان سے ملا ہوا یا اُس کے قریب ہے، لیکن قرآن نے اِس آیت میں بتایا ہے کہ پڑوسی تین قسم کا ہوتا ہے: ایک وہ جو پڑوسی بھی ہے اور قرابت مند بھی۔ اِسے ‘الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی’ سے تعبیر کیا ہے اور اِس کا ذکر سب سے پہلے ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے پڑوسیوں کے مقابلے میں یہ حسن سلوک کا زیادہ حق دار ہے۔

دوسرا وہ جو قرابت مند تو نہیں، لیکن پڑوسی ہے۔ اُس کے لیے ‘الْجَارِ الْجُنُبِ’ یعنی اجنبی پڑوسی کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اجنبیت رشتہ و قرابت کے لحاظ سے بھی ہو سکتی ہے اور دین ومذہب میں اختلاف کے باعث بھی ہو سکتی ہے۔ قرابت مند پڑوسی کے بعد اِسی کا درجہ ہے۔

تیسرا وہ جو سفر و حضر میں کسی جگہ آدمی کا ساتھی یا ہم نشین بن گیا ہے۔ قرآن نے اسے ‘الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ’ سے تعبیر کیا ہے اور اِس کے لیے اُسی طرح حسن سلوک کی ہدایت فرمائی ہے، جس طرح دوسرے پڑوسیوں کے لیے فرمائی ہے۔’’ (البیان ، از غامدی)

وابن السبیل

‘‘یہ ضروری نہیں مسافر مہمان ہی بن کر آئے، خاطر تواضع بہ قدر وسعت و ہمت ہر آئندہ وروند کی ضروری ہے۔ ابن السبیل کا اصل مفہوم ایسا مسافر تھا جو اپنے وطن، اپنے عزیزوں سب سے اس قدر دُور اور بے تعلق ہوکہ گویا مسافرت ہی اس کا گھربار، اہلِ و خاندان بن کر رہ جائے۔اور اس سے معنیٰ بہرحال مطلقاً مسافر کے نکل آئے۔اسلامی نظامِ معاشرت عالی شان ہوٹلوں بلکہ مہمان سراؤں کا بھی محتاج نہیں، وہ اپنے قلمرو کے اندر مہمانداری، مسافرنوازی، بہ قدر وسعت و ظرف ہرہرفرد پر عائد رکتا ہے۔’’ (تفسیر ماجدی ، ج۱ ،ص ۷۳۶، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

لونڈی ،غلام

‘‘ غلامی ،اسلام کے نظام کا کوئی جز و نہیں ہے ۔اسلام نے وقت کے بین الاقوامی حالات کے تحت اس کو گوارا کیا تھا اورخود اپنے نظام میں غلاموں کی ترقی و بہبود کی ایسی شکلیں تجویز کر دی تھیں جن سے وہ بالتدریج اسلامی معاشرے میں مساوی درجے کے رکن بن جائیں ۔اس آیت میں ان کو بھی احسان کے مستحقوں میں شامل کیا ہے اور مقصود اس سے یہی ہے کہ ان کے متعلق لوگوں کا زاویہ نگاہ بدلے اور لوگ نیکی اور احسان کے مواقع میں ان کی اصلاح و ترقی کو ایک مستقل مسئلے کی حیثیت سے پیش نظر رکھیں ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۸،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا

‘‘مختال مغرور و متکبر کو کہتے ہیں اور فخور اس کو کہتے ہیں جو اپنی تعریف وثنا میں ہی رطب اللسان رہے اور اپنی خوبیاں اور کمالات ہی بیان کرتے رہے۔’’(ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۳۴۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

ادائے حقوق کے منافی ذہنیت

‘‘ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا۔یہ ادائے حقوق اور احسان کے منافی ذہنیت کا بیان ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اسباب و وسائل کی فراوانی کو اللہ کا انعام و احسان سمجھتے ہیں ان کے اندر تو شکر گزاری اور تواضع کا جذبہ بھرا ہوتا ہے اور یہ جذبہ ان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمایا ہے اسی طرح یہ دوسروں پر احسان کریں۔اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو خود اپنی قوت و قابلیت اور اپنی تدبیر و حکمت کا کرشمہ سمجھنے لگتے ہیں ان کے اندر تواضع اور شکر گزاری کے جذبے کے بجائے گھمنڈ اور فخر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں پر احسان کرنے کے بجائے ان پر دھونس اور رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ایسے نا شکروں اور کم ظرفوں کو دوست نہیں رکھتا ۔‘‘دوست نہیں رکھتا ’’کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے نفرت کرتا ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۸،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

اترانے اور فخر کرنے والوں کی چند خصوصیات

‘‘الذین یبخلون الایۃ پہلی یہ کہ خود بھی بخیل ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا مشورہ دیتے ہیں ۔دوسری یہ ہے کہ یہ اللہ کے اس فضل کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے ان کو دے رکھا ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۹،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘بخل یہ ہے کہ خود کھائے دوسرے کو نہ دے ، شح یہ ہے کہ نہ کھائے نہ کھلائے ، سخا یہ ہے کہ خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے ، جود یہ ہے کہ آپ نہ کھائے دوسرے کو کھلائے ’’ (خزائن العرفان ،ص ۱۵۱، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

و یکتمون ما أتہم اللہ من فضلہ

‘‘اللہ کے فضل کو چھپا نا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گو یا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے ۔مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گر کر رہے ۔نہ اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے ،نہ بندگان ِ خدا کی مدد کرے ،نہ نیک کاموں میں حصہ لے ۔لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے ۔یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی سخت نا شکری ہے ۔حدیث میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :ان اللہ اذا انعم نعمۃ علیٰ عبد احب ان یظھر اثرھا علیہ ،اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو ۔یعنی اس کے کھانے پینے ،رہنے سہنے ،لباس اور مسکن ،اور اس کی دادو دہش ،ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہو تا رہے ۔’’(تفہیم القرآن،ج۱ ،ص ۳۵۲، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

‘‘اس میں خدا کے دیے ہوئے مال کو بھی اہل ضرورت سے پوشیدہ رکھنے کی مذمت ہے نیز وہ صاحب علم جسے اللہ تعالی نے اپنے دین کی سمجھ عطا فرمائی ہے اور وہ لوگوں کو فیض نہیں پہنچاتا اور ان کے کانوں تک پیغام حق پہنچانے میں بخل سے کام لیتا ہے اس کا بھی یہی حال ہے ۔ ’’ (ضیا القرآن ، ج۱ ،ص۳۴۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

واعتدنا للکفرین عذابامھینا

‘‘ ناشکروں اور کافر وں کے لیے فرمایا کہ ہم نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔‘ذلیل کرنے والا عذاب’ اس وجہ سے کہ یہ اللہ کی نعمت پاکر اس کے شکر گزار اور حق گزار بندے بننے کے بجائے اکڑنے اور اترانے والے اور اس کے فضل کو چھپانے والے بنے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۹،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

دکھاوے کا انفاق کاروباری خرچ ہے

و الذین ینفقون ۔۔۔

‘‘دکھاوے کا خرچ ایک کاروباری خرچ ہوتا ہے ۔ انفاق اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف وہ معتبر ہوتا ہے جو خدا اور آخرت پر ایمان کے ساتھ ہو۔اور صرف اخروی اجر کے لیے ہو۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۰۰،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

وما ذاعلیھم لو امنوا باللہ ۔۔۔۔

‘‘یہ ان تنگ دلوں اور بخیلوں کی بد قسمتی پر اظہار افسوس ہے کہ یہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں خود اسی کی بخشی ہوئی دولت کو خرچ کر نے میں بڑا خسارہ سمجھتے ہیں ۔حالانکہ یہ خسارے کا سودا نہیں ہے بلکہ سرتا سر نفع ہی نفع ہے اللہ تعالیٰ نہ کسی کے عمل سے بے خبر ہے ،نہ ذرہ برابر وہ کسی کی حق تلفی کرنے والا ہے بلکہ کسی کی کوئی نیکی ہو گی تو وہ اسکو بڑھا کر کئی گنا کرے گا او ر اس پر مزید وہ خود اپنی طرف سے ایک بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا ۔’’(تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۰۰،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

مثقال ذرۃ

‘‘اللہ تعالیٰ کے یہاں ثواب کا کم سے کم معیار یہ ہے کہ ایک نیکی کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ،اور اس کے علاوہ مختلف بہانوں سے اضا فہ در اضافہ ہو تارہتا ہے ،بعض روایات ِ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب بیس لاکھ گنا تک زیادہ ہو جاتا ہے ،اور اللہ کی ذات تو کریم ذات ہے ۔وہ اپنی بے پاں رحمت سے اتنا بڑھا کر دیدتے ہیں کہ حساب و شمار میں بھی نہیں آتا ،واللہ یضاعف لمن یشاء ۔اس اجر عظیم کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے جو بارگاہ رب العزت سے ملتا ہے ۔ویؤت من لدنہ اجرا عظیما۔آیت میں جو لفظ ذرۃ آیا ہے اس کا ایک ترجمہ ذرہ برابر ہے ۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ذرۃ لال رنگ کی سب سے چھوٹی چیونٹی کو کہا جاتا ہے اہل عرب کم وزن اور اور حقیر ہونے میں اس کو بطور مثال پیش کیا کرتے تھے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۰، ادارۃ المعارف کراچی)

فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید۔۔۔۔

قیامت میں انبیاء کی شہادت اپنی امتوں پر

‘‘مطلب یہ ہے کہ اتمام حجت کے بعد بھی اگر یہ لوگ اللہ اور رسول سے منحرف ہی رہے تو آج تو یہ اپنے کفرو نفاق کو چھپاسکتے ہیں لیکن کل کو یہ کیا کریں گے جب میدان حشر میں اللہ تمام امتوں اور ان کے پیغمبروں کو جمع کرکے پیغمبروں سے گواہی دلوادے گا کہ انھوں نے لوگوں کو دین پہنچایا تھا اور اسی طرح کی گواہی تم (خطاب پیغمبﷺ سے ہے ) اس امت کے لوگوں پر دینے کے لیے کھڑے کیے جاؤ گے ۔اس دن وہ سارے لوگ جنھوں نے کفر اور نافرمانی رسول کا ارتکاب کیا ہوگا یہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ زمین میں دھنس جائیں اور زمین ان کے سمیت برابر کر دی جائے اس دن کوئی شخص خدا سے کوئی بات چھپا نہ سکے گا ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۰۰،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘بعض حضرات نے فرمایا کہ ھولاء کا اشارہ زمانہ رسالتؐ میں موجود کفا رو منافقین کی طرف ہے ،اور بعض فرماتے ہیں کہ قیامت تک کی پوری امت کی طرف اشارہ ہے ۔اس لئے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی امت کے اعمال آپؐ پر پیش ہوتے رہتے ہیں ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۴۳۰، ادارۃ المعارف کراچی)

ختم نبوت کی دلیل

‘‘ گذشتہ امتوں کے انبیاء اپنی اپنی امت پر بطور گواہ پیش ہوں گے اور آپؐ بھی اپنی امت کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔قرآن کریم کے اس اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے جو اپنی کسی امت کے متعلق گواہی دے ۔ورنہ قرآن کریم میں اس کا اور اس کی شہادت کا بھی ذکر ہوتا ۔اس اعتبار سے یہ آیت ختم نبوت کی دلیل بھی ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۱، ادارۃ المعارف کراچی)

یومئذ یود الذین کفروا

‘‘اس آیت میں میدان آخرت میں کافروں کی بدحالی کا ذکر ہے ،کہ یہ لوگ قیامت کے دن تمنا کریں گے کہ کاش ہم زمین کا پیوند بن گئے ہوتے ،کاش زمین پھٹ جاتی اور ہم اس میں دھنس کر مٹی بن جاتے اور اس وقت کی پوچھ گوچھ اور عذاب و حساب سے نجات پا جاتے ہیں ۔میدان حشر میں جب کفار دیکھیں گے کہ تمام جانور ایک دوسرے کے مظالم کا بدلہ لینے دینے کے بعد مٹی بنا دئیے گئے تو ان کو حسرت ہوگی اور تمنا کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے جیسا کہ سورہ نباء میں فرمایا ؛ویقول الکافر یا لیتنی کنت ترابا۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۱ ، ادارۃ المعارف کراچی)

لا یکتمون اللہ حدیثا

‘‘اس میں نفی فعل ،عدم استطاعت فعل کے مفہوم میں ہے ۔کسی بات کو نہ چھپا سکنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس دن مجرموں کے ہاتھ پاؤں اور ان کے تمام اعضاء و جوارح خود ان کے خلاف گواہی دینے کے لیے بول اٹھیں گے ۔اس حقیقت کو قرآن نے دوسرے مقام میں یوں واضح فرمایا ہے ۔حتی اذا ما جاء و ھا شھد علیھم سمعھم و ابصارھم وجلودھم (۲۰فصلت ) کہ جب وہ حاضر ہوں گے تو ان کے خلاف گواہی دیں گے ان کے کان ،ان کی آنکھیں اور ا ن کے رونگٹے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۰۱،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

انبیا کی گواہی

‘‘یہ بات کہ انبیاء قیامت کے روز اپنی اپنی امتوں پر گواہ کی حیثیت سے کھڑے کئے جائیں گے قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے بھی ثابت ہے ۔سورۂ مائدہ میں ہے ۔یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ما ذا اجبتم ۔قالو ا لا علم لنا ۔ انک انت علام الغیوب (۱۰۹ ۔مائدہ ) ترجمہ :‘‘ جس دن اللہ تمام رسولوں کو جمع کر لے گا اور ان سے پو چھے گا کہ تمھیں کیا جواب ملا وہ کہیں گے کہ ہمیں علم نہیں ،غیب کی باتوں کا جاننے والا تو ہی ہے ’’۔یعنی اللہ تعالیٰ رسولوں سے قیامت کے دن سوال فرمائے گا کہ جب تم نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کا دین پہنچایا تو انھوں نے دین کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟رسول جواب دیں گے کہ ہم نے تو تیرا دین بے کم و کاست لوگوں کو پہنچایا دیا ۔انھوں نے اس دین کے ساتھ کیا معاملہ کیا ،اس کا علم تیرے ہی پاس ہے اس لیے کہ غیب کا جاننے والا تو ہی ہے ۔اس شہادت کی پوری حقیقت سیدنا مسیح ؑ کی شہادت سے واضح ہو جاتی ہے جو سورۂ مائدہ میں یوں مذکور ہے ۔‘‘اذ قال اللہ یعیسی ابن مریم أ انت قلت للناس ۔۔۔۔(۱۱۶۔۱۱۷)ترجمہ :‘جب کہ اللہ پوچھے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ،کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی معبود ٹھہراؤ ؟وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے ،یہ مجھ سے کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔اگر میں نے یہ بات کہی ہو گی تو تجھ کو اس کا علم ہو گا ۔تومیرے دل کی باتوں کو جانتا ہے ،میں تیرے دل کی باتوں کو نہیں جانتا ۔غیب کی باتوں کو جاننے والا تو ہی ہے ۔میں نے ان سے نہیں کہی مگر وہی بات جس کا تو نے مجھے حکم دیا ۔یہ کہ اللہ ہی کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی ۔میں جب تک ان کے اندر رہا اسی بات کی گواہی دینے والا رہا ،پھر جب تو نے مجھے وفات دی تو ان کا نگران ِحال تو رہا اور تو ہر چیز پر حاضر وناظر ہے’ ۔نساء کی اس آیت سے متعلق روایات میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعودؓ نبی اکرمﷺ کو قرآن سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو حضورﷺ شدت تاثر سے آبدیدہ ہوگئے ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت نبی اکرمﷺ کے لیے ایک عظیم شرف کے ساتھ ساتھ ایک عظیم ذمہ داری کی بھی حامل ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۰۲،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

حاضر ناظر؟

‘‘ بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس لیے وہ ‘‘شہید’’ (گواہ) کے معنی ‘‘حاظر ناظر’’ سے کرتے ہیں اور یوں نبی کریمﷺ کو ‘‘حاظر و ناظر’’ باور کراتے ہیں۔ لیکن نبیﷺ کو حاظر ناظر سمجھنا ، یہ آپ کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے جو شرک ہے کیوں کہ حاظر و ناظر صرف اللہ تعالی کی صفت ہے ۔ ‘‘شہید ’’ کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا ۔ اس لیے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر ہوتی ہے اور قرآن کریم میں یہ بیان کردہ حقائق و واقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہوسکتا ہے؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کو بھی قرآن نے ‘‘شہدا علی الناس’’ (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے۔ اگر گواہی کے لیے حاظر و ناظرہونا ضروری ہے تو امت محمدیہ کے ہر ہر فرد کو حاضر ناضر ماننا پڑے گا۔ بہرحال نبیﷺ کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بے بنیاد ہے۔ اَعَاذ نَا اللہُ منہ’’ (احسن البیان،ص ۱۰۹، دارالسلام لاہور)

یاایھاالذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ۔۔۔

لفظ ‘صلوٰۃ ’ نماز اور موضع ِنماز ،دونوں معنی ہیں

‘‘صلوٰۃ ’ کے معنی نماز کے ہیں لیکن جس طرح کبھی ظرف بولتے ہیں اور مظروف اس کے مفہوم میں آپ سے آپ شامل ہوتا ہے اسی طرح کبھی مظروف ،اگر قرائن موجود ہو ں ،ظرف پر بھی مشتمل ہو جاتا ہے ۔یہاں دو قرینے موجود ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ‘صلوٰۃ’ کا لفظ موضع صلوۃ یعنی مسجد پر بھی مشتمل ہے ایک تو یہ کہ فرمایا نشے اور جنابت کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ پھٹکو ۔ظاہر ہے کہ اگر صلوٰۃ سے مراد مجرد نماز ہوتی تو اس کے لئے نماز نہ پڑھو کہہ دینا کافی تھا ۔‘لا تقربوا ’ کے الفاظ سے اس مطلب کو ادا کرنے کا کوئی خاص فائدہ سمجھ میں نہیں آیا دوسرا یہ کہ اس کے ساتھ ‘الا عابری سبیل ’ کا استشنا بھی ہے ۔یعنی اگر نماز کی جگہ سے مجرد گزر جانا مد نظرہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔یہ گزر جانا ،نماز کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا بلکہ اس کی واضح مناسبت ہو سکتی ہے تو موضع نماز ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے ۔بعض لوگوں نے اس عدم مناسبت سے بچنے کے لئے ‘عابری سبیل ’ سے مراد حالت سفر کو لیا ہے لیکن یہ محض تکلف ہے ۔اول تو سفر کے لئے یہ تعبیربالکل اجنبی ہے ،دوسرے یہ کہ حالت سفر کے لیے جو رخصت ہے وہ اسی آیت میں ‘او علیٰ سفر ’کے الفاظ سے مستقلًا بیان ہوئی ہے ۔پھر یہاں اس کے ذکر کی کیا ضرورت تھی ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۰۲،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

تحریم ِشراب کی راہ میں اسلام کا ابتدائی قدم

‘‘سکٰرٰی ‘سکران ’ کی جمع ہے ۔سکران شراب کے نشہ میں دھت کو کہتے ہیں ۔نشے کی حالت میں نماز اور موضع نماز سے روک کر اسلام نے تحریم ِشراب کی راہ میں یہ ابتدائی قدم اٹھایا ۔یہود کے ہاں شراب کی ممانعت صرف اوقات عبادت میں اماموں کے لیے تھی ۔اس سے معلوم ہوا کہ اس راہ میں اسلام کا پہلا قدم بھی ان کے آخری قدم سے آگے ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۰۲،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

نشہ عقل کی نجاست ہے ،جنابت بدن کی

‘‘نشہ اور جنابت دونوں کو ایک ساتھ ذکر کر کے اور دونوں کو یکساں مفسد نماز قرار دے کر قرآن نے اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ دونوں حالتیں نجاست کی ہیں،بس فرق یہ ہے کہ نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی شراب کو قرآن نے جو ‘رجس’ کہا ہے یہ اس کی وضاحت ہوگئی ۔‘جنب ’ کا لفظ جس طرح اجنبی کے لیے آتا ہے اسی طرح جنبی کے لیے بھی آتا ہے اور واحد ،جمع ،مذکر ،مؤ نث سب میں اس کی شکل ایک ہی رہتی ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۰۲،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ گمراہی کے بڑے سبب دو ہیں، اول جہل جس میں حق و باطل کی تمیز ہی نہیں ہوتی، دوسرے خواہش و شہوت جس سے باوجود تمیزحق و باطل حق کے موافق عمل نہیں کر سکتا کیونکہ شہوات سے قوت ملکی ضعیف اور قوت بہیمیہ قوی ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ ملائکہ سے بعد اور شیاطین سے قرب ہے۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۱۲، پاک کمپنی لاہور)

‘‘شان نزول ، غزوہ بنی المصلق میں جب لشکر اسلام شب کو ایک بیابان میں اتر جہاں پانی نہ تھا اور صبح وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ تھا ، وہاں ام المومنین حضرت عائشہؓ کا ہار گم ہو گیا ، اس کی تلاش کے لیے سید عالمﷺ نے وہاں اقامت فرمائی ، صبح ہوئی تو پانی نہ تھا ، اللہ تعالی نے آیت تیمم نازل فرمائی۔ اسید بن حضیر ؓ نے کہاکہ اے آل ابوبکر یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے یعنی تمہاری برکت سے مسلمانوں کو بہت آسانیاں ہوئیں اور بہت فوائد پہنچے ، پھر اونٹ اٹھایاگیا تو اس کے نیچے ہار ملا۔ ہار گم ہونے اور سید عالمﷺ کے نہ بتانے میں بہت حکمتیں ہیں ، حضرت صدیقہ کے ہار کی وجہ سے قیام ان کی فضیلت و منزلت کا مشعر ہے ، صحابہ کا جستجو فرمانا اس میں ہدایت ہے کہ حضور کے ازواج کی خدمت مومنین کی سعادت ہے اور پھر حکم تیمم ہونا معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی ازواج کی خدمت کا ایسا صلہ ہے جس سے قیامت تک کے مسلمان منتفع ہوتے رہیں گے ۔ سبحان اللہ’’ (خزائن العرفان ، ضیا القرآن پبلی کیشنز ، لاہور۔ص۱۵۳)

‘‘س غسل کے لیے آیت میں ‘تَغْتَسِلُوْا’ کا لفظ آیا ہے۔ اِس کا تقاضا ہے کہ اِسے پورے اہتمام کے ساتھ کیا جائے’’ (البیان از غامدی)

تیمم کی حکمت

‘‘تیمم کے معنی قصد اور رخ کرنے کے ہیں ۔‘صعید ’سطح ارض کو کہتے ہیں ۔مرض ،سفر اور پانی نہ ملنے کی صورت میں طہارت حاصل کرنے کے لیے یہ ہدایت ہوئی ہے کہ کوئی پاک صاف جگہ دیکھ کر چہرے اورہاتھوں کا مسح کر لو۔اگرچہ یہ مسیح پاکیزگی کے حصول کے نقطہ نظر سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن اصل طریقہ ِطہارت کی یادداشت ذہن میں قائم رکھنے کے پہلو سے اس کی بڑی اہمیت ہے ۔شریعت کے اکثر عبادات میں یہ امر ملحوظ رکھا ہے کہ جب اصلی صورت میں ان کی تکمیل ناممکن یا دشوار ہو تو شبہی صورت میں ان کی یادگار باقی رکھی جائے تاکہ حالات درست ہوجائیں توان کی طرف پلٹنے کے لیے طبیعت میں آمادگی باقی رہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۰۲،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ ہاتھ اور چہرہ پر مٹی ملنے میں تذلل اور عجز بھی پورا ہے جو گناہوں سے معافی مانگنے کی اعلیٰ صورت ہے۔ سو جب مٹی ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی نجاست کو زائل کرتی ہے تو اس لئے بوقت معذوری پانی کی قائم مقام کی گئی۔ اسکے سوا مقتضائے آسانی و سہولت جس پر حکم تیمم مبنی ہے یہ ہے کہ پانی کی قائم مقام ایسی چیز کی جائے جو پانی سے زیادہ سہل الوصول ہو۔ سو زمین کا ایسا ہونا ظاہر ہے کیونکہ وہ سب جگہ موجود ہے۔ معہٰذا خاک انسان کی اصل ہے اور اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے میں گناہوں اور خرابیوں سے بچاؤ ہے۔ کافر بھی آرزو کریں گے کہ کسی طرح خاک میں مل جائیں ۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۱۳، پاک کمپنی لاہور)

‘‘بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر منہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے ۔لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تدبیر ہے ۔اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدت تک استعمال کرنے پر قادر نہ ہو ،بہر حال اس کے اندر طہارت کااحساس بر قرار رہے گا ۔پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دئیے گئے ہیں ،ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا اور اس کے ذہن سے قابل نماز ہونے کی حالت اور قابل نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا ۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۳۵۶، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

تیمم کے تین مواقع

‘‘تیمم کے یہاں تین مواقع بیان ہوئے ہیں ۔مرض ،سفر اور پانی کی نایابی ۔اس سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ مرض اور سفر کی حالت میں پانی موجود ہوتے ہوئے بھی آدمی تیمم کر سکتا ہے ۔مرض میں وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے اس وجہ سے یہ رعایت ہوئی ہے ۔اسی طرح سفر میں مختلف حالتیں ایسی پیش آسکتی ہیں کہ آدمی کو تیمم ہی پر قناعت کرنی پڑے ۔مثلاً یہ کہ پانی نایاب تو نہ ہو لیکن کمیاب ہو ۔اندیشہ ہو کہ اگر غسل وغیرہ کے کام میں لایا گیا تو پینے کے لیے پانی تھڑ جائے گا یا یہ ڈر ہو کہ اگر نہانے کے اہتمام میں لگے تو قافلے کے ساتھیوں سے بچھڑ جائیں گے ،یا ریل اور جہاز کا ایسا سفر ہو کہ غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۰۳،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

حدث اور جنابت دونوں حالتوں میں تیمم کی اجازت

‘‘نجاست کی یہاں دو حالتیں مذکور ہوئی ہیں ۔ایک یہ کہ ا و جا ء احد منکم من الغائط ’ یاتم میں سے کوئی جائے ضرور سے آئے ) لفظ غائط اصلاً نشیبی زمین کے لیے آتا ہے ۔یہاں یہ قضائے حاجت سے کنا یہ ہے اس لیے کہ سادہ دیہاتی زندگی میں لوگ رفع حاجت کے لیے عموماً نشیبی زمینوں اور جھاڑیوں ہی میں جاتے ہیں ۔دوسری ‘او لمستم النساء ’ ( یا تم نے عورت سے ملاقات کی ہو ) ‘ملامست ’ کے معنی اصلاً چھونے اور ہاتھ لگانے کے ہیں لیکن یہا ں یہ کنایہ ہے مباشرت سے ۔نجاست کی ان دونوں حالتوں کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ تیمم ہر قسم کی نجاست میں کفایت کرتا ہے ۔اگر یہ وضاحت نہ ہوتی تو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ معمولی حدث میں تو تیمم جائز ہے لیکن دوسری صورت میں جائز نہیں ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۰۳،فاران فاؤنڈیشن لاہور)

 ‘‘تیمم کا حکم ایک انعام ہے جو اس امت کی خصوصیت ہے ۔اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وضو و طہارت کے لئے ایسی چیز کو پانی کے قائم مقام کر دیا جو پانی سے زیادہ سہل الحصول ہے ،اور ظاہر ہے کہ زمین اور مٹی ہر جگہ موجود ہے ۔حدیث میں ہے کہ یہ سہولت صرف امت محمدیہ ؐ کو عطا کی گئی ہے۔’’ (معارف القرآ ن ،ج۲ ، ص۴۲۴، ادارۃ المعارف کراچی)

لمس

‘‘اس امر میں اختلاف ہے کہ لمس یعنی چھونے سے کیا مراد ہے ۔حضرت علی ،ابن عباس ،ابو موسیٰ اشعری ،ابی بن کعب ،سعید بن جبیر ،حسن بصری اور متعدد ائمہ کی رائے ہے کہ اس سے مراد مباشرت ہے اور اسی رائے کو امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام سفیان ثوری نے اختیار کیا ہے ۔بخلاف اس کے حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ ابن عمر ؓ کی رائے ہے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ابن خطاب کی بھی یہی رائے ہے کہ اس سے مراد چھونا یا ہاتھ لگانا ہے اور اسی رائے کو امام شافعی ؒ نے اختیار کیا ہے ۔بعض ائمہ نے بیچ کا مسلک بھی اختیار کیا ہے مثلاً امام مالکؒ کی رائے ہے کہ اگر عورت یا مرد ایک دوسرے کو جذبات شہوانی کے ساتھ ہاتھ لگائیں تو ان کا وضو ساقط ہو جائے گا اور نماز کے لیے انہیں نیا وضو کر نا ہوگا ،لیکن اگر جذبات شہوانی کے بغیر ایک کا جسم دوسرے سے مس ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۳۵۵ ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

تیمم کا طریقہ

‘‘تیمم کے طریقے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ایک گروہ کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر منہ پر پھیر لیا جائے ،پھر دوسری دفعہ ہاتھ مار کر کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے ۔امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ،امام مالک اور اکثر فقہا کا یہی مذہب ہے اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی ،عبداللہ بن عمر ،حسن بصری ،شبعی اور سالم بن عبداللہ وغیرہ ہم اس کے قائل تھے ۔دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے ۔وہی منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے ۔کہنیوں تک مسح کرنے کی ضرورت نہیں ۔یہ عطا ء اور مکحول اور اوزاعی اور احمد بن حنبل ؒ کا مذہب ہے اور عموماً حضرات اہل حدیث اسی کے قائل ہیں۔تیمم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مار ا جائے ۔اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خشک اجزا ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے ۔’’(تفہیم القرآن،ج۱ ،ص ۳۵۶، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

‘‘تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیر لے (کہنیوں تک ضروری نہیں) اور منہ پر بھی پھیر لے ۔ قال فی التیمم ضربۃ للوجہ والکفین (مسند احمد از عمارؓ ، جلد ۴ صفحہ ۲۶۳) ‘‘نبیﷺ نے تیمم کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے لیے ایک ہی مرتبہ مارنا ہے۔’’(احسن البیان ،ص ۱۰۹، دارالسلام لاہور)

‘‘صعیدا طیبا، صعید لغت میں کہتے ہیں زمین کے بالائی رُخ کو، نہ کہ نفس مٹّی کو۔اس لیے حنفیہ کے ہاں جنس ارض کی تمام چیزیوں پر تیمم جائز ہے، خواہ اُن پر گرد پڑی یا نہ پڑی ہو اور امام مالکؒ اور ثوریؒ وغیرہ دوسرے آئمہ فقہ بھی اس باب میں حنفیہ کے ہم زبان ہیں۔جنسِ ارض میں سے ہونے کی شناخت یہ ہے کہ وہ آگ میں نہ جل جائے نہ اس سے پگھل جائے، چنانچہ حنفیہ کے ہاں گیرو، پتھر، سُرمہ، یاقوت، زبرجد وغیرہ پر اس قاعدہ کے موافق اور چونے پر اس قاعدہ کے خلاف عمل تیمم جائز ہے، البتہ خاکستر (راکھ) پر جائز نہیں، امام شافعیؒ کے نزدیک تیمم صرف مٹّی ہی پر جائز ہے۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص۷۴۰ ، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)

‘‘صعیداً طیباً سے مراد ‘‘پاک مٹی’’ ہے ۔ زمین سے نکلنے والی ہر چیز نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے۔ ‘‘جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔’’ (احسن البیان، ص ۱۱۰، دارالسلام لاہور)

آیت ۴۳ کا موقع و محل اور نظم

‘‘آیت ۳۶ میں اللہ ہی کی عبادت اور والدین و اقربا وغیرہ کے ساتھ احسان وانفاق کا حکم دیا اس کے ساتھ جو چیزیں عبادت اور احسان و انفاق کو باطل کر دینے والی ہیں مثلاً شرک اور ریا وغیرہ ان کا ذکر فرمایا ۔اب یہ عبادت الہیٰ کے سب سے بڑے مظہر نماز کے ان مفسدات کا ذکر فرمایا جو نماز کو باطل کردینے والے ہیں ۔اوپر شرک کا ذکر ہو چکا ہے جو عقائدی نجاست ہے ۔اس آیت میں ظاہری نجاستوں اور ان کے ازالہ کی تدابیر کی طرف رہنمائی فرمائی ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۰۳،فاران فاؤنڈیشن لاہور)