سوال ، جواب (اسلام اور عورت)

مصنف : ڈاکٹر ذاکر نائیک

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : فروری 2012

جواب : سورہ مائدہ میں اس حوالے سے ارشاد ہوتا ہے "آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ ہے کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔"

 اس آیت کی روشنی میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ مسلمان مرد اہل کتاب عورت سے شادی کر سکتا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک اہل کتاب عورت، یہودی یا عیسائی عورت ایک مسلمان مرد سے شادی کرے گی تو اس کا خاوند یا اس کے خاوند کے اہل خاندان اور گھر والے اس عورت کی مقدس ترین ہستیوں یعنی انبیائے کرام کی توہین یا ان کی شان میں کسی گستاخی کے مرتکب نہیں ہوں گے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم یہودیوں اور عیسائیوں کے انبیائے کرام یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔چونکہ اس اہل کتاب عورت کے انبیائے کرام ہمارے لیے بھی محترم ہیں اس لیے مسلمان خاندان میں اس عورت کا مذاق نہیں اْڑایا جائے گا۔ لیکن اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے۔ لہذا اگر ایک مسلمان عورت اہل کتاب خاندان میں جائے گی تو وہاں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور تقدس ملحوظ نہیں رکھا جائے گا اور عین ممکن ہے کہ اس کے عقاید کا مذاق اْڑایا جائے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورت کو اہل کتاب مرد سے شادی کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ مسلمان مرد کو اہل کتاب عورت سے شادی کی اجازت ہے۔اہل کتاب میں سے بھی انہیں خواتین سے شادی کرنے کی اجازت ہے جو ایمان لانے والی ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں بلکہ پیغمبر تسلیم کرتی ہیں۔ اور ایک اللہ پر ایمان رکھتی ہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : کوئی بھی عاقل اور بالغ عورت، اس سے قطع نظر کہ وہ شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ، یہ حق رکھتی ہے کہ آزادی سے اپنی جائیداد کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کر سکے۔ وہ چاہے تو اس سلسلے میں کسی سے مشاورت کر سکتی ہے ورنہ اس کی بھی پابندی نہیں۔اسے وصیت کرنے کا بھی حق حاصل ہے اور اسلام اس سے قطعا منع نہیں کرتا۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : اس سلسلے میں آپ کو چند نکات ذہن میں رکھنے چاہییں۔ پہلی بات تو یہ کہ مرد میں جنسی خواہش اور جذبہ عورت کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ دونوں جنسوں کی حیاتیاتی ساخت میں فرق اس نوعیت کا ہے کہ مرد کے لیے ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ زندگی گزارنا آسان ہے جب کہ عورت کے لیے بہت مشکل۔ طبی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ایام حیض کے دوران عورت کچھ ذہنی اور نفسیاتی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان بیش تر جھگڑے انہی دنوں میں ہوتے ہیں۔خواتین کے جرائم کے بارے میں ایک رپورٹ امریکہ میں شایع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجرم خواتین کی اکثریت ایام حیض کے دوران جرائم کی مرتکب ہوئی۔اس لیے اگر ایک عورت کے ایک سے زیادہ خاوند ہوں تو اس کے لیے ذہنی طور پر اس صورتِ حال سے نپٹنا بہت مشکل ہے۔ایک اور سبب یہ ہے کہ جدید علم طب کے مطابق اگر ایک عورت ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ جنسی روابط رکھتی ہے تو اس کے بیماریوں کے شکار ہونے اور یہ بیماریاں پھیلانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ جب اگر ایک مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے تو ایسے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر ایک مرد کی ایک سے زیادہ بیویوں سے اولاد ہے تو اس کے ہر بچے کو اپنی ماں کا بھی علم ہو گا اور باپ کا بھی۔ یعنی یہ بچہ اپنے والدین کی یقینی شناخت کر سکے گا۔ دوسری طرف اگر ایک عورت کے شوہر ایک سے زیادہ ہیں تو اس کے بچوں کو اپنی ماں کا تو علم ہو گا لیکن باپ کا علم نہیں ہو گا۔اسلام والدین کی شناخت کو بھی بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اور ماہرین نفسیات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک بچے کو اپنے والدین کا علم نہ ہو تو یہ بات اس کے لیے ذہنی صدمے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدکردار عورتوں کے بچوں کا بچپن بالعموم بہت برا گزرتا ہے۔اگر ایک ایسے بچے کو آپ سکول میں داخل کروانا چاہیں تو کیا کریں گے۔ ولدیت کے خانے میں دو نام لکھنے پڑیں گے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے بچے کو کیا کہہ کر پکارا جائے گا؟میں جانتا ہوں کہ آپ جواباً کچھ دلائل پیش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر بے اولادی کی وجہ سے، بیوی کے بانجھ ہونے کی وجہ سے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت ہے تو شوہر میں کوئی خرابی ہونے کی صورت میں بیوی کو دوسری شادی کی اجازت کیوں نہیں ہے؟اس سلسلے میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ کوئی مرد سو فیصد نامرد نہیں ہوتا۔ اگر وہ جنسی عمل سر انجام دے سکتا ہے تو اس کے باپ بننے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ خواہ وہ نس بندی ہی کیوں نہ کروا لے۔ لہذا اولاد کی ولدیت میں شک بہرحال موجود رہے گا۔ کوئی بھی ڈاکٹر آپ کی سو فی صد گارنٹی نہیں دے سکتا کہ یہ شخص باپ نہیں بن سکتا۔اسی طرح آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر بیوی کے حادثے کا شکار ہونے یا شدید بیمار ہونے کی صورت میں شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے تو شوہر کے کسی حادثے کا شکار ہونے یا بیمار ہونے کی صورت میں یہی اجازت بیوی کو بھی ہونی چاہیے۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایسی کسی صورتحال کے دو طرح کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ ایک تو یہ ہو گا کہ شوہر کے لیے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہے گا اور دوسرے یہ کہ وہ بیوی کے ازدواجی حقوق ادا نہیں کر سکے گا۔

جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے اسلام ایسی کسی صورتحال کے لیے "زکوٰۃ کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں ان کی مدد زکوٰۃ کی رقوم سے کی جانی چاہیے۔دوسرے مسئلے کا معاملہ یہ ہے کہ طبی سائنس کی تحقیقات کے مطابق عورت میں جنسی خواہش مرد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے لیکن اگر عورت سمجھے کہ وہ غیر مطمئن ہے تو اس کے پاس "خلع" کے ذریعے علیحدگی کا راستہ موجود ہے۔ وہ اپنے شوہر سے خلع لے کر دوسری شادی کر سکتی ہے۔ اس طرح عورت کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ کیونکہ خلع کے ذریعے علیحدہ ہونے والی عورت صحت مند ہوتی ہے۔ اور دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر، اگر وہ خود بیمار یا معذور ہو تو کون اس سے شادی کرے گا۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : میرے بھائی نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کتب مقدسہ میں تو اچھی باتیں ہی لکھی ہوئی ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ لوگ عملاً کیا کرتے ہیں۔ یقیناً ہمیں نظری گفتگو سے زیادہ اہمیت عمل کو دینی چاہیے۔ لہذا میں اس بات کی پوری حمایت کرتا ہوں۔ اور یہی ہم کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنی گفتگو کے دوران بھی واضح کیا بہت سے مسلمان معاشرے قرآن و سنت کی تعلیمات سے دور ہٹ چکے ہیں اور ہم یہی کر رہے ہیں کہ لوگوں کو دعوت دیں کہ وہ دوبارہ قرآن و سنت کی طرف لوٹ آئیں۔جہاں تک سوال کے پہلے حصے کا تعلق ہے کہ تمام مذہبی کتابوں میں اچھی باتیں ہی لکھی ہوئی ہیں تو میں اس بات سے قطعا اتفاق نہیں کرتا۔ میں آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ تمام متون مقدسہ میں اچھی باتیں ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔ میں "اسلام اور دیگر مذاہب میں عورت کا مقام" کے موضوع پر ایک لیکچر دے چکا ہوں جس میں میں نے اسلام میں عورت کے مقام کا تقابل بدھ مت، ہندو مت، عیسائیت اور یہودیت میں عورت کے مقام کے ساتھ کیا تھا۔ آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ میرا وہ لیکچر سن کر آپ خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا مذہب خواتین کو زیادہ حقوق دیتا ہے۔ اب ہمیں کرنا یہ ہے کہ ان تعلیمات پر عمل بھی کریں۔اور جزوی طور پر ان تعلیمات پر عمل کیا بھی جا رہا ہے۔بعض پہلوؤں پر عمل ہو رہا ہے اور بعض پر نہیں۔ مثال کے طور پر جہاں تک حدودکے نفاذ اور اسلامی نظامِ تعزیرات کا تعلق ہے۔ سعودی عرب میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔ الحمد للہ سعودی حکومت اس حوالے سے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ اگرچہ بعض معاملات میں وہ بھی قرآن سے دور ہٹ گئے ہیں۔ ہمیں کرنا یہ چاہیے کہ سعودی عرب کے نظامِ قانون کی مثال سامنے رکھیں، اس کا جائزہ لیں اور اگر یہ نظام مؤثر ہے تو پوری دنیا میں اس پر عمل کیا جائے۔اسی طرح اگر کسی اور معاشرے میں اسلام کے معاشرتی قانون پر عمل ہو رہا ہے تو اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے اور اگر وہ مؤثر ہے تو پوری دنیا میں اس کا نفاذ ہونا چاہیے۔ اسلامی قانون ہی بہترین قانون ہے۔ اگر ہم اس قانون پر عمل نہیں کر رہے ہیں تو یہ ہمارا قصور ہے، دین اسلام کا نہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ خاندان کا سربراہ مرد ہے۔ سو اگر خاندان اور گھر کا سربراہ مرد ہے تو پھر قوم کی سربراہی عورت کس طرح کر سکتی ہے؟جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا سربراہی کی صورت میں عورت کو امامت بھی کرنی پڑے گی۔ اگر ایک عورت امام ہے اور مقتدی مرد ہیں تو پھر ارکانِ نماز یعنی رکوع و سجود کے دوران لازماً نمازیوں کو پریشانی ہو گی۔ ایک پیغمبر کو عام لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک عورت پیغمبر ہوتی تو اس کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا۔ کیونکہ اسلام مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط ہی کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح اگر ایک عورت پیغمبر ہو اور وہ حاملہ ہو جائے تو ظاہر ہے کہ کچھ عرصے تک وہ اپنے فرائض سر انجام نہیں دے سکے گی۔ ایک مرد کے لیے ایک ہی وقت میں بہ طور باپ اور بہ طور پیغمبر اپنی ذمہ داریاں نبھانا آسان تھا جب کہ عورت کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن اگر پیغمبر سے آپ کی مراد کوئی مقدس اور متبرک ہستی ہے تو پھر ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ بہترین مثال جو میں آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں وہ حضرت مریم کی ہے۔اسی طرح فرعون کی بیوی آسیہ کی بھی اللہ نے تعریف کی ہے۔ اسلام میں حضرت مریم اور حضرت آسیہ علیہما السلام کے علاوہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ، حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما جیسی برگزیدہ خواتین بھی موجود ہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

 جواب : حضورﷺ کی شادیاں اللہ کی طرف سے ایک خصوصی اجازت تھی۔اگر آپ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام شادیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ شادیاں یا تو معاشرتی اصلاحات کے لیے کی گئی تھیں اور یا سیاسی وجوہات سے۔ اپنی خواہش کی تسکین کے لیے یہ شادیاں ہرگز نہیں کی گئی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کیا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی عمر 25 سال تھی۔ جب کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر 40 سال تھی۔ جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حیات رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 50 سال تھی، جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی کا انتقال ہوا۔اپنی عمر کے 53ویں سال سے 56 سال کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نکاح فرمائے۔ اگر ان شادیوں کی وجوہات جنسی ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانی میں زیادہ نکاح فرماتے۔ کیونکہ علم طب تو یہ کہتا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ جنسی خواہش گھٹتی چلی جاتی ہے۔صرف دو نکاح ایسے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے فرمائے۔ حضرت خدیجہ کے ساتھ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ۔ باقی تمام نکاح حالات کے پیش نظر اور سیاسی معاشرتی اصلاح کے لیے کیے گئے تھے۔ صرف دو امہات المؤمنین کے علاوہ باقی سب کی عمریں 36 اور 50 سال کے درمیان تھیں۔ ہر نکاح کی وجوہات اور اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں۔مثال کے طور پر حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا معاملہ دیکھیں۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنی مصطلق سے تھا۔ اس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات بہت خراب تھے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے ان پر حملہ کر کے انہیں شکست دی۔ اس کے بعد جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کر لیا تو مسلمانوں نے قبیلہ بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو یہ کہہ کر رہا کر دیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو کس طرح قید رکھ سکتے ہیں؟ اس واقعے کے بعد اس قبیلہ کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے ہو گئے۔اسی طرح حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا قبیلہ نجد کے سردار کی بہن تھیں۔ یہ وہی قبیلہ ہے جس نے مسلمانوں کے ایک 70 افراد پر مشتمل وفد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ قبیلہ مسلمانوں کے شدید ترین مخالفین میں شمار ہوتا تھا لیکن اس شادی کے بعد اس قبیلہ نے مدینے کو اپنا مرکز اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما تسلیم کر لیا۔اْم المؤمنین حضرت اْم حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مکہ کے سردار ابو سفیان کی صاحبزادی تھیں۔ لہذا ظاہر ہے کہ اس نکاح نے فتح مکہ کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔اْم المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک اہم یہودی سردار کی بیٹی تھیں۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے نکاح کر لینے کے بعد مسلمانوں کے تعلقات یہودیوں کے ساتھ خوشگوار ہو گئے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سیاسی اور معاشرتی وجوہات کے پیش نظر یہ نکاح فرمائے۔ حضرت زینب کے ساتھ شادی یہ غلط تصور ختم کرنے کے لیے کی گئی کہ متبنٰی اصل بیٹے کی طرح ہوتا ہے اور اس کی مطلقہ کے ساتھ شادی نہیں ہو سکتی۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

 جواب : بھائی پوچھتے ہیں کہ کیا اسلام میں بچے کو گود لینے Adoption کی اجازت ہے یا نہیں۔ اگر تو گود لینے سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک غریب اور بے سہارا بچے کا سہارا بنیں اور اس کو روٹی کپڑا مکان مہیا کریں تو یقیناً اسلام اس کے حق میں ہے بلکہ قرآن میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کی مدد پر بڑا زور دیا گیا ہے اگر آپ اس طرح کسی بچے کے لیے پدرانہ شفقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے کام آنا چاہتے ہیں تو اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن جہاں تک تعلق ہے قانونی طور پر متبنٰی کرنے کی تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ قانونی طور پر اس بچے کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام نہیں لکھوا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانونی طور پر اس بچے کو آپ کی اولاد قرار دینے کے نتیجے میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بچے یا بچی کی اپنی شناخت بالکل ختم ہو جائے گی۔دوسری بات یہ کہ اگر آپ بے اولادی کی وجہ سے بچے کو گود لیتے ہیں اور اس کے بعد آپ کی اپنی اولاد پیدا ہو جاتی ہے تو اس گود لیے ہوئے بچے کے ساتھ آپ کے رویے میں تبدیلی آ جائے گی۔تیسری بات یہ کہ اگر آپ کی اپنی اولاد اور متبنٰی بچے کی جنس مختلف ہے تو پھر ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ وہ بہرحال حقیقی بہن بھائی تو نہیں ہیں۔ اسی طرح بالغ ہوجانے کے بعد مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے، کیونکہ اگر وہ لڑکا ہے تو گھر کی خواتین کو پردہ کرنا پڑے گا۔ اور اگر لڑکی ہے تو اسے اپنے نام نہاد باپ سے بھی پردہ کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اس کا حقیقی باپ تو نہیں ہے۔مزید برآں اس طرح وراثت کے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ وفات کے بعد فوت ہونے والے کی تمام جائیداد اْس قانون کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے جو قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر گود لیے ہوئے بچے کو یہ مال ملتا ہے تو گویا دیگر رشتہ داروں کا حق مارا جاتا ہے۔اگر گود لینے والے شخص کی اپنی اولاد بھی موجود ہے تو پھر اس اولاد کا حق مارا جائے گا اور اگر اولاد نہیں ہے تو بیوی اور دیگر رشتہ داروں کا۔اس پیچیدگی سے بچنے کے لیے اسلام نے بچوں کو قانونی طور پر گود لینے کی اجازت نہیں دی ہے۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : طلاق کی صورت میں دورانِ عدت یہ مرد کا فرض ہے کہ وہ عورت کے اخراجات برداشت کرے اور اسے نان و نفقہ فراہم کرے۔ یہ مدت غالباً تین ماہ یا اگر عورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک ہے۔ اس کے بعد یہ باپ اور بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو تمام ضروریات زندگی فراہم کریں۔ اگر بالفرض والدین اور بھائی یہ فرض ادا نہیں کر سکتے تو اس صورت میں دیگر قریبی رشتہ داروں کا فرض بنتا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ بھی ایسا نہیں کر سکتے تو اس صورت میں یہ مسلم اْمت کا فریضہ بن جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ہم سب کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ایسے ادارے تشکیل دیں اور زکوٰۃ کی تقسیم کا ایسا نظام بنائیں کہ ان خواتین کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : بیش تر صورتوں میں عورت کا آدھا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن ہر صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر : اگر مرنے والے کی کوئی اولاد نہ ہو تو ماں اور باپ دونوں کو ہی چھٹا حصہ ملتا ہے۔ بعض اوقات اگر مرنے والی خاتون ہو، اس کی اولاد بھی نہ ہو تو اس کے شوہر کو نصف، ماں کو تیسرا حصہ اور باپ کو چھٹا حصہ ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بعض صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں عورت کا حصہ مرد سے دوگنا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اس مثال میں ماں کا حصہ باپ کے مقابلے میں دگنا ہے۔لیکن میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ بیش تر صورتوں میں عورتوں کا حصہ مردوں کے مقابلے میں آدھا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے اسلام میں معاشی ذمہ داریاں مرد پر ڈالی گئی ہیں اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے مرد کا حصہ زیادہ رکھا گیا ہے۔ خاندان کے تمام معاشی اخراجات پورے کرنے کی وجہ سے ضروری ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کو زیادہ حصہ ملے۔ میں یہاں ایک مثال پیش کرتا چاہوں گا۔ فرض کیجیے ایک صاحب فوت ہوئے۔ ان کی جائداد میں سے باقی تمام حقوق ادا کرنے کے بعد بچوں کے حصہ میں ڈیڑھ لاکھ روپے آتے ہیں۔ اس شخص کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ اسلامی شریعت کی رو سے بیٹے کو ایک لاکھ اور بیٹی کو پچاس ہزار روپے ملیں گے۔ لیکن بیٹے پر ایک پورے خاندان کی معاشی ذمہ داریاں ہیں۔ لہذا اسے اس میں ایک لاکھ کا بیشتر حصہ مثال کے طور پر 10 ہزار یا شاید پورا ایک لاکھ ہی ان ذمہ داریوں کی وجہ سے خرچ کرنا پڑ جائے گا۔ دوسرے طرف خاتون کو پچاس ہزار ملیں گے لیکن یہ ساری رقم اسی کے پاس رہے گی کیونکہ اس پر ایک پائی کی بھی ذمہ داری نہیں ہے۔ لہذا اسے خاندان پر کچھ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

 جواب : بہن نے سوال پوچھا ہے کہ مرد کو تو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکے۔ لیکن کیا عورت کو بھی یہ حق ہے کہ وہ طلاق دے سکے۔اس سوال کا جواب یہی ہے کہ عورت طلاق نہیں دے سکتی۔ طلاق عربی کا لفظ ہے اور یہ اسی موقع کے لیے خاص ہے جب شوہر اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرے۔ اسلام میں میاں بیوی کی علیحدگی کے پانچ طریقے ہیں۔پہلا طریقہ تو باہمی رضا مندی کا ہے۔ اگر دونوں فریق یہ فیصلہ کر لیں کہ بس ہم اور اکٹھے نہیں چل سکتے اور ہمیں علیحدہ ہو جانا چاہیے تو وہ اس رشتے کو ختم کر سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر اپنی مرضی سے بیوی کو چھوڑ دے۔ اسے طلاق کہتے ہیں۔ اس صورت میں اسے مہر سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور اگر ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اور جو کچھ وہ تحایف کی صورت میں دے چکا ہے وہ بھی بیوی ہی کی ملکیت رہتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ عورت اپنی مرضی سے نکاح کو ختم کرنے کا اعلان کر دے۔ جی ہاں۔ بیوی بھی اس طرح کر سکتی ہے اگر یہ بات معائدہ نکاح میں طے ہو جائے کہ بیوی کو بھی یہ حق ہو گا۔چوتھی صورت یہ ہے کہ اگر بیوی کو شوہر سے شکایات ہوں کہ وہ اس سے برا سلوک کرتا ہے یا اس کے حقوق ادا نہیں کرتا یا اس کے اخراجات کے لیے وسائل فراہم نہیں کرتا تو وہ عدالت میں جا سکتی ہے اور قاضی ان کا نکاح فسخ کر سکتا ہے۔ اس صورت میں وہ شوہر کو مہر کی پوری یا جزوی ادائیگی کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ پانچویں اور آخری قسم خلع ہے۔ اگر بیوی محض ذاتی ناپسندیدگی کے باعث علیحدگی چاہتی ہے۔ شوہر میں کوئی خرابی نہیں مگر وہ پھر بھی علیحدہ ہونا چاہتی ہے تو وہ خود علیحدگی کی درخواست کر سکتی ہے۔ اسے خلع کہتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں بہت کم گفتگو کی جاتی ہے۔بہر حال اسلام میں علیحدگی کی یہی اقسام ہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

 جواب : پورے قرآن میں کسی بھی جگہ خواتین کو مساجد میں جانے سے منع نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی احادیث میں خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے۔ بعض لوگ ایک خاص حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ کمرے میں پڑھے۔ لیکن یہ لوگ صرف ایک حدیث پر زور دیتے رہے ہیں اور باقی تمام احادیث کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب 27 گنا زیادہ ہے۔ ایک خاتون نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شیرخوار بچے ہیں اور ہمیں گھر کا کام کاج کرنا ہوتا ہے ہم کس طرح مسجد میں آ سکتی ہیں۔ تو جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے مسجد کی بہ نسبت گھر میں گھر کے صحن کی بہ نسبت کمرے میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ اگر اس کے بچے چھوٹے ہیں یا کوئی اور مسئلہ ہے تو اسے وہی ثواب ملے گا جو مسجد میں نماز پڑھنے کا ہے۔

متعدد احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کو مسجد میں آنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو۔" ایک اور حدیث کا مفہوم ہے۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہروں کو کہا کہ اگر ان کی بیویاں مسجد میں جانا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے۔"اس طرح کی متعدد احادیث میں ہیں۔ میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسلام خواتین کو مسجد میں آنے سے نہیں روکتا۔ شرط یہ ہے کہ مسجد میں خواتین کے لیے انتظام اور سہولت موجود ہو کیونکہ مرد اور عورت کے اختلاط کی اجازت اسلام نہیں دیتا۔اگر آپ سعودی عرب جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ خواتین مساجد میں آتی ہیں اگر آپ امریکہ جائیں یا لندن جائیں تو وہاں بھی خواتین مسجد میں نماز پڑھتی ہیں۔ صرف ہندوستان اور کچھ اور ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتیں۔یہاں تک کہ حرم شریف اور مسجد نبوی میں بھی خواتین کو آنے کی اجازت ہے۔ ہندوستان میں بھی اب بعض مساجد میں خواتین کے لیے اہتمام ہوتا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ مزید مساجد میں بھی یہ اہتمام ہو گا۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : اسلام میں مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا پابند نہیں کیا گیا۔قرآن میں ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے ایک ہی شرط عاید کی گئی ہے اور وہ ہے عدل۔ اگر وہ اپنی بیویوں میں عدل کر سکتا ہے تو وہ ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر پہلی بیوی کی اجازت سے دوسری شادی کی جائے تو شوہر اور بیویوں کے تعلقات زیادہ خوشگوار رہیں گے۔صرف ایک ہی صورت ہے جس میں مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینی پڑتی ہے اور وہ یہ کہ اگر بیوی نے شادی کے وقت نکاح کے وقت یہ شرط رکھی ہو کہ شوہر دوسری شادی نہیں کرے گا تو پھر دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت لازمی ہو جاتی ہے۔ بصورتِ دیگر کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )