خمینی و فردوسی کی سرزمین

مصنف : ڈاکٹر انوار احمد بگوی ، خانم فرحت احمد بگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : فروری 2012

 قسط۔۱۲ (آخری قسط)

چوکوں اور سڑکوں کے نام

            پاکستان ایسا ملک ہے جہاں فوج ، نوکر شاہی اور سیاست دانوں نے کسی صاحب علم اور صاحب عمل مردو عورت کو قومی ہیرو کا درجہ نہیں ملنے دیا۔ شناخت اوراعترا فِ خدمت کا یہ عمل ان کی باہمی بندر بانٹ تک ہی محدود رہتا ہے۔ 60سال میں ہمارے پاس لے دے کے دو نام ملتے ہیں جنہیں ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے یعنی جناح اور اقبال یا پھر وہ نام جو انگریز سامراج نے اپنے اہلکاروں کی یاد میں رکھے تھے اورجنہیں خاکی و سول نوکر شاہی کی بے حمیتی اور سیاستدانوں کی بے عملی کے سبب ہم نے ابھی تک سینے سے لگا رکھاہے۔ فوجی ہیروز کے حوالے سے ایرانی اسلامی انقلاب خود کفیل ہے۔ دراصل ان ناموں میں کسی قوم کا ماضی ، اس کی جدوجہد اورمستقبل کی نوید عیاں ہوتی ہے۔ ایسی چیزوں ہی سے ایک قوم کی شناخت بنتی ہے۔ ایران میں چوکوں اور سڑکوں کے نام درج ذیل ذرائع سے لیے گئے ہیں:

            بعثت، نبوت، رسالت، امامت، ولایت، آزادی، انقلاب، شعرا، ادبا، علما، شہدا، فنکار، ہنرمند، سیاسی، کھلاڑی …… غرض ہر وہ شخص یا ادارہ جس نے ملک و قوم کے لیے کچھ بھی کیا ، قومی اعتراف و تفاخر اور قومی شناخت کی علامت بن سکتا ہے۔

بلیوارڈوں کے نام:

            جمہوری ، اسلامی ، امام خمینی ، سجاد ،امامیہ ، قرآنی بعثت، شہید عباسی، کامیاب، ولایت ، معلم، ہمت ، جانباز، میثاق، حجاب،اندیشہ، شاہد، فدائین اسلام ، مجلسی، سرخسی، عزیزیہ ، امیر یہ ، اقدسیہ ، الہیتہ، رحمانیہ ، مجیدیہ ، فلاحی، امامت، مدرس، ملا صدر ، امت۔

میدانوں کے نام:

            ولی عصر ،عبدالمطلب، خیام ، جانبازاں، استقلال، قائم ، آزادی، جمہوری اسلامی ، فلسطین، فردوسی ، جہاد، سلمان فارسی، راہنمائی ، ہدایت ، حمزہ، شہدا، توحید ، صاحب الزمان ، سعدی ، بیمارستان، امام خمینی ،ذوار 15، غدیر،حافظ ، امام حسین ۔ابو طالب۔ ڈاکٹر شریعتی ،مجد، عدالت ، خاقانی ، عمل ،ہجرت۔ ایک باغیچے کا نام گل خاتمی ہے اور ایک پارک کا نام رسالت اور دوسرے کا ملت۔ ایک سڑک کا نام بہار اور دوسری کا نام دانش ہے۔ ناموں کا یہ سلسلہ تمام شہروں میں اس قدر منظم اتنا خوبصورت اور ایسا دلکش ہے کہ قیاس کن گلستان من زبہار مرا۔

             تہران میں ایک گلی کا نام مولوی اور ایک کانام وہابی دکھائی دیا۔ مولوی سے تو مولوی روم ہو سکتے ہیں، مگر وہابی کی سمجھ نہیں آئی۔ پاکستان میں یہ نام رکھ دیئے جائیں تو بلوہ ہو جائے اور اسلام خطرے میں پڑجائے۔

قرض حسنہ:

            ایک معاشرے کی ظاہری معاشی خوشحالی اس بات کی ضامن نہیں کہ اس کے تمام طبقے برابر کے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مثلاً اس دوڑ میں شہری عموماً دیہاتیوں سے آگے ہوتے ہیں۔ پڑھا لکھا فرد، ان پڑھ کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ترقی کر لیتا ہے ۔ لیکن اس نا ہمواری سے معاشرے میں بے چینی جنم لیتی ہے۔ انقلاب اسلامی نے ان طبقوں کے لیے جن کے پاس ضروریات زندگی پانے کے لیے وسائل نہیں ، قرض حسنہ سکیمیں جاری کی ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق ان سے استفادہ کرنے والوں میں طلبہ اور ہنر مند شامل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس سکیم کومائکرو فنانسنگ (Micro Financing) کہا جا سکتا ہے۔طالب علم ہے تو تعلیم کے لیے فیسوں ، کتابوں اور ہاسٹل کے اخراجات پورے کر سکتا ہے۔ ہنر مند ہے تو اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتا ہے۔ اس سکیم کے دفاتر چاروں شہروں میں نظر آئے ۔ ممکن ہے اس کا دائرہ شہروں سے باہر دیہات میں بھی ہو۔

             پاکستان میں ایسے کام عام طور پر ایک ڈوبتی ہوئی حکومت مشہوری حاصل کرنے کی خاطر کرتی ہے۔ یا پھر اس کام میں بنک آجاتے ہیں جنہیں غریب پروری کا سبق ہی نہیں پڑھایا جاتا۔ رہی سہی کسر نوکر شاہی کے گھڑے ہوئے ضابطے اور سیاست کاروں کی مداخلت پورا کر دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مستحق اور قابل توجہ طالب علم اور ہنر مند بدستور اپنے حق سے محروم رہتا ہے۔ چندغیر مستحق لوگوں کی جیبیں بھرنے کے بعد سکیم نیا بہروپ دھارنے کے لیے گم ہو جاتی ہے۔اس کے بر عکس ایران میں اعلیٰ تعلیم عام کرنے ، خود انحصاری و خود اعتمادی پیدا کرنے اور بیروز گاری گھٹانے میں قرض حسنہ کا بڑا کردار ہے۔ غالباً اس مد میں عوام سے عطیات بھی لیے جاتے ہیں کیونکہ جمران میں ایک جگہ ہمیں صندوق قرض الحسنہ نظر آیا تھا۔

زبان کا مسئلہ:

            فارسی ایک زندہ اور بہت زرخیز زبان ہے۔ اس نے ترکی ، اُردو اور کئی دوسری علاقائی زبانوں کو پھولنے پھلنے میں بڑی مدد دی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ برطانوی اثر و رسوخ کے باوجود ایران کا حکمران طبقہ اور عوام فرانسیسی زبان اور کلچر سے متاثر ہیں۔ چنانچہ جدید الفاظ اور اصطلاحات ایرانی فارسی میں فرانسیسی زبان سے آئی ہیں۔ اس لیے ان کے ہجے ،لہجے اور لفظ فرانسیسی گرائمر کی نقل کرتے ہیں۔ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کی فارسی میں یہ رجحان نہیں ،یہاں قدیم فارسی اور پرانا لب و لہجہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایران کی فارسی پر جس دوسری زبان کا اثر اور نفوذ ہر جگہ نظر آتا ہے، وہ عربی ہے۔ ایرانی عالم کو عربی بولنے پر قدرت حاصل ہے اور وہ قومی نظام تعلیم کے نتیجے میں عربی بڑی روانی سے بولتا ،پڑھتا اور لکھتا ہے۔ عام زندگی میں ہر طرف فارسی کا چال چلن ہے۔تمام ہند سے عربی میں ہیں۔ کہیں کہیں فارسی کے ساتھ انگریزی مترادفات نظر آتے ہیں۔ فرانسیسی زبان ویسے کہیں نہیں پائی جاتی۔ ہمارا خیال ہے انگریزی بطور بین الاقوامی زبان اور اُردو بطور کثیر تعداد زائرین کی زبان کے رابطے اور معلومات کے لیے استعمال ہونی چاہیۓ۔پاکستان کی کلاسیکی فارسی جاننے والے اب ایران میں نقصان میں رہتے ہیں کیونکہ مخاطب پھر آپ کو فارسی داں جان کر اپنے لہجے اور روز مرہ کی زبان میں رواں ہو جاتا ہے۔ پھر اسے پکڑنا آسان نہیں ہوتا۔ فارسی میں احکامات اور ہدایات بڑی شائستگی سے دی جاتی ہیں۔

             مثلاً لطفاً پوستر نچسپا نید ، لطفاً سگار نکشید ، قبل از توقف درب رابا ز نفرما ئید۔ نگاہ بر سبز و گل شادی آفرین است۔ سلام بچہ ہا لطفاً مراقب گلہبا با شد۔

            ایران کے اخبارات میں امریکہ مخالف خبریں اور ایسے تبصرے عام ہیں جن سے اس اکیلی سپر پاور کی منافقت ، مکر اور سازشوں کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ایرانی اخبارات کو کوئی ہمدردی نہیں، ہماری (اب سابقہ مشرف) حکومت کو وہ امریکی بازی کا حصہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ ہماری بد خبریں ان کے لیے خبریں ہیں۔

کم سن مزدور (چائلڈ لیبر):

             یہ المیہ تیسری دنیا کے سبھی ملکوں کا ہے کہ بچے اور کھانے والے زیادہ ہیں اور کمانے والے کم۔اکثر خاندان نصف غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ مجبوراً والدین تعلیم کی بجائے بچوں سے مزدوری کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لاہور کے تمام خوشحال گھرانوں میں تین چار ملازم ہوتے ہیں۔ ورکشاپوں ،چائے خانوں، کاٹیج انڈسٹری، قالین بافی اور اب تو اینٹیں چڑھانے اتارنے کے کاموں میں بھی 18سال سے کم عمر کے بچوں کو بڑی فراخدلی سے کام پر لگایا جاتا ہے۔ ان بچوں کے اوقات کار بڑوں سے زیادہ مگر اجرت بہت کم جبکہ گالیاں اور جسمانی سزا مفت میں ملتی ہے۔ ایران میں حیران کن حد تک شہروں میں کم سن مزدور نظر نہیں آئے۔

تعمیراتی انداز:

            چند جگہوں سے گزرنے کا موقع ملا جہاں سڑک یا عمارت تعمیر ہو رہی تھی۔ مزدورں کے تحفظ کے لیے ربڑ کے لمبے بوٹ، بڑے دستانے اورکہیں کنٹوپ استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مزدورکو جان و جسم کے بچاؤ کے لیے کوئی سہولت میسر نہیں۔ وہ سڑک بنا رہے ہوں، اینٹیں کوٹ رہے یا اچھال رہے ہوں،سیمنٹ کی تگاریاں الٹا رہے ہوں، وہ اللہ توکل سارے کام کرتے ہیں۔ ایران میں سڑک کی تعمیر و مرمت کا کام دن رات جاری رہتا ہے۔ کام کے دوران ساری سڑک بند نہیں ہوتی۔ تعمیراتی سامان سڑک یا فٹ پاتھ پر نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے ہاں تو کھدائی ، میٹریل ، تعمیر اور تکمیل کے سارے کام جدا جدا مرحلوں میں ہوتے ہیں۔ کسی بھی مرحلے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ۔ مٹی اڑ رہی ہے، شور بر پا ہے، لوگ دھکے کھا رہے ہیں، کھڈے کھدے پڑے ہیں، گاڑیوں کے انجر پنجر ہل رہے ہیں، مگر ٹھیکیدار، سرکاری محکموں اور متعلقہ افسروں پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ ہفتوں کے کام مہینوں اوربرسوں میں جا کر مکمل ہوتے ہیں۔ شاید سرکاری اور کاروباری طبقے اپنے اپنے مفاد کے لیے عوام کی تذلیل اور حصہ خوری پر مفاہمت کر چکے ہیں۔

پٹرول:

            ایٹمی توانائی کے حصول میں کامیاب یپش رفت مگر اصلاً اسلامی انقلاب کی کامیابی اور عراق و لبنان میں اپنی پے در پے نا کامیوں کے باعث امریکی استبداد ایران کے معاملے میں بُری طرح جھلاّ چکا ہے۔ اس دشمنی کے نتیجے میں ایران کو جدید ٹیکنالوجی اور عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اس کے باجود حکومت اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات اور مراعات(Subsidies) دے رہی ہے۔سپر پیٹرول ساڑھے نو روپے، ریگولر سات روپے اور ڈیزل چار روپے لیٹر ہے۔ یہ قیمتیں ہماری طرح ہر پندھواڑے بڑھائی نہیں جاتیں۔ البتہ پیٹرول کی راشننگ ہے۔ اسی لیے پمپوں پر کاروں کی لمبی قطاریں ہوتی ہیں جہا ں پر مٹ پر پٹرول ملتا ہے۔

آرائش گاہ:

            بال کٹوانا ہر معاشرے میں ضروری سمجھاجاتا ہے۔ تا ہم ایران میں اسے آرائش گاہ کہا جاتا ہے ۔ بسوں اور جہازوں کے اڈوں اور دیگر عوامی مقامات پر حجام کی دکانیں موجود ہیں۔ قینچی سے زیادہ مشینی کام ہوتا ہے۔ بعض حجام اپرن استعمال کرتے اور ہر کٹنگ کے بعد صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ ہمارے زلف تراش تو صبح اٹھ کر ایک بار منہ ہاتھ دھوتے اور اس کے بعد یہ عمل اگلے روزدہراتے ہیں۔ اپرن کے استعمال اور بار بار ہاتھ دھونے سے کام کرنے والا اور گاہک ،دونوں کئی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ خط بنوانے کے دام صبح 300 تومان بتائے مگر شام کو 500 تومان ادا کئے۔ کام تیزی اور سادگی سے ہوتا ہے۔ وقت کاٹنے کے لیے اسلامی کتابیں اور ادبی رسالے موجود ہوتے ہیں۔ دکان کا فرش صاف کرنے کے لیے بال اڑاتے جھاڑو کی جگہ ویکیم کلینر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح حجامت کے دوران کٹے ہوئے بال سکر (Sucker) سے اٹھائے جاتے ہیں۔ حجام گندے تو لیے سے بال نہیں جھاڑتا۔

پاکستانی زائرین:

            پاکستان سے مرد عورتوں کی بڑی تعداد ایران جاتی ہے تا کہ مزاروں اور مقدس مقامات کی زیارت کر سکے۔ یہ سب لوگ فارسی ، انگریزی اور بعض اردو سے بھی پوری طرح مانوس نہیں ہوتے۔ اسی لیے یہ سادہ لوگ ایجنٹوں کے ایجنٹوں اور پھر آگے ان کے ایجنٹوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے جیسے اس میدان میں کوئی روک ٹوک نہیں۔ دراصل یہ ایک نوع کی انسانی سمگلنگ ہے جو محدود وقت کے لیے کی جاتی ہے۔ اسے کوئی بھی فقہی نام دیا جا سکتا ہے ۔ اس سفر کو اچھے طریقے سے اور اچھے مقصد کے لیے برؤ ے کار لانا چاہیۓ۔ایک طرف ایرانی عالم توحید یا امامت کے فلسفے پر بات کر رہا ہے اسی عمارت کے ایک کونے میں پاکستانی زائر اپنے علاقے کے ذاکر سے نہ سمجھ آنے والی سوز خوانی سن رہا ہے۔ مختلف زبانوں میں گائڈ، کتابچے اور دعائیں میسر نہیں ہیں۔

انگریزی اخبارات:

            ایران کے دو انگریزی روز نامے،Tehran Timesاور Iran Dailyدیکھنے کا موقع ملا۔ اخبارات کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ ہمارے انگریزی اخبارات کی زبان ثقیل اور ادبی قسم کی ہوتی ہے۔ امریکہ مخالف خبروں ، ترقیاتی اور تعمیری اطلاعات اور غیر امریکی ملکوں سے تعاون کو نمایاں طور پر پیش کیا جاتا ہے۔لاہور کے Daily Timeکی طرح غیر اخلاقی خبریں اور دیگر اخبارات جیسی مخرب اخلاق تصاویرشائع نہیں ہوتیں۔ ایرانی اخبار کے مطالعے سے خبریں جیتی جاگتی لگتی ہیں اور ایک متحرک معاشرے کا احساس ملتا ہے۔ ان میں اشتہارات کی بھر مار اور دوسرے رسالوں سے لیا ہوا موادنہیں ہوتا۔

            تہران ٹائمز کے شمارہ14نومبر2007ع میں بے نظیر بھٹو کا بیان پڑھا کہ مشرف مستعفی ہوجائے ۔ اپنی نظر بندی کے بعد اس نے مشرف کے تحت حکومت سازی مسترد کر دی۔ بے نظیر نے یہ بھی کہا کہ وہ رہا ہو کر وسیع تر سیاسی اتحاد بنائے گی جس میں نواز شریف بھی شامل ہو گا۔ اس نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ مشرف کے ہوتے ہوئے اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل نہیں ہو گا اس لیے ممکن ہے پیپلز پارٹی انتخاب میں حصہ نہ لے ۔ اسی دوران امریکی کارندے نیگرو پونٹے کے دورۂ پاکستان کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ۔ اسی اخبار کے پہلے دوسرے صفحے پر انجینئر حسن نفیسی کا مضمون ہے۔Setting up Islamic Trade Organization یعنی تمام مسلم ممالک اپنی ITOبنائیں جو WTOکا توڑ ثابت ہو۔ایران ڈیلی نے 11نومبر2007ع کواسلام آباد سے خبر دی کہ پاکستان ایک ماہ میں نارمل ہو جائے گا۔ اوریہ کہ جنرل مشرف کہتا ہے کہ ایمر جنسی دہشت گردی کو روکنے کے لیے لگائی ہے تا ہم ایمر جنسی نے عملاً آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کو شدت سے نشانہ بنایا ہے۔ خبر میں امریکہ کا بار بار ذکر آیا ۔سر ورق پر ایران، پاکستان ، انڈیا گیس پائپ لائن معاہدہ ہونے کی تصویر ہے اور آگے خبر ہے۔ ایک خبر میں میو ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر ریاض بھٹی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں 15-10فیصد اضافہ ہواہے ۔

            17نومبر کے ایران ڈیلی میں بے نظیر کی تصویر کے ساتھ اس کا بیان ہے کہ نگران حکومت قابل قبول نہیں ۔ ہم آمروں سے بات نہیں کریں گے۔ ‘‘ گاجر یا چھڑی ’’ کے عنوان سے ایک جیالے کی گرفتاری کی تصویر ہے۔یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ مشرف کی وجہ سے 27ملکی امدادی فورم پاکستان کی امداد کم کرنے کی سوچ رہا ہے۔

حرف آخر

            کہنے کو تو سب یہی کہتے ہیں کہ ہمارا رسول ایک ، کعبہ ایک ، کلمہ ایک اور کتاب ایک بلکہ قائد اعظمؒ ایک مگر اس کے باوجود پاکستانی معاشرہ اتنی اکائیوں میں بٹا ہوا ہے کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ ذات پات ، برادری، مذہب، شہری دیہاتی ، لسانی اور علاقائی، فقہی اختلاف، ایک فقہی مکتب فکر اور ایک صوفی سلسلے کے اندر ہوتے ہوئے بھی اظہاری (Expression)اور جزئی اختلاف ، ملازمتوں میں درجہ بندیاں ، سیاسی دھڑ بندیاں، تعلیم کے نصف درجن نظام۔ ایک ملک کے اندر مختلف مفادی ٹولے اور ان کے مضبوط و مربوط شکنجے۔ غرض عام آدمی کے لیے جگہ جگہ رکاوٹیں ، محرومیاں اور بے عزتیاں لکھی ہوئی ہیں۔

            نوکر شاہی ، سیاسی اور دیگر مفاداتی گروہوں میں داخل ہونا یا ان کو آسانی سے عبور کرنا محال…… غرض اس تقسیم در تقسیم سے آنکھوں میں مسدس حالی کا نقشہ پھر جاتا ہے۔ ان تمام تفرقوں اور تقسیموں کے مظاہرپاکستان کے دفتروں ، گلی کوچوں، قوانین و ضوابط ، رہن سہن اور میل جول میں فراوانی سے مل جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں محسوس ہوتا ہے کہ ایرانی معاشرہ یوں توڑنے پھوڑنے والی تقسیم کا شکار نہیں ہے ۔اس میں مطابقت و مماثلت کو موافقت کی بنیاد بنایا گیا ہے اور جگہ جگہ اتفاق و اتحاد اور احترام آدمیت کو فروغ دیا گیا ہے ۔ ایران کے علماء بہت پڑھے لکھے ور اپنے علمی سلسلوں سے مربوط ہیں۔ ان کے اندر نیچے کی سطح پر انتشار کم ہے اس لیے اوپر کی سطح پر اختلاف اتنا شدید نظر نہیں آتا۔ چنانچہ جب علماء نے رضا شاہ پہلوی کی معزولی کے بعد ایران کی قیادت سنبھالی تو قوم کا رخ پیرس اور واشنگٹن سے مکہ مدینہ کو پھر گیا۔ لیڈر شپ مخلص اور با عمل تھی۔ سول فوجی بیورو کریٹ کا قلع قمع کرنے کے بعد اسے ملک کے ٹیکنو کریٹ طبقہ کا مکمل تعاون اور ان کی رہنمائی حاصل تھی۔ چنانچہ قوم نے بھی نئی آواز پر لبیک کہا۔ کچھ صبر اور کچھ جبر کے بعد بالاخر نئی پود نے اسلامی طرز حیات کو قبول کر لیا ۔ عورتوں نے اس معاشرت کو اپنا لیا جو اسلام کا تقاضا ہے۔ ایران کی قومی اور مذہبی قیادت کی یہ خوبی نظر آتی ہے کہ اس نے ‘‘ خذما صفا’’ کے تحت ماضی کی اچھائیوں اور معروف روایتوں کو اپنانے سے گریز نہیں کیا البتہ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو عملاً ملحوظ رکھا ہے ۔ عورتوں کو قومی اور معاشرتی دھارے میں پوری طرح شامل کیا ہے۔ عورت اب حجاب کے ساتھ عملی زندگی میں پوری طرح حصہ لیتی ہے اسے کسی جگہ رکاوٹ یا محرومی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

             ایران میں ہمارا قیام بہت مختصر تھا۔ مختلف طبقوں کے موثر لوگوں سے رابطہ مفقود تھا۔ زبان ‘‘ ترکی’’ تھی۔ اس لیے اندر کی باتیں نکالنا ممکن نہ تھا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ کسی بھی معاشرے کے اندر گھسنے اور اندر کی خبریں لانے کے لیے زبان ، وقت اور رابطہ ضروری ہے۔ ممکن ہے اس طرح ہمیں ایرانی تہذیب و معاشرت کے کمزور پہلو مل جاتے مگر ایسی کمزوریاں اور کمیاں کہاں نہیں ہوتیں، کون سا دور اور کون سا معاشرہ بشری غلطیوں سے پاک رہا ہے؟ چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایران میں اخلاقی مفاسد اور جرائم بالکل ختم ہو گئے ہیں۔ وہاں تھانے اور پولیس ہے۔ عدالتیں اور جیل خانے ہیں۔ کرپشن اور ریپ سے لے کر منشیات اور قتل تک کے جرائم سرزد ہوتے ہیں۔ مزارات پر جانے والوں کے مقابلے میں مسجدوں کے نمازیوں کا تناسب بہت کم ہے ۔ قرآن مقبول عام کتاب نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں کیا ہے ؟ مسجدیں بھری ہوئی ، عمرہ کے لیے لمبی لائنیں ، گھر گھر میں ختم اور مجلس کا اہتمام ، درود و سلام کی محافل ، رسمی اور روایتی اسلام کی پاسداری مگر ہمارے اخبارات قتل و غارت، سڑکاتی اموات ، ریپ بلکہ گینگ ریپ، تیزاب پھینکنے، گھر جلانے ،غنڈہ گردی، فریب اور فراڈ ، مار دھاڑ، لوٹ مار، ڈکیتیوں اور راہزنی کی خبروں سے بھرے ہوئے …… ایران میں رپورٹ شدہ جرائم ہمارے مقابلے میں بہت ہی کم نظر آتے ہیں پھر وہاں جرائم کی سنگینی ہمارے ہاں کی درندگی اور سفاکی سے کہیں کم تر ہے ۔ جیسے وہاں کوئی ‘‘غیرت مند ، جنگ جو اور انتقام لینے والی قوم ’’ نہیں بستی بلکہ کسی دیہاتی مڈل سکول جیسا امن سکون نظر آتا ہے۔

            ایک متوازن معاشرے کے قیام میں قوم میں وحدت و یگانگت کی اقدار خصوصاً نظام تعلیم و گڈ گورنس اور قومی زبان فارسی کا فروغ ، مساجد کی محدود تعداد اور لاؤڈ سپیکر پر پابندی۔ جزا و سزا کا کڑا عمل، وی آئی پی کلچر کا کلی سد باب ، دولت کی مساویانہ تقسیم، فوری انصاف اور فوز و فلاح کے سرکاری اقدامات…… یہ تمام امور مثبت پیش رفت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

             اور یہی ایک فلاحی، جمہوری اسلامی ریاست کا مقصود ہے ۔