چھوٹا چوکیدار

مصنف : ڈاکٹر مظہر

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : فروری 2012

            میرا دس سالہ چھوٹا بیٹا عمر ایک نجی اسکول میں چوتھی جماعت کا طالبعلم ہے۔ ہر روز سونے سے قبل اپنی ماں سے دل کی باتیں کرنا، کوئی کہانی سننا اور کلمہ اور دعا پڑھ کے سوجانا اس کا معمول ہے۔ لیکن گزشتہ شب اس کے معصوم مگر حد درجہ حساس ذہن نے ایک عجیب بات اپنی ماں سے کہی۔ کہنے لگا: اماں ہم جب صبح کلاسیں شروع ہونے سے پہلے اسکول کے صحن میں جمع ہوتے اور قومی ترانہ گاتے ہیں تو اسکول کی چھت پر سے، چوکیدار بابا (دریا خان) کے بچے ہمیں دیکھتے ہیں۔ اماں کیا وہ ہمارے ساتھ پڑھ نہیں سکتے؟

             عمر کی ماں کو اپنے کم سن بیٹے سے اتنے بڑے سوال کی توقع نہ تھی۔ اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد یہ کہہ کر عمر کو مطمئن کردیا کہ ‘‘بیٹا یہ اللہ کی مرضی ہے’’۔ ماں کو تو اپنے لعل کی پرسکون نیند مطلوب تھی اور اس بھلی مانس کے پاس اس روایتی توجیہہ کے علاوہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب تھا بھی نہیں۔ عمر اس جواب پر ‘‘ٹھیک ہے’’ کہہ کر سو بھی گیا۔ مگر مجھے اس رات دیر تک نیند نہیں آئی۔ میرا ذہن سوچوں میں الجھ گیا۔ بیسیوں جواب طلب سوالات ذہن میں گردش کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ تو عمر کی والدہ کے جواب سے حل ہوگئے اور کچھ ذہن پر بار بن کر اس مضمون کی نذر ہورہے ہیں۔

             یہ بات ٹھیک ہے کہ نجی اسکولز خاطر خواہ تعداد میں ہمارے ملک کے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے نہ صرف یہ کہ شرح خواندگی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں بلکہ آگے چل کر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد میں نمایاں اضافے کا باعث بھی بنیں رہے ہیں۔ مگر میری الجھن اور سوالات کچھ اور ہی تھے۔

             میرا پہلا سوال نجی اسکول کے مالکان سے یہ ہے کہ کیا تعلیم اس چوکیدار کے بچوں کا حق نہیں ہے جو ہمارے بچوں کی حفاظت میں مستعد رہتا ہے؟ کیا اس کے بچے اسکول میں پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں؟ کیا ان میں کوئی بھی قائد اعظم یا علامہ اقبال بننے کی اہلیت نہیں رکھتا؟ مان لیا کہ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے مگر کیا یہی عذر ڈھیروں اور بھاری فیسیں وصول کرنے والے نجی اسکولوں کے مالکان کی طرف سے بھی قابل قبول ہوسکتا ہے؟

             میرا دوسرا سوال اس ملک کے ارباب حل و عقد سے یہ ہے کہ ایک معمولی چوکیدار کے بچے ہی کیا اس ملک کی کثیر دیہی آبادی میں کتنے ہی نونہال ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کے پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔ اس صورتحال پر ہم کیوں بے حس ہیں؟ ہمارا ضمیر کیوں مرچکا ہے؟ دریا خان جیسے چوکیدار جنہیں یہ آسرا ہوتا ہے کہ وہ نہیں تو کم از کم ان کی اگلی نسل خوشحال اور تعلیم یافتہ ہوگی، ہم نے کس قدر بے دردی کے ساتھ ایسے لوگوں سے بہتر مستقبل کا خواب اور امید چھین لی ہے۔ اب وہ ایک بنگلے میں قائم نجی اسکول کی چھت پر چھوٹے چوکیداروں کو پال رہا ہے۔

            میں سوچتا ہوں کہ وہ کم سن بچے جو روز اسکول میں پڑھتے اپنے ہم عمر بچوں کو اجلا یونیفارم پہنے اور کھیلتے کودتے دیکھتے ہوں گے، وہ کیا ماں کی آغوش میں سونے سے پہلے اس سے یہ سوال نہ کرتے ہوں گے کہ ‘‘اماں ہم اسکول میں کیوں نہیں پڑھ سکتے؟’’۔ دریا خان اور اس کی بیوی ان معصوموں کو کیا جواب دے کر مطمئن کرتے ہوں گے۔ ان کی ماں شاید یہی کہتی ہوگی کہ بیٹا یہ امیر لوگوں کا اسکول ہے۔ اس میں امیر لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں اور ہم غریب ہیں۔ اس پر یہ چھوٹے چوکیدار یہ نہ پوچھتے ہوں گے کہ ‘‘اماں غریب کا کیا مطلب ہوتا ہے؟’’۔ اگر ایسا ہی مکالمہ ہوتا ہوگا اور یقینا ہوتا ہوگا تو میں سوچتا ہوں کہ ہم نے مملکت پاکستان کے ان غریب شہریوں کو یہ بات بتلادی ہے کہ تم ایک دن بڑے چوکیدار ہی بن سکتے ہو۔

             ظالم حکمرانوں، رشوت خور کارندوں، ذخیرہ اندوز تاجروں اور مہنگائی کی دلدل پر تبصرے اور شکایتیں کرنے والوں سے میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ملک کی پچاسی فیصد لوگوں کو جہالت اور ناخواندگی میں چھوڑ کر کسی بھی نوع کی قومی ترقی کا تصور کرسکتے ہیں؟ کیا ہم جیسی تعلیم دشمن قوم موجودہ مشکلات سے نکلنے کی کوئی راہ پاسکتی ہے؟

             آپ مجھ سے اتفاق کریں یا نہ کریں میرا تجزیہ یہ ہے کہ اچھے اخلاق و کردار کے حامل اور تعلیم کے زیور سے آراستہ افراد اور ان پر مشتمل قوم کبھی ظالم حکمرانوں، رشوت خور اہلکاروں اور بے حس لٹیروں کے نرغے میں نہیں آسکتی تھی۔ اس عمارت کی بنیادیں تو نہیں البتہ اس عمارت کی اینٹ اینٹ ضرور خستہ حال ہے۔

             میرا دردمندانہ مشورہ ہے کہ اس ملک کے اہل دل اور اس کے شعبہ تعلیم کے ماہرین، خواہ ملک میں ہوں یا ملک سے باہر، کوئی فورم بنائیں، سر جوڑیں، ان چھوٹے چھوٹے چوکیداروں اور ان جیسے کروڑوں بچوں کو بنیاد بناکر کوئی بہتر تعلیمی منصوبہ بندی کریں۔ کسی بھی عمارت کی تعمیر کا یہی پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ اسی گارے سے نئی اینٹیں اور پھر ایک نئی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔

             یہ بات شاید بہت سے لوگوں کے لیے نئی ہو کہ دنیا کے تمام فلاحی اور رفاہی کام کرنے والے ملکوں کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ اس ملک کے اہل حیثیت اور صاحبان ثروت افراد اپنی فقط زکوٰۃسے وہ تمام وسائل فراہم کرسکتے ہیں جو اس کام کے لیے درکار ہوسکتے ہیں۔ یہ کام حکومت کے اہلکار نہ کرسکیں گے اور نہ پچھلے ساٹھ برسوں میں انہوں نے کوئی معقول تعلیمی پالیسی دی ہے۔ آئندہ بھی ان سے توقع عبث ہے کیوں کہ ان کی ترجیحات اور مسائل ہی کسی اور دنیا سے متعلق ہیں۔ محکمہ تعلیم نے کبھی تعلیم کو اپنا مسئلہ ہی نہیں بنایا۔ یہ کام تو قوم کے باضمیر لوگوں اور محب وطن اور قوم و ملت کا درد رکھنے والے ماہرین کو ہی کرنا ہے:

ہٹھوں سٹ جدوں دا عاصہ آندی قلم دوات
منزل مینوں واجاں مارے رستہ نور و نور

میں نے جب سے ہاتھ سے ڈنڈا پھینک کے قلم دوات سنبھالی ہے اسی دن سے منزل نے مجھے پکارنا شروع کردیا اور میرا راستہ روشن اور پرنور ہوگیا۔