خمینی و فردوسی کی سرزمین

مصنف : ڈاکٹر انوار احمد بگوی ، خانم فرحت احمد بگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جنوری 2012

قسط۔۱۱

             جمعہ جمعرات دو دن کام سے چھٹی ہوتی ہے۔ان دنوں مزارات پر اور بازاروں میں خوب چہل پہل ہوتی ہے۔ ایک پارک میں چھوٹا سا خیمہ دیکھا جس میں ایک فرد آرام کر رہا تھا ۔ سڑک کے کنارے گاڑی پارک تھی۔ معلوم ہوا یہ بھی ایک تفریح ہے کہ گھر سے باہر یوں رات گزاری جائے۔ تفریح کے لیے سینما موجود ہیں۔ روز نامہ ڈان کے مطابق ایرانی فلسمازوں نے اعلیٰ فنی شاہ پارے بنا کر مغرب سے تحسین اور انعام کمایا ہے ۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ان فلموں میں اسلامی جمہوری ایران کے تمام اخلاقی اصول اور سماجی ضوابط پوری طرح ملحوظ رکھے گئے ہیں۔

             واقعہ یہ ہے کہ ایرانی انقلاب حقیقتاً اسلامی انقلاب ہے اسی لیے وہ مشرق و مغرب کے ہر انقلاب سے مختلف اور منفرد ہے۔ایران میں عورت کا انسان اور بطور مسلمان احترام اور اس کی قدر و منزلت جدید دور میں منفرد اور نادر ہے۔ عورت کو تو مغربی تہذیب نے ایک کھلونا ، ایک تفریح اور ایک اشتہار سے زیادہ وقعت نہیں دی۔ اگر کسی کے نزدیک ایرانی خاتون کی قدر و منزلت محرومی اور پابندی ہے تو اس سے زیادہ وقار اور تکریم کیا ہو سکتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ مسلمان عورت نمائش اور اشتہاری رول کو پسند نہیں کرتی۔ گھر سے باہر نکلتے وقت جسم ڈھانپتی اور گہرے میک اپ سے گریز کرتی ہے ۔مگر بیشتر اسلامی ممالک کے معاشروں میں ڈیڑھ دو فیصد وسائل پر قابض طبقے کی عورتیں حاوی ہیں اوراپنی پسند کے مغربی رہن سہن کو روشن خیال اسلام اور تہذیب و ترقی قرار دیتی ہیں۔

            زندگی کے عملی مظاہرات دیکھیں تو ایران میں جگہ جگہ پاکستان سے مختلف نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ صرف صفائی کو لیں۔ لاہور کے ایک شاعر ،جناب عزیز فیضانی مرحوم نے برسوں پہلے لاہورکی حالت کا نقشہ کچھ یوں کھینچا تھا:

گلیاں ہیں پر تعفن’ میدان ہیں پر کثافت

ہیں غم فزا نظارے، مسموم ہیں فضائیں

صحت کو کھا رہی ہیں لاہور کی ہوائیں

یہ دودھ اور یہ پانی، یہ گوشت یہ غذائیں

سر زد ہوئی تھیں ہم سے اللہ کیا خطائیں

جن پہ مل رہی ہیں ہم کو یہ سزائیں

(متاع عزیز، ص322)

            آزادی کے ساٹھ سال کے بعدبھی عروس البلاد لاہور میں بیمار سڑکیں ، ٹوٹی گلیاں ، ابلتے گٹر ، بہتے سیوریج، پانی کی رستی نالیاں ، ملاوٹ، غلاظت،آلائش ،آلودگی، شور دیکھنے میں آتا ہے…… غرض آج بھی ایک حشر بپا ہے جس کی آگ میں لاہور کا ہر شہری کسی نہ کسی درجے ضرور جھلس رہا ہے ۔ پنجاب کے باقی شہروں کی حالت تو لاہور سے بھی ابتر اور اذیت ناک ہے۔

صفائی اور سینی ٹیشن:

            ایران میں صفائی کا عمل آدھی رات کے بعد شروع ہوتا اور اگلے 24 گھنٹے مسلسل جاری رہتا ہے ۔ کچرا پھینکنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں کوڑے دان ہیں جن میں بڑا سیاہ شاپر موجود ہوتا ہے ۔ عملہ صفائی کی وردی نارنجی رنگ کی ہے۔ ہاتھوں میں ربڑ کے مضبوط دستانے ، منہ اور ناک پر ماسک، سر پر حفاظتی ہلمٹ،پاؤں میں ربڑ کے جوتے، قمیص پر آگے پیچھے چمکنے والی پٹی۔ یہ لو گ ڈیوٹی کے دوران کو ڑا کرکٹ لا لا کر کوڑے دان بھرتے رہتے ہیں اور گاڑیاں بھرے ہوئے سیاہ شاپر بدلتی رہتی ہیں۔ ہم نے کسی سینٹری ورکر کو فارغ یا پوری وردی کے بغیر نہیں دیکھا۔ عام لوگ چلتے یا بیٹھے ہوئے کچرا پھینکتے نہیں، ڈسٹ بن استعمال کرتے ہیں۔

            دوسری طرف پاکستان میں صفائی کے بارے میں عوامی آگہی کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے ۔ایک خاتون نے دوسری مسافر خاتون کو توجہ دلائی کہ وہ چوسی ہوئی گنڈیریاں بس کے اندر فرش پر نہ پھینکے، گنڈیریوں کے شاپر کے اندر ہی چھلکے ڈال لے۔ تیسری خاتون نے لقمہ دیا کہ دو گنڈیریوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آخر پہلے بھی لوگوں نے بس کو کچرے سے بھر دیا ہے۔ اس پر دوسری خاتون چوسی ہوئی گنڈیریاں بس کی کھڑکی سے باہر سڑک پر پھینکنے لگی۔ پہلی خاتون چپ نہ رہ سکی اور بولی:‘‘ بہن! تم چھلکے اندر ہی پھینک لو ، باہر کسی کے سرپر لگے گے اورکچرا سڑک پر پھیل جائے گا۔ ’’

            مذہبی مراکز پر تو عملہ صفائی ہاتھوں اور مشینوں سے برابر صفائی کرتے رہتے ہیں۔ زائرین اور سیاح بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ گندگی اور کچرے کو سمیٹ کر رکھیں اور ماحول کو آلودہ نہ کریں۔ یہی وجہ کہ شہر میں کہیں بھی کوڑے کے ڈھیر، انبار یا غلاظت نظر نہیں آتی۔ ایران جس کی آبادی کا زیادہ حصہ شہروں میں رہتا ہے، عفونت وغلاظت کے ان مناظر سے پاک ہے جو تیسری دنیا میں اکثر اور ترقی یافتہ ممالک کے مضافات میں بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی ‘‘مہربانی’’ اور ان کی نوکر شاہی کی بدولت پاکستان کے کسی شہر کا کوئی گلی محلہ کوڑے ، کچرے اور غلاظت کے ڈھیروں سے پاک نہیں ۔ خوبصورتی کی آڑ میں نوکر شاہی نے پارک اینڈ ہا رٹی کلچر کے نام سے کثیر المصارف محکمے تو کھڑے کر لیے ہیں مگر گندگی کے نکاس اور اس سے نجات کے لیے ملک میں فوجی چھاؤنیوں اور جی او آر کے علاوہ کہیں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی۔

حفاظت:

            ایران میں تعمیر و ترقی کے کاموں کی رفتار نظر نہیں آتی، لیکن جو کچھ ان کے پاس ہے، اسے ایرانی سینت سینت کر ،صاف ستھرا اور چمکا د مکا کر رکھتے ہیں۔ ہم نئے منصوبے بڑے طمطراق سے شروع کرتے ہیں لیکن وہ اکثر نا مکمل رہ جاتے ہیں یا زیادہ خرچ سے دیر بعد مکمل ہوتے ہیں۔ بنانے کے بعد پھر ان کی دیکھ بھال کرنا بھول جاتے ہیں۔ پرانے کاموں ’ پرانی عمارتوں اور پرانی مشینوں کے بارے میں ہمارا رویہ سرد مہرانہ اور لا پرواہی کا ہے۔ ایران میں نیا پن کم ہے لیکن جو کچھ ہے، اسے بڑی محنت اور محبت سے سجایا ہوا ہے۔ ایران کی عوامی جگہیں اور عوام کی ضرورت کے ادارے قابل رشک حد تک اچھی حالت میں کام کر رہے ہیں۔

خورو نوش:

            ایران میں کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری اور فروخت کا مضبوط اور اعلیٰ نظام ہے۔ کوئی تیار شدہ چیز ایسی نظر نہیں آتی جس پر اجزائے ترکیبی،تاریخ ساخت اور تاریخ اختتام(Manufacturing & Expiry Dates ) فارسی اور بعض پر انگریزی کے ساتھ درج نہ ہوں۔ بسکٹ ، کیک، پیسٹریاں غرض بیکری کی تمام اشیاء پیکڈ حالت میں اور اجزاء کی مطبوعہ تفصیل کے ساتھ بیچی جاتی ہیں۔ تازہ ، خستہ اور لذیذہوتی ہیں۔ گوشت کی دکانوں کے اندر باہر کوئی مکھی، بلی ، کتا یا کوا نظر نہیں آتا۔ گوشت دکان کے اندر اور کئی حصے فریز میں لٹکے ہوئے۔ ہر دکان پر کمپیوٹر ترازو جس پر وزن اور نرخ گاہک کو بھی نظر آجاتا ہے۔ کسی دکاندار نے اپنی دکان کے باہر کسی قسم کی تجاوزات نہیں رکھی۔ ہوٹل صاف اور بد بو سے پاک ۔ کھانے کا آرڈر دینے کے بعد زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ہمارے ہاں جس طرح سر عام غلیظ کپڑوں میں اور گندے ہاتھوں سے حلال کر کے تڑپتی مرغی ڈرم میں پھینک دی جاتی ہے اور مذ بوح پرندے کی ڈرم سے ٹکرانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، ایسا کوئی نظارہ ایران میں نظر نہیں آتا۔ آخر پاکستانی اپنی آزادی پر خوش کیوں نہ ہوں؟ سر بازار تلتے پکوڑے اور جلیبیاں ، پرانے تیل میں سڑ سڑاتے سموسے اور پھینیاں ، ٹکا ٹک کی صدا، کنڈوں پر لٹکے بے لباس مرغ، یخنی کے تسلے کے اوپر بکرے کا سر اور ابلے ہوئے سفید انڈے ، چوک میں حلوہ پوریاں اور دیگر ماکولات بیچتا خوانچہ فروش…… شاید ایران ابھی ترقی اور آزادی کے اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں اپنی نوکر شاہی اور لا قانونیت کے سبب ہم کب سے برا جمان ہیں۔

            ایرانی کھانوں میں چَلّو کباب،زرشک پلو( پلاؤ) با مرغ ششلیک، ماھیچہ، گوشت ، برگ مخصوص/ معمولی ، جوجہ کباب مع یا بغیر ہڈی/ معمولی، سلطانی مرغ ،کوبیدہ، بختیاری ، لقمہ طلائی ، سالار فصل،ماست،نوشابہ،سوپ،دوغ(لسی) ترشی ،زیتون ، دلستر وغیرہ شامل ہیں۔پکانے میں روغن حیوانی(گھی) اور نمک کم استعمال ہوتا ہے ، کھٹائی ، سبزیاں ، پھل، دودھ زیادہ۔

ایرانی چائے:

            جیسا کہ بیان ہو چکا ایران میں چائے کے ہوٹل اور سگریٹ پان کے کھوکے نظر نہیں آتے ۔ دراصل ایران میں چائے نوشی اس طرح کی عادت یا لت نہیں جس طرح پاکستان میں ہر جگہ اسے قومی مشروب اور سماجی ضرورت سمجھ کر پیا جاتا ہے ۔ گھر ،بازار ، شہر دیہات ، محلہ پارک، سفر حضر، غرض ہمارے ہاں چائے کے لیے کوئی جگہ متعین ہے اور نہ کوئی وقت۔ بازار اور اکثر گھروں کی چائے دودھ اور چینی کے آمیزے کا آب جوش ہوتا ہے۔جتنا زیادہ کاڑھا جائے، مصطفی قریشی کی کڑک چائے بن جاتی ہے ۔ ایران کی چائے میں دودھ اور چینی نہیں ہوتی۔ اُبلتے پانی میں چند پتیاں چائے کی ڈالتے ہیں ۔ اسے جوش دے دے کر بے دم نہیں کرتے ۔ شوقین اس ہلکے قہوے کے ساتھ چینی کی ڈلیاں منہ میں رکھ لیتے اورچسکیوں سے چائے پیتے ہیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ:

            ایران میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہت منظم، با افراط ، اعلیٰ اور انتہائی سستا ہے۔بسیں پرانی مگر اچھی حالت میں ہیں۔ نئی بسیں تو بہت ہی آرام دہ ہیں۔ یہ بس عام سائز کی ہیں اور لمبائی میں ڈبل بھی جو درمیان سے ریل کے ڈبوں کی طرح جڑی ہوئی ہیں۔ بسیں سی این جی سے چلتی ہیں۔ کسی پرانی بس یا کار کو بھی ویسا کثیف دھواں چھوڑتے نہیں دیکھا جیسا پاکستان میں ہر دوسری تیسری آٹو موبائل ( کار ،بس، رکشہ، موٹر سائیکل) چھوڑتی دکھائی دیتی ہے ۔ چنانچہ شہرکی فضا کثافت سے پاک ہیں۔ ٹریفک جام تہران کے ایک حصے میں در پیش آیا جہاں چینی ماہرین کی مدد سے کوئی سڑک زیر تعمیر تھی۔ بس میں صرف ڈرائیور ہوتا ہے جو گاڑی چلاتا اور مسافروں سے ٹکٹ ( بلیط) بھی وصول کرتا ہے ۔ یہ ٹکٹ مقررہ ونڈوز (ویژہ) سے ملتے ہیں۔ سرکاری بسوں کا کرایہ 2،3روپے سے زیادہ نہیں۔ بسیں صاف ستھری ہیں عورتوں کا حصہ الگ جس کا راستہ بھی الگ ہے۔ شہری بسوں کے مختلف اڈے ہیں جہاں سے مقررہ پڑاؤ تک بسیں چلتی ہیں۔

            تہران میں زیر زمین ریل بھی چلتی ہے جسے میٹرو کہتے ہیں۔ انتہائی تیز رفتار، سستی ، بافراط ، صاف ستھری اور منظم اس کا پورا نام شرکت راہ آہن شہری تھران وحومہ (مترو) ہے یعنی Tehran Urban & Suburban Railway Co (Metro) مسافروں کو محترم اور گرامی کے لاحقے سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ سارا نظام ٹکٹ خریدنے کے بعد خود کار ہے۔ لندن کی مشہور زیر زمین ٹیوب، ایرانی میٹرو کے مقابلے میں پر ہجوم ، شوروالی ، پرانی اور غیر آسودہ ہے۔

            ایران میں ایک اہم ذریعہ سفر ٹیکسی ہے یہ با افراط ، اکثر پرانی اور غیر منظم ہیں۔ سرراہ سالم اور فی مسافروالی ملتی ہے اور ٹیلی فون کے ذریعے بھی۔ اسلام میں اگر کوئی 73واں فرقہ ہو، تو وہ لازماً ٹیکسی اور بسوں کے ڈرائیور/ کنڈیکٹر ہوں گے ۔ تہذیب و شائستگی سے دور ،دام غیر مقرر اور اکثر نا مناسب، غالباً یہ ایک عالمی فرقہ ہے جو مردم بیزار ، ٹریفک قوانین سے نالاں اور اپنے ہی انداز میں ہی زندہ رہنے کا قائل ہے۔ہر جگہ ان کا طریقہ وارادات ایک جیسا ہے۔تا ہم پاکستان کے رکشا ڈرائیور اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر ایرانی ہم پیشہ سے آگے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایرانی ڈرائیور کی ٹریفک پولیس سے جان جاتی ہے جبکہ پاکستانی ڈرائیور اپنی ٹریفک پولیس کا دوست ہے بلکہ شریک کاروبار۔ ان دونوں کا ہدف بے وسیلہ اور بے آواز مسافر ہوتا ہے۔ایرانی ٹیکسی میں بھی کوئی میٹر ہے اور نہ مقررہ کرایہ نامہ، ڈرائیور جب اور جہاں چاہے مزید کرائے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس لیے اکثر بیٹھتے او راترتے وقت بحث اور جھگڑا کرنا پڑا۔ غالباً انقلاب کا سب سے کم اثر ٹیکسی ڈرائیوروں نے قبول کیا ہے۔ انگریزی سے نا واقف ہونے کی وجہ سے ٹریفک پولیس بھی غیر ملکی مسافروں کی مدد نہیں کر سکتی۔ بعض ٹیکسی ڈرائیور نو وارد اور زبان ناآشنا مسافروں کو دھوکا دینے سے بھی باز نہیں آتے۔ اس کے باوجود ہم نے قیام کے دوران کسی شاہراہ یا شہر کی سڑک پر ٹریفک کا عام حادثہ ہوتے نہیں دیکھا۔اس کے مقابلے میں پاکستان میں ہر گھنٹے بلکہ ہر منٹ میں ہر جگہ ان گنت چھوٹے بڑے حادثات ہوتے ہیں۔ ان میں زخمی ہونے ، مرنے والے اور مالی نقصانات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ کسی ضلع ، صوبے یا پورے ملک میں ایسے اعداد و شمار جمع کرنے کا رواج نہیں ۔

ہوائی ذریعہ سفر:

            ایران میں متعدد ہوائی کمپنیاں ہیں۔ پاکستان سے جاتے ہوئے ہمیں بورڈنگ کارڈ تو پی آئی اے کا ملا ۔ مگر ایئر بس ماہان ایئر کی تھی۔ ٹکٹ ہوا پیمائی ماہان انگریزی اور فارسی میں تھا۔ اندرون ملک پروازیں تو بہت ہیں مگر کرائے کم ہونے کی وجہ سے مسافروں کا رش زیادہ ہوتا ہے۔ ایران آسمان ایئر لائینز( آسمان شرکت خدمات ہوائی کشور) کا ٹکٹ تہران مشہد میں بھی انگریزی اور فارسی میں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان پروازوں کا عملہ انگریزی سے نابلد تھا۔ ٹکٹ اور سامان کے ٹیگز پر کمپنیوں کی مصنوعات کے اشتہار ہوتے ہیں۔ یک طرفہ کرایہ 8,66,000 ریال ہے جو پاکستانی حساب سے -/5,775 روپے بنتا ہے اوراتنے فاصلے کے لیے مقابلتاً نصف سے کم ہے۔ ایرانی ہوائی جہاز پر انے مگر اچھی حالت میں ہیں۔ سارا ملک ہوائی رابطوں سے جڑا ہوا ہے۔

تجاوزات:

            خریداری ایک فن ہے۔ غالباً ایرانی دکانداروں سے مول تول کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر چیزوں کے نرخوں میں یکسانیت نظر آئی۔ اس کا اندازہ مشہد میں زعفران اور قُم میں سوہان اور خشک میوہ جات کی قیمتوں سے ہوا۔ ایران کے چار بڑے شہروں میں کسی جگہ تجاوزات نظر نہیں آئیں۔ دکان کا سارا سامان چار دیواری کے اندر ہوتا ہے۔ کوئی تھڑا ہے اور نہ تہ بازاری ،ہر چیز شو کیس اور دکان کے اندر ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک دکان ہے ، اس کے آگے تھڑا ہے، اس کے آگے فٹ پاتھ پر سامان فروخت کی بوریاں ہیں اور اس کے آگے سڑک کے کنارے پر کوئی چھا بڑی والا ہے اور وہ دکاندار کو الگ کرایہ اور عملہ تہ بازاری کو الگ رشوت دیتا ہے۔ اس کے ساتھ دکاندار نے ایک ریڑھی والے کو معاوضہ پر سودا بیچنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس دھاندلی کو سرکاری عملے کی اجازت بلکہ سر پرستی حاصل ہے۔ تجاوزات کے خلاف کبھی کبھی ابال آتا ہے مگر وہ بھی کسی مخالف کا ناطقہ بند کرنے کے لیے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر جگہ تجاوزات کی بھر مار ہے۔ شاہراہیں، سڑکیں ، کوچہ و بازار ، مقابر ،مساجد کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ لوگ ،ایسی مار دھاڑ کرنا جس سے نظم، صفائی اور گزرنا متاثر ہو ، اپنا حق سمجھتے اور پھر اپنی ‘‘ہمدرد’’ اور عیب پوش حکومت سے گلہ کرتے ہیں کہ سڑکیں اور فٹ پاتھ نا پید ہوتے جا رہے ہیں۔ عدم تجاوزات کے سبب ایران میں تنگ سڑکوں پر بھی ٹریفک بے روک رواں ہے اور بڑی بڑی پبلک بسیں آسانی سے چل رہی ہیں۔

لاوارث اور آوارہ جانور:

            ایرانی شہروں میں پاکستان کی طرح آوارہ کتے ،لا وارث گائیں، گھریلو بکریاں ، بھینسیں اور دیگر پالتو جانورگھومتے نظر نہیں آئے۔ کتا تو اب ہمارے ہاں روشن خیالی کی علامت بن گیا ہے ۔ایران میں صفائی تو یوں لگتا ہے جیسے اس قوم کا مذہبی فریضہ ہے۔ کسی شہر میں کچرے کے ڈھیر، اڑتے شاپر اور غلاظت کے انبار دکھائی نہیں دیتے۔ہزاروں کلو میٹر کے سفر میں کوئی سڑک ٹوٹی ہوئی اور کوئی کھڈا نہیں دیکھا۔ کہیں ابلتے گٹر اور لیک کرتے ہوئے پائپ نظر نہیں آئے۔ اس کے بر عکس پاکستان کے بڑے شہروں میں ایسا گلی محلہ بازار کم ہی ہو گا جہاں ٹوٹی سڑک، آوارہ جانور ،غلاظت کے ڈھیر، اڑتے شاپر ، ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں اور کھڈے نہ پائے جاتے ہوں سوائے کینٹ اور جی او آر کے۔

کتابیں ہی کتابیں:

            اگرچہ ایران کے شہروں میں کتاب خانے ، کتاب فروش اورکتاب خواندگی عام ہے، لیکن قُم کو اس معاملے میں خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں ہر دسویں بیسویں دکان کتابوں کی ہے۔ کتابیں صرف مذہب تک محدود نہیں بلکہ ان کے موضوعات میں دین ، روحانیات، معارف، معاشیات، عمرانیات، حیوانیات، نباتات، ادب ، فلسفہ ، تاریخ وفرہنگ، جغرافیہ، تذکرہ، وعظ و تذکیر، الہٰیات ، قرآنیات، تفسیر ، احادیث، فقہ موسیقی و آوازغرض تمام اصناف علم و فن شامل ہیں۔کتابیں مختلف سائز اور دیدہ زیب ٹائیٹل میں دستیاب ہیں۔ طباعت کا معیار اعلیٰ ، مگر کسی بک سٹال پر مغرب کے نیم عریاں ، سیاسی اور ثقافتی رسالے دکھائی نہیں دیئے بلکہ فارسی اور عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان کی مطبوعات شاذ و نادر ہی ملتی ہیں۔ کتابوں کی فراوانی کے ساتھ کتابیں دیکھنے اور خریدنے والوں کا تانتابھی بندھا رہتا ہے ۔ ایسے لگتا ہے جیسے کتابیں پڑھنے کے معاملے میں ایرانی دنیا میں سب سے ممتاز قوم ہے ۔ مغرب میں جسے کتاب سمجھ کر پڑھنے کا رواج ہے، اس کا تعلق علم سے نہیں فکشن یعنی کہانی سے ہے۔ وہ بھی سطحی پلاٹ والی، تشدد آمیز اور جنس آلودہ ہوتی ہے ۔ اس کے بر عکس ایرانی لٹریچر مثبت، حکیمانہ اور غیر متنازع ہے ۔ بچوں کے لیے باتصویر قرآنی کہانیاں وافر دستیاب ہیں۔ ایران میں فارسی عربی کے علاوہ دوسری ایشیائی یا یورپی زبانوں میں لٹریچر نا پید ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انقلاب ایران کی علمی ، مذہبی اور حکیمانہ اساس سے باہر کے لوگ یا تو بے خبر ہیں یا گمراہ کر دیئے گئے ہیں۔ کتابوں کی قیمتیں مناسب لگتی ہیں۔ کتب خانوں کی کثرت بھی کتاب پڑھنے والوں کے ذوق کی تسکین کرتی ہے جہاں پڑھنے کو کتاب اور ماحول شاید مفت دسیتاب ہوتے ہیں۔

             اصفہان اگر اپنی ہریالی کے سبب ورق سبز ہے تو قُم انتشارات کی فراوانی کے باعث بوستان کتاب!

مسجد:

            ایرانی تمدن میں مسجد کوئی الگ سے یا زبر دستی جوڑا ہوا یونٹ نہیں۔ غالباً مسجد بنانے کے لیے اجازت درکار ہوتی ہے ۔اجازت لینے کے لیے ان حدود و قیود کی پابندی کرنا پڑتی ہے جو اجازت دینے والے ادارے نے طے کر رکھے ہیں۔ مساجد کم ہیں، رقبے میں چھوٹی مگر سہولیات میں فراخ ہیں۔ مسجد میں نماز پڑھنے والے نمازیوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر مسجد میں طہارت خانے، مردوں عورتوں کے لیے الگ الگ وضو خانے اور جائے نماز ہیں۔ عورتوں کو مسجد میں جانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ جو توں کی حفاظت، کتاب خانہ اور مطالعے کی سہولت، مقررہ اوقات اور لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی اور اثنا عشری امام مسجد کی خصوصیات ہیں۔ ایک جماعت، سنی یا کسی شیعہ فرقہ کی الگ سے مسجد نہیں ہوتی۔ اندرونی ماحول سنجیدہ ، آرام دہ ، مغربی دیوار اور محراب خوبصورت آیات اور سورہ سے مزین اور دیوار سے دیوار تک قالین۔ جانب قبلہ کوئی تصویرنہیں نظر آتی جیسا کہ اب ہمارے ہاں شروع ہو چکا ہے ۔

قبرستان:

            ایران میں قبرستان بھی ایک ادارہ ہے جسے بڑی ترتیب اور سلیقے سے بنایا گیا ہے ۔ بہشت زہر اتہران میں سب سے بڑا قبرستان ہے ۔ وہ آخری آرام گاہ کے ساتھ ایک تہذیبی اور تاریخی مرکز بھی ہے ۔ جس قبر پر جانا چاہیں مرکزی دفتر سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ ایران میں قبرستان ہماری طرح خوفناک ، خاک در خاک، بھوت بسیرااور بے ترتیب ڈھیروں کا نام نہیں ۔ نہ ان قبروں میں ہماری طرح درجہ بندی ہے کہ غریب کی قبر تو کسی نشان یا شناخت کے بغیر ٹوٹی پھوٹی ہو اور پیسے والوں کے ایسے قیمتی مقبرے جہاں بجلی ، پنکھا ، کولر اور سکون سے بیٹھ کر پڑھنے کی جگہ میسر ہو ۔یہاں سبھی قبروں کو ایک جیسا اور یکساں با سلیقہ بنایا گیا ہے۔ درخت، پھول اور جھاڑی دار راستے ہیں۔دست شوئی اور توالیت کا انتظام ہے۔ بہشت زہرا میں لوگ فاتحہ اور سوز خوانی کے ساتھ کھانے پینے کا سامان بھی لے جاتے ہیں۔ بچوں کے لیے الگ سے کھیلنے کی سہولت میسر ہے۔ یہ قبرستان پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے شہر کے ساتھ منسلک ہیں ،اس لیے آنے جانے میں کوئی دقت نہیں آتی۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ایک لوح سنگ تلے تین تین میتیں دفن ہیں۔ وسیع صحنوں میں قبریں ہیں جن کے اطراف میں بر آمدے اور کمرے ہیں۔ ان کے نیچے بھی قبریں ہیں جن کے اوپر مرنے والوں کے نام اور حوالے کھدے ہوئے ہیں۔

مواصلات:

            ایران جیسے وسیع ملک میں باہمی رابطے کے لیے فضائی اور زمینی راستوں کے علاوہ ٹیلی فونی رابطے بھی بہت منظم، موثر اور سستے ہیں۔ سڑکوں پر جگہ جگہ ٹیلی فون بوتھ بنے ہوئے ہیں جہاں سے ایران کے اندر اورباہر بات ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مختلف مالیت کے ٹیلی کارڈ (کارت اعتبار ی ویژہ تلفن ہمگانی) ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ ہر شہر میں جہاں سڑک کنارے ٹیلی فون بوتھ لا تعداد میں ہیں،کسی بھی جگہ کوئی بوتھ ٹوٹا ہوا اور خراب نہیں ملا۔ان کے علاوہ  اہم شاہرات پر سرکاری اور نجی پی سی او بھی موجود ہیں جہاں ایکسچینج کے ذریعے اور براہ راست بھی بات کی جا سکتی ہے۔یہ نظام انتہائی مستعد، سستا اور تیز ہے۔ پاکستان سے امریکہ اور یورپ کی کال 2روپے فی منٹ ہے جبکہ یہاں سے ایران کا نرخ15روپے فی منٹ ہے ۔ اس کے بر عکس ایران سے پاکستان کال کرنے کے دام قریباً 12روپے فی منٹ ہیں ۔ اس نظام کو مخابراتی راہ دور کہتے ہیں۔ کال کرنے کے بعد تفصیلی رسید دی جاتی ہے۔ ( جاری ہے )