سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : جنوری 2012

قسط ۸۵

نورالقرآن

 سات تراجم ، نو تفاسیر

محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورہ نساء

آیات ۲۶۔۲۸

 یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَھْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَیَتُوْبَ عَلَیْکُمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْم‘’ حَکِیْم‘’ ہ۲۶ وَاللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ قف وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّھَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلاً عَظِیْمًا ہ۲۷ یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ ج وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ہ۲۸

تراجم

۱۔ اللہ چاہتا ہے، کہ تمھارے واسطے بیان کر دے، اور چلا دے تم کو اگلوں کی راہ، اور تم کو معاف کرے۔ اور اللہ جانتا ہے حکمت والا(۲۶) اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر متوجہ ہو۔ اور جو لوگ لگے ہیں اپنے مزوں کے پیچھے، وہ چاہتے ہیں کہ تم مڑ جاؤ راہ سے بہت دور(۲۷) اللہ چاہتا ہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کرے۔ اور انسان بنا ہے کمزور(۲۸) (شاہ عبدالقادرؒ)

۲۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم سے بیان کر دے اور تم سے پہلے لوگوں کے احوال تم کو بتا دے اور تم پر توجہ فرما دے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے ہیں، بڑے حکمت والے ہیں(۲۶) اور اللہ تعالیٰ کو تو تمھارے حال پر توجہ فرمانا منظور ہے اور جو لوگ کہ شہوت پرست ہیں وہ یوں چاہتے ہیں کہ تم بڑی بھاری کجی میں پڑ جاؤ(۲۷) اللہ تعالیٰ کو تمھارے ساتھ تخفیف منظور ہے اور آدمی کمزور پیدا کیا گیا ہے(۲۸) (مولاناتھانویؒ)

۳۔ اللہ چاہتا ہے کہ اپنے احکام تمھارے لیے بیان کر دے اور تمھیں اگلوں کی روشیں بتا دے اور تم پر اپنی رحمت سے رجوع فرمائے اور اللہ علم و حکمت والا ہے(۲۶) اور اللہ تم پر اپنی رحمت سے رجوع فرمانا چاہتا ہے اور جو اپنے مزوں کے پیچھے پڑے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھی راہ سے بہت الگ ہو جاؤ (۲۷) اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا (۲۸) (مولانااحمد رضا خانؒ)

۴۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمھارے واسطے خوب کھول کر بیان کرے اور تمھیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائے اور تم پر رجوع کرے، اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے(۲۶) اور اللہ چاہتا ہے کہ تمھاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ(۲۷) اللہ چاہتا ہے کہ تم سے تخفیف کر دے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے(۲۸)(مولانا جوناگڑھیؒ)

۵۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انھی طریقوں پر تمھیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمھاری طرف متوجہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی(۲۶) ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ(۲۷) اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے(۲۸) (مولانا مودودیؒ)

۶۔ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم پر اپنی آیتیں واضح کر دے اور تمھیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت بخشے جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور تم پر رحمت کی نگاہ کرے اور اللہ علیم و حکیم ہے (۲۶)اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم پر رحمت کی نگاہ کرے اور وہ لوگ جو اپنی شہوات کی پیروی کر رہے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ تم راہ حق سے بالکل ہی بھٹک کر رہ جاؤ(۲۷)اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان کو کمزور بنایا گیا ہے(۲۸) (مولانااصلاحیؒ)

۷۔ اللہ کا ارادہ ہے کہ تم پر اپنی آیتیں واضح کر دے اور تمھیں اُن لوگوں کی راہوں پر چلائے جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور تم پر عنایت کی نظر کرے، اور اللہ علیم و حکیم ہے(۲۶)اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم پر عنایت کی نظر کرے، لیکن جو لوگ اپنی خواہشوں کی پیروی کر رہے ہیں، اُن کی خواہش (اِس کے برخلاف) یہ ہے کہ تم حق کے راستے سے بالکل ہی بھٹک کر رہ جاؤ(۲۷)اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے، (اِس لیے کہ تمھاری کمزوریوں کی رعایت کرے) اور (حقیقت یہ ہے کہ) انسان بڑا ہی کمزور پیدا کیا گیا ہے(۲۸) (محترم جاوید ااحمد غامدی)

تفاسیر

ان آیات کا نظم

‘‘معاشرتی اصلاح سے متعلق احکام و ہدایت کے بیچ میں یہ تین آیتیں بطور تنبیہ و تذکیر آگئی ہیں جن سے مقصود ایک طرف تو مسلمانوں کو ان احکام کی عظیم قدرو قیمت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ تمھاری طر ف تمام انبیاء کرا م و صالحین کی وراثت منتقل کر رہا ہے تو اس کی سچے دل سے قدر کرو اور رحمت الہٰی کے مستحق بنو ،دوسری طرف اس طوفان مخالفت سے آگاہ کرنا ہے جو ان اصلاحات کی مخالفت میں اس مفاد پرست طبقہ کی طرف اُٹھ رہا تھا جو یتیموں ،بیواؤں ،کمزوروں اور غلاموں کے حقوق پر غاصبانہ تسلط جمائے بیٹھا تھا اور کسی طرح بھی اپنے اس تسلط سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھا ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۸۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ماقبل کی آیتوں میں احکام کی تفصیل مذکور ہوئی ،ان آیتوں میں اللہ جل شانہ ،اپنا انعام و احسان بتلاتے ہیں ،اور یہ ان احکام کی مشروعیت میں تمھارے ہی منافع و مصالح کی رعایت رکھی گئی ہے ،اگرچہ تم اس کی تفصیل کو نہ سمجھو ،پھر اس کے ساتھ ہی ان احکام پر عمل کرنے کی ترغیب دی اور گمراہوں کے ناپاک ارادوں پر بھی متنبہ کیا گیا ،کہ یہ لوگ تمھارے بد خواہ ہیں ،جو تمھیں مستقیم راستہ سے بھٹکانا چاہتے ہیں ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ۳۷۴، ادارۃالمعارف کراچی)

یرید اللہ لیبین لکم ویہدیکم سنن الذین من قبلکم۔۔۔۔

لفظ ارادہ کے دو مفہوم          

‘‘یریداللہ لیبین لکم’ اور‘ واللہ یرید ان یتوب علیکم کے اسلوب پر غور کیجئے تودونوں میں ایک نمایاں فرق نظر آئے گا کہ ایک جگہ یرید کے بعد ‘ل’ ہے اور دوسری جگہ ‘ان’۔یہ فرق بے فائدہ نہیں ہے ۔قرآن مجید میں ان دو نوں اسلوبوں کے تتبع سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ‘ارادہ ’کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ایک تو قطعی فیصلہ اور حتمی ارادہ کے معنی میں ‘دوسرے چاہنے کے معنی میں ۔جب پہلے معنی مراد ہوتے ہیں تو اس کے بعد ‘ل ’ آتا ہے اور جب مجرد چاہنے کے معنی میں آتا ہے تو اس کے بعد ‘ان ’ آتا ہے مثلاً:انما یرید اللہ لیذھب عن کم الرجس اھل البیت (۳۳) سورۃ احزاب۔ترجمہ :اللہ کا ارداہ تو بس یہ ہے ،اے اہل بیت نبی ،کہ تم سے ناپاکی کو دور کرے۔ یریداللہ لیطھر کم لیتم نعمتہ علیکم ۔(۶) سورۃ مائدہ ترجمہ : ارادہ الہیٰ یہ کہ تم کو پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دے ۔انما یرید اللہ لیعذ بھم بھافی الحیوۃالدنیا ۔(۵۵) سورۃ توبہ ترجمہ : اللہ تو بس یہ ارادہ کیے ہوئے ہے کہ اس کے ذریعے سے ان کو دنیا کی زندگی میں عذاب دے ’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۸۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘یہ پوری بات ایک فیصلۂ الٰہی کی حیثیت سے بیان ہوئی ہے۔ اِس کی وجہ ہمارے نزدیک، یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے تمام عالم کے لیے اتمام ہدایت کا اہتمام اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں پہلے سے طے تھا، انبیا علیہم السلام نے اِس کی خبر دی تھی اور یہ خدا کے علم و حکمت کا تقاضا بھی تھا، اِس لیے کہ وہ علیم و حکیم لوگوں کو پیدا کرکے اُن کی ہدایت کے اہتمام سے غافل نہیں ہو سکتا تھا۔’’ (البیان ، از غامدی)

آیات کی تشریح

            ‘‘پہلے یہ واضح فرمایا کہ اللہ نے اپنے علم و حکمت سے تمھیں اس مقصد کے لیے منتخب فرمایا ہے کہ تمھارے لیے اپنی آیتیں اور اپنے احکام و ہدایت واضح فرمائے اور انبیاء کرام و صالحین کے ذریعے سے ایمان و عمل صالح کی جو راہیں دنیا کے لیے کھولی گئی تھیں اور جو اب گم کر دی گئی تھیں ان کی تمھیں ازسر نو ہدایت بخشے تاکہ تم اللہ کی طرف رجوع کرو اور اللہ تم پر رحمت کی نظر فرمائے ۔اس بات کو ایک فیصلہ الہیٰ کی حیثیت سے ظاہر فرمایا ہیاس بات کو ایک حتمی فیصلہ کی حیثیت سے ظاہر کرنے کا مقصد ایک تو مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہے ،دوسرے اسلام کے ان معاندین و مخالفین کی ہمت شکنی جو ان معاشرتی اصلا حات کی وجہ سے ،جو اس سورہ میں مذکور ہوئی ہیں ،جھاڑ کے کانٹے کی طرح مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئے تھے ۔یہو دونصاری نے اپنی خود ساختہ شریعتوں اور خانہ ساز رسموں اور رواجوں کے بوجھ لاد رکھے تھے ،انھوں نے جب دیکھا کہ بہ بوجھ لوگوں کے سر سے اتر رہاہے اور اصر و اغلال کی غیر فطری بیڑیاں کٹ رہی ہیں تو چیخنے لگے کہ اسلاف کا سارا سرمایہ معرض خطر میں ہے ۔قرآن نے ان سب کے جواب میں مسلمانوں کو بتایا کہ تم ان مخالفوں کی ہفوات کی پرواہ نہ کرو ۔انبیاء سابقین اور اسلاف صالحین کی اصلی وراثت یہی ہے جو تمھاری طرف منتقل ہو رہی ہے ۔خدا نے تمھیں رحمت سے نوازنا چاہا ہے لیکن یہ اشرار و مفسدین یہ چاہتے ہیں کہ تمھیں اس رحمت سے محروم کر دیں آخری آیت میں یہ اشارہ بھی فرمادیا کہ ان اصلاحات سے جو بیڑیاں کاٹی جارہی ہیں وہ اس لیے کاٹی جارہی ہیں کہ یہ غیر فطری اور خود ساختہ تھیں ۔قدرت نے انسان کو جس فطرت سلیم پر پیدا کیا ہے وہ فطرت ان غیر فطری بوجھوں کی متحمل نہیں ہو سکتی آگے اسی سورہ میں آیت ۴۳ سے ان تمام مخالفتوں کی تفصیل آرہی ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۲۸۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

یرید اللہ ان یخفف عنکم۔۔۔

‘‘یہ اُن پابندیوں کی طرف اشارہ ہے جو علما کی فقہی موشگافیوں کے باعث لوگوں پر لگ چکی تھیں۔ قرآن نے دوسری جگہ اِنھیں اصرواغلال سے تعبیر فرمایا ہے۔’’ (البیان از غامدی)

الذین یتبعون الشہوات

‘‘جو شخص بھی نافرمانی پر دلیر ہے وہی اپنی خواہشِ نفس کا بندہ ہے۔’’ (تفسیر ماجدی ، ج۱ ، ص ۷۲۵، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

خلق الانسان ضعیفا

‘‘یعنی انسان خلقی طور پر ضعیف ہے ،اور اس کے اندر شہوانی مادہ رکھا گیا ہے ،اگر بالکل ہی عورتوں سے دور رہنے کا حکم دیا جاتا تو اطاعت اور فرمانبرداری کرنے سے عاجز رہ جاتا ،اس کے عجز و ضعف کے پیش ِنظر عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ ترغیب دی ،اور نکاح کے بعد آپس میں جو ایک دوسرے کو نفس اور نظر کی پاکیزگی کا نفع اور دوسرے فوائد حاصل ہوتے ہیں ان سے طرفین کو تقویت پہنچتی ہے ،پس نکاح ضعف کے دور کرنے کا باہمی معاہدہ اور ایک بے مثال طریقہ ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۳۷۶، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘علم وحکیم خدا جو تمہارا اور تمہاری صلاحیتوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسے تمہاری فطری کمزوریوں کا خوب علم ہے اس لیے احکام شرعیہ میں ایسی سختی نہیں رکھی گئی جس کو تم برداشت نہ کرسکو۔ یہ بات کسی ایک قانون سے مختص نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کا ہر قانون اس حقیقت کا آئینہ دار ہے ۔ ’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۳۳۷، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘(کمزور جسم کے لحاظ سے بھی اور کمزور ارادہ کے لحاظ سے بھی) ان یخفف عنکم۔ چنانچہ شریعت کے سارے احکام میں انسان کی سہولتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔خلق الانسان ضعیفًا۔چنانچہ جتنے بھی احکامِ شرعی ہیں سب انسان کے ضعفِ جسمانی و ضعفِ ارادی کی پوری رعایت رکھ کر ہیں۔’’ (تفسیر ماجدی ، ج۱ ،ص ۷۲۶، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)

‘‘(ضعف یہ ہے کہ ) اس کوعورتوں سے اور شہوات سے صبر دشوار ہے’’ (خزائن العرفان ،ص ۱۴۹ ، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘یہ انسان کی فطرت کا بیان ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جو غیر فطری اور خود ساختہ بوجھ اُس پر ڈال دیے گئے تھے، اُنھیں ایک دن اترنا ہی تھا۔ انسان کا خالق اُس کی کمزوریوں سے واقف ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایسے بوجھوں تلے اُس کو دبا رہنے دے جن کا تحمل اُس کے لیے ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو جائے۔’’ (البیان،از غامدی)

مترجمین:۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ،۵۔ سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی

تفاسیرومفسرین:۱۔ تفسیر عثمانی ، مولانا شبیرؒ احمد عثمانی،۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیعؒ ، ۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہریؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔البیان، محترم جاوید احمدغامدی