سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : نومبر 2013

قسط۱۰۶

نورالقرآن
 سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرنا ہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورہ المائدہ

آیت ۲۶۔۲۰

وَاِذْقَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ٰیقَوْمِ اذْکُرُوْانِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا صلے ق وَّاٰتٰئکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًامِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ہ۲۰ ٰیقَوْمِ ادْخُلُواالْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْاخٰسِرِیْنَ ہ۲۱ قَالُوْا ٰیمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْھَاقَوْمًاجَبَّارِیْنَ صلے ق وَاِنَّالَنْ نَّدْخُلَھَاحَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْھَا ج فَاِنْ یَّخْرُجُوْامِنْھَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ ہ۲۲ قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمَاادْخُلُوْاعَلَیْھِمُ الْبَابَ ج فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ ۵ج وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓااِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ہ۲۳ قَالُوْا ٰیمُوْسٰٓی اِنَّالَنْ نَّدْخُلَھَآاَبَدًا مَّادَامُوْافِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا ٓ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ ہ۲۴ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَا ٓاَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَاوَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ہ۲۵ قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃ‘’ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِط فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ہ۲۶ع

تراجم

            ۱۔ ۲۰۔اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم کو ، اے قوم! یاد کرو ، احسان اللہ کا ، اپنے اوپر ، جب پیدا کئے تم میں نبی ، اور کر دیا تم کو بادشاہ۔ اور دیا تم کو ، جو نہیں دیا کسی کو ، جہان میں۔۲۱۔اے قوم! داخل ہو زمین پاک میں ، جو لکھدی ہے اللہ نے تم کو ، اور الٹے نہ جاؤ اپنی پیٹھ پر ، پھر جا پڑو گے نقصان میں۔۲۲۔   بولے ، اے موسی! وہاں ایک لوگ ہیں زبردست ۔ اور ہم ہر گز وہاں نہ جاوینگے ، جب تک وہ نکل چکیں وہاں سے ۔ پھر اگر وہ نکلیں وہاں سے ، تو ہم داخل ہوں۔ ۲۳۔کہا دو مردوں نے ڈر والوں میں سے ، خدا کی نوازش تھی ان دو پر ، پیٹھ جاؤ (گھس جاؤ) ان پر حملہ کر کے دروازے میں ۔ پھر جب تم اس میں پیٹھو ، تو تم غالب ہو ۔ اور اللہ پر بھروسا کرو ، اگر یقین رکھتے ہو۔ ۲۴۔بولے ، اے موسیٰ! ہم ہر گز نہ جاویں ساری عمر ، جب تک وہ رہیں گے اس میں، سو تو جا اور تیرا رب ، دونوں لڑو ، ہم یہاں ہی بیٹھے ہیں۔۲۵۔بولا اے رب ! میرے اختیار میں نہیں، مگر میری جان اورمیرا بھائی ، سو فرق کر تو ہم میں اور بے حکم قوم میں۔ ۲۶۔کہا تو وہ (سر زمین) ان سے بند ہوئی چالیس برس ۔ سر مارتے پھرینگے ملک میں۔ سو تو افسوس نہ کر بے حکم لوگوں پر۔ (شاہ عبدالقادرؒ)

            ۲۔ ۲۰۔اور وہ وقت بھی ذکر کے قابل ہے جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبربنائے اور تم کو صاحب ملک بنایا اور تم کو وہ چیزیں دیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیں۔ ۲۱۔اے میری قوم اس متبرک ملک میں داخل ہو کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں لکھ دیا ہے اور پیچھے واپس مت چلو کہ پھر بالکل خسارے میں پڑ جاؤ گے ۔ ۲۲۔کہنے لگے اے موسیٰ وہاں تو بڑے بڑے زبردست آدمی ہیں اور ہم تو وہاں ہر گز قدم نہ رکھیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نہ نکل جاویں ہاں اگر وہ وہاں سے کہیں اور چلے جائیں تو ہم بیشک جانے کو تیار ہیں۔ ۲۳۔ان دو شخصوں نے جو کہ ڈرنے والوں میں سے تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا تھا کہا کہ تم ان پر دروازہ تک تو چلو سو جس وقت تم دروازہ میں قدم رکھو گے اسی وقت غالب آ جاؤ گے اور اللہ پر نظر رکھو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔۲۴۔کہنے لگے کہ اے موسیٰ ہم تو ہر گز کبھی بھی وہاں قدم نہ رکھیں گے جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں تو آپ اور آپ کے اللہ میاں چلے جائیے اور دونوں لر بھڑ لیجئے ہم تو یہاں سے سر کتے نہیں۔ ۲۵۔(موسیٰ) دعا کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار میں اپنی جان اور اپنے بھائی پر البتہ اختیار رکھتا ہوں سو آپ ہم دونوں کے اور اس بے حکم قوم کے درمیان فیصلہ فرما دیجئے۔ ۲۶۔ارشاد ہوا تو یہ ملک ان کے ہاتھ چالیس برس تک نہ لگے گا یوں ہی زمین میں سر مارتے پھرتے رہیں گے ، سو آپ اس بے حکم قوم پر غم نہ کیجئے۔ (مولاناتھانویؒ)

            ۳۔ ۲۰۔اور جب موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے اے میری قوم اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو کہ تم میں سے پیغمبر کیے اور تمہیں بادشاہ کیا ،ا ور تمہیں وہ دیا جو آج سارے جہاں میں کسی کو نہ دیا۔ ۲۱۔اے قوم اس پاک زمین میں داخل ہو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے اور پیچھے نہ پلٹو ، کہ نقصان پر پلٹو گے۔ ۲۲۔بولے اے موسیٰ اس میں تو بڑے زبردست لوگ ہیں اور ہم اس میں ہر گز داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہاں وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم وہاں جائیں ۔ ۲۳۔دو مرد کہ اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے ، اللہ نے انہیں نوازا ، بولے کہ زبردستی دروازے میں ، ان پر داخل ہو اگر تم دروازے میں داخل ہو گئے تو تمہارا ہی غلبہ ہے ، اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے ۔ ۲۴۔بولے ، اے موسیٰ ہم تو وہاں ، کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں ۔۲۵۔موسیٰ نے عرض کی کہ اے رب میرے مجھے اختیار نہیں مگر اپنا اور اپنے بھائی کا تو تو ہم کو ان بے حکموں سے جدا رکھ ۔ ۲۶۔ فرمایا تو وہ زمین ان پر حرام ہے ، چالیس برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں ، تو تم ان بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ۔ (مولانا احمد رضا خانؒ)

            ۴۔ ۲۰۔اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا۔ ۲۱۔اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اوراپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو ، کہ پھر نقصان میں جا پڑو۔ ۲۲۔انہوں نے جواب دیا کہ اے موسیٰ وہاں تو زور آور سرکش لوگ ہیں اور جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہم تو ہر گز وہاں نہ جائیں گے ، ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں پھر تو ہم بخوشی چلے جائیں گے۔ ۲۳۔دو شخصوں نے جو خدا ترس لوگوں میں سے تھے جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہا کہ تم ان کے پاس دروازے میں تو پہنچ جاؤ، دروازے میں قدم رکھتے ہی یقینا تم غالب آ جاؤ گے ، اور تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے ۔ ۲۴۔قوم نے جواب دیا کہ اے موسیٰ ! جب تک وہ وہاں ہیں تب تک ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے ، اس لیے تم اور تمہارا پروردگار جا کر دونوں ہی لڑ بھڑ لو ، ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ۲۵۔موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے الٰہی! مجھے تو بجز اپنے اور میرے بھائی کے کسی اور پر کوئی اختیار نہیں پس تم ہم میں اور ان نافرمانوں میں فیصلہ اور فرق کر دے ۔ ۲۶۔ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے ، یہ خانہ بدوش ادھر ادھر سرگرداں پھرتے رہیں گے اس لیے تم ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا ۔ (مولانا جوناگڑھیؒ)

            ۵۔ یاد کرو جب موسی نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ‘‘اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اُس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا۔ (۲۰) اے برادران قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے ، پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے۔ (۲۱) انہوں نے جواب دیا ‘‘اے موسی! وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں ، ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ ہاں اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لیے تیار ہیں۔’’ (۲۲) اُن ڈرنے والوں میں سے دو شخص ایسے بھی تھے جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘اِن جباروں کے مقابلہ میں دروازے کے اندر گھس جاؤ ، جب تم اندر پہنچ جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے ۔ اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو۔’’ (۲۳) لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ ‘‘اے موسی! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں موجود ہیں ۔ بس تم اور تمہارا رب، دونوں جاؤ اور لڑو ، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔’’ (۲۴) اس پر موسی نے کہا‘‘اے میرے رب ، میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر یا میری اپنی ذات یا میرا بھائی ، پس تو ہمیں اِن نافرمان لوگوں سے الگ کر دے۔’’ (۲۵) اللہ نے جواب دیا ‘‘اچھا تو وہ مُلک چالیس سال تک اِن پر حرام ہے ، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے ، ان نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ۔’’ (۲۶) (مولانامودودیؒ)

            ۶۔ اور یاد کرو جب کہ موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا ،اے میرے ہم قومو ! اپنے اوپر اللہ کے فضل کو یاد کرو کہ اس نے تم میں نبی اٹھائے اور تم کو بادشاہ بنایا ،اور تم کو وہ کچھ بخشا جو دنیا والوں میں سے کسی کو نہیں بخشا ۔(۲۰)اے میرے ہم قومو ! اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے اور پیٹھ پیچھے نہ پھرو ورنہ نامرادوں میں سے ہو کر رہ جاؤ گے ۔(۲۱) وہ بولے کہ اس میں تو بڑے زور آور لوگ ہیں ۔ہم اس میں نہیں داخل ہونے کے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ۔اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہوں گے ۔(۲۲)دو شخصوں نے ،جو تھے تو انھی ڈرنے ولوں ہی میں سے ،پر خدا کا ان پر فضل تھا ،للکارا کہ تم ان پر چڑھائی کرکے شہر کے پھاٹک میں گھس جاؤ ۔جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسہ کرو ،اگر تم مومن ہو ۔(۲۳)وہ بولے کہ اے موسیٰ ،ہم اس میں ہر گز نہیں داخل ہونے کے جب تک وہ اس میں موجود ہیں تو تم اور تمھار ا خداوند جاکر لڑو ،ہم تو یہاں بیٹھتے ہیں ۔(۲۴)موسیٰ نے دعا کی اے میرے پر ور دگار ،میرا اپنی جان اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر کچھ زور نہیں ۔پس تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان علیحدگی کر دے ۔(۲۵)فرمایا تو یہ سر زمین ان پر چالیس سال کے لیے حرام ٹھہری ،یہ لوگ زمین میں بھٹکتے پھریں گے ۔پس تو ان نافرمان لوگوں کا غم نہ کھا (۲۶)(مولاناامین احسن اصلاحیؒ)

            ۷۔ (اپنے جرائم کی پاداش سے ڈرو، اے اہل کتاب) اور یاد کرو وہ واقعہ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم کے لوگو، اپنے اوپر اللہ کی اِس نعمت کا خیال کرو کہ اُس نے تم میں نبی بنائے اور تمھیں بادشاہ ٹھیرایا ہے اور تمھیں وہ کچھ دے دیا ہے جو دنیا والوں میں سے اُس نے کسی کو نہیں دیا ہے۔ اے میری قوم کے لوگو، (اِس کے لیے) اُس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھ پرالٹے نہ پھرو، ورنہ نامراد ہو جاؤ گے ۔(۲۰) اُنھوں نے جواب دیا: موسیٰ، اُس میں بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں، ہم اُس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے، جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ ہاں، اگر وہ نکل جائیں تو ہم یقینا داخل ہو جائیں گے۔(۲۲) اِن ڈرنے والوں میں دو شخص، البتہ ایسے تھے جن پر خدا کی عنایت تھی،اُنھوں نے کہا: تم (اِس شہر کے) لوگوں پر چڑھائی کر کے اِس کے دروازے میں گھس جاؤ، جب تم گھس جاؤ گے تو تمھی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسا کرو، اگر تم اُس کے ماننے والے ہو۔(۲۳) لیکن اُنھوں نے پھر یہی کہا کہ موسیٰ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں، ہم اُس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے، اِس لیے تم اور تمھارا پروردگار، دونوں جاؤ اور لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ (۲۴) اِس پر موسیٰ نے دعا کی: پروردگار، میری ذات اور میرے بھائی کے سوا کسی پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے، لہٰذا تو ہمیں اور اِن نافرمان لوگوں کو الگ الگ کر دے۔(۲۵) فرمایا: یہی بات ہے تو یہ سرزمین چالیس برسوں کے لیے اِن پر حرام ہے، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے، اِس لیے (اب) اِن نافرمانوں پر افسوس نہ کرو۔(۲۶) (محترم جاویداحمد غامدی)

تفاسیر

نظم کلام

بنی اسرائیل کو تاریخ کے ایک اہم واقعہ کی یاد دہانی

‘‘اب آگے یہود کی ابتدائی تاریخ کے ایک اہم واقعہ کی یاد دہانی فرمائی ہے جس سے ایک طرف تو یہ حقیقت روشنی میں آتی ہے کہ یہ قوم ابتداء ہی سے خدا کے عہد اور اس کے حقوق و فرائض کے معاملے میں نہایت بودی اور نکمی رہی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ خدا نے ابتدا ہی سے اس کی بدعہدیوں اور نالائقیوں پر اس کو سزا بھی ہمیشہ نہایت عبرت انگیز دی ہے لیکن اس کے باوجود اب تک یہ یہی خواب دیکھے جارہی ہے کہ یہ خدا کی محبوب اور لاڈلی ہے۔ اس وجہ سے آخرت کے عذاب سے محفوظ ہے۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۴، فاران فاونڈیشن لاہور)

واذ قال موسی لقومہ……

یہود کی تاریخ کا ایک ورق

‘‘اذ جعل فیکم انبیآء…… احدا من العلمین ۔ سورۂ نساء کی آیت ۵۴ کے تحت ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے جو مستقبل سے متعلق ہوتے ہیں، بعض اوقات ماضی کے صیغے سے تعبیر کیے جاتے ہیں۔ یہ وعدوں کی قطعیت کے اظہار کا ایک بلیغ اسلوب ہے جو قرآن میں بہت استعمال ہوا ہے۔ گویا یہ وعدے، محض وعدے نہیں بلکہ واقعات ہیں جو واقع ہوچکے۔ حضرت موسٰی ؑسے پہلے اگرچہ بنی اسرائیل میں بعض انبیاء ؑ مبعوث ہوچکے تھے لیکن نبوت کا غیرمنقطع سلسلہ آپ کے بعد شروع ہوا جو حضرت مسیحؑ کی بعثت تک جاری رہا۔ بادشاہوں کے سلسلے کا تعلق تمام تر حضرت موسٰی ؑکے بعد ہی کے دور سے ہے۔ اس سے پہلے خاندان کے بزرگوں کو ایک قسم کی سیادت اور پدر سری (Patriarchy) تو حاصل رہی لیکن اس کو بادشاہی نہیں کہہ سکتے۔ تورات میں بھی اس کو بادشاہی سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۶، فاران فاونڈیشن لاہور)

یقوم اذکروا نعمۃ اللہ ۔۔۔۔جعل فیکم انبیاء

‘‘مسئلہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کی تشریف آوری نعمت ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس کے ذکر کرنے کا حکم دیا کہ وہ برکات و ثمرات کا سبب ہے اس سے محافل میلاد مبارک کے موجب برکات و ثمرات اور محمود و مستحسن ہونے کی سند ملتی ہے’’ ( خزائن العرفان ، ص۲۰۰ ، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

ایک سیاسی نکتہ

بادشاہت میں قوم کو شریک ہونا چاہیے

‘‘یہاں اسلوب کا ایک اور فرق بھی قابلِ لحاظ ہے۔ سلسلۂ نبوت کی تعبیر کے لیے تو فرمایا۔ جعل فیکم انبیاء (تم میں انبیاء بنائے) لیکن سلسلۂ بادشاہی کی تعبیر کے لیے وجعلکم ملکوکاً (اور تم کو بادشاہ بنایا) کی تعبیر اختیار فرمائی۔ ان دونوں اسلوبوں کے فرق سے یہ بات نکلتی ہے کہ نبوت ایک مرتبہ اختصاص ہے جو صرف اس سے مخصوص ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس منصب پر فائز فرماتا ہے، دوسرے اس میں شریک نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس بادشاہی ایک منصبِ اجتماعی ہے جس میں بادشاہ کے ساتھ اس کی پوری قوم حصہ دار ہوتی ہے۔ اگر کسی بادشاہی میں قوم شریک نہ ہو تو وہ استبداد اور مطلق العنانی ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۷، فاران فاونڈیشن لاہور)

‘‘یہاں مَلک کا لفظ بادشاہ کے معنی میں مستعمل نہیں ہوا بلکہ آزاد اور خودمختار کے معنی میں مذکور ہوا ہے۔ مقصد انھیں یہ جتانا ہے کہ پہلے تم فرعون کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، اب وہ کاٹ دی گئیں اور تمھیں آزادی اور حریت کی نعمت سے سرفراز فرما دیا گیا۔ مفسرین کرام ابن جریر، رازی، قرطبی وغیرہم نے اسی معنی کو پسند فرمایا ہے۔ قرطبی کے الفاظ ہیں: وجعلکم ملوکا ای تملکون امرکم لا یغلبکم علیہ غالب بعد ان کنتم مملوکین لفرعون مقھورین۔’’(ضیاء القرآن، ج۱ ، ص۴۵۷، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

واتکم مالم یوت احدا من العلمین

‘‘ اس سے مراد وہ منصب امامت و شہادتِ حق ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مامور فرمایا تھا اور جو اُمت مسلمہ کے ظہور میں آنے سے پہلے ان کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۷، فاران فاونڈیشن لاہور)

ارضِ مقدس سے مراد کنعان اور فلسطین ہیں

‘‘الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم، ‘ارضِ مقدس’ سے مراد کنعان اور فلسطین کا علاقہ ہے۔ اس کو مقدس کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہی علاقہ ہے جہاں حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام نے اللہ کے دین کی دعوت کا آغاز کیا۔ یہ علاقہ اگرچہ بعد میں کافروں اور بت پرستوں کے قبضے میں آگیا تھا لیکن توحید اور خدا پرستی کی اذان چونکہ سب سے پہلے اسی علاقے میں گونجی تھی، اس وجہ سے اس کو ارضِ مقدس سے تعبیر فرمایا۔ مصر سے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسی علاقے کو بنی اسرائیل کی میراث قرار دیا اور تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر ان سے وعدہ کیا کہ میں نے یہ علاقہ تم کو دیا۔ ملاحظہ ہو، گنتی باب ۱۳’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۷، فاران فاونڈیشن لاہور)

ارضِ مقدسہ سے کون سی زمین مراد ہے

‘‘ارضِ مقدسہ سے کون سی زمین مراد ہے۔ اس میں مفسرین کے اقوال بظاہر متعارض ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ بیت المقدس مراد ہے۔ بعض نے شہرقدس اور ایلیا کو ارضِ مقدسہ کا مصداق بتلایا ہے۔ بعض نے شہر اریحا کو نہر اُردن اور بیت المقدس کے درمیان دنیا کا قدیم ترین شہر تھا اور آج تک موجود ہے۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اس کی عظمت و وسعت کے عجیب و غریب حالات نقل کیے جاتے ہیں۔ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ ملک شام پورا ارضِ مقدس ہے۔ کعب احبار نے فرمایا کہ میں نے اللہ کی کتاب (غالباً تورات) میں دیکھا ہے کہ ملک شام پوری زمین میں اللہ کا خاص خزانہ ہے اور اس میں اللہ کے مخصوص مقبول بندے ہیں۔ اس زمین کو مقدس اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کا وطن اور مستقر رہا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام لبنان کے پہاڑ پر چڑھے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابراہیم! یہاں سے آپ نظر ڈالو، جہاں تک آپ کی نظر پہنچے گی ہم نے اس کو ارضِ مقدس بنا دیا۔ یہ سب روایات تفسیر ابن کثیر اور تفسیر مظہری سے نقل کی گئی ہیں۔ اور صاف بات یہ ہے کہ ان اقوال میں تعارض کچھ نہیں۔ پورا ملک شام آخری روایات کے مطابق ارضِ مقدس ہے۔ بیان کرنے میں بعض حضرات نے ملک شام کے کسی حصہ کو بیان کر دیا۔ کسی نے پورے کو۔(معارف القرآن، جلد سوم، ص ۹۸ ، ادارۃ المعارف کراچی)

حضرت موسٰیؑ کی ایک تقریر

‘‘واذ قال موسی۔۔۔یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس تقریر کا حوالہ ہے جو انھوں نے دشت فاران میں اس موقع پر فرمائی جب بنی اسرائیل کو فلسطین پر حملہ کے لیے اُبھارا ہے۔ تورات کی گنتی باب ۱۳-۱۴ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد تمام منازل سفر طے کرتے ہوئے، جب حضرت موسیٰ دشتِ فاران میں پہنچے اور فلسطین کا علاقہ قریب آیا تو چونکہ یہی علاقہ منزلِ مقصود تھا ،اس وجہ سے آپ نے ۱۲ سرداروں کی ایک پارٹی علاقے کے حالات دریافت کرنے کے لیے بھجی۔ یہ پارٹی اپنی مہم سے فارغ ہوکر جب واپس آئی تو اس نے علاقے کی زرخیزی و شادابی سے متعلق تو نہایت شوق انگیز رپورٹ دی لیکن ملک پر قابض باشندوں کے قدوقامت اور ان کی زورآوری سے متعلق اس نے جو بیان دیا وہ بنی اسرائیل کے لیے نہایت حوصلہ شکن ثابت ہوا۔ چنانچہ یہ بیان سنتے ہی انھوں نے واویلا شروع کر دیا اور جس ملک پر قبضہ کرنے کی اُمنگیں لیے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے اس پر قبضہ کرنا تو درکنار، پھر مصر پلٹ جانے کی باتیں کرنے لگے اور یہ بات انھیں یاد بھی نہیں رہی کہ خدا نے ان کو اس ملک کی میراث دینے کا قسم کے ساتھ وعدہ فرمایاہے۔ تفتیشی مہم کے ارکان میں سے دو شخصوں نے، جن کے نام تورات میں یوشع اور کالب بتائے گئے ہیں، ان کی ہمت بندھانے کی بڑی کوشش کی اور اللہ کے وعدوں اور عزم و ہمت کے ثمرات و برکات کا بہتیرا حوالہ دیا لیکن بنی اسرائیل فلسطین پر حملہ کرنے کی ہمت و حوصلہ کرنے کے بجائے ان دونوں حوصلہ مندوں کو سنگ سار کرنے کے درپے ہوگئے۔یہی موقع ہے جب حضرت موسٰی ؑ نے یہ تقریر فرمائی ہے۔قرآن نے اگرچہ تقریر کا صرف خلاصہ دیا ہے اس لیے کہ مقصود بالاجمال واقعہ کی طرف صرف اشارہ کر دینا تھا، تاہم وہ سارے پہلو اس میں موجود ہیں جو اس موقع پر حوصلے کو بحال کرنے اور پست حوصلگی کے انجامِ بد سے آگاہ کرنے کے لیے ضروری تھے۔ حضرت موسٰی ؑنے اللہ تعالیٰ کے ان افضال و عنایات کا حوالہ دیا جو مصر سے خروج کے وقت سے لے کر اب تک برابر سایہ کی طرح بنی اسرائیل کے ساتھ رہے، ان قطعی اور حتمی وعدوں کا حوالہ دیا جو سلسلۂ نبوت کے اجرا اور بنی اسرائیل کو ایک عظیم حکمران قوم بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمائے۔ اس میراث کا حوالہ دیا جو ایک شاداب و زرخیز علاقہ کی شکل میں ان کو ملنے والی تھی اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لکھ دیا تھا۔ ان تمام وعدوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ ان کو ارضِ مقدس پر حملہ کی دعوت دی اور ساتھ ہی بزدلی اور پست حوصلگی کے انجامِ بد سے بھی آگاہ کر دیا کہ قدم پیچھے ہٹایا تو بالکل ہی نامراد ہوکر رہ جاؤ گے۔ پیچھے مصر کی غلامی اور آگے کے لیے ہمت نہ کی تو یہ صحرا گردی ہے جس میں مر کھپ کر فنا ہوجاؤ گے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۷، فاران فاونڈیشن لاہور)

‘‘ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے ہجرت کی اور سمندر کو بخیریت عبور کرلیا اورفرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہوگیا۔ تو آپ وادئ سینا میں فروکش ہوگئے۔ ایک سال وہیں قیام فرمایا۔ اِسی اثنا میں آپ کو تورات عطا ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے اپنی قوم کو اپنے آبائی وطن شام کی طرف جانے کے لیے آمادہ کیا۔ چنانچہ وہاں کے لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے بارہ نقیب روانہ کیے جو چالیس روز تک وہاں کے حالات کا مشاہدہ کرتے رہے۔ جب واپس آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے اُنھیں فرمایا کہ قوم کے سامنے برملا ایسی کوئی بات نہ کہنا جس سے اُن کے حوصلے پست ہوں لیکن بارہ میں سے دس نے تو وہاں کے لوگوں کی قوت و جبروت، ان کے قدوقامت، ان کے قلعوں کی مضبوطی کا ایسا نقشہ کھینچا کہ بنی اسرائیل چلّا اُٹھے اور انتہائی بے باکی سے اپنے پیغمبر کو کہہ دیا کہ ہم ایسی جابر قوم سے ٹکّر لے کر اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی بیویوں کو بیوہ کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ آپ اور آپ کا خدا پہلے ان سے جاکر لڑیں۔ ان سے ملک کو پاک کریں تو پھر ہم اپنے آبائی وطن کا رُخ کریں گے۔ اُنھوں نے کہا: ہم شام کی زرخیز زمینوں، ٹھنڈے پانی کے اُبلتے ہوئے چشموں اور پھلوں سے لدے ہوئے باغات اور وہاں کی عزت کی زندگی سے باز آئے۔ ہم تو واپس مصر جاتے ہیں۔ وہاں اگرچہ غلامی کی ذلّت ہے لیکن موت کا تو اندیشہ نہیں۔ دوسرے دو نقیبوں حضرت یوشع بن نون اور کالب نے بہت سمجھایا کہ نامرد نہ بنو، ذرا ہمت کرکے دشمن پر حملہ تو کرو۔ پھر دیکھو نصرتِ الٰہی کس طرح تمھارے دشمنوں کو کچل کر رکھ دیتی ہے لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ چنانچہ ان کی اس بزدلی اور پیغمبر کی نافرمانی کی وجہ سے اس ملک کا داخلہ ان پر بند کر دیا گیا۔ چالیس برس تک مختلف بیابانوں اور صحراؤں کی خاک چھانتے پھرے۔ جب اس مدت میں غلامی کی گود میں پلے ہوئے اسرائیلی لقمۂ اجل بن گئے اور آزادی کی فضا میں پیدا ہونے والے بچے پروان چڑھے تو انھوں نے شام پر حملہ کر کے اُسے فتح کیا۔ اس سے ہمیں بھی یہ حقیقت بتا دی گئی کہ آزادی کی نعمت اُسی قوم کو عطا فرمائی جاتی ہے جو اس کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہو۔’’(ضیاء القرآن، ج۱ ، ص ۴۵۸، ضیا القر آن پبلی کیشنز لاہور)

قالوا یموسٰی………… فانا دخلون

بنی اسرائیل کی مرعوبیت

‘‘قوماً جبارین’ جبار کے معنی قدآور، زور آور، تگڑے اور طاقت ور کے ہیں۔ عربی میں ‘جبار’ کھجور کے ان درختوں کو بھی کہتے ہیں جو بہت اُونچے ہوں۔یہ حضرت موسٰی ؑکی اس تقریر کا جو اُوپر مذکور ہوئی، بنی اسرائیل کی طرف سے جواب ہے کہ جب اس ملک پر ایسے جبار اور قدآور لوگ قابض ہیں تو ہم تو ان کی تلواروں کا لقمہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ البتہ اگر قدرت کے کسی ایسے معجزے کے ذریعے سے، جیسے تم اب تک دکھاتے رہے ہو، یہ اس علاقے سے نکل جائیں گے تو بے شک ہم اس علاقے پر قابض ہونے کے لیے تیار ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۸، فاران فاونڈیشن لاہور)

قال رجلن من الذین ……………… ان کنتم مؤمنین

یوشع اور کالب کا مثالی کردار

‘‘رجلن من الذین یخافون انعم اللّٰہ علیھما، رجلٰن سے مراد، جیساکہ اُوپر مذکور ہوا، یوشع اور کالب ہیں جو اس مہم کے ارکان میں تھے جو فلسطین کے حالات کی تفتیش کے لیے بھیجی گئی تھی۔ الذین یخافون میں عام طور پر لوگوں نے یخافون کے مفعول کو محذوف مانا ہے یعنی یخافون اللہ، وہ اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے۔ اگرچہ میرے استاذ رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے لیکن دو وجہ سے اس تاویل پر میرا دل نہیں جمتا۔ ایک تو یہ کہ یہ موقع مفعول کے اظہار کا تھا نہ کہ اس کے حذف کا، اس لیے کہ یہاں التباس پیدا ہوسکتا ہے اور التباس کے مواقع میں اظہار مستحسن ہے نہ کہ حذف۔ دوسری یہ کہ اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت خدا سے ڈرنے والوں کی ایک جماعت موجود تھی جن کے اندر یوشع اور کالب بھی تھے۔ اگر یہ بات ہے تو انعامِ الٰہی کی تخصیص انھی دو حضرات کے لیے کیوں ہوئی۔ پھر تو انعم اللّٰہ علیھما کی جگہ انعام اللّٰہ علیھم ہونا تھا۔ علاوہ ازیں تورات اور قرآن دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس وقت بنی عناق کے خوف سے پوری قوم کا دل بیٹھ گیا تھا، صرف یہ دو اللہ کے بندے پوری قوم میں ایسے نکلے جو خوف زدہ نہیں ہوئے بلکہ اللہ کے عہد پر استوار رہے۔اس وجہ سے قرین صواب تاویل میرے نزدیک یہ ہے کہ ہرچند یوشع اور کالب تھے تو اسی قوم میں سے جس پر خوف اور بزدلی کی موت طاری تھی لیکن اللہ کا ان پر فضل و انعام تھا کہ وہ اس وبائے عام میں مرنے پر راضی نہیں ہوئے بلکہ ایمان اور عزم پر استوار رہنے کی اُنھوں نے توفیق پائی۔ اس میں شبہ نہیں کہ جب پوری قوم کی قوم اس طرح ہمت ہار بیٹھے جس طرح بنی اسرائیل ہار بیٹھے تو بہادر سے بہادر آدمی کے اعصاب بھی جواب دے جاتے ہیں۔ بڑا ہی باوفا اور صداقت شعار ہوتا ہے۔ وہ مردِ حق جو ایسے نازک موقع پر بھی اپنی وفاداری اور صداقت شعاری نباہ لے جائے۔ یوشع اور کالب کے کردار کا یہی پہلو ہے جس کے سبب سے عہدومیثاق کی اس سورہ میں قرآن نے ان کا ذکر کرکے ان کو زندہ جاوید بنا دیا تاکہ جو لوگ خدا کی راہ پر چلنے کا ارادہ کریں وہ ان کے اس مثالی کردار سے یہ سبق لیں کہ جب سب سو جائیں تو جاگنے والے کس طرح جاگتے ہیں اور جب سب مر جاتے ہیں تو زندہ رہنے والے کس طرح زندہ رہتے ہیں۔ قرآن نے یہاں بزدلوں کے اندر کے بہادروں اور مُردوں کے اندر کے زندوں کو اس لیے نمایاں کیا ہے کہ بہادروں کے اندر اور زندوں کے اندر زندہ تو بہت نظر آئیں گے لیکن وہ زندگی بخش ہستیاں بہت کمیاب ہیں جو مُردوں کو زندگی بخشتی ہیں اگرچہ اسی راہ میں انھیں خود اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۹، فاران فاونڈیشن لاہور)

یوشع اور کالب کی تاریخی تقریر

‘‘ادخلوا علیھم الباب………… فانکم غلٰبون، یہ ان دونوں مردانِ حق کی تقریر ہے جو انھوں نے اپنی ہمت ہاری ہوئی قوم کا حوصلہ بحال کرنے کے لیے کی۔ انھوں نے للکارا کہ شہر کے پھاٹک سے ان پرچڑھائی کرو۔ جب تم یہ اقدام کر گزرو گے تو تمہی غالب رہو گے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ بندے جب اپنا فرض ادا کرنے کے لیے ان کے اپنے پاس جو طاقت و قوت موجود ہے اس کو میدان میں ڈال دیتے ہیں تب وہ اپنی مدد و نصرت سے ان کو نوازتا ہے، گھروں میں بیٹھے رہنے والوں کے لیے اس کی آسمانی تائید نہیں اترا کرتی۔وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین،یعنی اگر خدا پر ایمان ہے تو خدا نے تو قسم کے ساتھ اس ملک کی میراث تم کو دینے کا وعدہ فرمایا ہے، پھر خدا پر بھروسہ رکھو، اس کے حکم کی تعمیل کا عزم کرو۔ جب تم اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہو گے تو وہ اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۹۰، فاران فاونڈیشن لاہور)

وعلی اللہ فتوکلوا

‘‘ معلوم ہوا کہ سباب مشروعہ کو ترک کرنا توکل نہیں۔ ‘‘توکل’’ یہ ہے کہ کسی نیک مقصد کے لیے انتہائی کوشش اور جہاد کرے۔ پھر اس کے مثمر و منتج ہونے کے لیے خدا پر بھروسہ رکھے، اپنی کوشش پر نازاں اور مغرور نہ ہو۔ باقی اسباب مشروعہ کو چھوڑ کر خالی اُمیدیں باندھتے رہنا توکل نہیں تعطل ہے۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۴۷ ، پاک کمپنی لاہور)

قالوا یموسٰی انا لن یدخلھا …… انا ھھنا قعدون

‘‘یہ بنی اسرائیل کی طرف سے آخری جواب تھا کہ تم جاؤاو رتمہارا رب جائے ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ تورات میں یہ جواب ان لفظوں میں تو موجود نہیں ہے لیکن بنی اسرائیل کے گریہ و ماتم کا ذکر ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۹۱، فاران فاونڈیشن لاہور)

قال رب انی …… القوم الفسقین

حضرت موسٰی ؑکی درخواست بارگاہِ الٰہی میں

‘‘بنی اسرائیل کے مذکورہ بالا جواب کے بعد ان سے کسی خیر کی آخری اُمید بھی ختم ہوگئی۔ اس وجہ سے حضرت موسٰی ؑنے نہایت غم اور صدمے کے ساتھ اپنے پروردگار سے دعا کی کہ اے میرے رب! میرا، اپنی جان اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر کوئی زور نہیں، اس وجہ سے تو اب ہمارے اور اس بدعہدقوم کے درمیان علیحدگی کردے۔ ‘‘علیحدگی کردینے’’ کا منشا ظاہر ہے کہ یہی ہوسکتا ہے کہ اب ان کی قیادت و اصلاح کے بارِعظیم سے ان کو سبکدوش کردیا جائے۔ اتنی طویل جدوجہد، اور اتنے بے شمار خوارق و عجائب کے بعد بھی جن کی بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ ایک شخص بھی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے تو اب میں ان پتھروں میں کیا جونک لگا سکوں گا۔ اب تو میرے اور ان کے درمیان فیصلہ ہی فرما دے۔حضرت ہارون ؑ چونکہ خود خدا کے مقرر کردہ وزیر تھے اور انھوں نے ہرمرحلے میں اپنی وفاداری کا شایانِ شان ثبوت دیا تھا۔ اس وجہ سے ان پر اعتماد تو ایک امر بدیہی تھا لیکن باقی پوری قوم،اللہ کے ان دو بندوں کے سوا جن کا ذکر اُوپر ہوا، بالکل مُردہ نکلی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۹۱، فاران فاونڈیشن لاہور)

فافرق بیننا و بین القوم الفسقین

‘‘ یعنی جدائی کی دعا حسی اور ظاہری طور پر تو قبول نہ ہوئی ہاں معناً جدائی ہوگئی کہ وہ سب تو عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوکر حیران و سرگرداں پھرتے تھے اور حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام پیغمبرانہ اطمینان اور پورے قلبی سکون کے ساتھ اپنے منصب ارشاد و اصلاح پر قائم رہے۔ جیسے کسی بستی میں عام وبا پھیل پڑے اور ہزاروں بیماریوں کے مجمع میں دوچار تندرست اور قوی القلب ہوں جو ان کے معالجہ، چارہ سازی اور تفقد احوال میں مشغول رہیں۔ اگر فافرق بیننا کا ترجمہ ‘‘جدائی کردے’’ کی جگہ ‘‘فیصلہ کردے’’ہوتا تو یہ مطلب زیادہ واضح ہوجاتا۔حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ یہ سب قصہ اہلِ کتاب کو سنایا اس پر کہ تم پیغمبر آخرالزمان کی رفاقت نہ کرو گے جیسے تمہارے اجدادنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رفاقت چھوڑ دی تھی اور جہاد سے جان چرا بیٹھے تھے تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہوگی۔ چنانچہ نصیب ہوئی۔ ایک لمحہ کے لیے اس سارے رکوع کو سامنے رکھ کر اُمت محمدیہ کے احوال پر غور کیجیے، ان پر خدا کے وہ انعامات ہوئے جو نہ پہلے کسی اُمت پر ہوئے نہ آئندہ ہوں گے۔ ان کے لیے خاتم الانبیاء سیدالرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو ابدی شریعت دے کر بھیجا۔ ان میں وہ علماء اور ائمہ پیدا کیے جو باوجود غیرنبی ہونے کے انبیاء کے وظائف کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ ایسے ایسے خلفاء نبی علیہ السلام کے بعد اُمت کے قائد بنے جنھوں نے سارے جہان کو اخلاق اوراصول سیاست وغیرہ کی ہدایت کی۔ اس اُمت کو بھی جہاد کا حکم ہوا۔ عمالقہ کے مقابلہ میں نہیں روئے زمین کے تمام جبارین کے مقابلہ میں۔ محض سرزمین ‘شام’’ فتح کرنے کے لیے نہیں بلکہ شرق و غرب میں کلمۃ اللہ بلند کرنے اور فتنہ کی جڑ کاٹنے کے لیے بنی اسرائیل سے خدا نے ارض مقدسہ کا وعدہ کیا تھا لیکن اس اُمت سے یہ فرمایا: وعداللّٰہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضٰی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم امناً (نور، رکوع۷) اگر بنی اسرائیل کو موسیٰ علیہ السلام نے جہاد میں پیٹ پھیرنے سے منع کیا تھا تو اس اُمت کو بھی خدا نے اس طرح خطاب کیا۔ یایھا الذین امنوا اذا لقیتم الذین کفروا از حفاً فلا تولوھم الادبار (انفال، رکوع۲) انجام یہ ہواکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفقا تو عمالقہ سے ڈر کر یہاں تک کہہ گزرے کہ اذھب انت وربکم فقاتلا انا ھھنا قاعدون۔ تم اور تمہارا پروردگار جاکر لڑ لو ہم یہاں بیٹھے ہیں لیکن اصحاب محمدؐ نے یہ کہا کہ خدا کی قسم! اگر آپ سمندر کی موجوں میں گھس جانے کا حکم دیں گے تو ہم اسی میں کود پڑیں گے اور ایک شخص بھی ہم میں سے علیحدہ نہیں رہے گا۔ امید ہے کہ خدا آپ کو ہماری طرف سے وہ چیز دکھلائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ ہم اپنے پیغمبرکے ساتھ ہوکر اس کے دائیں اور بائیں، آگے اور پیچھے ہر طرف جہاد کریں گے۔ خدا کے فضل سے ہم وہ نہیں ہیں جنھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا تھا: اذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ جتنی مدت بنی اسرائیل فتوحات سے محروم ہوکر ‘‘وادی تیہ’’ میں بھٹکتے رہے اس سے کم مدت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے مشرق و مغرب میں ہدایت و ارشاد کا جھنڈاگاڑ دیا۔ رضی اللّٰہ عنھم ورضوا عنہ ذٰلک لمن خشی ربہ۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص۱۴۹ ، پاک کمپنی لاہور)

قال فانھا محرمۃً…… علی القوم الفسقین

بنی اسرائیل کو صحرا گردی کی سزا

‘‘اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑکی علیحدگی کی درخواست تو منظور نہیں فرمائی، اس لیے کہ پیغمبر قوم کے لیے بمنزلۂ روح ہوتا ہے۔ قوم سے اس کی علیحدگی، اور وہ بھی اعلانِ برات کے ساتھ، پوری قوم کے لیے پیغام ہلاکت ہوتی ہے لیکن بنی اسرائیل کی اس ناقدری اور بے یقینی کی سزا ان کو یہ دی کہ چالیس سال کے لیے سرزمینِ مقدس کو ان کے لیے حرام کر دیا اور یہ فیصلہ فرما دیا کہ یہ مدت یہ اسی صحرا گردی میں گزاریں گے۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۹۱، فاران فاونڈیشن لاہور)

اجتماعیات کا ایک اہم سبق

‘‘اس صحرا گردی کے دوران میں بنی اسرائیل حضرت موسٰی ؑو حضرت ہارون ؑ کی قیادت سے بھی محروم ہوگئے اور ان کی وہ پوری نسل بھی ختم ہوگئی جس نے قبطیوں کی غلامی کے زیرسایہ پرورش پائی تھی، البتہ وہ نسل باقی رہی جو اس صحرا کی فضا میں پلی اور جوان ہوئی۔ اسی نے بعد میں یوشع کی قیادت میں موعودہ سرزمین کو فتح کیا۔ اس سے ہمارے بعض علمائے اجتماعیات نے یہ نتیجہ نکالا ہے اور صحیح نتیجہ نکالا ہے کہ آزادی و حکمرانی کی ذمہ داریوں کے لیے خود اعتمادی اور اولوالعزمی ضروری ہے۔ مصر کی غلامی نے یہ چیز بنی اسرائیل کے اندر سے ختم کر دی تھی۔ قدرت نے ان کو صحرا کی بھٹی میں تپا کر ازسرنو ان کے اندر یہ جوہر پیدا کیا تب وہ اس قابل ہوسکے کہ کسی ملک کو فتح اور اس پر حکومت کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے ضابطے اور قاعدے بنائے ہیں اور یہ ضابطے اور قاعدے بالکل بے لاگ ہیں۔ قدرت نے اجتماعی ترقی کے لیے جو زینے ٹھہرا دیے ہیں ان کو طے کیے بغیر کوئی قوم بامِ ترقی پر نہیں پہنچ سکتی۔ اگرچہ وہ حضرت ابراہیم ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کی نسل ہی سے کیوں نہ ہو۔ تاریخِ بنی اسرائیل کے اس واقعے نے ان کے اس زعم کی پوری پوری تردید کردی جس کا حوالہ اُوپر گزر چکا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے محبوب اور چہیتے سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے عمل و طااعت کی ذمہ داریوں سے اپنے کو بری خیال کیے بیٹھے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارا یہ گمان کچھ حقیقت رکھتا ہے تو موسٰی ؑ کی موجودگی میں تو تم اور بھی زیادہ چہیتے تھے۔ پھر اس وقت ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے ڈگ ڈال دیے تھے تو خدا خود تمہیں اپنے کندھوں پر اُٹھا کر لے جاتا اور فلسطین کا بادشاہ بنا دیتا۔ پھر خدا کی جنت کو تم یونہی مفت میں حاصل کرنے کے خبط میں کیوں مبتلا ہو!’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۹۲، فاران فاونڈیشن لاہور)

مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ،۵۔ سید ابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی

تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیعؒ ، ۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہریؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی