اقبال خورشید

1982


تعارف

اقبال خورشید (انگریزی: Iqbal khursheed) ایک پاکستانی صحافی، کالم نگار اور ادیب ہیں۔ وہ گذشتہ ایک عشرے سے پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہیں اور اس وقت روزمانہ ایکسپریس میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انٹرویو نگاری ان کا خاص حوالہ ہے۔ ان کا فکشن شہرکراچی کے متوسط طبقے کی زندگی اور اساطیری علامات کے گرد گھومتا ہے۔

ابتدائی زندگی

اقبال خورشید نے 1982ء میں سندھ کے شہر کراچی میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی برس سعودی عرب کے شہر جدہ میں گزرے۔ انھوں نے سائنس سے گریجویشن کرنے کے بعد2006ء میں جامعہ کراچی سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کیا۔، جس کے بعد انھوں نے عملی صحافت میں قدم رکھا۔

صحافتی سفر

انھوں نے اپنے سفر کا باقاعدہ آغاز 2005ء کے بلدیاتی انتخابات کے لیے تشکیل کردہ جیو ٹی وی کے الیکشن سیل سے کیا۔ روزنامہ جرأت[1] سے بہ طور کالم نگار منسلک رہے۔ اس عرصے میں مسٹری میگزین اور ایڈونچر ڈائجسٹ ایڈٹ کیے۔ 2007 میں وہ روزنامہ ایکسپریس میں میگزین سے منسلک ہو گئے۔ گذشتہ سات برسوں میں انھوں نے سیاست، فنون لطیفہ، صحافت اور اسپورٹس کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی سیکڑوں شخصیات کے انٹرویوز کیے۔ ساتھ ہی ایکسپریس میگزین کے لیے درجنوں تحقیقی اور ترجمہ کردہ مضامین لکھے۔ انھوں نے معراج محمد خان، سید منور حسن، این ڈی خان، نثار کھوڑو، نسرین جلیل، حنیف محمد، ظہیر عباس، راشد لطیف، سہیل عباس، قاضی واجد،طلعت حسین، محمد علی شہکی جیسی شخصیات کے خاکے لکھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کراچی سے نکلنے والے معروف ادبی جریدے اجرا[2] کے لیے ادبی انٹرویوز کیے، جن میں انتظار حسین، اسد محمد خان، مستنصر حسین تارڑ، مرزااطہر بیگ اور محمد حنیف کے انٹرویوز نمایاں ہیں۔

کالم نگاری

اقبال خورشید کا ایک حوالہ کالم نگاری[3] بھی ہے۔ ان کا ہفتہ وار کالم ’’نمک کا آدمی‘‘ روزنامہ ایکسپریس میں ہر جمعرات کو شایع ہوتا ہے۔

فکشن نگار

اقبال خورشید نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کے افسانہ سہ ماہی اجرا[4]، سہ ماہی آیندہ، کولاژ اور قرطاس سمت کئی اہم جراید میں شایع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تخلیقات اردو سخن [5] دی اردو ٹائم، ادبستان، بزم اردو لائبریری اور دیگر ادبی ویب سائٹس پر شایع کیے گئے ہیں۔ ان کے افسانے کراچی کے متوسط طبقے کو درپیش مسائل کے گرد گھومتے ہیں جو اساطیری علامات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے افسانے محمد عاصم بٹ اور اے خیام جیسے معروف اور مستند تخلیق کاروں کی جانب سے کیے جانے والے افسانوی انتخاب کا بھی حصہ بنے۔ سرد خانے کا ملازم، من و تو، ایک کال سینٹر ایجنٹ کی سرگزشت اور عامیانہ پن ان کے مقبول افسانے ٹھہرے،اُن کے نوویلا ”تکون کی چوتھی جہت“ کو محمد سلیم الرحمان، ڈاکٹر حسن منظر، مستنصر حسین تارڑ اور مشرف عالم ذوقی جیسے مستند قلم کاروں نے سراہا۔

مقبول افسانے

ایک پاگل کہانی[6]،سرد خانے کا ملازم، من و تو، ایک کال سینٹر ایجنٹ کی سرگزشت ،عامیانہ پن وغیرہ