سوال : آپ اپنا تعارف کرائیں یعنی پریوارک پر یچے کرائیں ؟

جواب : میرا پہلا جنم تو مظفر نگر کے ملہو پورہ محلہ کے ایک دلت بلکہ چمار گھرانے میں ۶ ؍ اگست ۱۹۵۸؁ء   کو ہوا، ایسا میرے اسکول کے سرٹیفکٹ میں چڑھا ہے۔ اصل جنم تتھی (تاریخ پید ائش ) تو کسی چمار کے گھر وہ بھی پچاس سال پہلے کیسے پتہ ہو گی۔ میرے پتا جی (والد صاحب) بیچارے مزدوری کر تے تھے بعد میں کمزور ہوگئے تو سبزی بیچنے لگے۔ ان کا اتر سنگھ جی نام تھا، انھوں نے میرا نام بنواری لال رکھا، ہمارے خاندان میں پڑھائی کا رواج نہیں تھا، بس ہمارے ایک ماموں ایک بینک میں چپراسی تھے اور آٹھویں کلاس پاس تھے۔ انھوں نے مجھے پڑھانے کی کوشش کی اور اپنے خاندان میں میں نے بارہویں کلاس پاس کی پھر ٹائپنگ سیکھ لی اور پو لیس میں مجھے کلرک کی نوکری مل گئی، بڑی وپر یت استھتی (مخالف ماحول) میں میں نے پڑھائی کی ۔اسکول میں ہیڈماسٹر ایک پنڈت جی تھے بس اتنا ذلیل کر تے تھے کہ کئی بار ز ہر کھانے کو جی کرتا تھا۔ کلاس میں سب سے پیچھے بٹھاتے تھے اور بری بری گالیاں دیتے تھے۔ زندگی بھر اونچی ذات والوں سے ہم ذلیل ہو تے رہے۔ پولیس کی نوکری بھی بڑی بری ہے، ۲۵ ؍ سال میں ایک سوسر سٹھ تھانوں میں میراتبادلہ ہوا۔ آپ کے یہاں رتن پوری تھانہ میں بھی رہا اور آپ کے یہاں ہی مجھے صدر محرر کی ترقی ہوگئی تھی۔

میرا دوسرا جنم ( پیدائش ) اب سے دو مہینے پہلے ۱۸ ؍ جولائی کو ہوا۔

سوال : اچھا اچھا، وہ تو ہمارے پورے گھر والوں کو معلوم ہے، مگر آپ پھر بھی اس جنم کے بارے میں ذرا اپنی زبانی بتائیے، یعنی اپنے اسلام قبول کر نے کے بارے میں بتائیے، اس لئے آپ کو کہانی سنانی پڑے گی

جواب : جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ بہار کے ایک بڑے ڈاکٹر کی لڑکی میرٹھ کا لج میں پڑھتی تھی اور اپنی بوا کے گھر رہتی تھی۔ اس کے نا جا ئز تعلقات ایک مسلمان لڑکے سے ہوگئے، لڑکے کا نام بلال تھا، دونوں میں بات بڑھتی گئی دونوں نے ٹھان لی کہ شادی کر لیں گے۔ ایک روز لڑکی اپنی بوا کا گھر چھوڑ کر لڑکے کے پاس آگئی کہ مجھے مسلمان کر کے شادی کرو، لڑکا بہت سیدھا اور کمزور دل کا تھا اس نے منع کیاکہ میرے گھر والے تو کسی طرح تجھے گھر نہیں رکھ سکتے اور میرے حالات کہیں رکھنے کے نہیں ہیں، لیکن لڑکی نہ مانی اس نے کہا کہ اگر تو نے مجھ سے شادی نہ کی تو میں زہر کھا لوں گی۔ لڑکا مجبور ہوا، کئی جگہ شادی اور نکاح کے لئے لے گیا، کو ئی تیار نہ ہوا۔ کسی نے اس کو پھلت جانے کا مشورہ دیا وہ پھلت پہنچا مولانا کلیم صاحب نے پورے حالات سنے، لڑکی سے خوب ٹھونک کر پوچھا۔ اس نے کہاکہ میرے گھر والے توتیار ہو جائیں گے میرے والد تو آدھے مسلمان ہیں روزانہ قرآن شریف پڑھتے ہیں، حضرت صاحب نے کلمہ پڑھوا کر ان کا نکاح کر وادیا اور قانونی کار وائی مکمل کر نے کا مشورہ دیا۔ وہ لڑکا بہت سیدھا تھا، وہ بولا اب میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے میرے نانا کلکتہ میں رہتے ہیں میں نے سوچا تھا ہم وہاں چلے جائیں گے ان سے فون پر بات کی تو انھوں نے صاف منع کر دیا۔ میرے گھر والے ہر گز مجھے گھر میں داخل نہیں ہو نے دیں گے، مولا نا صاحب نے کہا :تیرے گھر والے تجھے نہیں رکھتے تو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں ؟ مگر بلک بلک کر رونے لگا حضرت صاحب کو ترس آگیا، انھوں نے ان دونوں کو دو چارروز تک پھلت رکھ کر دہلی بھیج دیا اور ایک کمرہ کرایہ پر دلوادیا اور اپنی بہن سے لڑکی کی پڑھائی یعنی اسلام کی پڑھائی طئے کردی۔ لڑکی کا نام ثنا رکھا۔ مولانا صاحب کی بہن کے یہاں لڑکی کو بہت کم وقت میں اسلام سمجھ میں آگیا اور ایمان اب اس کے لئے بلال سے زیادہ پیارا ہوگیا۔ لڑکی کی بوانے بلال اور اس کے گھر والوں کے خلاف اغواکی تھا نہ میں شکایت لکھوائی۔ بہار کے ایک سینئر آئی پی ایس افسر لڑکی کے رشتہ دار تھے، انھوں نے میرٹھ کے ایس ایس پی پر زیادہ دباؤ دیا کہ وہ لڑکی کو بر آمد کریں۔ بلال کے والد اور گھر والوں کو پولیس اٹھاکر لے گئی، مولانا صاحب کے با ر بار دباؤ دینے کے باوجود بلال اپنی سستی اور کم ہمتی میں قانونی کارروائی نہیں کراسکا، لڑکی نے تھانہ میں فون کیا کہ میں گریجویٹ ہوں اور میں نے اپنی مر ضی سے شادی کی ہے، مگر پولیس پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بلال کے بڑے بھائی نے کسی طرح مولانا صاحب کا نمبر لیا اور فون کیا کہ کسی طرح بلال کا پتہ بتادیں، ہمیں صرف قانونی کاغذات لینے ہیں تاکہ تھانہ میں دکھاکر اپنے گھر والوں کو چھڑا لیں۔ مولانا اس وقت ممبئی میں تھے انھوں نے ان کو مشورہ دیا کہ دو روز بعد بلال دہلی کی کسی مسجد میں آئے گا آپ وہاں مل لیں ہمارے بہنوئی آپ سے ان کی ملاقات کر دیں گے ۔ دوپہر کی نماز میں بلال مسجد میں نہیں پہنچا اور بلال کے بھائی معلوم کرتے کرتے مولانا صاحب کے دہلی والے گھر پہنچ گئے، وہاں گھر والوں نے کہا کہ ہم کسی بلال کو نہیں جانتے پھر اس نے مولانا صاحب کو فون کیا ۔مولانا صاحب نے کسی طرح بلال کو تلاش کر کے اس کو بھائی سے ملنے کوکہا، پولیس کا دباؤ پڑا تو بلال کے اس بھائی کو بھی پکڑلیا۔ ان سب پر دباؤ بھی دیا اور لالچ بھی کہ ہمیں صرف لڑکی چاہئے، اگرلڑکی کا پتہ تم لوگ بتادو ہم سب لوگوں کو چھوڑدیں گے۔ بلال کے بھائی نے اپنے چھوٹنے کے لا لچ میں تھانہ انچارج سے کہا کہ لڑکی دہلی میں مل سکتی ہے، وہ اس کو اور لڑکی کے بھائی کو لے کر رات کو دہلی پہنچے اور ۱۷؍جولائی کی رات کے ساڑھے تین بجے بٹلہ ہاؤس میں حضرت صاحب کے گھر چھاپہ مارا۔ مولانا صاحب کسی انتقال میں جانے کی تیاری کررہے تھے۔ پولیس نے گھر کی تلاشی لی اور مولانا صاحب سے بلال کا پتہ معلوم کیا، مولانا صاحب نے بتایا کہ بلال ان کے پاس نہیں ہے بلکہ کل اس کا فون آیا تھا، رورہا تھا کہ آپ کا کمرہ تو خالی کردیا اب میں کیا کروں؟میں نے سفر سے فون پر اس کو پنجاب کے ایک دوست کا نمبر دیا کہ کوشش کرلو، اگر وہ تمھیں کرایہ کا مکان اور کوئی نوکری دلوادیں۔پولیس مولانا صاحب کو جامعہ نگر چوکی لے گئی اور پھر فوراََ میرٹھ کے اس تھانہ میں روانہ ہوگئی، موبائل بھی اپنے قبضہ میں کرلیا۔ مولانا صاحب بتاتے ہیں، زندگی میں پولیس سے ایسا پہلا سابقہ تھا فوراََ مجھے خیال ہواکہ دعوت ہر مشکل کا علاج ہے۔ مولانا نے دعوت کی بات شروع کی۔ ایک گاڑی میں تھانہ انچارج موتلہ صاحب اور حضرت صاحب تھے، مولانا صاحب نے تھانہ انچارج سے معلوم کیا کہ آپ پولیس والے ہی ہیں یا انسان بھی ہیں، وہ بولے پہلے ہم انسان ہیں بعد میں پولیس والے۔ مولانا ہم پہاڑکے رہنے والے ہیں اتراکھنڈ کے اور پہاڑی لوگ پہلے انسان ہوتے ہیں مولانا صاحب نے کہا آپ میری طرف دیکھئے، میرے چہرے سے آپ کو کیا جرائم ٹپک رہے ہیں، کیا میں کوئی لڑکی اغواکرسکتا ہوں؟ موتلہ صاحب نے کہا :سر ہم نے آپ کا کوئی انادر (بے عزتی) تو نہیں کی۔ آپ پولیس کی مدد کیجئے، ہمیں صرف لڑکی چاہئے، ہم پر بہت دباؤ ہے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ یہ کوئی آدر ہے کہ آپ ایک شریف آدمی کو تین بجے رات میں بغیرکسی جرم کے تھانہ لے جارہے ہیں مولانا نے مراد نگر مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت چاہی، تو موتلہ جی ہاتھ جوڑنے لگے۔ سر میں مسجد میں نماز پڑھنے نہیں دے سکتا آپ کہیں راستہ میں نماز پڑھ لیں، گاڑی میں چٹائی ہے، مولانا صاحب نے کہانماز تو آپ کو بھی پڑھنی چاہئے، ایک دن مالک کے سامنے آپ کو بھی جانا ہے، وہاں آپ سے اس کا سوال ہوگا کہ آپ نے نماز کیوں نہیں پڑھی۔ مولانا نے اس کو اسلام کے بارے میں بتاناشروع کیا، تھا نہ پہنچ گئے، تھانے میں کرسی پر بٹھا کر اس نے سپاہی کو چائے اور بسکٹ لانے کو کہا، حضرت صاحب نے منع کیا، کہ ہم لوگ پولیس کی چائے نہیں پیتے، مگر موتلہ جی نے کہا کہ چائے والے سے معلوم کر لیجئے کہ ہم کس طرح پیسے دیتے ہیں۔ اگر آپ سنتوشٹ (مطمئن) ہوں تو چائے لے لیجئے، ورنہ چائے کے پیسے اپنے پاس سے ادا کردیجئے چائے تو پی لیجئے موتلہ جی نہانے اور ناشتہ کے لئے میرٹھ گھر چلے گئے، تھوڑی دیر میں مولانا صاحب کے بہنوئی اور ایک دو وکیل آگئے۔ مولانا صاحب ان سے بات کررہے تھے، مولانا صاحب نے بتایا کہ تھانے کا ایک سنتری آیا اور بولا : مولانا صاحب آپ اپنی کرسی لے کر اندر الگ بیٹھئے۔ مولانا صاحب نے سوچا، تھا نے میں اپنی عزت بچانی چاہئے، بس وہ اندر آگئے، اصل میں میرے مالک کو مجھ مظلوم پر رحم آگیا کہ کنویں کو پیاسے کے پاس گرفتار کر کے بھیجا۔ میں اپنے ماتحت سپاہی سے بحث کررہا تھا وہ اہلا وت چودھری تھا، میں نے کہا کہ سارے کام ہم کرتے ہیں، بس تمہارے پاس بدھی تو ہے ورنہ سارے کام ہم کرتے ہیں، میں نے کہا: میاں صاحب ! مندر ہم بنائیں، مسجد ہم بنائیں، سب کام ہم کریں اور ہمیں گھسنے بھی نہیں دیتے۔ مولانا صاحب نے کہا مندر کی بات آپ سچ کہہ رہے ہیں، مسجد کی یہ بات سچ نہیں ہے، آپ کسی مسجد میں امام کے پیچھے چلے جائیں، کوئی آپ کو روکے گا نہیں۔ آپ ہندو پہچان کے ساتھ دہلی کی جامع مسجد میں جایئے، آپ کو کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے نہیں روکے گا۔ میں نے کہا مولانا صاحب اصل میں ہم چمار ہیں، بس بتا نہیں سکتا کیسے دکھ بھرے ہیں ہم نے، اسکول میں ماسٹر سب سے پیچھے بٹھاتا تھا، آواز بالکل ہلکی تھی، کچھ سوال کرلیتا تو بس گالیاں دیتا۔ کتنی بار دل میں آیا کہ مالک نے ہمیں ہندو کیوں بنا دیا، کئی بار خیال آیا کہ بودھ یا مسلمان ہو جاؤں۔

مولانا صاحب نے بتایا بودھ بننے سے تو امبیڈکر جی کا مسئلہ حل نہیں ہوا، انھوں نے خود لکھا ہے کہ مسلمان ہونا ہی مسئلہ کا حل تھا میں نے کہا کہ ہمیں تو کوئی مسلمان کرنے والا ملتا نہیں۔ مولانا صاحب نے کہا کہ میں آگیا ہوں نا آج، میں نے کہا کہ مولانا صاحب آپ تو مذاق میں لے رہے ہیں، میرا دل تو کڑھ رہا ہے میں بہت سیریس لی بات کررہا ہوں۔ مولانا صاحب نے کہا کہ میں آپ سے کئی گنا زیادہ سیرس ( سنجیدہ) ہوں اور بولے، پڑھ لو کلمہ ‘‘ لا الہ الااللہ محمدر سول اللہ’’ پڑھو جلدی، بس ہوجاؤ گے مسلمان۔ میں نے کہا یہ تو مجھے یاد ہے مولانا صاحب نے کہا کہ مجھے سناؤ میں نے سنایا مولانا صاحب بولے اب اس کو مسلمان ہونے کی نیت سے سچے دل سے پڑھ لیجئے، یہ خیال کر کے کہ قرآن جو مالک کی طرف سے سنودھان (منشور) ہے، اس کی شپتھ (حلف) لینے کے لئے پڑھ رہا ہوں کہ اس منشور کو مانوں گا۔ مولانا کے زور دینے پر میں نے پڑھا، مولانا نے کہا بس مسلمان ہو گئے۔ میں نے کہا اب مجھے مسلمان ہو نے کے لئے کیا کرنا ہے؟مولانا صاحب نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لئے کچھ نہیں کرنا ہے، بس اچھا مسلمان ہونے کے لئے اسلام کو پڑھنا ہے، نماز سیکھنی ہے، صفائی کا اسلامی طریقہ سیکھنا ہے ۔میں نے کہا مجھے کہا ں جانا پڑے گا ؟مولانا صاحب نے کہا کہ پھلت آجانا، میں نے کہا پھلت جو رتن پوری تھا نہ میں ہے اور جہاں بڑا مدرسہ ہے اور جہاں کے مولانا مشہور ہیں، مولانا صاحب نے کہا ہاں وہی، مولانا صاحب نے کہا فون نمبر لکھ لیں اچھا ہے میری موجودگی میں آئیں۔احمد مولانا صاحب !میں بیان نہیں کرسکتاکہ مجھے کلمہ پڑھ کر ایسا لگا جیسا میں نے ایک تنگ اور گھٹن کی زندگی سے ایک نئے جگت (جہان)میں جنم لیا ہے۔

مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ انھوں نے مجھے جیسے ہی کلمہ پڑھوایا، موتلہ صاحب کے پاس ہوم سکریڑی اور لیڈروں اور افسروں کے فون آئے، انہوں نے تھانے میں فون کیا، انسپکٹر سے بات ہوئی، موتلہ صاحب نے کہا کہ مولانا صاحب کو آدر سے آفس میں بٹھاؤ اور ناشتہ وغیرہ کراؤ، میں آتا ہوں۔

موتلہ جی آگئے مولانا صاحب سے معذرت کی کہ پولیس کو اصل حال معلوم نہیں تھا، آپ باعزت جاسکتے ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ آپ آگے کوئی کارروائی نہ کریں، مجھے بالکل ایسا لگا جیسے میرے مالک نے مجھے دنیا کی تنگی اور ظلم سے نکالنے کے لئے مولانا صاحب کو گرفتار کر کے بھیجا۔ مو لانا کہتے بھی ہیں کہ آپ مجھے ایسے ہی بلوالیتے،رات کو تین بجے کلمہ پڑھوانے کے لئے گرفتار کروایا میں کس منھ اپنے پیارے مالک کا شکرادا کرسکتا ہوں۔

سوال : اس کے بعد موتلہ جی کا کیا ہوا؟

جواب : اخباروں میں مولانا صاحب کی گرفتاری کی خبرچھپ گئی فون پرفون احتجاج کے آنے شروع ہوئے، موتلہ اور انسپکٹر کا ٹرانسفر ہوا بلکہ ڈموشن ہوا، تقریبا سارا تھا نہ بدلا گیا، میرابھی ٹرانسفر ہوا، موتلہ صاحب اپنا سامان لینے آئے تو میں ان سے ملنے گیا، بولے دہلی سے آتے وقت مولانا صاحب نے گاڑی کے اندر کی لائٹ جلاکر جب کہا کہ میرا چہرہ دیکھئے آپ، کیا اس سے جرائم ٹپک رہے ہیں ؟ میں بیان نہیں کرسکتا، جیسے مجھ پر بجلی گر گئی ہو میرے دل میں آیا کہ کسی مہان (بڑے) آدمی پر تو نے یہ ہاتھ ڈالا، بعد میں افسروں کے دباؤ سے بچنے کے لئے مولانا صاحب کا نام توایف. آئی. آرمیں لکھا کہ مولانا صاحب کے علم میں تھا،مگر مجھے اندر سے ایسا لگتاہے بنواری لال، وہ لڑکی کیا مسلمان ہوئی ہم سبھی کو مسلمان ہونا پڑے گا۔میں نے ان کو مولانا صاحب کی کتاب آپ کی امانت بھی دی،ان کا فون آیا تھا اسلام کے تعارف کے لئے اور کوئی کتاب بھیجنا۔

سوال : پھر آپ نے اسلام کو پڑھنے اور سیکھنے کے لئے کیا کیا ؟

جواب : سب سے پہلے تو میں نے اپنے اطمینا ن کے لئے ایک روزکی چھٹی لی اور دھوتی پہنی، تلک لگایا اور دہلی جامع مسجد پہنچا۔ گیارہ بجے جامع مسجد پہنچا اور نماز کا وقت معلوم کیا تو لوگوں نے بتایا کہ ڈھائی گھنٹہ بعد اکٹھی نماز ہوگی۔ اکیلے تو جب چا ہو پڑھ سکتے ہو، میں امام صاحب کی جگہ پیچھے جاکر بیٹھ گیا، دو گھنٹہ بعد اذان ہوئی لوگوں نے مجھ سے بتایا کہ نماز ہونے والی ہے، آپ یہاں سے تھوڑی دیر کے لئے چلے جائیں۔ میں نے کہا میں چمار ہوں ہندو مذہب کا کوئی مجھے مندر نہیں جانے دیتا، آج مسجد دیکھنے آیا ہوں۔ اذان دینے والے میاں جی کا ایک مصلیٰ بچھا تھا، انہوں نے اسے جھاڑا اور مجھے کہا آپ اس پر بیٹھ جائیں۔میں نے امام کے پیچھے نماز پڑھی لوگ یہ معلوم کرکے کہ میں چمار ہوں بہت خوش ہوئے اور کئی لوگوں نے مجھے گلے لگایا اسلام کی سچائی پر اب مجھے پورا یقین آگیا تھا، اب میں گھر گیا اپنے بچوں اور گھر والوں کو بتایا سب لوگ بہت خوش ہوئے اور میں نے پھلت مولانا صاحب سے وقت لے کر ان چاروں بچوں اور بیوی کو کلمہ پڑھوایا۔

سوال : آپ کے خاندان والوں نے کچھ مخالفت نہیں کی ؟

جواب : ہمارے خاندان والے مظفر نگر میں رہتے ہیں ہمارا ان سے رابطہ زیادہ نہیں ہوپاتا، ہاں مجھے یقین ہے کہ سچائی معلوم ہوگی تو وہ مخالفت کر نے کے بجائے اسلام کے سائے میں آکر بے حد خوشی محسوس کریں گے، میں خود ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے مجھے پھانسی سے رہائی ملی ہو۔

سوال : دین کو سیکھنے کے لئے آپ نے کیا کیا ؟

جواب : میں نے مولانا صاحب سے بات کی ہے،انشا ء اللہ جلد چھٹی لے کر چار مہینے جماعت میں یا کسی مدرسہ میں لگادوں گا میں نے نام بدلنے کی بھی درخواست لگادی ہے۔ میں نے کتابیں پڑھنی شروع کردی ہیں، مولانا صاحب نے مجھے پچاس کتابوں کی فہرست بتائی ہے، جو ہندی میں مل سکتی ہیں۔ پچیس میں نے خریدلی ہیں، ہر لائن پڑھ کر مجھے اپنے مالک کے شکر میں بس سر رکھے رہنے کوجی چاہتا ہے۔

سوال : ارمغان پڑھنے والوں کے لئے آپ کچھ پیغام دیں گے ؟

جواب : مولانا احمد صاحب، میں ابھی کم عمر بلکہ بچہ ہوں، دو مہینے کی میری عمر ہے، دو مہینہ کا بچہ کچھ کہہ سکتا ہے؟ بس یہ بات میں سوچتا ہوں کہ سنسار میں لگ بھگ دوارب کم سے کم ڈیڑھ ارب تو دلت کالے اور بیک ورڈ، پسماندہ دراوڑیوں کے لوگ ہیں اسلام اور صرف اسلام ان کے دکھ کا علاج ہے، ان کومظلومیت سے صرف اسلام بچا سکتا ہے، اگر مسلمان ان کو اسلام کے انصاف اور برابری کا صرف پریچے (تعارف)اپنے سوبھاؤ سے کرادیں تو سب اسلام لاسکتے ہیں اور سار ے دبے کچلے سماج کے لوگ، اونچ نیچ کے ظلم سے بچ کر میری طرح ایسا محسوس کریں گے کہ ان کو پھانسی سے رہائی ملی ہے،اس لئے دو ارب انسانوں پر تو ضرور ترس کھائیں۔

سوال : آپ نے اپنا اسلامی نام نہیں بتایا

جواب : مولانا صاحب نے میرا نام محمد سلمان رکھا ہے، مجھے بہت پسند آیا،

سوال : بہت بہت شکریہ سلمان بھائی، آپ کو مذاق مذاق میں ہدایت نصیب ہو گئی۔

جواب : آپ کا بھی بہت بہت شکریہ، مولانا صاحب آپ کہہ رہے ہیں کہ مذاق میں ہدایت ہوئی میرے اللہ نے مجھ پر کرم کرکے ایک مہمان داعی کی عزت کو داؤ پر لگا کر میرے لئے گرفتار کر کے بھیجا، مجھے بہت خوشی ہوئی کہ دنیا کے لوگ ہمیں نیچ سمجھیں تو کیا۔ میرا مالک تو مجھے اتنا پیار کر تا ہے، خود مولانا صاحب کہہ رہے تھے کہ کلمہ پڑھنے کے بعد مجھے موتلہ صاحب کے اس طرح لانے پر غصے کے بجائے پیار آیا۔

سوال : ایک بات معلوم کر نا رہ گئی کہ آپ نے اپنے خاندان کے بارے میں کیا سوچا ؟ آپ کو ان میں تو کام کرنا چا ہیئے اب تو آپ بھی مسلمان ہیں آپ کی بھی ذمہ داری ہے ؟

جواب : بالکل سچ کہا، مولانا صاحب نے ہر ملاقات میں مجھے صرف اس پر زوردیا اور میں نے آپ کی امانت اور امبیڈکر اور اسلام ایک ایک ہزار چھپوائی ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ہمارے سماج کے لوگ اونچ نیچ کے ظلم اور پھانسی سے رہائی پاکر اسلام میں آئیں گے، آپ بھی دعا کریں ذرا مجھے اسلام کو پڑھنا ہے، میں نے قرآن بھی پڑھنا شروع کردیا ہے۔

سوال : بہت مبارک ہو ماشاء اللہ۔

جواب : بس آپ دعا ضرور کیجئے۔

سوال : آپ کے علم میں اس ثنا اور بلال کے مقدمہ اور بلال کے والدین کی باقی تفصیلات ہیں ؟

جواب : جی ہاں وہ خود بڑی عجیب ہیں۔

سوال : ذرا بتایئے؟

جواب : ایک ہفتہ تک بلال کے والد، اس کے بھائی، اس کے بہنوئی اور جس گھر میں وہ میرٹھ میں کرائے دار رہے، اس کے مالک کو بلال کے بہنوئی اور شاید بہن کو تھانے میں حوالات میں بند رکھا۔ مالک مکان کو تو پہلے سفارش پر چھوڑ دیا تھا، حضرت صاحب کا تھانے میں لانا تھا کہ افسروں کے فون آئے، تو گھبرا کر سب گھر والو ں کو چھوڑ دیا، الہ آباد ہائی کورٹ سے ایف آئی آرپر کارروائی پر اسٹے بھی اسی دوران لے لیا تھا، جولائی کو ۲۳ ؍ تاریخ کو لڑکی کے بیان ہونے تھے، لڑکی کے والد پوری ٹیم کے ساتھ الہ آباد آپڑے اور کوشش تھی کہ کورٹ پہنچنے سے پہلے لڑکی کو پکڑ لیں گے، اتفاق کی بات لڑکی کی رات میں طبیعت خراب ہوگئی، وہ بالکل اس حال میں نہیں تھی کہ بیان دے سکے، مگر مولانا صاحب کی بہن کے یہاں اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا تھا اور اسلام اس کے دل میں گھر کر گیا تھا کہ وہ جان پرکھیل کر ہائی کورٹ پہنچی اور راستہ میں بیہوش ہوگئی۔ کورٹ میں جاکر بیان سے پہلے اس نے اپنے گھر والوں کی طرف دیکھا بھی نہیں کورٹ میں اس نے ایسا بیان دیا کہ عدالت بھی حیرت میں رہ گئی۔ اس نے کہا میں بالغ ہوں پڑھی لکھی ہوں، اسلام کو سمجھ کر مسلمان ہوئی ہوں اور میں نے اپنی مرضی سے اپنے پسند کے شوہر سے نکاح کیا ہے، میرے گھر والے بے کار میں سب لوگوں کو پریشان کررہے ہیں۔ لڑکی کے والد نے بہت چاہا کہ لڑکی کو تین روز کے لئے ہمیں دے دیا جائے، مگر وہ تیار نہیں ہوئی اور اس نے کہا کہ میرا ایمان وہاں جاکر خطرے میں پڑ جائے گا۔ بیان دینے کے بعد سنا ہے اس نے اپنے والد سے فون پر بات کی اور کہا کہ ڈیڈی آپ تو ہر وقت اسلام کی باتیں کرتے تھے اور روزانہ قرآن شریف پڑھتے تھے اب میں مسلمان ہوگئی تو اب آپ خود اس کے خلاف ہوگئے اور اس نے اپنے والد کو مسلمان ہونے کو کہا اور مولانا صاحب سے ملنے کو کہا، سنا ہے کہ وہ مولانا صاحب کے مکہ معظّمہ سے آنے کا انتظار کررہے ہیں اور مولانا صاحب سے ملنے کے لئے بیتاب ہیں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ کو ثناء کے گھر والوں کو بھی ہدایت دینی ہے ورنہ اس طرح کے کیس میں لڑکی کا باپ کہاں ایسی بیتابی سے ملنے کا انتظار کرتا ہے۔ مولانا صاحب کہہ رہے تھے وہ بھی توہمارے بھائی ہیں ہمیں جتنا موقع ملے گا ہم ان کے ساتھ بھی خیر خواہی کا معاملہ کریں گے۔

سوال : بلال کے گھر والوں کا حال آپ کو معلوم ہے؟

جواب : بلال کا بھائی گوہر جو رات میں پولیس کو دہلی مولانا صاحب کے گھر لایا تھا اس کو اپنی غلطی پر بہت پشیمانی ہوئی اور سنا ہے کہ مولانا صاحب سے ملنے دہلی گیا ہے اور بہت شرمندگی کے ساتھ معافی مانگی، لڑکی کے جان پر کھیل کر اس طرح بیان دینے سے اس کے گھر والے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے باقا عدہ اس کی رخصتی کر ائی اور سنا ہے اپنی بیٹی سے زیادہ اسے چاہنے لگے ہیں ثناء نے ان کے گھر میں بہت دین کا ماحول بنادیا ہے گھر والے نماز پڑھنے لگے ہیں اور کافی اچھے مسلمان بنتے جا رہے ہیں۔

سوال : یہ تفصیلات آپ کو کس طرح معلوم ہوئی ؟

جواب : اصل میں اپنے اسلام کے بعد مجھے دلچسپی ہوئی میں نے تلاش شروع کی کہ اس کیس میں کس کس کے حصے میں اسلام کی خیر آئی ہے، مولانا صاحب نے مجھے چاروں ملا قاتوں میں یہ بات سمجھانے کی کو شش کی ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جہاں جائے خیر خواہی کرے۔ ہمارے نبی ؐکی شان یہ تھی کہ دوست تو دوست دشمنی کرنے والوں کو بھی بھلائی اور اپنی خیر خواہی سے محروم نہیں رکھتے تھے، سچی خیر خواہی یہ ہے کہ مسلمان جہاں جائے اسلام پھیلائے اور داعی کی پہچان کے ساتھ رہے اور داعی وہ ہے جہاں جائے اس کی دعوتی خیر پھیلے۔مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ہم اسی رحمت بھرے نبی کے امتی ہیں، اگر ہم اندر سے نہیں تو باہر سے ہی داعی بننے کی کوشش کریں۔میں تو اس لئے ہر جگہ دعوت دعوت کا شور مچاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس بھلائی کے بہروپ اورڈھونگ میں اپنے نبیﷺ کی نقل کی وجہ سے، جان اور حقیقت بھی پیدا فرما دیتے ہیں۔ مولانا صاحب کہہ رہے تھے کہ اب آپ اس کیس پر نظر رکھئے اور دیکھئے کہ چند گھنٹوں میں میرے تھا نہ جانے سے اللہ تعالیٰ نے انشاء اللہ کتنے لوگوں کو کفر و شرک سے نکالیں گے، اس لئے میں چاروں طرف نظر رکھ رہا ہوں اور کھلی آنکھوں میں اسلام کا نور پھیلتا دیکھ رہا ہوں۔( مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، ستمبر ۲۰۰۷؁ء )