میں کیسے مسلمان ہوا؟

مصنف : محمد داؤد

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : مارچ 2022

میری پیدائیش اڑیسہ کے پادری گھرانے میں ہوئی ۔ میری والدہ بھی ایک کیتھولک چرچ کے پادری کی بیوی تھیں ۔انہوں نے میری پیدائش سے قبل نذر مانی تھی کہ میری جو بڑی اولاد ہوگی ،اس کو یسوع کے نام نذر کروں گی۔میں پیداہوا‘وہ دو ہفتوں کے بعد مجھے لے کر چرچ گئیں اور وہاں چرچ کے ذمے داروں کے سامنے نذر کی رسم پوری کی۔میری ابتدائی تعلیم مشن اسکول میں ہوئی ،بعد میں مجھے کالج میںداخل کیا گیا۔بی اے آنرز کے بعد تھیالوجی سے میں نے ایم اے کیا اور مقصد مشن کی تبلیغ تھی۔ایم اے کرنے کے بعد مجھے مشن نے بہار میں گیازون میں مشن کی تبلیغ کے لئے بھیج دیا ۔میری بہترین کار کردگی کے بعد مجھے گیا کے مشہور چرچ کا ذمہ دار پادری بنا دیا گیا، اور لوگ مجھے فادر مارکس ڈیوڈ کہنے لگے ۔میری تربیت مشن کو ذہن میں رکھ کر کی گئی تھی ،اس لئے میں نے بھی خدا کو راضی کرنے کے لئے اپنے بال بال کوعیسائیت کی تبلیغ کے لئے وقف کر دیا ۔
میں نے تمام مذہب کے لوگوں پر کام کیا۔میرا یقین تھاکہ عیسائیت ہی مدارِنجات ہے ۔گیا میں بودھوں پر میں نے بہت کام کیا ۔سیکڑوں بودھوں کو عیسائی بنا دیا۔ مسلمانوں پر بھی میں نے کام کیا ۔ ۱۷؍ مسلمانوں کے نام میرے رجسٹر میں درج ہیں ،جن کو میں نے عیسائی مذہب اختیار کرایا ،اسکے علاوہ ہندوؤں خصوصاً دلت ہندوؤں کی بڑی تعداد میری دعوت پر عیسائی ہوئی اپنے مشن میں جیسے جیسے مجھے کامیابی ملتی گئی ،میرا حوصلہ بڑھتا گیا۔ایک یہودی خاندان پر میں نے کام شروع کیا۔تقریباً ایک سال کی کوشش کے بعد میری ہم دردی اور سچی محبت سے وہ متاثر ہوئے اور انہوں نے یہ کہہ کر عیسائیت اختیار کی ،کہ اگر چہ ہماری عقل میں ابھی تک عیسائیت نہیں آئی ،مگر آپ کی اس قدر دردمندی اور دلی ہم دردی کے بعد ہمارا ضمیر مجبور کر رہا ہے کہ ہم عیسائی بن جائیں۔
سچائی اپنے کو منوا لیتی ہے اور ہر مخلص کو اللہ راستہ دکھاتے ہیں ۔قدرت کے یہ دو ضابطے میرے لئے ہدایتِ اسلام کا ذریعہ بنے ۔اصل میں عیسائیت کی تبلیغ کو میں اللہ کے لئے انسانیت کی سچی خدمت اور ہمدردی سمجھتا تھا، میں دعوت میں تو مخلص تھا،مگرمیں جس دعوت میں اپنے کو لگا ئے ہوئے تھا،وہ سچائی پر مبنی نہیں تھی۔اس دعوت کو میں انسانی خدمت، مالی معاونت اور مریضوں اور ضرورت مندوں کی خدمت کے سہارے کی بیساکھیوں پر چلا رہا تھا۔مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ میں حق پر نہیں ہوں ۔ہاں کبھی کبھی جب عیسائیت کی مختلف کتابوں کی تشریحات پڑھتا تھا،تو میرا ذہن الجھ جاتا تھااور سوچتا تھا کہ نہ جانے ہم لوگ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟مشن کی تبلیغ کی کامیابی کی وجہ سے مجھے اپنے مشن پر اعتماد پیدا ہو گیا تھا اگر میں حق پر نہ ہوتا تو خدا کامیابی نہ دیتا۔بس مجھ پر دھن سوار تھی۔میں اس دھن میں کچھ لٹریچر لے کر ایک روز اسلام کے ایک چراغ کی روشنی تک جاپہنچا۔اس چراغ کا نام تھا ڈاکٹر صغیر احمد جو گیا کے ایک اچھے فزیشین اور دین دار مسلمان ہیں ۔وہ ایک زمانے سے تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے، انھیں ایک صاحب نے ایک کتاب’’اگر اب بھی نہ جاگے تو؟‘‘ پڑھنے کو دی ،جس کو پڑھ کر ان میں ہندوؤں میں دعوت دینے کا شوق پیدا ہوا۔اس کے بعد انھوں نے دہلی میں مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کی کتاب ’’ارمغان دعوت‘‘پڑھی،اس کتاب کو پڑھ کر ان پر دعوت کا جنون سوار ہو گیا۔وہ رمضان میں پھلت گئے اور تین روز مولانا کلیم صدیقی صاحب کے ساتھ لگائے اور ان سے بیعت ہوئے، ڈاکٹر صاحب بتایا کرتے ہیں کہ بڑی تعداد میں نو مسلموں خصوصاًارتداد سے توبہ کرنے والوں کی تعداد مولانا صاحب کے ساتھ مسجد میں اعتکاف میں تھی،جن کے لئے رمضان میں صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا بھی ابتدا میں بنایا گیا،مگر الحمد للہ بعد میں وہ روزے رکھنے لگے ۔مولانا صاحب نے وہاں پر ساتھ میں اعتکاف کرنے والوں سے دوستی کی فیس دینے کو کہا اور اعلان کیا کہ جن لوگوں کو ہم سے تعلق رکھنا ہے اور دوستی ، محبت اور بیعت کے تعلق کو نبھانا ہے ،ان کے لئے کم سے کم فیس یہ ہے کہ ایک ماہ میں ایک آدمی کو کفر و شرک سے نکال کر مسلمان ہونے کی خوش خبری دیں اور اچھے دوست کے لئے روزانہ ایک آدمی کی خوش خبری فیس ہے۔
وہاں ان کو معلوم ہو ا کہ روز ایک آدمی کے نصاب پر بھی مولانا صاحب کے بعض رفقا ہیں ،جو یہ کام کر رہے ہیں ۔جس روز ایک آدمی کو بھی ابو جہل اور ابو لہب کے کیمپ سے نکال کر اسلام کے سایہ رحمت میں نہ لاسکیں گے،اس روز سوئیں گے نہیں ،روئیں گے اللہ ان لوگوں کی نیتوں کی لاج رکھ رہے ہیں-
 میں ڈاکٹر صاحب کے یہاں پہنچا، آداب و سلام کے بعد میں نے دو منٹ لے کر کتابیں پیش کیں اور وقت دینے کے لئے کہا ڈاکٹر صاحب نے میری ہمدردی کا شکریہ ادا کیا ،اور کہا کہ کلینک پر مریضوں کی بھیڑ ہوتی ہے، یہاں بات اطمینان سے سننا بھی مشکل ہے ،اور یہ وقت جب کہ میں کلینک میں ہوتا ہوں ، مریضوں کا حق ہے ،اس وقت کسی دوسرے موضوع پر بات کرنا میں مریض کی حق تلفی سمجھتا ہوں، بہتر یہ ہے کہ آپ رات میں سات بجے کے بعد میرے گھر تشریف لائیں ،وہاں اطمینان سے باتیں ہوں گی ۔ اس تجویز کو میں نے خوشی سے قبول کر لیا ۔ فون اور پتہ لے کر میں چلا آیا ،اور رات کو سات بجے ڈاکٹر صغیر صاحب کے گھر پہنچا۔ڈاکٹر صاحب نے پُرتکلف چائے پلائی اور مجھ سے کہا کہ فادر صاحب !آپ جو مجھے عیسائیت کی دعوت دینے آئے ہیں ،کیا واقعی آپ میری ہمدردی میں عیسائیت کی دعوت دے رہے ہیں اور آپ خود عیسائیت کو مدارِ نجات سمجھتے ہیں یا آپ کی کوئی سیاسی غرض ہے ،یا اپنے مشن سے وفاداری میں آپ اس کو پھیلانا فرض سمجھتے ہیں؟میں آپ کو یسوع کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ؟میں نے یسوع کی قسم کھا کر کہا:میں صرف عیسائیت کو مدارِ نجات سمجھتا ہوں اور صرف آپ کی ہمدردی میں آپ سے ملنے آیا ہوں یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ آپ عیسائی ہیں اور عیسائیت کو مدارِ نجات سمجھتے ہیں اور میں مسلمان ہوں ،میں صرف اسلام کو مدارِ نجات مانتا ہوں بلکہ یسوع علیہ السلام کو بھی اللہ کا رسول اور پیغمبر مانتا ہوں ،بلکہ میرا اس پر ایمان ہے کہ عیسیٰ  ؑ اللہ کے سچے رسول اور اسلام کے پیغمبر اور سچے مسلمان تھے۔اب ہم دونوں ایک معاہدہ کرتے ہیں۔آپ مجھے عیسائیت کے بارے میں بتائیں روزانہ ایک گھنٹہ فارغ ہو کر میں آپ کی بات سنوں گا۔آپ ایک سال تک مجھے بتاتے رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ بات پوری نہیں ہوئی تو ایک سال تک سنوںگا اور اس کے بعد میری باری آئے گی میں روزانہ اسلام کے بارے میں بتاؤں گا ،مجھے زیادہ سے زیادہ تین دن درکار ہوں گے اور دونوں کی بات مکمل ہو جائے گی ۔اب آپ یسوع کی قسم کھا کر یہ عہد کریں اور میں اللہ کی قسم کھا کر عہد کرتا ہوں کہ اگر میں عیسائیت کو مذہبِ حق اور مدارِ نجات سمجھوں گا تو بغیر جھجک کے اسی وقت عیسائی ہو جاؤں گا اور اگر آپ نے اسلام کو مدارِ حق سمجھا تو آپ بھی بغیر جھجک مسلمان ہو جائیں گے۔بات بہت سچی اور انصاف کی تھی، ہم دونوں معاہدے پر متفق ہو گئے، یہ معاملہ کر کے میں چلا آیا۔میں نے رات میں بہت پرارتھنا یعنی دعا کی کہ اے یسوع ! عیسائیت کی فتح ہو ا ور مجھے ہار نا نہ پڑے۔پوری تیاری کے ساتھ میں اگلے روز ڈاکٹر صاحب کے یہاں گیا۔ڈاکٹر صاحب نے بات سننے سے پہلے دو منٹ لئے اور معلوم کیا کہ آپ نے رات میں دعا مانگی ہوگی ۔میں نے کہا:ہاں ۔تب انھوں نے کہا :سچ بتائیے کیا مانگا؟حیرت ہوئی کہ یہ سوال وہ کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا وہ دعا کے وقت وہاں موجود تھے۔میں نے کہا:میں نے دعا مانگی کہ خدایا ، عیسائیت کی فتح ہو اور میری اور میرے مذہب کی ہار نہ ہو۔ڈاکٹر صاحب نے کہا:یہ دعا آپ کے عہد میں شک پیدا کرتی ہے، آپ کو اور ہم کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہم میں جو حق پر ہے ،خدا یا !ہمیں اس پر جمادے، واقعی یہ بات انصاف کی تھی،میں نے وعدہ کیا کہ اب میں ہمیشہ یہی دعا کیا کروں گا  میں نے بات شروع کی ۔ایک گھنٹہ تک میں دلائل سے بات کرتا رہا ۔بہت دیر تک سننے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بہت ہمدردی میں جیسے وہ کوئی نا سمجھ ہے ،یہ کہہ کر ’’اگر آپ برا نہ مانیں ،اعتراض نہیں کر رہا ہوں ‘‘اپنی معلومات کے لئے اور صفائی کے لئے دو تین سوالات کئے ۔سوالات کچھ ایسے تھے کہ میں خود احساسِ کم تری میں مبتلا ہو گیا،پہلے روز چلا آیا۔دوسرے روز میں نے دعاکی کہ خدایا!جو حق ہو ،اس کی راہ مجھے دکھا دے دوسرے روز میں پھر ڈاکٹر صاحب کے یہاں گیا ،تو ڈاکٹر صاحب نے پھر دعا کے بارے میں سوال کیا۔میں نے کہا:میں نے دعا کی ہے :خدایا جو حق ہو ،اس کی راہ مجھے دکھا دے۔ڈاکٹر صاحب نے کہا :اب بھی دعا عہد کے خلاف ہے ۔آپ کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ خدایا :جو حق ہو ،اس پر ہم دونوں کو جمادے،بلکہ سچ یہ ہے کہ سارے انسانوں کو جمادے ۔یہ بات میرے دل کو لگ گئی کیوں کہ سچی اور انصاف کی بات یہی ہے ۔ اس کے بعد بات شروع ہوئی وہ پہلے روز کی طرح کچھ سوال کرتے رہے اور یسوع کا نام لیتے تو عیسیٰ  ؑ مریم  ؑ بہت ادب کے ساتھ لیتے تھے۔یہ شریفانہ انداز مجھے بہت اچھا لگا ، غرض ایک کے بعد ایک دن ایک ہفتے تک میں ان کو کتابیں بھی لا کر دیتا رہا اور وہ ان کو پڑھتے بھی رہے ۔ایک ہفتے کے بعد میرے یہاں کچھ نہیں رہا ۔ڈاکٹر صاحب کی اخلاقی برتری بہت عقل میں آنے والے سوالات سے بجائے اس کے کہ میرا اعتماد عیسائیت پر بحال ہوتا،میں خود اپنے آپ کومتزلزل محسوس کرنے لگا ۔آٹھویں روز میں نے جاکر ڈاکٹر صاحب سے کہا : میں اپنی بات مکمل کر چکا آج آپ کی باری ہے حالاں کہ مجھے ایک روز پہلے ان سے کہہ دینا چاہئے تھا تاکہ وہ تیاری کرتے ،مگر بر وقت کہنے کے با وجود ڈاکٹر صاحب نے کوئی شکایت نہیں کی اور انھوں نے کہنا شروع کیا ،کہ آپ کا اور ہمارا دل سب جانتے ہیں کہ صرف اسلام ہی برحق ہے اور آدھا گھنٹہ اسلام اور محمد  ﷺ کا تعارف کرایا ، عیسیٰ  ؑ اور مریم  ؑ کے بارے میں قرآن حکیم نے جو کہا ہے وہ بتایا -شاید چالیس منٹ نہیں ہوئے تھے کہ حق نے اپنا اثر دکھا دیا ۔اللہ کی رضا کے لئے زندگی گزارنے کی نیت کرنے والے مجھ بے چارے پر اللہ کے رحم اور ہدایت کی بارش ہوئی اور میں نے پہلی نشست میں حسبِ وعدہ بغیر کسی چوں چرا کے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا ۔انھوں نے میرا نام داؤد رکھ دیا ۔ڈاکٹر صاحب اور میں دونوں بہت خوش ہو ئے ، شاید میں ان سے زیادہ اور وہ مجھ سے زیادہ ، یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اس ہدایت سے کس کو زیادہ خوشی ہوئی ۔
    ایک رات میں سونے کے لئے لیٹا تو مجھے خیال ہوا کہ میں نے ایک زمانے تک عیسائیت کی تبلیغ کی۔بودھوں، ہندوؤں اور یہودیوں کے عیسائی بن جانے کا ایسا جرم نہیں،  مگر ۱۷؍مسلمانوں کو جہنمی بنا دینے کا جرم تو بہت بڑا ہے ۔ایک آدمی کی ہدایت کا ذریعہ بن جانے پر نجات کا وعدہ ہے تو ۱۷؍آدمیوں کی گم راہی کا ذریعہ بننے کا جرم بھی کتنا بڑا ہوگا ،میں بہت گھبرایا - بستر سے اٹھا اور دیر تک اللہ سے معافی اور استغفار کرتا رہا ۔صبح کو مجھے فکر ہوئی کہ ان لوگوں کو دو بارہ سمجھا کر اسلام میں لانا چاہیے میں جا کر ایک ایک سے ملتا رہا۔لوگوں کو اسلام کی طرف لانے کے لئے بس ایک چیز کافی ہوئی کہ خود میں نے عیسائیت کو چھوڑ دیا ہے،اور الحمد للہ وہ دوبارہ عیسائیت سے توبہ کر کے مسلمان ہو گئے ۔تین لوگ ایسے تھے،جنھیں مشن نے بڑی مالی امداد کی تھی اور عیسائی لڑکیوں سے ان کی شادی بھی ہو گئی تھی ۔ان لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل پڑا ۔ میںراتوں کو اپنے اللہ کے سامنے روتا تھا اور دن میں ان کی خوشامد کر تا تھا۔کئی ماہ کی لگاتار کوشش کے بعد اللہ نے ان کے دل پھیرے اور الحمد للہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ مسلمان ہو گئے ،تین لوگوں کا آج تک پتا نہیں چل سکا ان میں سے ایک ڈرائیونگ کے لئے آئے تھے ۔آسام کے رہنے والے تھے اوردو مزدوری کے لئے یہاں آئے تھے ۔ان تینوں لوگوں کی حق سے گم راہی کا ذریعہ بن جانے کا جب بھی مجھے خیال آتا ہے میری نیند اڑ جاتی ہے ۔اگر خدانہ خواستہ اس حال میں وہ مرگئے تو دوزخ کا ایندھن بنیں گے،اور میں اس کے ساتھ کس طرح اپنے اللہ کو منہ دکھاؤں گا۔کاش میرے اللہ مجھے ان تینوں بھائیوں سے ملادے ،اگر چہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے سمجھایا کہ اسلام سے پہلے کے گناہ اسلام قبول کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں ،گو اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان پر ہمارا ایمان ہے ،مگر ایک بات نفسیاتی طور پر انسان پر سوار ہو جاتی ہے ۔
    میں گیا کے اجتماع سے چار ماہ کی جماعت میں چلا گیا۔الحمد للہ مجھے بہت فائدہ ہوا۔چارماہ میں میںنے قرآن شریف ناظرہ پڑھ لیا اور انگریزی ترجمہ کئی بار پڑھا ۔بہت سی کتابیں پڑھیں ۔ہمارا آدھا وقت دہلی میں لگا ۔الحمد للہ مجھے کتابیں ملتی رہیں ۔جماعت سے آکر میں کٹک گیا ، مجھے اپنی والدہ کی بڑی فکر تھی۔میں جماعت میں بھی ان کی ہدایت کے لئے دعا کرتا رہا ۔ میرے گھر جانے سے دس روز پہلے ان کا انتقال ہو گیا اور انھیں عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا ۔میں گھر گیا تو ماں کے انتقال اور اس سے زیادہ ایمان سے محروم موت کا بے حد مجھے صدمہ تھا۔کئی روز تک میں گھر سے نہ نکلا اور دروازہ بند کر کے مسجد میں روتا رہا۔اپنے اللہ سے شکایت کرتا تھا : میرے اللہ !میں آپ کے راستے میں اپنی ماں کے لئے آپ سے دعا کرتا رہا،لیکن میری ماں ایمان کے بغیر اس دنیا سے چلی گئی ۔میں والدہ کی قبر پر جاتا اور گھنٹوں روتا تھا۔ایک روز مجھے ماں کی قبر پر روتے روتے نیند سی آ گئی۔میں نے اپنی ماں کو اچھی حالت میں دیکھا ۔وہ بولی :بیٹا اپنی انٹی (خالہ)سے نہیں ملا، ان کے پاس ضرور جانا  مجھے اپنی والدہ کی یادستا رہی تھی۔اس خواب کے بعد مجھے خیال ہوا کہ بھونیشور جا کر خالہ سے ملناچاہیے ۔کم از کم وہ تو ایمان سے محروم نہ رہیں ۔ میں نے بھونیشور کا سفر کیا اور اپنی خالہ سے ملا اور ان کو دیکھا کہ ان کا حال بدل گیا ہے انھوں نے مجھے بہت گلے لگایا اور کہا کہ میں تو تجھے بہت یاد کر رہی تھی۔تیری ماں بیمار تھی ۔تو میں دیکھنے گئی اور بیماری کی وجہ سے ان کی خدمت کرنے کی غرض سے ان کے پاس رہی، انتقال سے ایک ہفتہ پہلے فرائڈے (جمعہ )کی صبح کو وہ بہت خوش تھی،اور مجھے بلایا اور کہا:آج میں نے خواب میں یسوع کو دیکھا ہے ۔اس نے مجھ سے کہا:تمہارا بیٹا داؤد اللہ نے قبول کر لیا ہے۔وہ مذہب اسلام کو قبول کر چکا ہے ۔ مجھے سولی نہیں دی گئی ،مجھے آسمان پر اٹھایا گیا ہے تا کہ آکر لوگوں کو بتاؤں کہ سچا مذہب اسلام ہے اور اب میں تمہیں اسلام کا کلمہ پڑھوانے کے لئے آیا ہوں ۔انھوں نے بتایا کہ یسوع نے مجھے یہ کلمہ پڑھوایا ، تین چار بار پڑھوایا ،مجھے یاد ہو گیا مجھ سے کہا کہ تم اس کلمے پر مرنا،تو تمہارے لئے نجات ہے اور مرنے کے بعد جنت ملے گی اس خواب کے آٹھ روز بعد ان کا انتقال ہوا انتقال کے وقت وہ کلمہ پڑھ رہی تھیں۔میں نے ان کے مرنے کے دو روز بعد ایک مولانا صاحب کو بتایا ۔وہ دو ساتھیوں کو لے کر آئے اور ان کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی ۔میں اس لئے تمہیں یاد کر رہی تھی کہ اگر تم آ گئے اور تم مسلمان ہو چکے ہو تو پھر مجھے بھی مسلمان ہونا چاہیے ۔میں خوشی سے ان سے چمٹ گیا اور اپنے مسلمان ہونے کا پورا قصہ سنایا اور جلدی سے کلمہ پڑھنے کے لئے کہا ۔مجھے اپنی والدہ کے مسلمان ہونے کی کتنی خوشی ہے ،میں بیان نہیں کر سکتا ۔الحمد للہ اس نعمت کے شکرانے کے طور پر ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتا ہوں اور ۲۰؍رکعت نفل نماز اپنی والدہ کے مسلمان ہونے کی خوشی میں بلا ناغہ پڑھتا ہوں۔
ڈاکٹر صغیر صاحب نے مجھے پھلت بھیجا۔میں نے مولانا کلیم صاحب سے ملاقات کی مولانا صاحب کے یہاں بنگالی موسیٰ بھائی آئے ہوئے تھے ۔ انھوں نے  پہاڑوں پر انتہائی پس ماندہ آبادی میں اپنے کام کی کارگزاری سنائی اور بتایا کہ آسام اور منی پور وغیرہ میں پہاڑوں پر ایسی پس ماندہ آبادی بسی ہوئی ہے جو بالکل ننگی جانوروں کی طرح زندگی گزارتی ہے ۔میں نے مولانا صاحب سے اس علاقے میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی مولانا صاحب نے خوشی سے اجازت دے دی ۔میں آج کل وہیں کام کر رہا ہوں الحمد للہ ہزاروں لوگوں نے کپڑے پہننا شروع کر دئے ہیں ۔میں نے کافی حد تک ان کی زبان سیکھ لی ہے اور وہیں پر ایک بے سہارا خاتون سے شادی کر لی ہے جس کو میری ہی دعوت پر اللہ نے ہدایت نصیب فرمائی تھی۔وہاں پر کام کا بڑا میدان ہے ۔
میرے ساتھ اب ایک جماعت تیار ہو گئی ہے ۔اللہ نے چاہا تو ہمیں اس علاقے میں حیرت ناک کامیابی ملے گی ان شاء اللہ۔
ہمارے مولانا کلیم صاحب کہتے ہیں کہ دنیا میں یا تو داعی بن کر جئیں ،ورنہ مدعو بن کر رہیں گے ۔اگر داعی بن کر زندگی گزاریں گے تو اگر آپ کے پاس کوئی داعی بھی دعوت لے کر آئے گا تو اسلام کی حقانیت کا شکا ر ہو کر رہے گا دعوت سے بہتر دلوں کو فتح کرنے کا کوئی ہتھیار نہیں ہے ۔یہ ہتھیار کبھی فیل نہیں ہوتا ۔ہم دردانہ دعوت کے ساتھ حق نہ بھی ہو تو بھی کامیابی ملتی ہے ،جیسا کہ عیسائیت کی دعوت کے سلسلے میں میں نے کارگزاری سنائی اور اگر دعوت حق کی ہو تو پھر اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی دعوت کے ہتھیار کے سامنے بڑی سے بڑی طاقت کو ہتھیا ر ڈالنے پڑتے ہیں، دعوت کی اس قوت کو پہچانیں اور میرے لئے دعا کریں ۔اللہ تعالیٰ مجھے دعوتی مقاصد میں کامیاب کرے۔آمین (مستفاد ازماہنامہ ’ارمغان ‘ اکتوبر  ۲۰۰۵؁ء)


 

بشکریہ : مستفاد ازماہنامہ ’ارمغان ‘ اکتوبر ۲۰۰۵؁ء (فادر مارکس ڈیوڈ،کٹک اڑیسہ)