خود گذشت

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : کتابیات

شمارہ : جون 2013

ڈاکٹر احمد محی الدین
تلخیص ڈاکٹر صاحبزادہ انواراحمد بگوی

‘‘خودگذشت’’ ڈاکٹر احمد محی الدین کی آپ بیتی ہے جو انھوں نے اپنے دوست حسن منظر صاحب کے اصرار پر قلم بند کی ہے۔ ڈاکٹر آصف فرخی صاحب کی مدد سے یہ کتاب فکشن ہاؤس لاہور نے ۱۹۹۵ء میں شائع کی ہے۔ فرخی صاحب نے ‘‘ملیے اس شخص سے’’ کے عنوان سے مصنف کا دلچسپ تعارف بھی لکھا ہے۔

‘‘خودگذشت’’ ایک سچے اور کھرے انسان کی سچی اور سیدھی سادی داستان ہے۔ ڈاکٹر احمد محی الدین ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں جنھوں نے اناٹمی (تقطیع و تشریح الابدان) میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ ایم بی بی ایس عثمانیہ یونیورسٹی سے اُردو زبان میں۔ ان کا تعلق دکن کے ایک دیہاتی علاقے تلنگانہ سے ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں ماں کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ حیدرآباد میں معروف عالم دین نومسلم محمد مارما ڈیوک پکتھال ان کے استاد اور ہائی سکول کے ہیڈماسٹر تھے۔ ۱۹۴۰ء میں ان کا بڑی سادگی سے نکاح ہوا۔

ڈاکٹر احمد نے اپنی ساری زندگی غیر روایتی انداز میں بسر کی ہے۔نہ ان کی زندگی کے رہن سہن میں تکلف، تصنع یادکھاوا تھا اور نہ ہی ان کے اصولوں میں دوسروں کو خوش کرنا یا خود نیک نام بننا شامل تھا۔ وہ ملک ملک گھومے، شہرشہرپھرے مگر جس سے ایک بار دوستی کا رشتہ قائم ہوا پھر اسے آخر تک نبھایا۔ ان کے ۵۰سے زائد تحقیقی مقالے بین الاقوامی رسائل میں شائع ہوئے۔ ایمبریالوجی (رحمِ مادر میں جنین کی پرورش کا علم) پر کتاب لکھی۔ اعصاب (Nerves) ، ہڈیوں کی نمو (Bones) اور آنتوں کی استرکاری (Intestine) ان کے خاص تحقیقی موضوعات ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر احمد کے کام کے حوالے مشہور عالم کتاب Gray's Anatomy میں موجود ہیں۔ یہ اعتراف طب کے کسی عالم کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔

میڈیکل کالج کا شعبہ اناٹمی ڈاکٹر احمد کا گھر ہے۔ دونوں جگہ ان کا باغیچہ ان کا Passion ہے۔ سبزیاں بڑے شوق سے اُگاتے، رغبت سے کھاتے اور محبت سے اپنے دوستوں، ہمسائیوں کو خود بانٹتے ہیں۔ صبح وقت پر دفتر جاتے ہیں مگر وہاں جاکر انھیں گھر بھاگنے کی جلدی نہیں ہوتی۔ پاکستان سے محبت دو بار انھیں یہاں کھینچ لائی مگر دونوں بار تجربہ بہت تلخ رہا۔ یہاں کی نوکرشاہی، اس کا غلامانہ طرزِ حکومت اور عوام بیزار سرخ فیتہ ان کے رہنے اور کام کرنے میں رکاوٹ ثابت ہوا۔ اس کے بعد ڈاکٹر احمد نے اس سرزمین پر آنے کی کوشش نہیں کی جو انھیں بہت عزیز اور پیاری تھی۔

 حسن منظر صاحب جو خود Public Health کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کے اصرار پر ڈاکٹر احمد نے ایم بی بی ایس کے طلبہ کے لیے اُردو میں اناٹمی پر کتاب لکھی۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستانی طلبہ کو اناٹمی کا مضمون سمجھنے میں مدد ملے۔ دیگر سائنسی علوم کی طرح اناٹمی کو بھی سمجھنے اور ذہن میں اس کا خاکہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ایک بار تصور (Concept) واضح ہوجائے تو پھر اظہار کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے اور اس علم میں تحقیق کیپیش رفت کرنا بھی سہل ہوجاتا ہے۔ اُردوکتاب کا مسودہ ڈاکٹر احمد نے خود شائع کیا۔ یہ سن کر شاید حیرت نہ ہو کہ پاکستان میں کوئی پبلشر یہ کتاب چھاپنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ کیوں کہ یہ ایک گھاٹے کا سودا ہوتا۔ ملک کے بااثر طبقے میڈیسن کے علوم کو اُردو میں ڈھلا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ حسن منظر صاحب کو ڈاکٹر احمد محی الدین کی تصویر مطلوب ہوئی مگر ڈاکٹر صاحب کی اپنی کوئی تصویر نہ تھی۔ بلیک اینڈ وائٹ اور نہ ہی رنگدار۔ ان کے گھر میں ان کی یا ان کے اہلِ خانہ کی کوئی تصویر موجود نہ تھی۔

حیدرآباد دکن، برطانوی فوج کی ملازمت، انگلستان سے پی ایچ ڈی، حیدرآباد دکن، سنگاپور، حیدر آباد سندھ اور پشاور (پاکستان)، بغداد، آسٹریلیا، نائیجیریا ، تنزانیہ، ملیشیا، سعودی عرب وغیرہ کی بھرپور تدریسی مصروفیات سے ریٹائرمنٹ کے بعد گیارہ سال ڈبلن میں گزارے۔ ۱۹۹۱ء کے بعد انگلستان میں مستقل رہائش رکھی۔

حسن منظر صاحب نے اپنے دیباچے میں میر کی رُباعی ڈاکٹر احمد کی نذر کی ہے:

ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے


ہو گرم سخن تو گِرد آوے ایک خلق
خاموش رہے تو ایک عالم ہوو

ڈاکٹر احمد کی نظموں کا مجموعہ ‘‘روئیداد’’ کے نام سے ۱۹۶۱ء میں کراچی سے چھپ چکا ہے۔ ڈاکٹر احمد دورانِ ملازمت جن براعظموں اور جن ملکوں میں گئے، نام تو سب کا لیا ہے مگر تفصیلات صرف ان کی بیان کی ہیں جہاں ان کا کچھ عرصہ قیام رہا ہے۔ ان تفصیلات میں انھوں نے ذاتی احوال کو کم بیان کیا ہے۔ ان کی توجہ تدریس ، تحقیق، تصنیف، عوام، سماجی حالات وغیرہ پر مرکوز ہوتی ہے۔

والدہ سے قرآن پڑھنا شروع کیا جو ان کی وفات کے بعد ختم ہوا۔ سورۂ کہف برسہا برس ان کے زیرغور رہی۔ تراجم اور تفاسیر کے تقابلی مطالعہ کا موقع ملتا رہا۔ ڈاکٹر احمد کا خیال ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے سورۂ آل عمران کی آیت نمبر۷ کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ شرک ایسا ‘‘جرم’’ ہے جسے کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ اور یہی جرم پکے مسلمانوں میں عام ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو ہمیشہ کے لیے ہے اس لیے اس کی تفسیر ہرزمانے کے ساتھ نئے رنگ اور نئے مفاہیم سامنے لائے گی۔ چنانچہ قرآن کی کوئی بھی تفسیر حرفِ آخر نہیں بن سکتی۔

پروفیسر ڈاکٹر احمد محی الدین کی آپ بیتی کی خوب صورتی اس کی سادگی اور سچائی میں ہے۔یہ آپ بیتی دو عالموں (Two Worlds) کے احوال پہ محیط ہے، یعنی مشرق و مغرب، آزاد و محکوم، غیرترقی یافتہ اور ترقی یافتہ، سفید اور رنگ دار، روایت اور جدت، روحانیت اور مادیت، ملائیت اور اجتہاد، خواندہ اور نیم خواندہ، تعلیم اور تحقیق، مذہب اور سائنس، علم اور عمل، خیر وشر،خدمت اور خودغرضی، اسلام ایک زند ہ اور متحرک قوت، اُردو زبان، ایک قومی اور بین الاقوامی ضرورت ڈاکٹر احمد محی الدین ۱۹۱۵ء (۱۳۳۳ھ) میں پیدا ہوئے۔والد زمین کا سرکاری محصول وصول کرنے پر مامور تھے اور مسلسل سفر پر رہتے تھے۔ والد کے ساتھ جاجا کر دیہاتی زندگی اور دیہاتی ماحول کو دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ جنگلی پھل ہرموسم میں مل جاتا، اس لیے گھومتے وقت بھوک ، پیاس کا مسئلہ نہ تھا۔پاؤں سے ننگے گھومتے، کاٹنا چبھتا تو چپل سینڈ (ناگ پھنی) کے کانٹے سے جلد کھود کر خود ہی نکال لیتے۔ عورتیں چونکہ سخت پردے میں رہتی تھیں اس لیے گھر کا سوداسلف لانے اور کام کاج کرنے کی ذمہ داری احمد پر تھی۔ یوں روزانہ ۸ سے ۱۵میل تک پیدل سفر ہوجاتا۔ عام کاموں کے لیے سواری لینے کا رواج ہی نہ تھا، پیدل ہی سرانجام دیے جاتے۔ احمد کے اسکول کے اساتذہ میں حیدرآباد کے مرہٹہ برہمن، ٹائل برہمن اور مسلمان اساتذہ تھے۔ ان میں محمد مارما ڈیوک پکتھال، مولانا مناظر احسن گیلانی، ڈاکٹر رنگازیڈی، پروفیسر خورشید حسن اور پروفیسر شنکر وامن ہارڈیکر کے نام یاد ہیں۔

۱۹۳۷ء میں ایم بی بی ایس کیا۔ واحد فرسٹ ڈویژن کے باوجود ریاست حیدرآباد کے سب سے دُور اور فرسودہ مقام پر پوسٹ کردیا گیا۔ احمد سادہ مزاج تھے، نہ کلرک بادشاہوں سے دوستی اور نہ افسروں سے کام نکلوانے کا ڈھنگ آتا تھا۔

٭حیدرآباد دکن:

۲۲سال کی عمر میں بطور ڈاکٹر پہلی تقرری جہاں ہوئی وہ جگہ حیدرآباد سے ۲۰۰میل دُور تھی۔ قریب ترین ڈاکٹر ۴۰میل کی مسافت پر اور درمیان میں دو ندیاں حائل جن پر پُل نہ تھے۔ جنگل جس میں شیر کبھی سڑک پر آجایا کرتے تھے، سواری ندارد، بجلی پانی کا سوال کیا۔ شدید گرمی، ڈسپنسری میں دوائیں ندارد، آٹھ افراد پر مشتمل غیرتجربہ کار عملہ، ۲۰۰ مربع میل کی آبادی کی مکمل طبی اور قانونی نگہداشت کی ذمہ داری۔ ہفتے کے سات دن اور روزانہ ۲۴گھنٹے کی ڈیوٹی۔ اس زمانے میں ہاؤس جاب کا رواج نہ تھا ۔ یہ رورل سروس ایک ماہ کے لیے تھی۔ تقرری میں ناانصافی کی وجہ دفتر کے کلرک بادشاہوں کی من مانی تھی جو مسلمان ہی تھے۔ لوٹ کر احمد کو ٹی بی کی شکایت بن گئی۔ ادھر عارضی ملازمت ختم ہوگئی جس سے علاج کی سہولت میں بہت دشواری آئی۔ ان حالات میں ایک ہندو ڈاکٹر نائیڈو آر ایم او نے جتلائے بغیر ہسپتال میں مفت علاج اور رہائش کی رعایت دلوائی۔ اگر یہ سہولت حاصل نہ ہوتی تو تپ دق سے ڈاکٹر احمد کابچنا محال تھا۔ رورل سروس کے بعد سرجن پروفیسر خورشید حسن کے معاون تقرر ہوئے۔ یوں انھیں عثمانیہ میڈیکل کالج میں طب کی عملی تدریس کا موقع ملا۔

ریاست حیدرآباد کے خرچ پر ۱۹۴۶ء میں ڈاکٹر احمد برطانیہ میں اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے۔ اس کے برعکس بعض نالائق قسم کے مگر اثر رکھنے والے طلبہ کو ڈیپوٹیشن ملی جس میں وظیفے کے ساتھ ریاست کی ملازمت اور تنخواہ بھی جاری رہی، تاہم جلدہی اپنی محنت سے انھیں ریسرچ فیلو مل گئی۔

۱۹۵۰ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور لوٹ کر ریاست میں اناٹمی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ سال بھر بعد سنگاپور میں لیکچرشپ قبول کرلی۔

٭فوجی ملازمت

برطانوی ہند کی فوج کے IMS (انڈین میڈیکل سروسز) میں ۱۹۴۳ء میں بھرتی ہوئے۔ لازمی تربیت کے بعد جنگ عظیم دوم کے بصرہ (عراق) کے محاذ پر تعینات ہوگئے۔ کراچی سے پانچ دنوں میں بحری جہاز سے بصرہ پہنچے۔ وہاں سے خرم شہر کے کمبائنڈ جنرل ہسپتال میں گئے جہاں ۵۰۰ ہندوستانی اور ۱۰۰ انگریز مریضوں کے بستر تھے۔ اِ ن ڈور، آؤٹ ڈور، فارمیسی، لیبارٹری کے علاوہ سپاہیوں کو رومن حروف تہجی میں اُردو سکھانا بھی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ ڈاکٹر احمد وہاں میس سیکرٹری بھی تھے جس کے تحت خورونوش کے سامان کی خریداری اور دیگر انتظامات بھی ان کے فرائض میں شامل تھی۔ خطوط سنسر کا کام بھی ان کے سپرد تھا۔ بصرہ کے گردونواح میں واقع دیگر ہسپتالوں میں بھی کام کرنے کا موقع کئی بار اور انگریز نرسوں اور انگریز افسروں کے ساتھ مڈبھیڑ کے متعددمواقع آئے، مگر ہربار نیک نیتی، قانون کی پاسداری کا تحفظ کیا۔ ڈاکٹر احمد میس میں گوشت نہیں کھاتے تھے کیوں کہ ڈبوں میں بند درآمدی گوشت غیرذبیحہ ہوتا تھا۔ یونٹ کے سپاہی ان سے محبت کرتے تھے اس لیے اپنے لنگر سے تازہ مقامی گوشت کا سالن بھیج دیتے تھے۔ اس کی وجہ ڈاکٹر احمد کا اپنے ماتحت عملے کے ساتھ اچھا رویہ تھا۔ قیام بغداد کے دوران درگاہ شیخ عبدالقادر جیلانی اور کاظمین کو دیکھا۔ مزار امام ابوحنیفہ پر نہ معتقدمین کا ہجوم تھا اور نہ حاجت مندوں کی عرضیاں لٹکی ہوئی تھیں گویا مرنے کے بعد امام اعظم شرکیہ رسومات سے بچے ہوئے تھے۔

٭سنگاپور اور ملایا (موجودہ ملیشیا)

پی ایچ ڈی کرنے کے بعد برطانیہ کی مختلف وزارتیں ڈاکٹر احمدکو ان کی رسمی درخواستوں کے بغیر ہی تقرری کی پیش کش کرچکی تھیں۔ دراصل ملک کی تعمیرنو کے لیے حکومت کو اعلیٰ ہنرمندوں کی ضرورت تھی ۔پانچ یونیورسٹیاں اور منسٹریاں تربیت یافتہ اور لائق طلبہ کو تلاش کرتی اور ان تک خود رسائی کرتی تھیں۔ اس دوران پاکستان سے لگاؤ اور برصغیر کی مسلم روایات کے امین کے طور پر ڈاکٹر احمد نے یہاں خود درخواست بھیجی۔ ۱۹۵۰ء میں پاکستان کے دفتری نظام کا یہ حال تھا کہ کسی نے ان کی درخواست کی وصولی کی اطلاع دینا بھی گوارا نہ کیا۔ ایک اورادارے سے بات شروع ہوئی مگر کبھی کسی نے انجام سے باخبر نہ کیا۔ اس دوران سنگاپور سے تقرری نامہ آگیا۔ یوں ڈاکٹر احمد پروفیسری سے لیکچرار کی پوسٹ پر آگئے۔ ان دنوں حیدرآباد پر بھارت کے قبضے کے بعد مسلمان مختلف قسم کی پریشانیوں سے دوچار تھے۔ اس لیے سینئر احباب کے مشورے پر انھوں نے حیدرآباد کا جاب ترک کردیا۔

سنگاپور میں بعض ہندوستانی اصحاب کی وجہ سے ڈاکٹر احمد کو ان کا حق پوری طرح نہ ملا، تاہم وہ حیدرآباد سے ایسے معاندانہ رویوں کے عادی ہوچکے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے کام میں دلجمعی سے جٹے رہے اور ناانصافی پر دل کھٹا نہ کیا۔سنگاپور میں احمد کا طریقۂ تدریس غیرروایتی تھا۔ طلبہ کو یہ طریقہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا مگر جب وہ سمجھ گئے تو پھر بہت اچھا وقت گزرا۔ طلبہ نے ان کے لیکچروں کے جو نوٹس لکھ رکھے تھے ان میں نفسِ مضمون تو تھا ہی نہیں بلکہ وہ ثانوی اور فروعی باتوں پر مشتمل تھے۔ دراصل فنی لیکچر کو محض کتابوں کا خلاصہ بنا دینا بے معنی بات ہے۔ اصل بات تو عملی کام کو صحیح ڈھب سے مکمل کرنا ہے۔

سنگاپور کا آخری دور دو سال کا تھا جہاں سے وہ اوائل ۱۹۶۲ء میں چھے ماہ کے لیے آسٹریلیا چلے گئے۔ تدریس، تحقیق، طلبہ اور کارکنوں سے رابطہ، دوستوں کے ساتھ تعلقات، نجی زندگی، بہت خوش باش رہی۔ اگر چاہتے تو ریٹائرمنٹ (وظیفہ ملنے) تک ملازمت کرسکتے تھے۔ ملک آزادہوچکا تھا۔ ان کے احباب ڈاکٹر ٹوہ (Toh) پارٹی کے چیئرمین اور نائب وزیراعظم تھے۔ ہونے والے صدر پروفیسر شیرس سے دوستانہ تعلقات تھے لیکن ملک کے اندر نسلی عصبیت موجود تھی۔ تامل طبقے کے لوگ ملازمتوں پر حاوی تھے۔ مقامی مالائی لوگ سب سے نچلے طبقے ہیں۔ چینی غیرت مند ہونے کے سبب سب سے کم، چنانچہ وہ صریح زیادتی کے خلاف ردعمل کے طور پرسنگاپور سے چلے گئے اور وہاں رہنا پسند نہ کیا۔

یونیورسٹی اور فیکلٹی کے حالات کی بہتری کے لیے ڈاکٹر احمد وزیرتعلیم اور نائب وزیراعظم مہاتیرمحمد سے ان کے دفتر میں ملے مگر کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہ نکلا۔ چنانچہ مایوس ہوکر ڈاکٹر احمد نے ریاض کے میڈیکل کالج کے ڈین ڈاکٹر حسین الجزائری کو لکھا کہ وہ واپس ریاض یونیورسٹی آناچاہتے ہیں۔ ڈاکٹر جزائری خط لے کر مدیرالجامعہ سے ملے۔ انھوں نے وزیرتعلیم حسن آل شیخ سے کہا اور معاملہ سعودی کابینہ میں پیش ہوا۔ اس پر شاہ فیصل مرحوم نے اپنے قلم سے لکھا کہ ڈاکٹر احمد کو واپس سعودیہ بلالیا جائے اور جب ضرورت پڑے عارضی طور پرکوالالمپور بھیجا جائے۔

٭پاکستان

 حیدرآباد میں قائم ہونے والے لیاقت میڈیکل کالج (جو اَب ایک باروقار طبی یونیورسٹی ہے) کے معاون پرنسپل کے علاوہ، اور شعبہ اناٹمی کے صدر بنے۔ ۱۹۵۲ء میں وہ باقاعدہ پرنسپل مقرر ہوگئے۔ عمارت میں گنجایش، تدریس اور دفتری عملے کی کمی، سازوسامان قطعی ناکافی اور غیرمعیاری۔دیگر مشکلات کے باوجود کالج چلتا رہا۔ جب ایک بار طلبہ نے کراچی میں ہلاک ہونے والے ۱۶طلبہ کی حمایت میں ہڑتال کرنا چاہی تو یہ ڈاکٹر احمد کا لیکچر تھاکہ طلبہ نے اس قدر ڈسپلن اور لحاظ کا مظاہرہ کیا کہ وہ لیکچرروم کی کھڑکیوں سے لگے ڈاکٹر احمد کا لیکچر سناگئے مگر کلاس لینے میں رکاوٹ نہ ڈالی۔ ابتدائی دور میں لیاقت علی خاں مرحوم کے نام پر قائم شدہ اس میڈیکل کالج میں اچھا کام ہوتا رہامگر نوکر شاہی نے انہیں چلنے نہ دیا،اس لیے مستعفی ہوکر سنگاپورچلے گئے۔سنگاپورپہنچنے کے بعد حکومت پاکستان نے ایک تار کے ذریعے پھر لیاقت میڈیکل کالج کا پرنسپل بنانے کی پیش کش کی جس پر ڈاکٹر احمد نے معذرت کرلی۔

۱۹۵۶ء میں جب پشاور یونیورسٹی کے تحت خیبر میڈیکل کالج کھل رہا تھا ، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی وی سی تھے۔ ان کے ایک دوست ڈاکٹر منورعلی نے اصرار سے لکھا اور یقین دلایا کہ صوبائی حکومت کے سرخ فیتہ سے ان کا عہدہ آزاد رہے گا مگر جب جائن کیا تو ڈین ایک فوجی کرنل تھا اور پرنسپل ایک مشرقی پاکستانی جو کرنل سے مرعوب رہا کرتے تھے۔ ڈین سے معمولی کاموں مثلاً بلیک بورڈ کی فراہمی، مضبوط الماریوں اور دیگر روزمرہ کی ضروریات کی خریداری سرخ فیتے کا شکار اور ڈین کے رحم و کرم پر تھی۔ چنانچہ ڈاکٹر احمد نے پشاور کو خیرباد کہا۔ اپنے ایک پرانے دوست پروفیسر Haines کے ذریعے بغداد یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں پہنچ گئے۔

کئی سال بعد زیڈ اے بھٹو نے ایک تقریر میں بیرونِ ملک کام کرنے والے ڈاکٹروں کو پاکستان میں آکر خدمات سرانجام دنے کی دعوت دی۔ جذبۂ حب الوطنی کے تحت ڈاکٹر احمد نے پاکستان کے کسی مناسب تدریسی یا تحقیقی ادارے میں بلامعاوضہ خدمات کی پیش کش کی اور اپنی رہائش کے لیے ایک مکان کی سہولت مانگی جس کا کرایہ بھی وہ اپنی جیب سے ادا کریں۔اس پیش کش کا جواب ایک چھوٹے سے پرچے پر کسی سیکشن افسر نے (اپنے شعبے کے افسران کی اجازت کے بعد) یہ دیا:کہ آپ کی درخواست آگے بھیج دی گئی ہے حالانکہ یہ درخواست نہ تھی بلکہ ملک کے وزیراعظم کی اپیل کا جواب تھا۔ سال گزرنے کے بعد ڈاکٹر احمد نے سیکشن افسر سے مزید کارروائی کا پوچھا تو کوئی جواب نہ آیا۔ پھر انھوں نے پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں کو اپنی پیش کش دہرائی مگر کسی سیکرٹری یا وزیراعلیٰ کے دفتر نے جواب نہ دیا۔ جب بے نظیر وزیراعظم بنیں تو ڈاکٹر احمد نے انھیں بھی پیش کش کی۔ بے نظیر بھٹو نے البتہ ان کا مراسلہ تمام صوبائی حکومتوں کو بھجوا دیا۔ چند ایک نے جواب بھی دیا مگر سب کا اس امر پر اتفاق تھا کہ کسی کو میری خدمات کی ضرورت نہیں ہے!

دلچسپ بات یہ ہے کہ جواب دینے والوں میں ایسے اصحاب بھی تھے جن کو ڈاکٹر احمد نے کام سکھانے اور ملازمت دلوانے میں بیرونِ ملک مدد کی تھی۔ ایک بار ڈاکٹراحمد کی نظروں سے وہ فہرست گزری جس میں بین الاقوامی اسکالرشپ کی فہرست تھی۔ پاکستان نے ۳۳ میں سے صرف تین اسکالرشپ avail کیے تھے (یاد رہے بیرونِ ملک تعلیم و تربیت کا سارا نظام ملک کی سی ایس پی بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے)۔

۱۹۶۱ء میں ایڈنبرا کے قیام کے دوران ۱۴اگست کو یومِ آزادی کی تقریب ہوئی جس میں پروفیسر Romanes نے بطور مہمان خصوصی بھارتی شہریوں سے خطاب کیا۔ اس نے انھیں مخاطب کرکے کہا: ‘‘آپ لوگ یومِ آزادی ضرور منائیں لیکن میں آپ کو اسی وقت آزاد مانوں گا جب آپ لوگ جس طرح یہاں سیکھنے آیا کرتے ہیں ہم (مغرب والے) بھی آپ کے پاس سیکھنے جایا کریں’’۔

ڈاکٹر احمد ان پاکستانی پروفیسروں پر حیران ہوتے ہیں جو انگریزی لب و لہجے میں بات کرتے ہیں اور انگریزوں کی طرح حاکمانہ برتاؤ کرتے ہیں۔ انھیں اپنی قومی زبان اور قومی روایات سے چڑ ہے مگر جب وہ لوگ مغربی پروفیسروں سے ملتے ہیں تو ان کے سامنے (اپنی بے علمی اور کم علمی کے سبب) بھیگی بلی بن جاتے ہیں ۔ وہ حیران ہیں کہ تحریکِ پاکستان میں اُردو کا تحفظ اور فروغ بنیادی مقاصد میں سے ایک تھا۔ پوری تحریک اُردو میں زوروشور سے چل رہی تھی لیکن ۱۹۹۱ء میں نیم دلی کے ساتھ اُردو کی حمایت انگریزی زبان میں کی جارہی تھی، اب تو اَن پڑھ (اور دیہاتی) لوگ بھی شادی کے دعوت نامے انگریزی میں چھاپنا فخر اور عزت جانتے ہیں۔

٭ بغداد (عراق)

ڈاکٹر احمد ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۰ء تک بغداد یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں کام کرتے رہے۔ وہاں ایک نیا شعبہ Micro Anatomy قائم کیا۔ پرانے انگریز دوست رات ۳بجے ہوائی اڈے پر لینے آئے اور ان کا سامان خود اُٹھا لیا۔ کالج کے ڈین پروفیسر صاحب شوکت ترک نے، بڑے صاحب ِ کردار اور لطیف مزاج، شعبہ سرجری کے صدر تھے۔ وہ کالج اور ہسپتال کے احاطہ میں گھوما کرتے اور ہرقسم کے ملازم بلاتکلف ان سے مل سکتے تھے۔ انقلابِ عراق کے بعد شوکت صاحب کو کرسی چھوڑنا پڑی توان کی جگہ پروفیسر احمد عزت العینی نے لے لی۔ یہ سارا دن اپنے کمرے میں بیٹھے رہتے اور چاروں طرف خوشامدیوں کے ٹولے میں گھرے رہتے۔ ان دنوں بیرونی اساتذہ چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر عراق بدر کیے جارہے تھے اور ڈاکٹر احمد بیرونی اور مقامی اساتذہ میں صلح اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ طلبہ سے تعلقات حد درجہ دوستانہ تھے۔ وہ ڈاکٹر احمد کو اپنی تفریحی محفلوں میں بھی بلایا کرتے تھے۔ عبدالکریم قاسم نے طلبہ کو اُکسایا کہ وہ اردگرد قوم اور انقلاب کے دشمنوں کی نشاندہی کریں چنانچہ طلبہ کی ٹولیاں راتوں کو محلوں کا گشت کرتیں۔ تب ڈاکٹر احمد نے طلبہ سے کہا:‘‘تم راتوں کو گلیوں میں مارے مارے پھرتے ہو تو کیا بند دروازے تمھیں سناتے ہیں کہ اندر دشمن سازش کر رہے ہیں؟ تمھارا قومی فرض یہ ہے کہ اچھے ڈاکٹر بنو اور جب ڈاکٹر بن جاؤ تو پھر قوم کی خدمت کے لیے بہتر کارکن ثابت ہوگے۔ ‘‘قربانی’’ جس کا تم اب ذکر کر تے ہو اس وقت بہتر ثابت ہوگی’’۔

ایک روز شہر میں ہنگاموں کے دوران طلبہ نے ایک اخبار کے ایڈیٹر کا دفتر جلا دیا۔ اس کی بیوی کالج میں ملازم تھی طلبہ اس پر بھی حملہ کرنا چاہتے تھے۔ خاتون کو ڈاکٹر احمد نے پناہ دی۔ کمرے میں ٹھہرایا اور سواری کا بندوبست کر کے اسے خود ساتھ لے جاکر خود سوار کرایا مگر طلبہ نے سب کچھ دیکھ کر ان کے اقدام کی مخالفت نہ کی۔

ڈاکٹر احمد نے طلبہ کو رعایت دے رکھی تھی کہ کسی بھی پرچے کی مارکنگ کے بارے میں ان کو اعتراض ہو تو لائیں اور ان کے ساتھ ڈسکس کریں اور اپنا حق لیں۔ ایک بار لیکچر کے دوران ایک طالب علم نے سوال کیا۔ ڈاکٹر احمد نے اسے کہا کہ کلاس کے بعد سوال لکھ کر لائے۔ جب اس نے سوال لکھا تو اسے اپنی عبارت مناسب نہ لگی۔ ڈاکٹر احمد کے مشورے سے جب اس نے اپنے سوال کو موزوں لفظوں میں لکھا تو اس کی اُلجھن ازخود سلجھ گئی۔ تحقیقی مسائل میں بھی ڈاکٹر احمد کا رویہ یہی رہا۔ پہلے مسئلے کی خطوط واضح کریں اور پھر اسے ایک مختصر سوال کی شکل میں سامنے لائیں۔ دراصل ساری مشکل سوال کے خطوط متعین کرنے میں ہوتی ہے۔ جب سوال واضح ہوجائے تو پھر اس کے دو ہی منطقی جواب نکل سکتے ہیں۔ ہاں یا نہ۔ اور دونوں اپنے اپنے طور پر قابلِ فہم اور قابلِ قبول ہوتے ہیں اور ان سے تحقیق کی مزید راہیں کھل سکتی ہیں۔

ڈاکٹر ہینس کے ساتھ مل کر ہڈیوں کی ساخت اور ان پر عمر کے اثرات پر جو تحقیقی کام کیا وہ معیاری طبی کتابوں میں بحوالہ درج ہوا۔ ان دونوں نے ایمبریالوجی پر جو کتاب لکھی وہ مختلف ممالک میں شائع ہوئی اور کئی ملکوں کے میڈیکل کالجوں کے نصاب میں داخل رہی۔ اس کتاب کا جرمن اور جاپانی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔

٭آسٹریلیا /نیوزی لینڈ

آخری بار سنگاپور کی ملازمت چھوڑ دی اور ۱۹۶۳ء میں ڈاکٹر احمد Monash یونیورسٹی کے شعبہ اناٹمی میں چلے گئے۔ یہ دورانیہ چھے ماہ کی عارضی ملازمت کا ہے۔ یہاں تدریس اور تحقیق کے کاموں کے لیے ہرقسم کی ضروری سہولیات میسر تھیں۔ میڈیکل طلبہ کے علاوہ جونیئر ٹیکنیشن بھی ڈاکٹر احمد کے زیرتربیت تھے۔ ڈاکٹر احمد نے اکثر دیکھا کہ دوسرے ملکوں کے لوگ سالن صحیح نہیں بناتے چنانچہ ایک بار اپنی بیماری کے دوران انھوں نے ایک مضمون لکھا:‘‘سالن کیسے پکائیں اور کیسے کھائیں؟’’ ("on cooking curry & how to eat it".)

اب ہوا یہ کہ اس رسالے کی کئی نقلیں امریکی اور یورپی خواتین کے ذریعے کئی باورچی خانوں تک پہنچیں اور یوں وہ تحریر Mrs Muskens کے ذریعے جو پلوانیات کی ایک کالم نگار تھیں، ملبورن کے ایک موقر روزنامہ The Age میں شائع ہوگئی ۔ اس طرح ڈاکٹر احمد بین الاقوامی صحافت میں بطور محقق یا معلم نہیں بلکہ بطور شیف یعنی باورچی مشہور ہوئے۔ اہلِ فن اور اہلِ علم کی قدرافزائی کے واقعات لکھتے ہوئے ڈاکٹر احمد بتاتے ہیں کہ وہ آسٹریلیا میں جب بھی کسی شہر سے گزرے، اور مختصر قیام کا موقع ملا تو اطلاع ملنے پر وہاں کے پروفیسر اور اسکالر نہ صرف خود ایئرپورٹ پر پہنچے بلکہ اپنے ہاں قیام وطعام کا بندوبست کیا۔ اس یونیورسٹی اور اس کے ڈیپارٹمنٹس دکھانے کے لیے گاڑی کا خصوصی اہتمام بھی کیا۔ یہ انسانی روابط اور حسنِ اخلاق و مروت کی اعلیٰ مثال ہے۔ اس سے علم کو فروغ ملتا اور اہلِ علم کی برادری مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے برعکس قیامِ حیدرآباد کے دوران ایک روز بغرض سیاحت کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا۔ جب وہ لیاقت میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے۔ وہاں زیر تعمیر امین الدین میڈیکل سکول کے پرنسپل سے ملاقات کی کوشش کی۔ وہ سامنے سڑک پار کار میں بیٹھے کسی سے ہم کلام تھے۔ پیغام بھیجا اور انتظار کیا لیکن پرنسپل ملے بغیروہاں سے چلے گئے۔ (جاگیرداری کی طرح بیورو کریسی بھی ایک کلچر اور ایک سوچ کا نام ہے۔ اس میں علم یا کام سے غرض نہیں ہوتی صرف status یا grade یعنی حیثیت اور اپنی ضرورت کو دیکھا جاتاہے)۔

٭ لیگوس (نائیجیریا)

اس شہر میں ۱۹۶۳ء سے ۱۹۷۴ء تک گیارہ سال قیام رہا۔ درمیان میں دوسال کا عرصہ تنزانیہ اور سعودی عرب میں بھی گزرا۔ نائیجیریا کے معاملات میں مذہبی تعصب اور قبیلے کی عصبیت اور اقربا پروری یہ دو بڑے مؤثر عوامل ہیں جن کے منفی اثرات بشمول وسیع کرپشن نے نائیجیریا کو آزادی کے بعد بھی مختلف سنگین مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ ڈاکٹراحمد واحد غیرملکی تھے جو مختلف انتظامی اور اعلیٰ کمیٹیوں کے رکن تھے۔ یہ اعتماد اوراحترام دوسرے سفیدفام غیرملکیوں کو حاصل نہ تھا۔

سفید چمڑی یعنی یورپی لوگوں سے مرعوب اور متاثر ہونے کی خاصیت برصغیر (بالخصوص پاکستان میں) ابھی تک بہت عام ہے۔ (خوش حال اور حکمران طبقوں میں ان کی بات دھیان سے سننا، sir کہہ کر پکارنا،ان کے لب و لہجے اور طور طریقوں کی نقل کرنا تہذیب اور ترقی سمجھا جاتا ہے)۔ نائیجیریا میں ایسی صورت حال نہیں ہے۔ مغربی نائیجیریا کی Yonuba زبان میں گوروں کو Oingbo کہا جاتا ہے بلکہ بچے بطور آوازہ پکارتے ہیں یعنی ‘‘چمڑی اُترا ہوا انسان’’۔ پاکستان میں بچوں کی کتابوں پر آج بھی سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے بچوں کی تصویریں سجائی جاتی ہیں جن کا تعلق پاکستان کے کسی علاقے سے نہیں ہوتا۔ (پاکستان میں تو دفتری نظام اور عسکری نظام دونوں اسی نہج پر چل رہے ہیں جو گوری چمڑے والے قابضوں نے دو سوسال پہلے اپنی سہولت اور محکوم عوام کو دبانے کے لیے رائج کیے تھے۔ اس میں ملکی ضروریات اور عوام کے مفاد کا کوئی عمل دخل نہ تھا)۔

 نائیجیریا کی خانہ جنگی میں مغربی ممالک اور رومن کیتھولک کلیسانے بہت منفی کردار ادا کیا۔ بی بی سی کی جھوٹی اور مخالفانہ خبروں کے باعث لوگ اسے بیافرا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کہتے تھے۔

یونیورسٹی کے رجسٹرار کا نام Eke Chief تھا۔ وہ وزیرمالیات بھی تھے۔ Edo قبیلہ کے صاحب جائیداد اور ذی حیثیت۔ ماضی قریب میں نائیجیریا میں آدم خوری عام تھی۔ آخری بار انسان کا گوشت لیگوس کی مارکیٹ میں ۱۹۳۴ء میں فروخت ہوا تھا۔ Abrokuta کے سردار Alavic کے مرنے پر اس کے بیٹوں کو رسماً باپ کے دل کا ایک ٹکڑا کھانا ہوتا تھا۔ تاہم کلیسا نے عیسائی تعلیمات کے برخلاف افریقہ میں ایسی گوشت خوری اور تعدد ازدواج کو جائز قرار دے رکھا ہے۔ ایک پاکستانی لیڈی ڈاکٹر کے خلاف علاقائی گورنر، مقامی اداروں اور اخبارات کا رویہ مخالفانہ تھا جس پر ڈاکٹر احمد نے رجسٹرار کے ساتھ سخت احتجاج کیا بلکہ بعض سخت فقرے بھی کہہ دیے۔ ڈاکٹراحمد مذکورہ ڈاکٹر سے قطعی ناواقف تھے۔ پاکستانی سفارت خانے نے اپنے بجائے ڈاکٹر احمد کو ذمہ داری سونپی کہ خاتون کو پناہ دی جائے۔ وہ لیڈی ڈاکٹر Benin نامی شہر سے بھاگ کر نکلی تھی۔ ایک بھارتی ہندو ہمسایہ نے اس کام کے لیے رقم فراہم کی اور ایک لبنانی اپنی گاڑی میں اسے لیگوس کے پاکستانی سفارت خانے تک لے آیا تھا۔ ڈاکٹر احمد تمام واقعات سننے کے بعد چیف اے کے سے ملے۔ اگلے روز چیف نے لیڈی ڈاکٹر سے واقعے پر اظہار افسوس کیا۔ اسے بنین یا نائیجیریا کے کسی بھی شہر میں سرکاری نوکری یا ذاتی کام کرنے کی پیش کش کی لیکن وہ ڈاکٹر پاکستان جانا چاہتی تھی۔ وہ اپنی بچائی ہوئی رقم بھی ساتھ لے جانا چاہتی تھی حالانکہ ان دنوں زرمبادلہ کی منتقلی مشکل ترین کام تھا مگر یہ سارے مرحلے چیف اے کے نے بطریق احسن دیکھتے دیکھتے مکمل کرا دیے۔

افریقہ میں صاحب ِ کردار، باسلیقہ اور وضع دار لوگوں کی کمی نہیں۔ ان لوگوں نے ڈاکٹر احمد کو ایسا دوستانہ اور موافقانہ ماحول میسر کیا کہ وہ ایک دہائی سے بھی زیادہ نائیجیریا میں اعلیٰ خدمات سرانجام دے پائے۔ یہ اندازِ کار پاکستان سے بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ وہاں کبھی اتنا اور ایسا کام نہ کرسکے۔ تدریس کے بارے میں ڈاکٹر احمد کے خیالات قابلِ غور ہیں وہ لکھتے ہیں:

‘‘میری پالیسی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ طلبہ کو عنقریب ہونے والے شرکا کاریعنی کولیگ کا مقام دیا جائے۔ جرمنی میں زیر تربیت طلبہ کو اس طرح مخاطب کیا جاتا ہے اورانھیں دو باتیں محسوس کرا دی جائیں: ایک یہ کہ علم حاصل کرنا، ۷۰ فی صد خود ان کی کوشش پہ منحصر ہوگا۔ اساتذہ اور شعبہ کی مالی سہولتیں وغیرہ (اپنی محنت اور لگن) اس کا بدل نہیں ہوسکتے۔ دوسرے یہ کہ ممتحن اور طلبہ دونوں ایک ہی ٹیم کے ممبر ہوتے ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے مخالف۔ طب کی سند ایک عظیم ذمہ داری عائد کرتی ہے اور عوام کے جان،ان کے مال اور بعض اوقات ان کی آزادی ڈاکٹروں کے صحیح عمل پر منحصر ہوتی ہے۔ یونیورسٹی لیکچروں میں حاضری کے اعداد و شمار طلب کرتی تھی اور مَیں حاضری کارجسٹر لیکچر کے کمرہ کے باہر رکھ دیتا تھا تاکہ جو چاہے اپنا نام لکھ دے البتہ عملی کام کے اوقات میں ہمیشہ ذاتی نگرانی کرنا اور ہر ایک طالب علم کے کام کو خود دیکھتا رہتا، پھر ان سے کام کے دوران سوال بھی کیا کرتا۔

آخری امتحان کا پرچہ ڈاکٹر احمد خارجی ممتحنوں (external examiners) سے بنواتے اور خود صرف اسی وقت دیکھ پاتے جب امتحان کے روز وہ پرچہ طلبہ میں تقسیم ہو رہا ہوتا۔ ان کے نزدیک پرچوں کی رازداری امتحان کا نہایت اہم پہلو ہے۔

نائیجیریا کے بڑے قبائل میں یوروبا اور ایبو شامل ہیں مگر کلیدی عہدوں پر آخرالذکر حاوی ہیں۔ یوروبا لوگ مہمان نواز اور خیرات دینے میں ممتاز ہیں۔ غریب لوگ بھی فقیروں کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ دکان میں کھا پی رہے ہوں تو گاہک کو بھی بڑے خلوص سے کھانے کی دعوت دیتے ہیں۔ پورٹ ہارکورٹ، نائیجیریا میں تیل برآمد کرنے کا اہم مرکز ہے۔ بیافرا کا ہنگامہ کھڑا کرنے والے فرانس اور پرتگال کی مدد سے اسے اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے تھے۔ غربت اور محرومی کی جھوٹی تصاویر اور یورپ کی تشہیری کمپنیوں اور کلیسائی تنظیم کے ذریعے وسیع پروپیگنڈا کیا گیا تاکہ علاحدگی کا جواز گھڑا جاسکے۔

٭ تنزانیہ

پہلی بار دارالسلام میں بطور خارجی ممتحن ۱۹۶۹ء میں جانے کا موقع ملا جہاں ڈاکٹر احمد کے دوست پروفیسر مونے کوسو، میڈیکل کالج کے ڈین اور پروفیسر تھے اور لیگوس میں طب کے استاد رہ چکے تھے۔ ایک شام یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر چاگولا ڈاکٹر احمد کو کھانے پر لے گئے۔ انھوں نے خواہش کا اظہار کیاکہ ڈاکٹر احمد دارالسلام میں میڈیکل کالج بنانے کے لیے آئیں اور مقامی ناتجربہ کار ڈین کی مدد کریں۔ چنانچہ ۱۹۷۰ء میں ڈاکٹر دوسال کے لیے دارالسلام پہنچ گئے۔ اتفاق دیکھئے اس روز صدر ‘نئی رے رے’ (Nyerere) نے یونیورسٹی پرقبضہ کرلیا اور اپنی پارٹی کے جنرل سیکرٹری کو وائس چانسلر بنا دیا۔ رجسٹرار کی جگہ ملک کے ایک سینئر بیوروکریٹ کو لگا دیا۔ اور بھی بہت ساری تبدیلیاں کیں۔ ایک طرح سے تو ڈاکٹر احمد کا دارالسلام آنے کا مقصد ہی فوت ہوگیا تھا۔ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کا جدید طریقۂ تعلیم جسے Integrated کہتے ہیں نافذ ہوا اور کامیاب رہا۔ اس کورس میں طلبہ قومی سروس میں بھی کچھ وقت کام کرتے تھے۔ شعبے میں کام کا ایک آدمی ‘جان کاپلا’نامی تھا جو صفائی کرنے پر مامور تھا۔ ویسے تو کاپلا صرف تیسری جماعت تک پڑھا ہوا تھا مگر حددرجہ محنتی، ذہین اور باصلاحیت۔ وہ اناٹمی کی کتابیں پڑھ سکتا تھا۔ اس نے اپنی ڈسیکشن سے اعلیٰ نمونے تیار کیے۔ وہ لاشوں کو حنوط (embalining) بھی کرتا تھا۔ یہ تمام کام اس کے ذمہ نہ تھے۔ ڈاکٹر احمد کاپلا کو بہتر مراعات دینے کے لیے کوشاں تھے چنانچہ آٹھ ماہ کی تگ و دو کے بعد کاپلا embalmer کی نئی اسامی پردگنی تنخواہ پر تعینات ہوگیا۔ ڈاکٹر احمد سوال کرتے ہیں کہ اگر وہ برصغیر پاک و ہندمیں ایسی محنت کرتے تو کیا کبھی کامیاب ہوسکتے تھے غالباً کبھی نہیں۔

تنزانیہ انگریزی کالونی تھی تو انھوں نے دو علاقوں کو ملا کر ایک نیا ملک بنادیا۔ صدر ‘نئی رے رے ’ ایک ٹیچر تھے اس لیے سواحلی زبان میں عربی کے معلم Mualimn ان کا لقب ٹھہرا۔ ملک میں صرف صدر کی پارٹی کو کام کرنے کی اجازت تھی۔ فریاد کرنے والے جیل بھیجے جاتے۔ رفاہی کام زیادہ تر پروپیگنڈے کا مرہونِ احسان تھا۔ اکثر پالیسیاں گھاٹے کی اور دکھاوے کی تھیں۔ عوام میں شراب کی کثرت تھی۔ انگریزوں نے سواحلی زبان کے عربی رسم الخط کو رومن حروف سے بدل دیا تھا۔ وسائل کے باوجود جولیس نئی رے رے نے ملک کو دنیا کے مفلس ترین ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ قومیانے کے عمل نے صنعتی ترقی کی رفتار مزید کم کردی ۔ ہندستان سے گئے ہوئے لوگوں نے یہاں بھی بڑی محنت کی اور مقامی معیشت کو بہت سنبھالا دیا ۔

میڈیکل کالج میں LMC کے فارغ التحصیل ڈاکٹر صدیق اختر سے ملاقات ہوئی جو ڈاکٹر احمد کے شاگرد بھی تھے۔ دورانِ طالب علمی وہ پڑھائی میں کم لیکن رٹ اور دیگر کاموں میں زیادہ سرگرم رہا کرتے۔ اب دارالسلام میں متعدی امراض کے ہسپتال کے انچارج تھے اور بڑی کامیابی کے ساتھ جذام (کوڑھ) کا یہ ادارہ ایک بین الاقوامی ماہر کرافورڈ کی نگرانی میں چلا رہے تھے۔ ڈاکٹر احمد کا خیال ہے کہ طب کے پیشے کی تیاری کے لیے بڑی تعداد میں کتابی علم کی ضرورت تو ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ ڈاکٹر کو عصری معلومات کے ساتھ اپنے تجربات کو بھی بروئے کار لانا چاہیے۔ چنانچہ استاد کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہرطالب علم کی شخصیت کے اچھے پہلوؤں کو ڈھونڈے اور ان کو پالش کرے۔

٭سعودی عرب

۱۹۷۱ء میں جب ڈاکٹر احمد ریاض ایئرپورٹ پر اُترے تو اس وقت ایر پورٹ کی ایک دیوار مٹی کی تھی۔ گویا تیل کی دولت ابھی عام زندگی سے کوسوں دُور تھی۔ کالج دو خریدے ہوئے معمولی بنگلوں میں قائم کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر حسین الجزائری کالج کے ڈین اور مرکزی ہسپتال کے سرجن تھے۔ شام کو ذاتی کلینک کے ساتھ ایک پرائیویٹ ہسپتال کے سرجن بھی تھے۔ وہ شاہ فیصل مرحوم کے ذاتی طبیب اور میڈیکل کالج کے لیے ان کے خصوصی مشیر بھی تھے۔ اس وقت سعودی طلبہ مختلف ممالک (بشمول پاکستان) میڈیکل تعلیم کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ الجزائری پہلے سعودی FRCS ڈاکٹر تھے۔ بڑے خلیق، خوش مزاج، حلیم، صابر۔ شاہ خالد کے دور میں سعودی وزیرصحت بھی رہے۔ بعد میں وہ WHO کے ریجنل ڈائرکٹر تعینات ہوگئے۔شاہ فیصل نے اجازت دے رکھی تھی کہ اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک جہاں سے لاشیں مل سکیں انھیں حنوط کرنے کے بعد dissiction کے لیے استعمال کیا جائے۔ غالباً علما کونسل نے بھی اجازت دی تھی۔ شعبہ میں عملہ تھا نہ سامان اور لاشیں۔ موسم سخت گرم اور خشک، سواری ندارد۔ لاشیں حنوط کرنے اور کام کے لیے دوسرے شعبوں سے کیمیکلز، اوزار ، خوردبینیں وغیرہ مستعار لیے۔ پہلی کلاس کے طلبہ کی تعداد ۲۲ تھی۔ پاکستان سے تین لاوارث لاشیں آئیں تو ڈاکٹر حسین الجزائری، ڈاکٹر احمد اور دوسرے لوگوں نے ایئرپورٹ پر جاکر وصول کیں۔ انھی لوگوں نے لاشوں کے صندوق اُتارے اور اپنے کندھوں پر لاد کر وین پر رکھے۔ لڑکوں کی مدد سے ڈاکٹر احمد نے لاشیں اُٹھا کر فارمالین کی ٹینکی میں ڈالیں۔لاشوں کی چیرپھاڑ سے پہلے بعض طلبہ نے سوال اُٹھایا کہ ڈسیکشن کے بعد نماز پڑھنے سے پہلے کیا غسل ضروری ہے۔ بعض کی رائے ہوئی کہ کسی مولوی سے پوچھ لیا جائے۔ یہ بات خطرناک تھی کہ نیم خواندہ مولوی طبی عمل اور اس کے مقتضیات سے کہاں واقف ہوگا۔ ممکن ہے وہ معاملے کو بگاڑ دے اور مُردوں کی چیرپھاڑ طلبہ کے لیے مسئلہ نہ بن جائے۔ چنانچہ طلبہ نے ڈاکٹر احمد کے اجتہاد پر عمل کیا اور ڈسیکشن کے بعد نماز کے لیے صرف وضو ضروری جانا۔ اسی طرح جو لاشیں پاکستان سے آئی تھیں وہ لاوارث مسلمان تھے۔ ڈاکٹر احمد نے توجہ دلائی کہ تقطیع کے عمل سے پہلے ان پر جنازہ پڑھی جائے جس طرح سمندر میں بُرد کرنے سے پہلے نمازِ جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ استدلال قبول ہوا اور ڈاکٹر حسین الجزائری نے صلواۃ جنازہ کی خود امامت کی۔ مسلم دنیا کے شعبہ اناٹمی میں لاشوں کی حُرمت اور نمازِ جنازہ کا یہ پہلا اقدام تھا جو بدقسمتی سے نہ دوسرے ممالک تک پہنچ سکا اور نہ سعودیہ میں جاری رہ سکا۔ آخر میں یہ حال ہوگیا ہے کہ دورانِ حج لاوارث مسلمان لاشیں جو احرام باندھے ہوئے آتی ہیں ان کے ساتھ بھی غیرمسلموں کا سا سلوک کیا جاتا ہے اور ان پر نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جاتی۔ لاشوں پر نمازِ جنازہ کا ایک بڑا فائدہ زندوں کو یہ پہنچا کہ طلبہ چیرپھاڑ کے عمل میں بہت سنجیدہ ہوگئے۔ طلبہ کے ساتھ ڈاکٹر احمد کے ذاتی تعلقات اچھے رہے۔ انگریزی زبان میں تدریس عرب طلبہ کے لیے مشکل تھی (کیونکہ وہاں اوائل سے انگریزی رائج نہیں ہے)۔ جن طلبہ کی انگریزی کمزور تھی ڈاکٹر احمد نے انھیں انگلش مصنف سومرسٹ ماہم کی مختصر کہانیاں پڑھنے کا مشورہ دیا اوربتایا کہ پہلے کہانی کا مفہوم سمجھیں کیونکہ ایسی تفہیم اناٹمی پڑھتے وقت بھی مطلوب ہوتی ہے۔ اگر تمام درسی کتابیں مادری زبان میں ہوں یا کتابوں کی غیرزبان پر طلبہ کی قدرت ہو تو پھر درسی مطالعہ مشکل نہیں رہتا۔

٭امریکہ اور کینیڈا

امریکہ اور کینیڈا میں ڈاکٹر احمد کو طبی کانفرنسوں اور مطالعاتی دوروں میں شرکت کا موقع ملا۔ نیویارک، باسٹن، شکاگو اور ملبورن ، ٹورنٹو جہاں بھی گئے میڈیکل فیکلٹی والوں نے مکمل معائنے اور جانچ پڑتال کی سیرحاصل سہولتیں مہیا کردیں۔ ضخیم مواد حوالے کردیا، کسی بھی لیکچر ، لیبارٹری یا لائبریری میں جاتے اور طلبہ سے بات چیت کرنے کی سہولت فراہم کردی۔ سابقہ اور موجودہ طلبہ سے تخلیہ میں بھی تبادلۂ خیال کاانتظام ہوگیا۔ ایم بی بی ایس کے کورس کی تنظیم نو کمیٹی کے اجلاس میں بھی شرکت کا موقع فراہم ہوا۔ باسٹن کی Tufts یونیورسٹی کے شعبہ اناٹمی کا ڈسیکشن ہال آدھی رات تک کھلا رہتا ہے۔ طلبہ اپنی سہولت کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں۔ نگرانی کے لیے ایک سٹاف ممبر ہمہ وقت موجودرہتا ہے۔

٭جرمنی

۱۹۵۹ء میں پہلی بار جانا ہوا تو فرینکفرٹ میں جابجا بمباری سے تباہ شدہ عمارات کے کھنڈرات موجود تھے۔ گاڑیاں کم اور اکثر دو مسافروں والی۔ دس سال بعد ۱۹۶۸ء میں گیا تو وہاں دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔ تباہی کے آثار غائب، سڑکیں برطانیہ سے بھی اعلیٰ، سڑکوں پر مرسڈیز گاڑیاں عام، بازار میں ہرقسم کے پھل اور سبزیاں برطانیہ سے بہتر، جرمنوں کامعیارِ زندگی بھی انگریزوں سے بہتر۔ لوگ خلیق، خوش مزاج اور صاف ستھرے۔ جرمنی میں محنت اور صفائی کا یہ عالم کہ اس کے مقابلے میں برطانیہ خصوصی اس کے شہر پسماندہ لگتے ہیں۔ جرمن ڈاکٹر لنگلاباخ اناٹمی کے پروفیسر اور ڈاکٹر احمد کے دوست تھے۔ وہ بطور لطیفہ کہا کرتے کہ جرمنی میں کسی بات پر ابتدائی تحقیق ہورہی ہو تو فرانس اس کے استعمال پر غور کرتا ہے۔ برطانیہ اس چیز کے صنعتی استعمال کے لیے ماڈل تیار کرتا ہے لیکن تیار چیز جاپان کی ہردکان میں موجود ہوتی ہے (اور اب اس کا سستا ماڈل چین ایکسپورٹ کرتا ہے)۔

جرمن قوم دوا اور علاج کے گرویدہ ہیں۔ Ozon سے علاج، چشموں کے گرم پانی سے علاج، گرم چشموں کی بھاپ سے علاج، وزن کم کرنے کا سنٹر، دراصل لوگ علاج کے لیے بیمہ شدہ ہیں۔ پھر بھانت بھانت کی Patent دوائیں بغیر نسخہ کے خریدی جاسکتی ہیں۔

٭ترکی

ترکی میں کئی بار جانے کا موقع ملا۔ سیاحت کے سیلاب سے پہلے لوگ امن پسند، خلیق اور صاف معاملہ کرنے والے تھے۔ ترکی میں عوام اور خواص کا کوئی رشتہ نہیں (یہی حال پاکستان کے اشرافیہ، خوش حال اور حکمران طبقوں کا ہے)۔ ڈاکٹر احمد نے سابق صدر ترگت اوزال کا جنازہ دیکھا جس کے ساتھ فوجی بینڈ مغربی دُھن الاپ رہا تھا اور سڑک کے کنارے کھڑے عوام ‘‘اللہ اکبر، ترکی سدا مسلم رہے گا’’ کانعرہ بلند کر رہے تھے۔ ترکی میں مساجد کے امام اور خطیب تمام تربیت یافتہ اور سندیافتہ ہوتے ہیں ۔ عربوں کے مقابلے میں ترک بات چیت میں شوروغوغا نہیں کرتے۔ بعض عرب اپنی بُری عادتوں کو ترکوں کے اقتدارسے منسوب کرتے ہیں حالانکہ ترکوں میں یہ عادات ہیں ہی نہیں۔ ترک خوش اخلاق اور حلیم الطبع لوگ ہیں۔ توپ کاپی محل کے صدر دروازے پر فارسی اشعار کندہ ہیں۔ مصطفی کمال نے جدیدیت اور مغربیت کے شوق میں فارسی رسم الخط کو رومن سے، دیسی لباس کو یورپین پہناوے سے، جمعہ کی چھٹی کو اتوار سے بدل دیا۔ یہاں تک کہ اذان پر پابندی اور نماز بھی ترکی زبان میں پڑھانے کی ناکام کوشش کی۔ (آج ۸۰ سال بعد مصطفی کمال کے یہ‘کمالات’ اپنی اصل کو لوٹ رہے ہیں)۔ پاکستان کے بارے میں ڈاکٹر احمد کا یقین ہے کہ وہاں حکمران طبقہ (اشرافیہ، نوکرشاہی ، فوجی اور سیاسی حکمران، عدلیہ) غرض تمام انگریزی ہی کو اپنے اقتدار کاسہارا بنائے رکھیں گے۔ وہ قومی زبان اُردو کو کبھی اس کی حیثیت نہیں دیں گے۔

٭جمہوریہ کیمرون

یہ ملک نائیجیریا کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔ جنگ عظیم اوّل سے پہلے یہاں جرمنی کا قبضہ تھا۔ اس کی شکست کے بعد فرانسیسی اور انگریز قابض ہوگئے۔ وہاں یونیورسٹی نے میڈیکل سکول قائم کیا تو ڈاکٹر احمد کو ایمبریالوجی پڑھانے کی دعوت ملی۔انھوں نے ڈین پروفیسر مونے کوسو سے ملک کی آمدنی کے وسائل پوچھے تو جواب ملا: ‘‘کچھ تیل، کچھ لکڑی اور باقی قحبہ گری!’’ یعنی سیاحت جس کا سرکاری نام ہے۔ یہاں ایمبریالوجی پڑھانے کے لیے ڈاکٹر احمد نے ایک نیاطریقہ استعمال کیا۔ اس طریقے پر انھوں نے ابتدائی اشکال کے ماڈل طلبہ کے ہاتھوں سے بنوائے اور یوں طلبہ کی توجہ اور دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ مرکزی ہسپتال میں کالے اور فرنچ افراد الگ الگ قطاروں میں کھڑے ہوئے تھے۔ کالوں کو نسخہ ملتا تاکہ وہ بازار سے دوائی خریدیں۔ اگر کالا مریض ہسپتال میں داخل کرلیا جاتا تو زمین پر لیٹنے کے لیے لواحقین بستر، دوا، غذا کا انتظام اپنے پاس سے کرتے تھے۔ کیمرون میں ایک انوکھی قسم کا آم دیکھا جس پر سارا سال پھل لگتے اور پکتے رہے ہیں۔ ناشپاتی شکل کا Avocado Pear کثرت سے پایا جاتا ہے۔ ایک دفعہ لگادیں تو اسے زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس پھل کی کھال اور اس کے اندر اکیلے بڑے بیج کے درمیان مکھن کی طرح نرم اور سلونا گودا ہوتا ہے، جو نمک یا شکرکے ساتھ یا بغیر ملاوٹ ذائقہ دار ہوتا ہے۔ گودے میں تیل، وٹامن اور غذائیت سے بھرپور لذت۔ ڈاکٹر احمد اس پھل کو بنگلہ دیش اور پاکستان میں لگانے کی تجویز دیتے ہیں۔

٭٭٭