ایک سچے محنت کش کی رِحلت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : مارچ 2018

جس دن میں پیدا ہوا ، اس وقت و ہ جوانی کے دروازے پہ دستک دے رہے تھے یعنی میری اورا ن کی عمر میں سولہ سال کا فرق تھا ۔اس طرح بچپن سے ہی میں نے انہیں بڑا دیکھا تھا اور ان کے بڑے ہونے کا یہ احساس ساری عمرمجھ پہ غالب رہا اور میں ان سے کبھی فری نہ ہو سکا۔لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اگرچہ انہوں نے تو مجھے بچوں کی طرح پالا تھا لیکن وہ بھی مجھ سے فری نہ ہو سکے اور جب میں بڑا ہوگیا تھا تو وہ مجھے بڑے احترام سے بلایا کرتے تھے۔ ہمارے درمیان ایک غیر مرئی سا حجا ب حائل تھا شاید اس کی وجہ ہمارے طبائع اور مزاج کا فرق تھا۔ایک والدین کے بچے ہونے کے باوجود ہمارے درمیان بعد المشرقین تھا اور آج جب میں سوچتا ہوں کہ میرے اور ان کے درمیان کون سی قدر مشتر ک تھی تو وقت کی پابندی کے علاوہ کوئی اور بات نظر نہیں آتی۔ 
میں نے جس طرح انہیں بچپن سے ہی بڑا دیکھاتھا اسی طرح بچپن سے ہی محنت کرتے بھی دیکھا تھا۔میں آٹھ نو سال کاتھا جب وہ تاندلیانوالہ کے نواحی گاؤں میں کسی زمیندار کے ہاں ٹریکٹر ڈرائیوری کیا کرتے تھے ۔ اس گاؤں کا نقشہ ہلکا ہلکا سا مجھے آج بھی یا دہے ۔وہ گاؤں بھی نہیں بس پنجابی میں جسے ’’بھینی‘‘ کہتے ہیں ، وہ تھا، یعنی کھیتوں اور فصلوں کے بیچوں بیچ چند گھرتھے اور بس۔ اس علاقے میں چور، ڈاکو عام تھے اس لیے میں اپنے بھائی کو بھی اور ان کی نوجوان بیوی کوبھی بہت مستعد دیکھتا تھا۔ وہ راتوں کو اٹھ کر بعض اوقات آوازیں بلند کرتے کہ لوگو خبردار رہنا اور بعض اوقات دیوار سے جھانک کر باہر دیکھتے ۔ وہ رات کو لاٹھی اور کلہاڑی وغیر ہ قریب رکھنے کا بھی اہتمام کیاکرتے تھے ۔ سارا دن مٹی میں ٹریکٹر سے ہل چلانا اور بعض اوقا ت دن دن بھر ٹریکٹر کی مرمت کے لیے ورکشاپ میں رہنا ان کے لیے کوئی عجیب بات نہ تھی ۔ وہ کام سے تھکنا نہ جانتے تھے البتہ جب اس ملازمت سے جی بھر گیاتو وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ چلے آئے اور انہوں نے کاشت کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ کام تھا جو ان کے باپ دادا نے بھی کبھی نہ کیا تھا لیکن جب انہوں نے فیصلہ کر لیا توپھر اسکو کر کے دکھایا انہوں نے ٹوبہ شہر کے نواحی گاؤں (جسے سجادہ یا شہزادہ کہا جاتا ہے )میں چند ایکڑ زمین ٹھیکے پر لی اور کاشتکاری شروع کردی اور پھر مسلسل چند برس پوری محنت سے اس میں جتے رہے ۔ کاشتکاری کی اس محنت کا بھی میں چشم دید گواہ ہوں بلکہ شریک کار بھی رہاہوں۔ اس زمانے میں انہوں نے بھینسیں، بکریاں ، بیل ، مرغیاں اور کتا سب کچھ رکھا اور سب کو خوب رکھا۔ اس محنت میں ان کی بوڑھی ماں بھی ایک جواں مرد کی طرح ان کے ساتھ شامل تھی۔ اور ماں کے اشارے پر مجھے بھی ان کا ساتھ دینا پڑتاتھا ورنہ اصل میں تو، میں کام چورواقع ہو ا تھا۔ جب کاشتکاری سے جی بھر گیا تو وہ ٹوبہ سٹی میں جا کر آباد ہو گئے اور کریانہ کی دکان شروع کر دی۔ صرف دکان ہی نہیں بلکہ ساتھ مرچ مصالحہ پیسنے کی مشین بھی لگا لی۔ یوں صبح سے شام اور شام سے رات گئے تک وہ اس میں مصروف رہتے۔ یہ دکان چونکہ گھر ہی کے ایک کمرے میں تھی اس لیے ا س میں دن اور رات کی کوئی تمیز نہ تھی کسی بھی وقت، کوئی بھی دروازے پہ دستک دے سکتا تھا ۔حتی کہ عید کی بھی چھٹی نہ ہوتی تھی۔ 
یہ عجیب بات ہے کہ انہوں نے جو بھی کام شروع کیا مجھے ہمیشہ اس سے ڈر لگااور میں نے کتنی ہی بار اپنے رب کو پکارا کہ مالک مجھے اس طرح کی محنت سے محفوظ رکھنا۔ مجھے یاد ہے کہ سردیوں کی طویل راتوں میں جب وہ کھیتوں کو پانی دینے کے لیے مجھے اپنے ساتھ لے جایا کرتے اورایک کھیت کنارے مجھے تنہا کھڑا کر کے خود دور نکل جایا کرتے اور ادھر گنے کی فصل سے سؤروں کی آوازیں آ رہی ہوتیں تو میں تھر تھر کانپتے ہوئے اللہ سے یہ کہہ رہاہوتا کہ اللہ جی مجھے کاشتکاری کی اس محنت سے محفوظ رکھنا او ر پھر جب دکانداری کی باری آئی اور میں نے دیکھا کہ اس میں تورات اور دن سب برابر ہیں اور عید کے دن بھی چھٹی نہیں ہوتی تو میں نے پھر کتنی ہی بار،رب کو پکارا کہ مالک مجھے دکانداری کی محنت سے محفوظ رکھنا نہ جانے کس لمحے کی دعا قبول ہوئی، میری قبول ہوئی یا میری ماں کی قبول ہوئی، لیکن اللہ نے بہر حال کرم فرمایا ،ساری عمر آسان رزق ہی عطا فرمایا۔ الحمد للہ علی ذلک۔
اگرچہ وہ زیاد ہ پڑھ لکھ نہ سکے لیکن یہ کمی ان کی محنت نے پوری کر دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے ہاں سچی محنت سے کمائے ہوئے حلال رزق کی کمی نہ تھی۔ ہر باپ کی طرح انہوں نے بھی خوب کوشش کی کہ ان کے پانچوں بیٹے پڑھ لکھ جائیں لیکن ان کی ہر کوشش نے ناکامی کا منہ دیکھااور کوئی بیٹا بھی میٹر ک یا انٹر میڈیٹ سے آگے نہ بڑھ سکا۔تعلیم کی یہ کمی تو شاید کسی اور ذریعے سے پوری ہو جاتی لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اوصافِ عالیہ کے میدا ن میں بھی وہ زیادہ آگے نہ بڑھ سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پیدایش پہ مٹھائیاں بانٹ کر آسوں اور امیدوں کے جو پھول انہوں نے اپنے دل کے گلشن میں سجائے تھے وہ ایک ایک کر کے مرجھانے لگے اور ایک وقت آیا کہ ان کا دل ایک گلشن نہیں بلکہ ویرا نہ تھا۔ دل کی یہ ویرانی ہیپا ٹائٹس کی شکل میں ظاہر ہوئی او ر پھر چند ہی دنوں میں وہ ضعف و بے کسی کی آخر ی حدوں کو پہنچ گئے ۔ میری جب ان سے آخر ی ملاقات ہوئی تو وہ ایک ڈاکٹر کو چیک اپ کروانے کے لیے اپنے بھتیجے کے گھرآئے تھے لیکن اس حال میں آئے تھے کہ دوآدمیوں کے سہارے بڑی مشکل سے پاؤں گھسٹ کر چل رہے تھے ۔ اس وقت بھی انہوں نے مجھ سے ایک بیٹے کا شکوہ کیا تھا اور میں نے انہیں تسلی دی تھی کہ آپ فکر نہ کریں ، میں نے اس بیٹے سے بات کی ہے امید ہے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے گا ۔ لیکن میرا دل یہ کہہ رہا تھاکہ شاید یہ سب جھوٹ ہے اور بعد میں ثابت ہوا کہ میرا دل صحیح ہی کہہ رہا تھا کہ صبح کا بھولا ، شام کو بجائے گھر آنے کے کہیں اور نکل گیا تھااور اب میں دیکھ رہا ہوں کہ وقت مکافات عمل کا انتظار کر رہا ہے۔ 
اس ملاقات کے بعد میں نے اپنے اللہ سے دعا کی تھی کہ مالک میرا یہ خود دار بھائی ساری عمرکسی پہ بوجھ نہیں بنا اور اس نے ہر حال میں اپنی محنت سے کما کر کھا یا ہے۔ اب بھی اس کو کسی پر بوجھ نہ بنا اور اسے صحت عطا فرمادے ۔ لیکن دعا کرنے میں شاید دیر ہو گئی تھی۔ کیونکہ ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ مکہ مکرمہ ہی میں مجھے یہ اطلاع موصول ہو گئی کہ وہ تو حدودِ زمان و مکاں سے آگے نکل گئے ۔ اور جب حج سے واپس آکر میں نے ان کی قبر پہ کھڑے ہو کر پوچھا کہ آپ نے میری واپسی کا بھی انتظا ر نہ کیا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں۔۔۔
اب وہ آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا
اور یہ بھی کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو

اللہ کریم ان کی حسنات کو قبول فرمائےاور سئیات سے درگزر فرماکر آخرت میں اتنا نوازے کہ اُن کو اپنے بچوں کے سارے دکھ بھول جائیں۔