میں کیسے مسلمان ہوا؟

مصنف : محمد اسحاق (اشوک کمار)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : اپریل 2013

سوال : اسحاق بھائی اپنا خاندانی تعارف کرایئے ؟

 جواب : احمد بھائی !میں یوپی کے مشہور ضلع رام پور میں ٹانڈہ بادلی قصبہ کے قریب ایک گاؤں کے سینی خاندان میں، ۷؍دسمبر ۱۹۶۷ء میں پیدا ہوا،گھر والوں نے میرا نام اشوک کمار رکھا، پتاجی (والد صاحب ) شری پورن سنگھ جی ایک کم پڑھے لکھے کسان تھے میں نے آٹھویں کلاس تک اپنے گاؤں کے جو نیرہائی اسکول میں پڑھا، اسکول اور انٹر میں نے رام پور میں کیا بعد میں لکھنؤ میں سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا، ایک پرائیویٹ کنسٹر کشن کمپنی میں نوکری لگ گئی تھی۔ بچپن میں غصہ بہت تھا کئی بار اسکول میں ٹیچر سے بھی لڑائی ہوئی۔ کمپنی میں روز روز کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا نوکری چھوڑآیا۔ میرے دو دوست پہلی کلاس سے انٹرتک ساتھ پڑھے تھے ایک کا نام یوگیش کمار اور دوسرے کا یوگیندر سنگھ تھا، دونوں ہماری برادری کے تھے۔ ایک رشتے میں بھائی ہوتے تھے ۔ تینوں ساتھ پڑھتے اور ورزش بھی ساتھ کرتے تھے، کچھ روز پہلوانی بھی کی، رام جنم بھومی بابری مسجد کا جھگڑا ہواتو ہم تینوں نے بجرنگ دل میں اپنا نام لکھوایا۔ ایڈوانی جی کی رتھ یا ترا میں ہم لوگ گوالیار جاکر شامل ہوئے اور چارروز ساتھ چلے، ہمارے گھر والے سبھی اس فیصلہ سے بہت خوش ہوئے۔ ایک روز یو گیش کے پتاجی نے جو اسکول میں ٹیچر بھی تھے ہم تینوں کو اپنے گھر بلایا ۔میرے اور یوگیندر کے پتاجی کو بھی بلایا اور بولے کہ ہم، تم تینوں بھائیوں کو رام نام پر چھوڑتے ہیں۔ اگر رام مندر کے نام پر تمہاری بلی بھی چڑھ جائے تو پیچھے نہ ہٹنا، دنیا میں تم امر ہوجاؤ گے۔ انھوں نے ہمارے تینوں کے سروں پر انگوچھا باندھا، ہم لوگوں کا بڑ احوصلہ بڑھا اور بھی جوش پیدا ہوا۔ ۳۰؍اکتوبر کو ہم لوگ کا رسیوا میں پہنچے مگر ہم ابھی جگہ پر پہنچ نہیں پائے تھے کہ ملائم سرکار میں گولی چل گئی اور ہمیں پولیس نے گرفتار کر لیا اور ٹرین میں سوار کر کے رام پور لاکے چھوڑا۔ ہمارے غصہ کی حد نہ رہی میں نے راستہ میں کئی سپاہیوں کی پٹائی بھی کی مگر انھوں نے ہمیں یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا ملائم سرکارتو گرے گی، ہماری سرکار آئے گی تو اس وقت تم اپنے ارمان پورے کر لینا۔نومبر ۱۹۹۱؁ء   میں ہم لوگ بابری مسجد شہید کر نے کے شوق میں ایودھیا پہنچ گئے سردی کے کپڑے بھی پورے ساتھ نہیں تھے الگ الگ آشرموں میں رہتے ہمیں وہاں رہ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اکثر سادھوؤں نے ہمیں بابری مسجد شہید کر نے میں شامل ہونے سے منع کیا اور انھوں نے ہمیں اس طرح ڈرایا جیسے ہم کوئی پاپ کر رہے ہو ں، ایک سادھو نے تو یہ کہا کہ میں سچ کہتا ہوں اگر رام چندر جی جیوت ( زندہ ) ہو تے تو بھی ہر گز یہ پاپ یعنی بابری مسجد گرانے کا کام نہ کر نے دیتے۔ ہمیں ان سمجھانے والوں پر بہت غصہ آتا، ۶ ؍ دسمبر ۱۹۹۲؁ء کو بھیڑ مسجد کے پاس جمع ہو گئی ہمارے سنچالک نے ہمیں بتا یا تھا کہ جیسے ہم اشارہ کر یں گے دھاوا بول دینا، ابھی اوما بھارتی نے نعرہ لگایا تھا کہ ہم پل پڑے، یو گیش تو بھیڑ میں گر گیا، لوگ اس پر چلتے رہے کسی نے دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑا، وہ اٹھا، مہینوں بیمار رہا، اس کی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ خوشی خوشی ہم ایک اینٹ لے کر گھر آئے راستے میں لوگ ہمارا سواگت ( استقبال ) کرتے تھے۔ گھر والوں نے ہمارے سواگت میں ایک پروگرام کیا اور ہم کو پھو لوں سے تولا گیا، اتنے سال تک لوگ ہمیں شابا شی دیتے رہے۔

 سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں کچھ بتائیے ؟

 جواب : بابری مسجد کو شہید کر کے احمد بھیا یوں تو ہم نے اپنے ارمان پورے کر لئے، مگر نہ جانے صرف مجھ اکیلے کو ہی نہیں ہم تینوں کا حال یہ تھا کہ ہم اپنے دل میں انجانے خطرے سے ڈرے سے رہتے تھے اور ہر ایک کو یہ لگتا تھا کہ شاید اب کوئی خطرہ آجائے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ آسمان سے کوئی آگ کی چٹان ہمیں دبانے والی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کی ہر برسی پر یعنی ۶؍دسمبر ۱۹۹۲؁ء   کو ہمارے لئے دن رات کاٹنا مشکل ہوتا تھا ایسا لگتا تھا کہ آج تو ضرور کوئی آفت آئے گی۔ پچھلے سال ۶؍دسمبر کو یہ خطرہ پچھلے سالوں سے زیادہ ہی تھا، ہم لوگ ڈر کی وجہ سے ۶؍دسمبر کو کبھی گھر سے نہیں نکلتے تھے اور جب ۶؍تاریخ گذر جاتی تو ہم لوگ بہت سکون محسوس کرتے۔۷؍دسمبر ۱۹۹۲؁ء کی صبح کو ہم تینوں گھر سے نکلے۔ مجھے رامپور میں ایک ضروری کام تھا میرے ساتھی بھی ساتھ ہولئے، رام پوربس اڈہ پر ہمارا ایک کالج کا ساتھی رئیس احمد ملا۔ اس نے ہمیں دیکھا تو قریب آیا مذاق کے انداز میں بولا، اشوک اب تم لوگوں کی باری ہے تیار ہوجاؤ۔ میں نے کہا کس چیز کی باری ہے، اس نے کہا پہلے پاگل بننے کی اور پھر مسلمان ہونے کی۔ میں نے کہا چونچ بند کر، اس نے کہا اخبار پڑھاہے کہ نہیں، میں نے کہا اخبار میں کیا ہے ؟ اس نے اپنے بیگ سے ایک اردو سہارا اخبار نکالا اور محمدعامر اور عمر کے اسلام قبول کرنے کی خبر پوری سنادی۔ ہم لوگوں کو غصہ بھی آیا اور ڈر بھی لگا میں نے کہا اردو کا اخبار ہے جھوٹی خبر ہوگی ۔اس نے ہندی کے دو اخبار نکالے اور مجھے دکھائے۔ چھوٹی چھوٹی دونوں میں خبریں دکھائیں ۔ میں نے دوبارہ اردو کی خبر جو تفصیل سے تھی پڑھنے کو کہا میرے دوسرے دونوں ساتھیوں کو بھی غصہ آیا اور مشورہ کیا کہ پھلت جاکر معلوم کرنا چاہئے کہ جھوٹی خبر کیوں چھپوائی ہے اور خبر چھپوانے والوں کو مزہ چکھانا چاہئے۔ بات کوصاف کرناچاہئے ورنہ کتنے لوگوں کے (دھرم بھرشٹ) دین خراب ہوجائیں گے۔ رام پور سے ہم لوگ میرٹھ کی بس میں بیٹھے اور پھر کھتولی پہنچے اور ایک جگاڑ میں بیٹھ کر پھلت پہنچے۔ مولانا صاحب کا پتہ معلوم کر کے آپ کے گھر پہنچے، مولانا صاحب نماز کے لئے گئے تھے نماز پڑھ کر آئے تو ایک صاحب نے بتایا کہ یہ مولانا کلیم صاحب ہیں۔ ہم لوگ کچھ تو غصہ میں تھے اور کچھ زیادہ سخت لہجہ میں میں نے مولانا صاحب کو اخبار دکھا کر کہا، یہ خبر آپ نے چھپوائی ہے۔ آپ نے کس طرح یہ خبر چھپوائی ہے؟ ہم تین بالکل جَٹ انداز میں بڑے سخت لہجہ میں بات کررہے تھے مگر مولانا صاحب نہ جانے کس دنیا کے آدمی تھے بہت ہی پیار سے بولے، میرے بھائی، آپ اپنے ایک خونی رشتہ کے بھائی کے یہاں آئے ہیں، آپ ہمارے ہم آپ کے۔ یہ تڑ بڑ تو شہر کے لوگوں میں ہوتی ہے، آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں، پہلے یہ بتایئے؟ ہم رام پور ٹانڈہ بادلی کے پاس سے آئے ہیں۔ مولانا صاحب بولے میرے بھائیو! اتنی سردی میں آپ نے اتنا لمبا سفر کیا، کتنے تھک رہے ہوں گے، یہ آپ کا گھر ہے آپ کسی غیر کے یہاں نہیں ہیں۔ آپ جو معلوم کریں گے ہم بتائیں گے،پہلے آپ بیٹھئے، چائے پانی ناشتہ کیجئے، کھانا کھایئے۔ خبر ہم لوگوں نے نہیں چھپوائی ہے مگر ہے خبر سچی۔ ہم لوگ کچھ ٹھنڈے ہو گئے تھے، پھر سے گرمی سی آگئی، میں نے کہا آپ کیسے کہہ رہے ہیں سچے لوگوں کادھرم بھرشٹ کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا صاحب نے پھر پیار سے کہا چلو اگر آپ سچ مانو گے تو مان لینا ورنہ ہمیں اس کی بھی کوئی ضد نہیں۔ عامر اور عمر میں سے محمد عمر اتفاق سے ایک نو مسلموں کی جماعت لے کر پھلت آئے ہوئے تھے جس میں نومسلم تھے، امیر نہ ملنے کی وجہ سے مولانا صاحب نے ان کو پھلت بلایا تھا، جن میں تین ہریانہ کے تھے اور دو گجرات کے اور چار یوپی کے، دو ان میں مندر کے سادھو بھی تھے۔ مولانا صاحب نے ایک حافظ صاحب کو بلایا اور ان سے کہا عمر میاں کو بلاؤ۔ تھوڑی دیر میں محمد عمر آگئے، مولانا صاحب نے ہم سے کہا: وہ جن کی خبر چھپی ہے ان میں ایک محمد عمر یہ ہیں، آپ ان سے مل لیں اور معلوم کریں خبر کیا ہے اور کتنی سچی ہے؟ عمربھائی کے ساتھ ہم برابر والے چھوٹے کمرے میں بیٹھ گئے۔ مولانا صاحب نے ان کو آواز دی اور کچھ سمجھایا بعد میں بھائی عمر نے مجھے بتایا کہ مولانا صاحب نے مجھے بہت تاکید کی کہ یہ کتنا بھی غصہ ہوں تم صبر کر نا اور بہت پیار نرمی سے مریض سمجھ کر بات کرنا اور دل دل میں اللہ سے دعا کرنا۔میں بھی گھر میں جاکر دو رکعت پڑھ کر اللہ سے ہدایت کی دعا کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں پرتکلف ناشتہ آگیا، ہم سبھی کو سردی لگ رہی تھی عمر بھائی نے ضد کر کے دو پیالی چائے پلائی اور خوب خاطر کی اور ہمیں سمجھاتے رہے اور بتایا کہ پانی پت سے سونی پت تک ایڈوانی جی کی رتھ یا ترا میں ہم دونوں سب سے پیش پیش تھے ۔۳۰؍ اکتوبر میں ہم دونوں کے اوپر گنبد پر گولی لگی تھی، تھوڑی دیر میں کھانا بھی آگیا اب ہم تینوں کو لگا کہ ہمیں جو خوف تھا وہ سچ تھا اور ۶؍دسمبر کو ہماری یہ حالت کیوں ہوتی تھی، میں نے عمر سے کہا اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ انھوں نے مجھے بتایا کہ دنیاکا عذاب تو کچھ نہیں، مرنے کے بعد بڑے دن کے عذاب سے بچنے کے لئے آپ کو میری رائے ماننی چاہئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجانا چاہئے ۔ہم تینوں باہر مشورہ کے لئے آنے لگے تو عمر بھائی نے کہا میں ایک کام کے لئے باہر جاتا ہوں آپ اندر بیٹھے رہیں، ہم تینوں نے مشورہ کیا اور سب نے طئے کیا کہ ہم کو مسلمان ہوجانا چاہئے۔ پھر عمر بھائی کو آوازدی اور اپنا فیصلہ بتایا، عمر بھائی نے کہا کہ وہ دورکعت نماز پڑھ کر سچے مالک سے آپ کے لئے دعا کر نے گئے تھے ۔اور مولانا صاحب بھی آپ کے لئے دعاہی کر نے اندر گئے ہیں، خوشی خوشی عمر نے گھر میں مولانا صاحب کو آواز دی اور درخواست کی کہ ان تینوں بھائیوں کو کلمہ پڑھوادیں۔ مولانا صاحب نے ہمیں کلمہ پڑھوایا، احمد بھائی وہ حال میں بتا نہیں سکتا کہ ہم تینوں پر کیا گذری، جیسے جیسے مولانا صاحب نے ہمیں کلمہ پڑھوایا اور توبہ کر وائی ایسا لگ رہا تھا جیسے کانٹوں کا ایک لباس جس سے جسم بندھا تھا ہمارے جسم سے اتر گیا۔ اندر سے خوف ایک دم کا فور ہو گیا، جیسے ہم نہ جانے کس خطرہ سے نکل کر ایک محصور قلعہ میں آگئے ہوں، مولانا صاحب نے میرا نام محمد اسحاق رکھا، یوگیش کا محمد یعقوب رکھا اور یو گیندر کا محمد یوسف اور حضرت یو سف، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کا قصہ بھی سنایا اور ہمیں بتا یا کہ کل سے فون آرہے تھے کہ یہ خبر چھپ گئی ہے خدا خیر کرے کوئی فساد نہ ہوجائے۔ میں دوستوں سے کہہ رہا تھا ۔آپ ڈرئیے نہیں ہم نے خبر نہیں چھپوائی، اللہ نے چھپوائی ہے انشاء اللہ اس میں ضرور خیر ہوگی، اللہ نے اتنی بڑی خیر ظاہر کر دی۔ مولانا صاحب نے کھڑے ہوکر گلے لگا یا مبارک باد دی اور تینوں کو ‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’’ دی۔

 سوال : اس کے بعد کیا ہوا ؟

 جواب : صبح کو نو مسلموں کی جماعت کے ساتھ ہم تینوں کو شامل کر دیا گیا ایک مفتی صاحب بلند شہر کے سال لگا رہے تھے، ان کو ہمارا امیر بنا یا گیا اور دو لوگوں کو سکھا نے کے لئے شامل کیا گیا۔ ۱۵ ؍ لوگوں کی جماعت ایک روز میرٹھ رہی، ہم تینوں نے میرٹھ میں سر ٹیفکٹ بنوائے اور پھر جماعت کا رخ آگرہ کی طرف بنا۔ آگر ہ اور متھر ۱ضلع میں ۴۰؍ دن پورے کئے جماعت میں وقت ٹھیک لگا، نئے نئے لوگ تھے ایک دو بار لڑائی بھی ہوئی ایک روز ہم تینوں نے لڑکر واپس آنے کی سوچی رات کو پکا ارادہ کیا کہ صبح چلے جائیں گے۔ رات میں یوسف نے ایک خواب دیکھا، مولانا صاحب فرمارہے ہیں آپ کو اللہ نے کس طرح ہدایت دی پھر بھی آپ اللہ کے راستہ سے بھاگ رہے ہیں، اس نے بعد میں ہم دونوں کو بتایا، ہم لوگوں نے طئے کرلیا کہ جان بھی چلی جائے گی تو چلہ پورا کر کے ہی مولانا صاحب کو منہ دکھائیں گے الحمدللہ ہمارا چلہ پورا ہوگیا۔

 سوال : جماعت سے واپس آنے کے بعد پھر کیا ہوا؟

 جواب : مولانا صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ اب آپ کا ارادہ کیا ہے؟ اور مشورہ دیا کہ گھر پر فوراً جانا ٹھیک نہیں ہے مگر ہم نے مولانا صاحب سے کہا کہ ہم بچے نہیں ہیں، مذ ہب ہمارا ذاتی معاملہ ہے اور ہمارا حق ہے کہ حق کو مانیں۔ ہم گھر جا کر گھر والوں پر کام کریں گے اور ہمیں کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے، مولانا صاحب کے سمجھانے کے باوجود ہم لوگ اپنے گاؤ ں پہنچے پورے علاقہ میں ماحول خراب تھا خبر مشہور تھی کہ مسلمانوں نے ان کو قتل کردیا ہے۔ ہم لوگوں نے گھر والوں کو جاکر صاف صاف بتادیا، پھر کیا تھا، پوری برادری میں ماتم مچ گیا۔ بار بار پنچایت ہوئی دور دور کے رشتہ دار آگئے ایک بار اخبار والے بھی آگئے گاؤں والوں نے ان کو پیسے دے دلا کر واپس کیا اور راضی کیا کہ خبر اخبار میں ہرگز نہ دی جائے ورنہ اور بھی لوگوں کو خطرہ ہے۔ ہمارے گھروالوں پر برادری والوں نے دباؤ دیا کہ اپنے لڑکوں کو کسی طرح باز رکھیں مگر اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ہمیں مخالفت سے اور پکا کردیا ہمارے ساتھ بہت سختیاں بھی ہونے لگیں، ہمارے بیوی بچوں کو گھر بھیج دیا گیا مجبوراً ہمیں گھر چھوڑنا پڑا۔ ہمیں پھلت جاتے ہوئے شرم آئی کہ مولانا صاحب کی بات نہیں مانی، ہم لوگ پہلے دہلی گئے اور پھر ایک صاحب ہمیں پٹنہ لے گئے۔ پٹنہ میں ہم نے بڑی مشکل اٹھائی، کچھ دن رکشہ بھی چلائی، ضرورت کے لئے مزدوری بھی کی، بعد میں مجھے ایک صاحب اپنی کمپنی میں کلکتہ لے گئے اور پھر میرے دونوں ساتھی بھی کلکتہ آگئے الحمد للہ ہماری مشکل کا زمانہ زیادہ طویل نہیں ہوااور اب ہم سیٹ ہیں۔ اس دوران ہم تینوں کو باری باری حضورﷺ کی زیارت بھی ہوئی، جس سے ہمیں بڑی تسلی ہوئی، مولانا صاحب کی یاد ہم لوگوں کو بہت آرہی تھی مگر موقع نہیں مل سکا، اللہ کا کرم ہے آج ملاقات ہوگئی، مولانا صاحب سے ملنے کے بعد نو دس مہینے کی تکلیفیں ساری جیسے ہوئی ہی نہیں تھیں۔

 سوال : اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ آپ نے کیا کہ نہیں ؟

 جواب : ہم لوگوں نے فون پر بات کی ہے، ما ں اور بھائی بہنوں سے بات ہوجاتی ہے پتا جی سے با ت تو نہیں ہوپاتی۔ انشاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا البتہ میری بیوی اور دونوں بچے ابھی میری سسرال میں ہیں۔ وہ بات نہیں کرتے ہیں، میں نے ایک دوست کو کسی طرح بھیجا تھا اس نے ہماری سسرال کی ایک مسلمان عورت کو ان کے گھر بھیجا تھا، میری بیوی نے کہا جب کہیں جہاں کہیں جانے کو تیار ہوں۔ میری بھابھیو ں سے بالکل نہیں بنتی اور میں خود ایک پتی کی رہ کرمرناچاہتی ہوں۔ آ ج مولانا صاحب سے مشورہ ہوگیاہے میں اب کسی طرح ان کو لے کر ہی جاؤں گا۔

سوال : دعوت کے سلسلہ میں آپ سے ابی نے کوئی بات نہیں کی، اس سلسلہ میں کچھ بتایئے؟

جواب : مولانا صاحب نے ہم سے عہد لیا ہے کہ بابری مسجد شہید کرنے والوں کی فکر کرنی ہے اور کار سیوکوں پر کام کرنا ہے اور ان کے لئے اور گھر والوں کے لئے دعا کر نی ہے ۔مولانا صاحب سے مشورہ ہواہے میں بہت جلدکلکتہ سے جماعت میں وقت لگاؤں گا اور اللہ کے راستہ نکل کر اپنے اللہ سے منظور کروانے کے لئے دعا کروں گا اور پھر آکر گھر والوں اور کارسیوکوں پر کا م کروں گا۔

سوال : ارمغان کے قارئین کے لئے کچھ پیغام دیجئے؟

جواب : اسلام ہر انسان کی ضرورت ہے کسی آدمی کو اسلام دشمنی میں سخت دیکھ کر یہ نہ سوچنا چاہئے کہ اس کے مسلمان ہونے کی امید نہیں۔ سارے اسلام دشمن غلط فہمی یا نہ جاننے کی وجہ سے اسلام دشمن ہیں، ہمارے حال سے زیادہ اسی کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے، اسلام قبول کرنے سے پہلے ہم بجرنگ دلی تھے اسلام اور مسلمان ہمارے سب سے بڑے دشمن تھے اور اب، ہم ہی ہیں، یہ تصور کہ خدا نخواستہ ہم ہندو مرجاتے (دھڑ دھڑی دے کر روتے ہوئے )تو ہماری ہلاکت کا کیا حال ہوتا اور کس طرح اللہ کی ناراضی اور دوزخ کا ہمیشہ ہمیش کا عذاب برداشت کرتے۔(مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، دسمبر ۲۰۰۷؁ء )