میں مسلمان کیسے ہوا؟

مصنف : ماسٹر عبدالواحد (سنجیو استھانا)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : مارچ 2013

احمد اواہ : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ’

ماسٹر عبداواحد : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ’

 سوال : عبدالواحد بھائی ابی نے مجھے حکم کیا ہے کہ اپنے اردو میگزین کے لئے آپ سے کچھ باتیں کروں تاکہ دعوت کا کام کرنے والوں کے لئے کار آمد ہوں۔

 جواب : رات مجھے بھی مولانا صاحب نے کہا تھا کہ احمد آپ سے کچھ باتیں کریں گے۔

 سوال : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں۔

 جواب : ہمارا خاندان آسام سے ہے گوہاٹی میں ہمارے دادا انگریزی دور میں افسر تھے، ستھانا گوت سے ہمارا تعلق ہے، میرے پتاجی بھی سیل ٹیکس افسر تھے، بنگال کے الگ الگ شہروں میں رہتے رہے آخر میں کلکتہ میں گھر بنا لیا تھا اور وہیں پر ان کا انتقال ہوا،میرا پرانا نام سنجیو استھانا تھا میں گیارہ ستمبر ۱۹۵۹؁ء کو مالدہ میں پیداہوا، شروع کی تعلیم بھی مالدہ میں ہوئی، سکول کے بعد کالج کا نمبر آیا تو ہمارے والد کا کلکتہ ٹرانسفر ہوگیا اور وہیں میری تعلیم ہوئی ایم ایس سی،بی ایڈ کیا اور سرکاری ہائیر سکنڈری اسکول میں سائنس کا ٹیچر ہوگیا، بعد میں ایک ڈگری کالج میں لکچرر بنا اورآج بھی اللہ کے شکر سے سائنس پڑھاتا ہوں میری شادی بھی ایک پڑھے لکھے گھرانے میں اب سے چودہ سال پہلے ہوئی میرے سسر صاحب ایک کالج کے پرنسپل ہیں اور میری اہلیہ بھی ایک کانونٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں۔

 سوال : اپنے قبول اسلام کے واقعے کو ذرا تفصیل سے بتائے۔

 جواب : بحیثیت سرکاری ملازم کے ہم لوگوں کو خاندان کے گھومنے کے لئے خرچ دیا جاتا ہے، اب سے نو سال پہلے ۱۹۹۸؁ء کو ہم ساؤتھ کے پکنک ٹور پر اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گئے جاتے وقت دو روز کے لئے بھوپال میں بریک جرنی کر کے بھوپال دیکھنے کا بھی پروگرام تھا۔ بھوپال ہم اترے ایک ٹیکسی اسٹیشن سے کرائے پر لی، مجھے اتفاق سے بخار ہوگیا، ٹیکسی والے سے کسی مناسب ہوٹل کا پتہ معلوم کیا اس نے کہا کہ تھوڑے فاصلے پر اچھے اور سستے ہوٹل کا میں انتظام کرادیتا ہوں۔ ٹیکسی والا غلط آدمی تھاوہ ہمیں لے کر ایک ہوٹل گیا، مجھ سے کہا آپ ہوٹل میں کمرہ پسند کرلیں میں ہوٹل کے اندر گیا کمرہ پسند کرلیا مجھ سے ٹیکسی والے نے کہا کہ میں بچوں اور سامان کو لاتا ہوں آپکو بخار ہورہا ہے آپ کمرہ میں آرام کرلیں۔ گاڑی میں جاکر میری اہلیہ سے کہا کہ آپ بچوں کو لے کر چلیں میں گاڑی سے سامان اتار کر لاتا ہوں میری قسمت کی خرابی کہویا خوبی کہ سفر میں کبھی بھی کسی ٹیکسی والے کو کرتا تو ہمیشہ گاڑی کے نمبر نوٹ کرنے کا عادی تھا، مگر بخار کی تیزی میں مجھے نمبر نوٹ کرنا یاد نہیں رہا۔ٹیکسی والا ٹیکسی لیکر سامان سمیت فرار ہوگیا، سارا سامان کپڑے، پرس کے پانچ سوروپے کے علاوہ ٹکٹ بھی گاڑی میں تھے، بخار کی حالت میں اس حادثے پر اجنبی شہر میں جو گذری بیان نہیں کر سکتا۔ بخارکی شدت میں میں ہوٹل سے اترا پولس تھا نہ کا پتہ لگا یا پولس میں رپورٹ کی، تھانہ والوں نے تسلی بہت دی مگر شام تک ہم لوگ تھانہ میں پڑے رہے مگر کوئی کاروائی نہیں کی بخار کے لئے اسٹور سے دوائی لی بخار کچھ اترا واپسی کے لئے ریلوے اسٹیشن پہونچے گھر فون کیا مگر تیز بارش اور سیلاب کی وجہ سے بنگال کی لائنیں خراب ہو رہی تھی فون نہ ہو سکا۔ جھانسی جانے والی ایک گاڑی تیار تھی بغیر ٹکٹ اس میں بیٹھ گئے ریزرویشن کے ڈبے میں ٹی، سی ٹکٹ چیک کرنے کے لئے آیا ہم سے پینلٹی سمیت ٹکٹ لینے کے لئے اصرار کرنے لگا میں نے اپنا پورا تعارف کرایا اور اپنے ساتھ جو حادثہ پیش آیا تھا بتایا تو وہ نرم ہوا اس نے کہا آپ فکر نہ کریں جھانسی سے کٹہار کی گاڑی فوراً ملے گی آپ وہ پکڑ لیں میرے جاننے والے کئی ٹی، سی اس میں مل جائیں گے میں ان سے کہدوں گا وہ آپ کو اپنے ساتھ بغیر ٹکٹ ہی لے جائیں گے ۔کٹہار میں آپ کوئی صورت بنا لینا میری جان میں جان آئی کہ چلو کٹہار تک جانے کی صورت بنی، بھوپال سے چلتے ہی مجھے پھر بخار ہوا، بخار اس قدر تیز ہوا کہ میرا پورا جسم کانپنے لگا مجھے ہاتھوں پیروں کے ہلنے کا دورہ سا ہونے لگا، کسی طرح جھانسی پہونچے مگر میرا حال اتنا خراب تھا کہ میں آگے سفر کے لائق نہیں تھا مجبوراً فیصلہ کیا کہ جھانسی کے کسی سرکاری ہسپتال میں داخل ہوجانا چاہئے۔ جھانسی اسٹیشن پر اتر کر ہسپتال معلوم کیا اور کسی طرح آٹو رکشہ کر کے ہسپتال پہونچے ۔ڈاکٹروں نے بتایا کہ دماغی بخار ہے، اگر علاج میں دیر کی تو آپ بے ہوش ہوسکتے ہیں۔ میں نے کہا آپ ہمیں ایڈ مٹ کرلیں اور علاج شروع کریں دوا وغیرہ کے پیسے اگر ضرورت پڑیگی تو ہم گھر سے رابطہ کی کوشش کریں گے، دس روز ہسپتال میں رہے اور ہسپتال کے ڈاکٹرنے ترس کھا کر ہمارے کھانے کا نظم بھی ہسپتال سے کردیا۔ان دنوں میں میری اہلیہ ہمارے اور اپنے گھر فون کرنے کی کوشش کرتی رہیں مگر کوئی رابطہ نہ ہو سکا،طبیعت کچھ سنبھلی تو ڈاکٹروں نے ہمیں سفر کی اجازت دیدی ۔ہم لوگ اسٹیشن پہنچے تو اتفاق سے وہ ٹی، سی جو ہمیں بھوپال سے لائے تھے ہمیں اسٹیشن پر مل گئے، ان کی ٹرین دو گھنٹے لیٹ ہوگئی تھی، میں نے ان کو پہچان کر ان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں کٹہار کی گاڑی میں سوار کرادیں وہ بیچارے اپنے ساتھیوں کو تلاش کرنے لگے، وہ مل گئے۔ دو گھنٹے بعد ٹرین جانے والی تھی،انھوں نے ہمیں ٹرین میں سوار کر دیا، راستہ میں مجھے بخار آیا اور میرے جسم کی حالت پھر اسی طرح ہوگئی، کپکپی کا دورہ مسلسل ہونے لگا، کتنی مشکل سے کٹہار تک کا سفر پورا کیا بیان کرنا مشکل ہے ۔کٹہار بہت سی گاڑیاں کلکتہ کے لئے تھیں گاڑیاں آئیں تو ٹی سی سے بات کی مگر کوئی بھی ہمیں بغیر ٹکٹ ساتھ لے جانے پر راضی نہ ہوا میری جیب میں تیرہ روپئے بچے تھے، بچوں نے رات سے کھانا بھی نہیں کھایا تھا، بھوک سے بیتاب بچے رونے لگے تو میں نے بیوی سے تیرہ روپئے کا کھانا لانے کو کہا وہ دال بھات لے کر آئی بیوی بچوں نے کھانا کھایا۔ اسٹیشن پر فقیروں کی طرح ہفتوں کے میلے کپڑوں میں دال بھات کھاتے دیکھ کر میں بہت رویا بس میرے رونے پر میرے مالک کو ترس آگیا اور نہ صرف یہ کہ مجھے اس امتحان اور مشکل سے نکالنے کا فیصلہ فرمایا بلکہ مرنے کے بعد مجھے دوزخ سے بچانے کا فیصلہ بھی انشاء اللہ ان آنسوؤں پر کردیا۔

 سوال : دال بھات کھاتے دیکھ کر رونے سے اس کا کیا مطلب ؟

 جواب : ہاں مطلب ہے، میں پلیٹ فارم پر جہاں لیٹا تھا میرے بچے سامنے کھانا کھارہے تھے بخار کی تیزی سے میں کراہ رہا تھا اور پورا جسم ہل رہا تھا میری ساری بیماریوں کے مسیحا کو میرے مالک نے میرے سامنے لا بٹھا یا، آپ کے ابی مولانا کلیم صاحب بہار کے ایک سفر سے واپس آرہے تھے اور ان کو کٹہارسے راجدھانی ایکسپریس پکڑنی تھی۔ گاڑی چار گھنٹے لیٹ تھی جو لوگ مولانا کو اسٹیشن چھوڑنے آئے تھے ان کو ٹرین سے جانا تھا مولانا صاحب نے ان کو زور دیکر واپس کردیا اور خود گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر بیٹھ گئے میرے سامنے بینچ پر آکر بیٹھے مجھے کراہتے ہوئے انھوں نے دیکھا وہ میرے قریب آئے تو میں رورہا تھا۔ مولانا صاحب نے مجھ سے کراہنے کی وجہ معلوم کی میں تو اس حال میں نہیں تھا کہ کچھ کہہ سکوں، میری بیوی نے اپنا دکھڑا سنایا،مولانا صاحب ہماری پریشانی سن کر رو دئے ۔اپنے ساتھی کو سامان سنبھال کر اسٹیشن سے باہر گئے اور اسٹور سے دوا لائے اور ساتھی سے چائے اسٹال سے دودھ منگایا اور دودھ کے ساتھ اپنے ہاتھ سے نکال کر دوا کھلائی اور پانچ روز کی دوا ہمیں دی ۔تھوڑی دیر میں میرے جسم کے دردکو بہت آرام ہوا، مجھ سے بولے بھائی صاحب مجھے بہت شرم آرہی ہے مگر میری مجبوری ہے مجھے آپ سے رکویسٹ (درخواست ) کرنی ہے کہ آپ ہمارے خونی رشتہ کے بھائی ہیں آپ کی جگہ ہمارے ساتھ بھی یہ حادثہ ہوسکتا ہے۔ آپ دوہزارروپئے مجھ سے قرض لے لیجئے، قرض اس لئے کہہ رہاہوں کہ آپ بڑے آدمی ہیں آپ کو برانہ لگے، ورنہ میرا دل دوہزار روپئے آپ کو بھینٹ (تحفہ) دینے کو چاہ رہا ہے،پلیز یہ آپ قبو ل کر لیجئے،میں بیان نہیں کرسکتا کہ میرا کتنا عجیب حال تھا میرے دل میں خیال آیا کہ یہ کو ئی ایشدوت (غیبی فرشتہ )ہے جو ایک اجنبی کے ساتھ یہ معاملہ کررہا ہے۔ کتنے لوگوں کو اپنا حال سنایا بس ٹیکسی والے کی برائی کرنے اور ہائے وائے کرنے کے سوا کسی کو خیال نہ آیا اور یہ غیر مذہب کے مسلمان کس انداز سے رقم دے رہے ہیں جیسے دے نہ رہے ہوں بھیک مانگ رہے ہوں۔میں نے ان سے کہا کہ ہمیں پیسوں کی اتنی ضرورت ہے ہم کیسے منع کرسکتے ہیں مگر آپ پہلے اپنا پتہ دیدیجئے تاکہ گھر پہنچ کر یہ رقم منی آرڈر کر دیں۔ مولانا صاحب نے کہا کہ پیسے تو رکھئے ابھی پتہ بھی لکھ کر دیتا ہوں اور اپنے ساتھی سے کہا ماسٹر جی ان کو پتہ لکھ کر دیدینا اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ کہا، وہ اٹھ کر گئے اور بچوں کے لئے آئس کریم اور کیلے لے کر آئے،بچوں نے لینے سے منع کیا تو ہم نے بچوں سے کہا لے لو بیٹا یہ آپ کے اصل انکل ہیں ۔مولانا صاحب سے میں پتہ لکھنے کو کہتا رہا اور وہ ٹالتے رہے، ابھی لکھتے ہیں تب لکھتے ہیں میں نے زور دیا کہ کہنے لگے بھائی صاحب آپ تلاش کریں گے تو ہم مل جائیں گے، کیا آپ اپنے خونی رشتہ کے بھائی کو بھی تلاش نہیں کر سکتے ؟اتنی دیر میں ہماری گاڑی آگئی، ٹکٹ ان پیسوں میں سے مولانا صاحب کے ساتھی نے لاکر دے د یا تھا، ہمیں سوار کرایا میں نے پتہ کے لئے کہا تو مولانا صاحب کے ساتھی ماسٹر جمشید صاحب نے اپنے بیگ سے جلدی ایک کتاب نکال کر دی کہ وہ مولانا صاحب کی کتاب ہے، اس پر نیچے حضرت کا پتہ لکھا ہے ۔دن کا وقت تھا، ریزر ویشن کے ڈبے میں خالی دیکھ کر ہم لوگ بیٹھ گئے اور پتہ دیکھنے کے لئے کتاب نکالی کتاب کا نام تھا‘‘ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ’’ کتاب کے شروع میں دو شبد مولانا وصی صاحب کے لکھے ہوئے تھے، مولانا صاحب کا گویا ان کے اندر کا تعارف تھاکیوں کہ ہم اس فرشتہ صفت مسیحا کو دیکھ کر آئے تھے ایک ایک لفظ دل میں اتر تا گیا۔ بخار کے باوجود ہلتے ہلتے میں نے پوری کتاب پڑھی پھر بیوی کو پڑھنے کو دی انھوں نے بھی ایک بار میں پوری پڑھی، مجھ سے کہنے لگیں کہ مولانا صاحب اگر یہ کتاب ہمیں اسٹیشن پر دیدیتے تو اچھا تھا، بیچ میں چھوڑنے کو دل نہیں چاہا۔ دوا کی دوسری خوراک میں نے ریل میں لی، دوا نے جادو کا اثر کیا اور کلکتہ پہنچنے تک ایسا لگا جیسے میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں، میں اور میری بیوی آپ کی امانت کے ایک ایک لفظ کے شکار ہوگئے اور سچائی اور محبت کے پیغام کے سامنے اپنے کو بے بس سمجھ چکے تھے،میں نے کلکتہ اتر کر اپنی بیوی سے کہا میری طبیعت کافی اچھی ہے،میرا دل چاہتا ہے کہ گھر جاکر پیسے لے کر آج ہی مظفر نگر چلا جاؤں اور کچھ سمے (وقت) مولانا کے ساتھ گذاروں۔ بیوی نے کہا دوا پوری کر لیجئے اس کے بعد جلدی چلے جائیے، ہم گھر پہو نچے، طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی، بیوی نے کہا پہلے پیسے منی آرڈر کر دیجئے اور پھر کچھ روز بعد چھٹی لے کر ملنے چلے جایئے، منی آرڈر کر نے کے لئے کتاب تلاش کی پتہ لکھ لیں گے مگر نہ جانے شیطان نے وہ کتاب کہاں چھپا دی، دو روز ہم دونوں ایک ایک چیز الٹتے پلٹتے رہے مگر کتاب نہیں ملی۔

             مجھے یہ تو یاد تھا کہ مولانا صاحب کا نام محمد کلیم ہے، مگر میں مظفر نگر کی بجائے مظفر پور ضلع کررہا تھا ایک دو لوگوں سے معلوم کیا انھوں نے بتایا کہ مظفر پور یو، پی میں نہیں بلکہ بہار میں ہے بے چینی کے حال میں مظفر پور بہار کا ٹکٹ بنوایا ایک روز پہلے ایک یو، پی کے آدمی سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے معلوم کیا کہ یو، پی میں کوئی ضلع مظفر پور بھی ہے ؟ انھوں نے کہا کہ وہاں مظفر نگر ہے مظفر پور نہیں،مظفر نگر سن کر مجھے یاد آیا کہ یہ پتہ صحیح ہے انھوں نے بتا یا کہ مظفر نگر کی کوئی گاڑی ڈائیر یکٹ نہیں ہے، آپکو دہلی یا سہار نپور جا نا پڑے گا وہاں سے مظفر نگر کے لئے بس یا ٹرین مل سکتی ہے، میں نے دہلی کا ریزرویشن کر ایا اور ۲۷ ؍ اکتو بر کو دہلی اور دہلی سے مظفر نگر پہونچا اسٹیشن پر ایک میا نجی ملے، میں نے کہا کہ مظفر نگر میں آپ مولانا کلیم صاحب کو جانتے ہیں ؟ انھوں نے کہا وہ مظفر نگر میں نہیں رہتے بلکہ آپ کو کھتو لی اور وہاں سے پھلت جا نا ہوگا، اسٹیشن سے بس اڈے پہنچے کھتولی کی بس میں سوار ہوئے تو میرے برابر میں ایک نوجوان مولوی صاحب بیٹھے تھے ان سے تعارف ہوا تو معلوم ہواکہ پھلت مدرسہ میں رہتے ہیں ریزرویشن کے لئے مظفر نگر آئے تھے ان سے معلوم ہواکہ مولانا صاحب تو پھلت نہیں ہیں پنجاب کے سفر پر گئے ہوئے ہیں ان کے ساتھ پھلت پہونچے، مولانا صاحب کے گھر پہو نچے تو معلوم ہواکہ آج رات تک پہو نچیں گے انتظار کا مزہ لیا، مولانا صاحب رات کو ایک بجے پہنچے میں جاگ رہا تھا ملاقات ہوئی مولانا صاحب فوراً پہچان گئے مجھے ٹھیک دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور صبح کو ملاقات کے لئے کہہ کر گھر میں چلے گئے ۔اگلے روز صبح ۹ ؍ بجے ملاقات ہوئی میں نے وہ پیسے پیش کئے مولانا صاحب بہت زور دیتے رہے کہ ان کو آپ بھینٹ میں قبول کر لیں تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی، آپ نے صرف یہ پیسے دینے کے لئے اتنا لمبا سفر کیا بہت زیادتی کی یہ پیسے تو ہم خود آکر وصول لیتے، مولانا صاحب ہنس کر بولے دیکھئے آپ نے تلاش کر نا چاہا تو تلاش بھی کر لیا، بغیر پتے کے تلاش کر لیا میں نے کہاآپ کو کیسے معلوم ہے کہ ہم سے پتہ یعنی کتاب کھو گئی تھی ؟مولانا صاحب نے کہا کیسی کتاب ؟ اصل میں ہم نے پتہ دینا ہی نہ چاہا،میں نے بتایا کہ آپ کے ساتھی ‘‘آ پ کی امانت آپ کی سیوا میں ’’گاڑی میں چلتے چلتے پکڑا گئے تھے وہ ہم نے پڑھ بھی لی اور ہمیں شکار بھی کر گئی اور گھر نہ جانے کیسے کھو گئی، اب میں نے پورا حال بتایا مولانا صاحب بہت خوش ہوئے، مو لانا صاحب نے فرمایا کہ آپ کی امانت پڑھ کر آپ نے کیا فیصلہ کیا میں نے کہا آپ کا بن کرآئے ہیں، آپ جو چاہے کر لیجئے یا چھوڑ دیجئے۔ مولانا صاحب نے کہا میرا بننے سے تو کام بننے والا نہیں جس نے پیدا کیا ہے اس کا بننے سے کام چلے گا میں نے کہا اسی لئے تو آپ کے پاس آئے ہیں، مولانا صاحب نے کہا کہ کلمہ آپ نے پڑھ لیا ؟ ہم نے کتاب میں تو پڑھ لیا آپ بھی پڑھا دیجئے، مولانا صاحب نے ۲۹ ؍ اکتو بر کو ساڑھے نو بجے ہمیں کلمہ پڑھوایا میرا نام عبدالواحد رکھا مولانا صاحب نے مجھ سے کہا کیا بھابی نے بھی یہ کتاب پڑھی ہے ؟ میں نے کہا کہ انھوں نے تین بار پڑھی ہے، مولانا صاحب نے کہا کہ ان کا کیا ارادہ ہے ؟ہم نے جو ارادہ کیا ہے وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ کچھ کتابیں مولانا نے منگواکر ہمیں دیں، ایک روز قیام کر نے کے بعد کلکتہ واپس ہوا مولانا صاحب کے مشورہ کے مطابق کلکتہ کے مرکزگیا وہاں علی گڑھ کی ایک جماعت آئی تھی اس کے ساتھ چالیس روز گزارے الحمد للہ یہ چالیس روز ہمارے لئے بہت مفید رہے نماز بھی مکمل یاد کر لی اور ضروری باتیں معلوم ہوگئیں۔

 سوال : آپ کی اہلیہ صاحبہ کا کیا ہوا؟

 جواب :الحمد للہ پھلت لے جاکر میں نے کلمہ پڑھوایا وہ بہت خوش ہوئیں۔

 سوال : اسلام قبول کر کے آپ کو کیا محسوس ہوا ؟

 جواب :اسلام ملنے کے بعد میں بیان نہیں کرسکتا کتنی خوشی ہوئی،اب میں اس ٹیکسی والے کو دعا دیتا ہوں کہ اگر وہ میرا سامان نہ لوٹتاتو میرا کیا ہوتا ؟میرے اللہ کی رحمت کہ قربان کہ کوڑیاں لٹواکر ہمارے دل کی تجوری ایمان کے خزانے سے بھر دی، ہم دونوں جب بھی بیٹھتے ہیں بس اسی بات پر شکر ادا کر تے ہیں کہ اللہ آپ نے ہمارا سامان لٹوایا ہمیں ایمان کا مالدار کر نے کے لئے اور کفر و شرک کی موت سے بچانے اور شفاء عطا کر نے کے لئے، واقعی احمد بھائی اللہ کی رحمت کا کوئی کیا اندازہ لگا سکتا ہے !!!

 سوال : ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ آپ کو ابی کی ہمدردی اور اخلاق نے زیادہ متاثر اور اسلام کے قریب کیا یا آپ کی امانت نے یا اسلام کی حقانیت نے ؟

 جواب :احمد بھائی !ایسی مصیبت میں اجنبی کے ساتھ مولانا صاحب کی ایسی ہمدردی نے ہمیں متاثر کیا مگر ہمارے قبول اسلام کی وجہ وہ ہمدردی بنی بس اس سے یہ ہوا کہ ایسی بے لوث ہمدردی سے ہمارے دل میں مولانا کی ہمدردی پر اعتماد پیدا ہوا اور آپ کی امانت کو ہم نے اپنا ہمدرد اور سچے خیر خواہ کی بات سمجھ کر پڑھا، قبول اسلام کا ذریعہ اسلام کی حقانیت اور انسانی فطرت سے قریب توحید اور اسلامی نظریہ ہوا،ہمدردی تو لوگ کتنی کرتے ہیں کون اپنا مذہب بدلتا ہے ہمارے دل میں یہ خیال کہ اسلام کے حق نے ایک انسان کو فرشتہ بنادیا وہ اسلام ہمارا بھی حق ہے ۔

 سوال : اب آپ بچوں کی تعلیم کا کیا کررہے ہیں ؟

 جواب : اب میرے بچے انگلش میڈیم میں پڑھ رہے ہیں اور ہم نے ایک مولانا صاحب کا ٹیوشن بھی لگا رکھا ہے، بچے اور ہم دونوں روزانہ رات کو قرآن، دینیات اور اردو پڑھ رہے ہیں۔

 سوال : گھر والوں نے آپ کے اسلام کی مخالفت نہیں کی ؟

 جواب : بہت زیادہ کی، جب کسی نے کی تو ہم نے اسے پورا واقعہ بتایا، پورا واقعہ سن کر ہمارے چچا جو بہت ہی زیادہ مسلمان ہونے سے ناراض تھے انہوں نے کہا بیٹا تم نے بہت اچھا کیا اور کتاب ہمیں بھی دینا۔ میں نے آپ کی امانت ان کو دی، مولانا صاحب کے مشورہ سے سفر کر کے ان کے یہاں گیا، رات کو دو بجے تک میں ان کی خوشامد کر تا رہا الحمداللہ دو بجے رات ہی میں انہوں نے کلمہ پڑھا، الحمدللہ میرے خاندان کے پچاس سے زیادہ لوگ مسلمان ہوچکے ہیں۔

 سوال : ارمغان کے قارئین کے لئے آپ کوئی پیغام دیجئے۔

 جواب : بہت محبت بھرا دل ہو، انبیاء کی طرح بغیر لالچ کے،اسلام جیسا حق ہاتھ میں ہوتو پھر کوئی سخت سے سخت آدمی ایسا نہیں جو اسلام کا اسیر نہ ہو، اس لئے ہمیں انسانیت کا حق ادا کر نا چا ہئے۔مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، نو مبر۲۰۰۶؁ء