ایک ایماندار وزیر اور رشوت خور انسپکٹر

مصنف : محمد عزیز

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : دسمبر 2014

یہ تقریباً تیس سال پہلے کی بات ہے، الحاج شمیم الدین بحیثیت وزیر تحصیل ٹھل سے رکن سندھ اسمبلی، سردار سرکی کی دعوت پر کسانوں کو مالکانہ حقوق کے سرٹیفکیٹ دینے جیکب آباد گئے۔ الحاج صاحب اس سفر کا احوال یوں بیان کرتے ہیں:‘‘ہم جیکب آباد کے مضافاتی علاقے کی جانب گامزن تھے۔ دوران سفر ایک بار مڑ کر دیکھا’ تو پچھلے موڑ پر پولیس موبائل رک چکی تھی۔ اپنی گاڑی کے ڈرائیور سے کہا کہ آہستہ ہو جاؤ’ پولیس موبائل بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ سردار سرکی گاڑی میں میرے ساتھ تھے’ کہنے لگے ‘‘سائیں چلے چلو، اس سڑک پر اس موڑ سے آگے پولیس نہیں آئے گی۔ یہ پولیس اور دھاڑیل (ڈاکوؤں) کے گروہ کا معاہدہ ہے۔’’

جب ہم اجتماع گاہ پہنچے تو کیا دیکھتا ہوں کہ چھے سات صحت مند لمبے تڑنگے بڑی بڑی پگڑیاں باندھے لوگ جن کے گلوں میں رائفلیں لٹکی تھیں، کمر اور سینے پر گولیوں کی بیلٹیں بندھی ہوئی تھی اور اجرکیں کاندھوں پر دھری تھیں، چلتے ہوئے اگلی صف تک آئے۔ انھیں دیکھ کر سارے افسر اور معززین احتراماً کھڑے ہوگئے۔ منتظمین نے انھیں اگلی صف میں بٹھایا۔

میں نے سردار سرکی سے پوچھا کہ یہ کوئی وڈیرے یا سردار ہیں؟ سردار صاحب نے بتایا ‘‘یہی ڈاکو (دھاڑیل) ہیں۔ آپ سے ملنے آئے ہیں۔’’ کھانے کے بعد وہ لوگ اسٹیج پر مجھ سے مصافحہ کرکے واپس اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ میں سوچتا رہ گیا کہ اس علاقے میں قانون نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں؟

مجرم ہمیشہ کیونکر حکومت اور وزیروں پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس سلسلے میں الحاج ایک معمولی اہلکار کے تبادلے کی روداد بیان کرتے ہیں۔ تب وہ وزیرمحنت بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ مختلف اداروں اور تنظیموں کی طرف سے انھیں شکایت ملی کہ بعض لیبر انسپکٹر بلاوجہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔ چناں چہ انھیں تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس پر انھوں نے لیبر انسپکٹروں کا ایک اجلاس بلاکر انھیں سمجھایا کہ وہ درست طریقے سے کام کریں اور یہ جان لیں کہ جہاں سے بدبو اْٹھے گی، وہیں نظر جائے گی اور گرفت بھی ہوگی۔چند انسپکٹر گزشتہ بارہ برس سے ایک ہی علاقے میں کام کررہے تھے۔ انھوں نے حکم دیا کہ انھیں کسی دوسرے علاقے میں بھیج دیا جائے۔ ان میں سے ایک انسپکٹر مغل نامی عہدے دار علاقہ سائٹ میں کافی عرصے سے تعینات تھا۔(یہ کراچی کا سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے) جب انھوں نے اس کے تبادلے کا ذکر کیا تو سیکرٹری لیبر کا کہنا تھا ‘‘سر!آپ اسے نہ چھیڑیں، یہ پہاڑ ہیں یہ اپنا تبادلہ رکوا لیں گے،آپ کی اور میری بات بھی خراب ہوگی۔’’

الحاج صاحب کو لیبر سیکرٹری کی بات سن کر تعجب ہوا کہ ایک انسپکٹر اتنا طاقتور ہوسکتا ہے ، اس سے پورا محکمہ خوف زدہ ہو جائے۔ حتیٰ کہ محکمہ اس کا تبادلہ کرنے سے گریزاں ہے۔ الحاج صاحب نے سیکرٹری سے کہا ‘‘اس کو علاقہ ملیر میں بھجوا دیجیے۔ بعد میں جو کچھ ہوا، میں دیکھ لوں گا اور محکمے کے وقار پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا۔’’ لہٰذا فوری طور پر اس کا ٹرانسفر آرڈر جاری کردیا گیا۔

انسپکٹر مغل کو جس دن پروانہ منتقلی ملا، وہ سیدھا الحاج صاحب کے دفتر آیا۔ ان کے سیکرٹری، شاہ منصور عالم کے سامنے جیب سے کنگھا نکالا اور بالوں میں پھیرتے ہوئے کہا ‘‘ جتنی دیر میں، میں بالوں میں کنگھا کرتا ہوں’ اتنی دیر میں میرا ٹرانسفر آرڈر کینسل ہو جائے گا۔’’ پھر نہایت رازداری سے کہا کہ وزیرصاحب کو کہیں ، یہ حکم واپس لے لیں،میں انھیں ایک سال میں کروڑ پتی بنادوں گا۔’’

وہ یہ بھول گیا تھا کہ ہر ایک اْس کی طرح پیسے کا یار نہیں اوراس کا واسطہ الحاج صاحب سے پڑا تھا جن کی ایمان داری کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ ایک بار الحاج صاحب کی دیانت داری کے متعلق سابق گورنر سندھ، جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا تھا ‘‘مجھے اس ملک میں سو ایمان دار افراد مل جائیں تو اس ملک کی کایا پلٹ دوں۔ ابھی تک ایک آدمی ملا ہے وہ ہیں الحاج شمیم الدین۔’’

جب کروڑ پتی بنانے کی بات الحاج صاحب کے نوٹس میں لائی گئی تو انھوں نے اس انسپکٹر کو دفتر سے نکال دیا اور اسے متنبہ کیا کہ اگر وہ دوبارہ یہاں آیا تو نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ اس پر وہ پیر پٹختا چلا گیا۔ بعدازاں انسپکٹر نے ان کے علاقے کے ایک ایک مسلم لیگی کارکن سے سفارش کروائی اور دباؤ ڈالا کہ اس کا تبادلہ منسوخ کر دیا جائے۔ حتیٰ کہ وزیر صاحب کے ڈرائیور کو ٹیلی وژن اور وی سی آر دینے کی پیشکش کی تاکہ وہ الحاج صاحب کو راضی کرلے۔

ایک دن رات کوبارہ بجے الحاج صاحب گھر پہنچے تو پیرصاحب مانکی شریف کو تشریف فرما دیکھا۔ انھوں نے مہمان کو خوش آمدید کہا اور ان کی چائے وغیرہ سے تواضع کی۔ لیکن اس وقت الحاج کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب دوران گفتگو پیرصاحب کھڑے ہوگئے اور دامن پھیلا کر بولے ‘‘آج میں آپ سے کچھ مانگنے آیا ہوں۔’’الحاج صاحب نے قدرتاً شرمندگی محسوس کی اور ان کے گھٹنے چھوکر کہا کہ حکم کیجیے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ لیبر کے ساتھ ساتھ وزیراوقاف، زکوٰۃ اور حج بھی ہیں لہٰذاشاید

پیرصاحب کسی کو زکوٰۃ یا محکمہ اوقاف میں ضلعی یا صوبائی خطیب لگوانے کی بات کریں گے۔ مگر انھوں نے اس کے برعکس کہا ‘‘آپ مغل انسپکٹر کا تبادلہ نہ کریں۔’’

الحاج شمیم الدین یہ سن کر حیران رہ گئے۔ بہرحال انھوں نے کہا کہ آپ خیر سے اسلام آباد تشریف لے جائیے۔ میں ان شاء اللہ اس مسئلے پر ایک دو روز میں نظرثانی کرلوں گا۔ تب آپ کو اطلاع مل جائے گی چناں چہ پیر صاحب دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوگئے۔

اگلے ہی دن الحاج صاحب کو پھر حیرانی اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب وہ گھر پہنچے تو مرکزی وزیراوقاف، مسٹرترین جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، ان کے منتظر تھے۔ وہ بھی اس راشی انسپکٹر کی سفارش کرنے آئے تھے۔ الحاج صاحب نے پیرصاحب کی طرح یقین دہانی کے ساتھ انھیں بھی رخصت کر دیا۔ اب تو سفارشوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ اسی بارے میں بااثر افراد کے ٹیلی فون بھی آئے۔ بقول الحاج صاحب ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس تبادلے کی وجہ سے سیاسی و سماجی حلقوں میں بھونچال آگیا ہو۔اْدھراس انسپکٹرنے محکمے سے چھٹی لے لی اور ڈیوٹی دینے ملیر نہیں گیا۔ اس رسہ کشی میں اسلام الدین شیخ کا فون آیا۔ موصوف وفاق میں وزیر تھے۔ ان کے پیرصاحب پگارا اور محمدخاں جونیجو وزیراعظم سے ذاتی تعلقات تھے (انھیں بعد میں وزارت سے سبکدوش کردیا گیا)۔ انھوں نے نہایت کڑک دار آواز میں کہا ‘‘الحاج! انسپکٹر کا تبادلہ منسوخ کردو۔’’

الحاج صاحب نے کہا ‘‘میں یہ معاملہ دیکھ لوں گا۔’’انھوں نے نہایت بدتمیزی سے کہا ‘‘کرتے یا نہیں یا میں پھر کوئی اور طریقہ اختیار کروں؟’’الحاج صاحب نے کہا ‘‘ابھی کرتا ہوں، اسے میرے پاس بھیج دیں۔’’تھوڑی دیر بعد جیسے ہی وہ انسپکٹر دفتر میں داخل ہوا’ الحاج شمیم الدین نے اْسے بری طرح ڈانٹا، پھٹکارا اور اپنے عملے سے کہا کہ فوراً سیکرٹری لیبر کو بلاؤ تاکہ اس کو نوکری سے برخاست کیا جائے۔یہ سنتے ہی انسپکٹر آہ وزاری کرنے لگا۔ الحاج شمیم الدین کہنے لگے: ‘‘اب تمہاری ملازمت یونہی بچ سکتی ہے کہ تم نے جس جس سے سفارش کرائی ہے، اْسے فون کرو اور کہو کہ میرا کام وزیر صاحب نے کردیا اور میں خوش ہوں۔’’

اس پر انسپکٹر لرزاں وترساں اْٹھا اور ہر سفارشی کو فون کر کے درج بالا جملے دہرائے۔ بعدازاں وہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو گیا۔ یوں الحاج صاحب کی دلیری و راست بازی نے ایک بے ایمان اور بے قابو جن کو بوتل میں بند کردیا۔

٭٭٭