سوال ، جواب

مصنف : ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : دسمبر 2014

جواب: دیکھیں، حکم کی علت پہلے متعین کرنی پڑتی ہے۔ آدمی کے مرنے کے بعد اس کا مال جن لوگوں کو ملنا ہے تو آ پ کس principle پر ان کو دیں گے؟ اگر تو اصول یہ ہے کہ جو زیادہ ضرورت مند ہے، اس کو زیادہ ملنا چاہیے تو پھر آپ کی بات درست ہے۔ قرآن نے تو بیان کیا ہے کہ وہ ترکے کو ضرورت اور حاجت کے اصول پر تقسیم نہیں کر رہا۔ وہ منفعت کے اصول پر کر رہا ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے انسان کو جس رشتہ دار سے زیادہ منفعت مل سکتی ہے، بالقوۃ یا بالفعل، قرآن چاہتا ہے کہ اس کو زیادہ ملے۔ یہ تقسیم ضرورت کے اصول پر نہیں ہے۔ ضرورت کے دائرے میں اس نے آپ کو وصیت کا حق دیا ہے۔ تو اصل میں اصول بدل گیا ہے۔ اصول اگر وہ ہوتا تو آپ کی بات ٹھیک تھی۔ قرآن کہتا ہے کہ ترکے کی تقسیم کا اصول اللہ کے نزدیک یہ نہیں ہے۔ اصول یہ ہے کہ جس سے زیادہ منفعت مل رہی ہے، اس کو زیادہ حصہ ملے گا۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 جواب: دیکھیں، جب بھی کسی دینی حکم کو ہم سمجھتے ہیں یا اس کو interpret کرتے ہیں تو اس کے دو مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ہوتا ہے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا۔ دین میں ترتیب یوں نہیں ہے کہ پہلے آپ حکم کا rationale سمجھیں اور پھر اس کو قبول کریں۔ اس کے برعکس دین میں آپ پہلے حکم کو مانتے ہیں کہ یہ خدا کا حکم ہے اور پھر اس کی حکمت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً اگر وراثت میں خدا کا حکم نہ ہوتا توہم بالکل آزاد ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک روایت میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ بچوں میں جب تحفے تحائف تقسیم کرو تو برابری ملحوظ رکھا کرو۔ بیٹے اور بیٹی میں امتیاز نہیں ہونا چاہیے، بلکہ آپ نے اپنا رجحان یہ بیان کیا کہ اگر برابری کا اصول مانع نہ ہوتا تو میرا یہ جی چاہتا تھا کہ میں بیٹیوں کو زیادہ دوں۔ تو اگر یہاں وراثت کے معاملے میں خدا نے اپنا اصول بیان نہ کیا ہوتا کہ اس اصول پر ترکہ تقسیم ہونا چاہیے اور حصوں کا تناسب نہ بیان کیا ہوتا تو ہمیں یہ فیصلہ کرنے کا پورا حق ہوتا کہ چونکہ ضرورت عورت کو زیادہ ہے، اس لیے ہم اس کو زیادہ دیں گے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک معاملے میں اللہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ پہلے تو ہم نے اس کو ماننا ہے۔ اس کے بعد ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جتنا سمجھ میں آجائے، اچھا ہے۔ اللہ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے، لیکن وہ پوری طرح ہماری سمجھ میں بھی آ جائے، یہ ضروری نہیں۔ ایسی چیزیں موجود ہیں جو پوری طرح انسانی عقل کی گرفت میں نہیں آتیں۔ اگر حکمت سمجھ میں نہ آئے تو یہ نہیں کہیں گے کہ ہم نہیں مانتے، بلکہ یہ ایمان ہونا چاہیے کہ ان اللّٰہ کان علیمًا حکیمًا۔ اللہ نے یہ بات اسی لیے کہہ دی ہے کہ اللہ زیادہ علم والا اور حکمت والا ہے۔ اللہ نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ تم اصل میں یہ طے ہی نہیں کر سکتے کہ کس رشتہ دار کا حصہ کتنا ہونا چاہیے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ فی نفسہ بیٹوں سے جو منفعت ملتی ہے، وہ چونکہ بیٹیوں سے زیادہ ہے، اس لیے قرآن کہتا ہے کہ اگر صرف بیٹے ہیں تو سارا مال ان کو مل جائے گا، لیکن بیٹے موجود نہیں ہیں تو بھی فی نفسہ بیٹیوں کی منفعت چونکہ اس درجے کی نہیں ہے جو بیٹوں سے والدین کو ملتی ہے، اس لیے سارا مال بیٹیوں کو نہ دے دیا جائے۔ اگر ایک بیٹی ہے تو نصف اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہیں تو دو تہائی ان کو دے دیا جائے۔ باقی مال کے بارے میں اس صورت میں قرآن یہ چاہتا ہے کہ بیٹیوں کے علاوہ جو دوسرے رشتہ دار ہیں، ان کو دینا چاہیے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: سب سے پہلے غالباً علامہ اقبال نے یہ بات کہی کہ عورت کو چونکہ شوہر کی طرف سے بھی حصہ مل جاتا ہے، اس لیے اس کے حصوں میں توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اپنے حکم کا underlying principle قرآن نے خود بیان کیا ہے۔ قرآن یہ نہیں کہہ رہا کہ چونکہ خاتون کو اگلے گھر سے حصہ مل جائے گا، اس لیے یہاں اسے آدھا دے دو۔ ہو سکتا ہے آگے جا کر اس کو کچھ بھی نہ ملے۔ قرآن تو سادہ بات کہہ رہا ہے کہ آپ کو اپنے بیٹے سے جو منفعت دنیا میں عام حالات میں ملتی ہے، وہ چونکہ زیادہ ہے، اس لیے آپ کے مال سے اس کو حصہ بھی زیادہ ملنا چاہیے۔ بیٹی سے آپ کو جو منفعت دنیا میں ملتی ہے، وہ اس کے مقابلے میں کم ہے۔ اب وہ کتنی کم ہے، اس کی پیمایش کا ہمارے پاس کوئی معیار نہیں۔ اس لیے خود قرآن نے متعین کر دیا کہ تم نہیں طے کر سکتے کہ کتنا فرق ہے۔ خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ بیٹے سے آدھی ہے، اس لیے تمھارے مال سے اس کو حصہ کم ملنا چاہیے۔ قرآن کی بات بالکل سادہ ہے۔ اسی کو حکم کا rationale بنانا چاہیے، بجائے ا س کے کہ ہم وہ چیزیں بیان کریں جو یقینی نہیں ہیں اور جن کا خود قرآن نے ذکر بھی نہیں کیا۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: ہر بات کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ قرآن نے جب پہلے وراثت کے بارے میں احکام دیے تو اولاد کو تو سب ہی دیتے تھے، لیکن اولاد کے علاوہ والدین یا دوسرے رشتہ داروں کوکچھ حصہ نہیں ملتا تھا تو قرآن نے پہلے مرحلے میں اس کا پابند کیا کہ جن لوگوں کی موت قریب ہو، مرنے سے پہلے ان پر لازم ہے کہ وہ ان سب کے حق میں وصیت کر کے جائیں، کیونکہ سوسائٹی میں جو دستور چلا آ رہا ہے، وہ یہ نہیں تھا۔ دستور یہ تھا کہ ساری جائیداد اولاد، بلکہ اولاد میں سے بھی صرف لڑکوں کو مل جائے۔ تو قرآن نے ہدایت کی کہ مرنے والا وصیت کر کے جائے کہ صرف اولاد کو نہیں، بلکہ میرے والدین کو او ر دوسرے رشتہ داروں کو بھی اتنا اتنا حصہ ملے گا۔ ابتدا میں قرآن نے صرف اتنی بات کہی ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں قرآن نے یہ کہا ہے کہ ملنا تو سب کو ہے۔ اولاد کو بھی ملنا ہے، بیوی کو بھی ملنا ہے، بہن بھائیوں کو بھی ملنا ہے، البتہ کس تناسب سے ملنا چاہیے؟ وہ خدا نے خود متعین کر دیا کہ اس تناسب سے حصے تقسیم کر دیے جائیں۔ اس تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اب جب ورثا کے حصے خدا نے خود متعین کر دیے ہیں تو اب کسی وارث کے لیے اس سے ہٹ کر کوئی الگ وصیت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کی تقسیم پر راضی نہیں۔ مثلاً خدا نے کہا ہے کہ بھائی کو اتنا ملے۔ اب کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تو بھائی کو اتنا دینا چاہتا ہوں۔ اب اس وارث کے حق میں وصیت کا حق اس کے پاس نہیں ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ جس صورت کی ہم بات کر رہے ہیں، وہ اس سے مختلف ہے۔ اگر محض قرابت داری کے علاوہ کسی دوسری بنیاد پر، مثلاً کسی مخصوص وارث کی ضرورت اور احتیاج کے پیش نظر یا کسی اور معقول وجہ سے اس کے لیے مقررہ حصے کے علاوہ کوئی وصیت کی جائے تو یہ شرعی ممانعت کے خلاف نہیں ہوگا۔ چنانچہ دیکھیے، قرآن مجید نے سورۃ بقرہ کی آیت ۲۴۰ میں خود اس کی تاکید کی ہے کہ مرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے بارے میں یہ وصیت کر کے جائے کہ اس کے مرنے کے بعد ایک سال تک اسے اسی گھر میں رہنے دیا جائے اور اسے سامان زندگی بھی فراہم کیا جائے۔ فقہا عام طور پر اس کے قائل ہیں کہ یہ ہدایت ترکے میں ورثا کے حصے متعین ہونے کے بعد منسوخ ہو گئی ہے، لیکن فقہا کو یہ رائے اس لیے قائم کرنا پڑی کہ انھوں نے وراثت میں متعین حصہ ملنے کا مطلب یہ سمجھا کہ اب کسی زائد ضرورت کی بنا پر بھی کسی وارث کے لیے وصیت نہیں کی جا سکتی، حالانکہ قرآن کی یہ ہدایت ایک مستقل اصول پر مبنی ہے جس پر حصوں کی متعین تقسیم کا حکم اثر انداز نہیں ہوتا۔ قرآن نے بیوہ کے لیے ایک سال تک سامان زندگی کی وصیت کرنے کی ہدایت دراصل اس کی ضرورت و احتیاج اور مخصوص حالات کے پیش نظر دی ہے اور اس کے لیے یہ انتظام میت کے ترکے میں سے وراثت کے متعین حصے کے علاوہ ہی کیا جائے گا۔ قرآن کی اس ہدایت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رشتہ داری سے ہٹ کر ایسی اضافی وجوہ، مثلاً ضرورت و احتیاج ہو سکتی ہیں جن کے پیش نظر وارث کے حق میں معمول کے حصے کے علاوہ زائد مال کی وصیت بھی کی جائے۔ ضرورت احتیاج پر ہم خدمت کو بھی قیاس کر سکتے ہیں۔ مثال کے طو رپر مرنے والا اگر یہ چاہے کہ اپنے کسی دوست کے لیے وصیت کر جائے جس نے زندگی کے آخری ایام میں اس کی بڑی خدمت کی اور اس کے ساتھ بہت معاونت کی تو اس کو پورا حق ہے۔ یہ کسی رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اس کو اس سے جو فائدہ ملا، اس کے صلے کے طو رپر ہے۔ جب کسی دوست کے لیے، کسی اجنبی کے لیے خدمت کی بنا پر وصیت کی جا سکتی ہے تو وہی خدمت اور وہی منفعت اگر رشتہ داروں میں سے کسی نے معمول کی ذمہ داریوں سے ہٹ کر کی ہو تو وہ کیوں اس کو اس کا مستحق نہیں بناتی کہ اس کے حق میں زائد وصیت کی جائے؟ آپ کا ایک بیٹا بیرون ملک چلا گیا۔ اس نے اس طرح سے آپ کی خدمت نہیں کی جیسے آپ کے ساتھ رہنے والے بیٹے نے کی ہے تو آپ کا یہ حق بنتا ہے کہ پاس رہ کر خدمت کرنے والے بیٹے کے حق میں زائد وصیت کر دیں۔ رشتہ داری کی بنیاد پر سب بیٹوں کو یکساں حصہ ملے گا، اس لیے کہ بیٹا وہ بھی ہے، بیٹا یہ بھی ہے، لیکن خدمت کے صلے میں ایک بیٹے کو کچھ زائد دے دیا جائے تو یہ ایک بالکل معقول اور مبنی برانصاف بات ہوگی۔ گویا اصول یہ ہے کہ قرابت داری کے علاوہ اگر کوئی زائد وجہ ہے جو اس کا تقاضا کرتی ہے تو آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ ایک بچے نے خدمت زیادہ کی ہے یا کسی بچے کے بارے میں آپ سمجھتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر ذرا پیچھے رہ گیا ہے اور اس کو زیادہ ضرورت ہے تو اس کے حق میں وصیت کر سکتے ہیں۔ ہاں، عام حالات میں نہیں کر سکتے۔ اسی طرح اس اختیار کے غلط استعمال کا امکان بھی چونکہ موجود ہے تو کچھ نہ کچھ شرائط لگانی پڑیں گی۔ مثلاً آپ اس کا ایک کیس بنا کر جج کو بھیج دیں کہ یہ میرے فیصلے کی وجوہ ہیں اورمیں اس بنیاد پر یہ وصیت کر رہا ہوں۔ جج اس کی توثیق کر دے تو ٹھیک ہے۔ معقول شرائط کے ساتھ کسی وارث کے حق میں وصیت کی گنجایش تسلیم کرنے کی بات حدیث کے منافی نہیں ہے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: جو بیٹا بیرون چلا گیا ہے، ا س کے حصے میں کمی نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ وہ تو اس کو ملنا ہے بیٹا ہونے کی بنیاد پر۔ بیٹا تو وہ ہے ہی، الاّ یہ کہ نافرمان ہو اور اس نے رشتہ داری کے جو حقوق ہیں، ان کو پامال کیا ہو۔ پھر تو میرے نقطہ نظر کے مطابق اسے محروم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کا رویہ نافرمانی کا نہیں ہے، اس نے معمول کے تعلقات کو بحال رکھا ہے، اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ آپ کی خدمت بھی کرتا رہا ہے تو پھر اس کو حصہ پورا ملے گا۔ دوسرے بیٹے کے حق میں، جس نے زیادہ خدمت کی ہے، وصیت کرنے کو پہلے بیٹے کے حصے میں کمی کرنا نہیں کہتے۔ حصہ تو اس کو برابر ملے گا۔ آپ کا یہ اختیار ہے کہ آپ اپنے مال میں سے ایک حصہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں، دے دیں۔ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے آپ اس بیٹے کے لیے الگ سے وصیت کر جائیں۔ یہ حصہ دینے کے بعد جو مال بچ جائے گا، وہ سب ورثا میں برابر تقسیم ہو جائے گا۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی قانونی حد تو بیان نہیں کی اور کوئی legal instruction آپ نے نہیں دی، البتہ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی خواہش یہ تھی کہ وصیت کا اختیار کم سے کم استعمال کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ مال وارثوں کو ہی جانا چاہیے۔ ایک صحابی نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں سارا مال اللہ کے راستے میں دے دینا چاہتا ہوں۔ آپ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ انھوں نے کہاکہ آدھے کی اجازت دے دیجیے۔ آپ نے نہیں دی۔ انھوں نے کہا کہ ایک تہائی کا اختیار تو دے ہی دیں۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، لیکن ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ اب یہ بات ایسے اسلوب میں بیان ہوئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ کی اجازت دینے کو پسند نہیں کرتے۔ اس سے فقہا یہ حکم infer کرتے ہیں کہ ایک تہائی تک وصیت کا اختیار ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ روایت میں یہ بات کسی قانونی حکم یا پابندی کے انداز میں بیان نہیں ہوئی، لیکن فقہا نے ا س کو ایک قانونی شکل دے دی ہے اور اس پرکم وبیش ان کا اتفاق ہے کہ اس سے زیادہ مال کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔ میرے نزدیک اگرچہ حدیث میں یہ تحدید قانونی انداز میں بیان نہیں ہوئی، لیکن فقہا کا استنباط غلط نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اسلوب میں یہ بات ارشاد فرمائی ہے، اس سے لگتا ہے کہ ایک تہائی وہ زیادہ سے زیادہ مقدار ہے جس کی وصیت کیے جانے کو آپ نے گوارا کیا۔ تو اگرچہ یہ strictly legal نہیں ہے، لیکن بہرحال اس سے یہ منشا تو سمجھ میں آتا ہے کہ غیر ورثا کے حق میں وصیت کا حق کم سے کم ہی استعمال کیا جانا چاہیے ا ور زیادہ سے زیادہ مال ورثا کو جانا چاہیے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 جواب: میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ کوئی بہت آئیڈیل شکل ہے۔ میں نے یہ عرض کیا ہے کہ اس کی گنجایش ہمارے فقہا بہت شروع سے مان چکے ہیں۔ اس کی گنجایش موجود ہے کہ خاوند اپنا حق عورت کو دے دے۔ لڑکی نکاح کے وقت طلاق کا حق مانگ سکتی ہے، لیکن عام حالات میں یہ خاوند کی رضامندی سے مشروط ہے کہ وہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ قانون اس کو پابند نہیں کرتا۔ لڑکی مطالبہ کرے تو شوہر کہہ سکتا ہے کہ میں یہ حق نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو ریاست قانون کا اختیار استعمال کرتے ہوئے خاوند کو پابند کر سکتی ہے۔ قانون اس کا پورا اختیار رکھتا ہے کہ کسی بھی فردکے حق کو restrict کر دے یا کسی بھی فرد کو ایسا حق جو عام طو رپر اس کو حاصل نہیں ہوتا، مخصوص صورت حال میں وہ حق اس کو دے دے۔ تو اگر آپ ایک قانونی پابندی لگا دیں کہ ہر نکاح کے موقع پر خاوند اپنا حق طلاق ان ان شرائط کے ساتھ بیوی کو دے دے تو میرے نزدیک فقہی طور پر اس کی گنجایش موجود ہے۔ یہاں چونکہ بیوی کی طرف سے بھی اس حق کے غلط استعمال کا احتمال ہے اور یہ یقینی نہیں کہ ہر عورت اس حق کا استعمال انصاف سے ہی کرے گی، اس لیے کچھ شرائط بھی لگانی پڑیں گی۔ اگر آپ مطلق طور پر عورت کو حق طلاق دے دیں تو جو سوئے استعمال آپ مرد کی طر ف روکنا چاہتے ہیں، اس کا امکان عورت کی طرف بھی ہے۔ اگر خاتون کو آپ علی الاطلاق، بالکل absolute right دے دیتے ہیں کہ وہ جب چاہے، مرد سے الگ ہو جائے تو رشتہ نکاح کی وہ اصل ہیئت بھی قائم نہیں رہے گی جو اللہ نے قائم کی ہے اور غلط استعمال کی مثالیں بھی خواتین کی طرف سے زیادہ سامنے آئیں گی۔ اس لیے عورت کو حق طلاق کے استعمال کا موقع دینے میں کچھ نہ کچھ restrictions لگانا بہرحال ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر یہ شرط لگائی جا سکتی ہے کہ بیوی اگر کسی موقع پر یہ مطالبہ کرے کہ مجھے طلاق چاہیے اور بیوی کا باپ یا سرپرست یا خاندان کا کوئی دوسرا ذمہ دار آدمی اس مطالبے کی توثیق کر دے کہ ہاں اس کا مطالبہ بجا ہے تو پھر خاوند پابند ہوگا۔ اسی طرح اس مشکل کے حل کے لیے مالکی فقہا کی رائے سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے سورۃ نساء کی آیت ۳۵ میں میاں بیوی کے مابین تنازع اور عدم موافقت کی صورت میں تصفیے کے لیے دونوں خاندانوں کی طرف سے جو حکم (Arbitrator) مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے، ان کا دائرہ اختیار صرف صلح کرانے اور میاں بیوی کو سمجھانے بجھانے تک محدود نہیں، بلکہ اگر اصلاح احوال کی پوری کوشش کے بعد وہ یہ محسوس کریں کہ میاں بیوی کے مابین نباہ نہیں ہو سکتا تو انھیں یہ بھی اختیار ہے کہ وہ دونوں کے ما بین تفریق کر دیں، چاہے فریقین نے انھیں واضح طور پر اس کا اختیار نہ دیا ہو اور ان کے فیصلے کے نتیجے میں قانونی طو رپر طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ مالکیہ کی یہ رائے فقہی طور پر اور عملی مشکلات کے تناظر میں بہت قابل غور ہے اور اگر اس کو قانونی شکل دی جا سکے تو ہمارے ہاں عام طور پر خواتین کو طلاق کے حصول میں جن بے جا رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا ایک معقول حل نکل سکتا ہے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: خلع یہ ہے کہ عورت کسی وجہ سے خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور وہ خاوند سے کہتی ہے کہ مجھے طلاق دے دو، جبکہ میں اتنا مال تمھیں دے دیتی ہوں۔ طلاق کے بدلے میں مالی عوض لینے کا جو جواز سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے مابین نباہ ممکن نہیں اور خاوند بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ نباہ نہیں ہو سکتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خاوند نے شادی بیاہ کے موقع پر یا اس کے بعد بہت سے تحفے تحائف بیوی کو دے رکھے ہیں اور وہ یہ سوچتا ہے کہ اب یہ سارے کا سارا اس کے ساتھ ہی چلا جائے گا۔ اصولی طور پر تو جو کچھ وہ دے چکا ہے، وہ عورت کا ہو چکا ہے۔ شوہر اسے واپس لینے کا حق نہیں رکھتا، لیکن اگر نباہ نہیں ہو رہا اور جدائی کے فیصلے میں رکاوٹ صرف یہ دیا ہوا مال ہے تو قرآن اس موقع پر یہ ہدایت کرتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت نے جو کچھ لیا ہوا ہے، وہ واپس کر دے اور خاوند سے طلاق لے لے۔ فقہا اسی لیے یہ بات کہتے ہیں کہ خاوند کے لیے طلاق کے عوض کے طور پر اس سے زیادہ مال بیوی سے لینا پسندیدہ نہیں جتنا اس نے اس کو دے رکھا ہے۔خلع میں یہ ہوتا ہے کہ عورت طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر تو معاملہ آپس میں ہی طے ہو گیا اور خاوند نے طلاق دے دی تو بات ختم ہو گئی۔ نہیں تو عورت قاضی کے پاس چلی جائے گی کہ میں طلاق لینا چاہتی ہوں، جیسے ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ میں اپنے خاوند کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ طے کروا دیا کہ تم نے فلاں فلاں چیز جو خاوند سے لی ہے، وہ اس کو واپس کر دو اور خاوند سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 جواب: نشوز کی کوئی متعین صورت شریعت نے نہیں بتائی۔ اس کی تعیین مختلف ثقافتوں کے لحاظ سے مختلف ہو گی۔ اس کو ایک سادہ مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ بخاری میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان ہوئی ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو مکہ میں کلچر مختلف تھا اور بیوی کا مرد کی کسی بات پر اس کو reactکرنا یا اس کو جواب دینا بڑی معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔ یہ بات گستاخی سمجھی جاتی تھی کہ خاوند نے ایک بات کی اور بیوی نے آگے سے اس کا جواب دے دیا۔ (گویا مکہ کے کلچر کے لحاظ سے یہ ‘نشوز’ تھا کہ بیوی اپنے خاوند کو ترکی بہ ترکی جواب دے۔) سیدنا عمر کہتے ہیں کہ ہم جب مدینہ آئے تو وہاں انصار کے ہاں ماحول مختلف تھا۔ عورتیں شوہروں سے بحث بھی کر لیتی تھیں، جواب بھی دے لیتی تھیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے واقعات آپ حدیثوں میں پڑھیں، وہ  بڑے دلچسپ ہیں۔ یہاں آ کر اختلاط ہوا اور ہماری عورتوں نے انصار کی عورتوں کے پاس آنا جانا شروع کیا، ان کے گھروں میں جا کر ان کا ماحول دیکھا تو ہماری خواتین نے بھی شوہروں کو جواب دینا شروع کر دیا۔ حضرت عمر اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے گھر میں کوئی بات کی تو میری بیوی نے اس پر آگے سے مجھے جواب دے دیا۔ میں نے کہا کہ اچھا، نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے! تم یہاں کے ماحول میں آ کر بگڑ گئی ہو اور جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ بیوی نے کہا کہ آپ ہمیں کیا کہتے ہیں، جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دیکھیں۔ آپ کی بیویاں آپ سے بحث بھی کرتی ہیں اور آپ سے ناراض بھی ہو جاتی ہیں اور رسول اللہ کو منانا پڑتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا، یہ صورت حال ہے۔ میں پہلے جا کر اپنی بیٹی کی خبر لیتا ہوں۔ وہ گئے اور جا کر سیدہ حفصہ کو ڈانٹا اور کہا کہ تمھیں معلوم نہیں کہ تم کس کے گھر میں ہو؟ ان کو ڈانٹ پلا کر یہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے گئے۔ حفصہ تو بیٹی تھیں، وہ ڈانٹ سن کر خاموش رہیں۔ ام سلمہ کے پاس جب گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہو تو وہ ام سلمہ تھیں۔ انھوں نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو دخل دینے والے؟ یہ ہمارا میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ تم ہر معاملے میں دخل دیتے ہو، اب یہاں بھی آ گئے ہو!

سو ‘نشوز’ (disobedience یا defiance) یہ ہے کہ جس معاشرے میں آپ رہ رہے ہیں، وہاں کے کلچر اور norms کے لحاظ سے یہ سمجھا جائے کہ ایک عورت اپنے شوہر کا جو مقام ہے، اس کی جو حیثیت ہے اور اس کی جو اتھارٹی ہے، اس کو چیلنج کر رہی ہے۔ اب اس کا عملی مصداق پاکستان میں کچھ اور ہوگا، افغانستان میں کچھ اور ہوگا اور امریکہ میں کچھ اور ہوگا۔ قرآن نے اس کے مصداق کو متعین نہیں کیا۔ عرف کے لحاظ سے جو چیز سرکشی سمجھی جائے اور یہ دکھائی دے کہ خاتون اس جگہ پر آ گئی ہے کہ خاوند کے رشتے کو یا اس رشتے کے واجبات کو تسلیم نہیں کر رہی اور سرکشی کا رویہ اختیار کر رہی ہے تو یہ نشوز کہلائے گا۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)