میں کیسے مسلمان ہوئی؟

مصنف : خدیجہ (سیما گپتا)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : دسمبر 2014

سوال : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟

 جواب : میں مغربی یوپی کے ایک بڑے قصبہ میں ایک تاجر لالہ خاندان میں ۳؍ستمبر ۱۹۸۴ء کو پیدا ہوئی ،میرا خاندانی نام سیما گپتا تھا ،ابتدائی تعلیم قصبہ کے محلہ کے ایک اسکول میں ہوئی۔پرائمری کے بعد گرلس انٹر کالج سے انٹر کیا،اس کے بعد بی کام کیا،پھر پرائیویٹ سوشیالوجی(سماجیات)سے ایم اے کیا،میرے دو بھائی اور ایک بہن ہیں ایک بھائی بڑے ہیں اوردو بھائی بہن چھوٹے ہیں،ہمارے پتاجی (والد صاحب) کرانہ کی تھوک کی دوکان کرتے ہیں،بہت شریف بھلے آدمی ہیں،میری ماتاجی (والدہ) بھی بہت نیک اوربھلی عورت ہیں۔

 سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟

جواب : ہمارے قصبہ میں ہندو مسلمان دونوں رہتے ہیں۔بڑی تعداد میں مسلمان ہمارے محلہ سے ملے ہوئے محلہ میں رہتے ہیں،جن سے ہمارے گھر کا بہت گہرا تعلق ہے۔ والد صاحب کاکریانہ کی دوکان کی وجہ سے سب سے لین دین بھی تھا۔ ہماری دیوار سے ایک گھر چھوڑ کر ایک زمین دار خان صاحب رہتے تھے ان کے بچے ہمارے ساتھ پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے،ہمارا اور ان کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ ان کی ایک لڑکی صبیحہ خان میرے ساتھ انٹر تک پڑھتی رہی،اس سے میری بہت دوستی تھی،ان کا گھرانہ بہت صاف ستھرا اور دینی گھرانہ ہے۔ صبیحہ کا ایک بڑا بھائی بہت شریف اور بہت خوب صورت تھا۔وہ مجھے دیکھتاتو صبیحہ سے کہتا سیما تو بالکل ایسی لگتی ہے جیسے ہمارے گھر کی ہی فرد ہو۔یوں وہ بہت شرمیلا نوجوان تھا۔میں گھر میں ہوتی تو وہ شرم کی وجہ سے باہر چلا جاتا،مجھے کچھ اس کے ساتھ عجیب سا لگاؤ ہو گیا تھا۔میں کبھی صبیحہ سے کہتی کہ صبیحہ تمھا را بھائی تو لڑکیوں سے بھی شرمیلا ہے ۔صبیحہ کہتی ،بہن اب تو زمانہ الٹا ہو گیا ہے،اب لڑکیاں کہاں شرماتی ہیں لڑکے ہی شرماتے ہیں۔اس طرح کبھی کبھی زمانہ کی خرابیوں کی بات شروع ہوجاتی، ایک اخبار میں بے شرمی اور بے حیائی کی خبر،ایک باپ کے اپنی بیٹی کے ساتھ منہ کالا کرنے کی،ایک سگے ماموں کی بے شرمی کی خبر پڑھی تو ہم دیر تک زمانہ کے خراب ہو نے کا ذکر کرتے رہے۔ میں نے کہا کہ کل ےُگ آگیا ہے،اس کے ٹھیک کرنے کے لئے ہمارے دھارمک گرنتھ میں آیا ہے کہ کلکی اوتار آئیں گے اور وہ اس بگاڑ کو سدھاریں گے۔میں نے کہا پتانہیں،ہمارے جیون(زندگی)میں کلکی اوتار آئیں گے یا نہیں،یا ہمارے مرنے کے بعد آئیں گے؟ صبیحہ نے کہا کہ سیما جن کلکی اوتار کی تم بات کررہی ہو وہ تو آکر چلے گئے ۔میں نے کہا تم کیسے کہتی ہو؟وہ بولی میں تمھیں ایک کتاب دیتی ہوں،اس نے اپنی الماری سے ایک چھوٹی سی کتاب‘‘کلکی اوتار اورمحمد صاحب’’ نکالی اور مجھے دی،دیکھو یہ بہت بڑے اسکالرہیں، پنڈت وید پر کاش اپادھیائے،جن کی یہ کتاب ہے،میں نے وہ کتاب لے لی۔اسی دن میں نے صبیحہ سے ان کے بھائی کے ساتھ عجیب لگاؤ کا ذکر کیااس نے بتایا کہ بھائی جان بھی تمھیں پسند کرتے ہیں،مگر شرم کی وجہ سے تمھارے سامنے نہیں آتے،میں نے کہا،کیا تمھارے بھائی جان شادی کے لئے ہندو ہوسکتے ہیں، اس نے کہاکہ ایک مسلمان کا ہندو ہونا تو ناممکن ہے،ہاں اسلام کو جانتا ہی نہ ہو تو دوسری بات ہے،اس لئے کہ اسلام ایسا حق اور سچا مذہب ہے کہ اگر آدمی اسے جاننے کے بعد اسلام چھوڑ نا چاہے تو چھوڑ نہیں سکتا،دل سے اسلام کے حق ہونے کا یقین نہیں نکل سکتا۔اس نے کہا ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ دن نکل رہا ہے، اب اگر کوئی مجھ سے کہے دس لاکھ روپئے لے لواور یہ کہو کہ رات ہورہی ہے،یا پھر رائفل کی گولی سرپر لگا کر کہے کہ کہورات ہو رہی ہے تو ہوسکتا کہ کسی بڑے لالچ اورکسی خوف سے زبان سے کہہ دوں کہ ہاں رات ہو رہی ہے،مگر میرا دل اور ضمیر یہ کہتا رہے گا کہ دن کو رات کیسے سمجھوں ۔صبیحہ نے کہا: سیما اگر تم اسلام کو پڑھو گی اور سچائی جاننے کی کوشش کرو گی تو تم بھائی جان کوہندو بنانے کے بجائے خود ضروری سمجھو گی کہ شادی تو ہو مگر مجھے مسلمان بن جاناچاہئے ۔میں نے کہا صبیحہ یہ بات توہے کہ مسلمان اپنے مذہب میں بہت کٹر ہو تے ہیں،دوسرے مذہب والے اتنے کٹر نہیں ہو تے ۔صبیحہ نے کہا کہ ہر آدمی جو سچ پرہو تا ہے مضبوط ہو تا ہے اور جو خود ہی شک میں ہووہ کیسے کسی بات پر جم سکتا ہے ۔بہت دیر تک ہم بات کرتے رہے،دن چھپنے کو ہو گیا، میں گھر آگئی، صبیحہ کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی،رات کو سوتے وقت میں نے وہ کتاب اٹھا ئی اور پڑھی،چھوٹی سی کتاب تھی،پوری پڑھ ڈالی تو حیرت ہوئی کہ وہ کلکی اوتار تو حضرت محمد ﷺ ہیں ۔یہ کتاب دیوبند سے چھپی ہے،اس کے پیچھے کچھ اور کتابوں کے نام بھی لکھے تھے،نراشنس اور انتم رشی،اسلام ایک پریچے،مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ اسلام کیا ہے ؟ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں وغیرہ،میں نے اگلے روز صبیحہ سے کہا یہ کتابیں مجھے چاہئیں،اس نے کہااس میں سے‘‘ آپ کی امانت آپ کی سیوامیں’’ تو ہمارے ماموں مولاناکے یہاں مل سکتی ہے، میں تمھیں لا کر دوں گی،میں نے ان سے کہا،بھول مت جانا،اس کو ماموں کے یہاں جانے کا موقع نہ لگا،میں تقاضا کرتی رہی، دس روز تک میں کہتے کہتے بے چین سی ہوتی رہی،دس روز کے بعد ایک چھوٹی سی کتاب‘ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’ صبیحہ نے مجھے لا کر دی،اس کتاب کا نام ایک انسان کے لئے ایسا دل کو چھونے والا ہے کہ نام پڑھ کر ایک عجیب طلب پیداہو جاتی ہے، کہ ہماری کیا امانت ہے معلوم تو کریں‘‘دو شبد’’ اس میں مولانا وصی صاحب نے لکھے ہیں،میرا خیال ہے کہ ‘دو شبد’کی دو تین لائن پڑھنے کے بعد کو ئی آدمی اس کتاب کو پڑھے بغیر نہیں رہ سکتااور بالکل مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں دل میں دشمنی اور نفرت رکھنے والا انسان بھی ان دو شبدو ں کو پڑھنے کے بعد اس کتاب کو غیر کی بات سمجھ کر نہیں پڑھ سکتا ہے،اس کا دل و دماغ اس کتاب کے لکھنے والے کو اپنا سچا دوست سمجھ کر ہی اس کو پڑھے گا۔میں اس کتاب کو لے کر گھر آئی اور بس کتاب پوری پڑھی،میں نے اپنی چھوٹی بہن اورماں سے کہا کہ میں آپ کو بہت اچھی چیز پڑھ کر سناؤں گی۔ ان کو بٹھا لیااورپڑھنا شروع کیا،وہ سنتی رہیں اور بولیں یہ کس کی کتاب ہے،میں نے کہامظفر نگر کے ایک مولانا جی کی لکھی کتاب ہے،میری ماں نے کہا ان سے تو ضرور ملنا چاہئے اس کتاب کے پیچھے ٹائٹل پیج پر بھی کچھ کتابوں کے نام لکھے تھے،اسلام ایک پریچے،مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ اسلام کیا ہے؟ کتنی دور کتنے پاس؟ وہی ایک ایکتا کا آدھار،نراشنس اور انتم رشی،کلکی اوتار اور محمد صاحب،وید اور قرآن وغیرہ، میری ماں نے کہا بیٹی یہ ساری پستکیں (کتابیں)منگا لے۔

سچی بات یہ ہے مثنیٰ بہن! آپ کی امانت نے میری اندر کی دنیا کوبدل دیا،میں بس یہ سوچتی تھی کہ اس سماج میں میں مسلمان ہو کر کس طرح رہوں،اگر گھرچھوڑکرجاؤں تو میں لڑکی ذات کہاں جاؤں گی،کون مجھے رکھے گا،میرے جانے کے بعد میرے گھر والوں پر کیسی مشکل آئے گی، میرے بھائی بہنوں کا کیا ہو گا، میرے ماں باپ ایسے بھلے اور سجن لوگ کیسے جئیں گے،بس ایک عجیب خیالات کا طوفان میرے دل و دماغ پر تھا،اسلام کو اور جاننے کی خواہش پیدا ہو گئی،میں نے اپنی ایک دوسری سہیلی فاطمہ کوپانچ سو روپئے دئیے اور ا ن کتابوں کو منگانے کے لئے کہا، ایک ہفتہ کے بعد اس نے صرف‘ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ لا کر دی اور باقی پیسے واپس دے دئیے کہ اور کتابیں ملی نہیں میں نے مرنے کے بعد کیا ہو گا کتاب کو پڑھا جنت دوزخ کا ایسا حال اور گناہوں کی سزاؤں کا ایسا ذکر اس کتاب میں ہے کہ بے حس سے بے حس آدمی بھی خوف کھاجائے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعدجنت دوزخ میری آنکھوں کے سامنے بالکل آنکھوں دیکھی چیز بن گئی،رات کو سونے لیٹتی تو ہر وقت میری آنکھو ں کے سامنے قبر کا ،حشر کا اور جنت دوزخ کا منظر چلتا رہتا تھا،دو بار میں نے خواب میں جنت دیکھی اور دوزخ تو نہ جانے کتنی بار دکھا ئی دی ، اب میں نے اپنی ماں سے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی انھوں نے کہا کہ دین سے دنیاسنبھالنی مشکل ہوتی ہے،آج کل کے سماج میں دھرم بدلنا آسان نہیں ہے ،بس اندر سے سچ کو سچ سمجھو یہ بھی کافی ہے،وہ مالک دلوں کے بھید کو جانتا ہے،میں نے صبیحہ سے کہا کہ اگرمیں مسلمان ہو جاؤں تو تمھا رے بھائی مجھ سے شادی کرسکتے ہیں یا نہیں؟اس نے کہا کہ وہ کئی بار مجھ سے کہہ چکے ہیں کہ اگر سیما مسلمان ہو جائے توامی ابو اس سے میری شادی کرسکتے ہیں یا نہیں؟ میں ان سے بات کروں گی،اب وہ نوکری کے لئے ملک سے باہر چلے گئے ہیں،ان کا فون آئے گاتو میں بات کروں گی،صبیحہ کے بھائی کا فون آیا تو اس نے ان سے بات کی،مجھے بتایا کہ بھائی جان کہہ رہے ہیں کہ اگر میں امی ابو کو راضی کرلوں اور ساری قانونی کارروائی کرلوں اور سیما کے گھر والے بھی راضی ہوں اور وہ سچے دل سے مسلمان ہو جائے تو میں شادی کرکے بہت خوشی محسوس کروں گا،مگر میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ اس دوران میں نے کسی طرح قرآن شریف کا ہندی ترجمہ حاصل کرلیا ،ا س کو پڑھنا شروع کیا،ساتھ ساتھ میں اپنی ماں کو سناتی تھی،مجھے بعض ایسے خواب دکھائی دئیے جن کے بعد مسلمان ہو نے کی بے چینی بہت زیادہ بڑھ گئی،راتوں کو دیر تک مجھے نیند نہیں آتی تھی،میں منہ ہاتھ دھو کر قرآن پڑھنے لگتی،بات یہاں تک بڑھی کہ میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا،اس سلسلہ میں مجھے کسی نے بتایا کہ پھلت‘‘ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’’ کے لیکھک (لکھنے والے)مولانا صاحب کے یہاں تمھارے لئے یہ کام آسان ہے ۔میں نے ایک پندرہ سال کے مسلمان لڑکے کو تیار کیا جو بہت دین دار تھا اور اس کے ساتھ پھلت پہنچی،مولانا صاحب سفر پر گئے ہوئے تھے،وہاں پر کچھ لوگوں نے مجھ سے اسلام قبول کرنے کی غرض معلوم کی،میں نے کہاصرف اسلام قبول کرنا اورحق کو ماننا، مجھے کلمہ پڑھوایا گیا اور میرٹھ بھجواکر ایک وکیل صاحب سے سرٹیفکٹ بنوادیا گیا۔ایک مولانا کے گھر میں رہی،ان کی بہنوں نے مجھے بہت محبت سے رکھا،ایک ہفتہ کے بعد مولانا صاحب آئے۔

 سوال : آپ کی گھر میں تلاش نہیں ہوئی؟

 جواب : میری گھرمیں تلاش ہی نہیں ہوئی،میرا آنا میرے پورے علاقہ میں قیامت بن گیا،جب ڈھونڈھ پڑی اور خاندان والے اکٹھا ہوئے تو میری چھوٹی بہن نے بتادیا کہ وہ صبیحہ کے بھائی سے شادی کرنا چاہتی تھی،حالانکہ اب ایسا کچھ نہیں تھا،اب صرف مجھے اسلام قبول کرنا تھا، اس پر پورے علاقہ کے ہندو سماج میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔صبیحہ کے گھر والوں کی مصیبت آگئی، انھوں نے لاکھ کہا کہ ہمارا لڑکا ابھی ملک کے باہر ہے، مگر لوگ کہتے رہے کہ آپ نے ہی اس لڑکی کو غائب کیا ہے،اخباروں میں خبروں پر خبریں چھپتی رہیں، کئی بار بالکل آمنے سامنے فساد ہونے کو ہوا کچھ سمجھ دار لوگوں نے معاملہ کو ٹھنڈا کیا۔

 سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟

جواب : مولانا صاحب ایک ہفتہ کے بعد پھلت آئے، تو انھیں لوگوں نے میرے بارے میں بتایا۔مولانا صاحب نے کہا کہ وہاں کے لوگوں کے میرے پاس فون آئے، میں نے کہا ہمارے یہاں اس طرح کی کوئی لڑکی نہیں آئی ہے،پورے علاقہ میں فساد ہو نے کو ہے،بہر حال مجھے بلایا اور مجھ سے کہا کہ وہاں تو یہ مشہور ہے کہ تم کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہو،مجھ سے کہا کہ تم سچ سچ بتاؤ۔ میں نے کہا کہ پہلے میں واقعی ایساہی چاہتی تھی،مگراب صرف اسلام پڑھ کر میں مسلمان ہو ئی ہوں، میں کچھ روز اسلام پڑھنا چاہتی ہوں اگر اس لڑکے سے بعد میں شادی ہو جائے تو اچھا ہے، ورنہ آپ جس سے چاہیں میری شادی کر دیں۔مولانا صاحب نے مجھے دہلی بھیج دیا،وہاں کے کچھ وکیلوں سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کوئی لڑکا ان سے شادی کو تیار ہو جائے تو سب سے بہتر قانونی آسانی اس میں ہے مولانا صاحب نے کہا آگرہ میں ایک ڈاکٹر ہیں، انھوں نے مجھ سے کسی نو مسلم سے شادی کے لئے کہا ہے،وجے واڑہ کے رہنے والے ہیں،اگر تم کہو تو میں تمھیں ان کے یہاں بھیج دوں،مجھے تکلف ہوا،میں رونے لگی،تو مولانا صاحب سمجھے کہ میں اسی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہوں ہمارے علاقہ میں بات اوربگڑ گئی تو مولانا نے مجھ سے کہا اس وقت بہتر یہ ہے کہ تم اپنے گھر چلی جاؤ اورا پنے گھر والوں پر کام کرو، میں نے کہا وہاں جاکر میں بالکل بے بس ہو جاؤں گی، آپ مجھے اس کفر و شرک میں نہ بھیجیں،آپ وہاں میری کیسے مدد کر سکتے ہیں، مولانا نے کہا بہن آپ چلی جاؤ،میں اللہ کے بھروسے پر تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمھارے والد اور والدہ کے ساتھ اللہ آپ کو نکالیں گے،مجھے یقین نہیں آتا تھا،میں بہت روئی بار بار مجھے پانی پلایا گیا ،مولانا کے جو ساتھی مجھے دہلی لے گئے تھے انھو ں نے مجھے بہت سمجھا یاکہ حضرت کی بات مان لو،اللہ تعالی تمھارے لئے ضرور راستہ نکالیں گے میں نے کہا آپ میری شادی کسی مزدور سے، جھاڑو دینے والے کسی فقیر سے کردیں مگر مجھے وہاں نہ بھیجیں، انھوں نے کہاکہ اب حضرت نے کہا ہے اس کے خلاف ہم تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتے ۔میں مجبوراً روتے ہوئے گھر جانے پر راضی ہو گئی،بس میں مجھے ٹکٹ دلواکر بٹھا دیا گیا مغرب کے بعدمیں اپنے گھر پہنچی اور میں نے سب خاندان والوں کے سامنے اپنی ماں سے کہا: کیا میں آپ سے دس روز کے لئے کہہ کر نہیں گئی تھی کہ میں تیرتھ پر جا رہی ہوں اور مجھے سپنے میں جانے کو کہا گیا تھا، آپ نے گھر والوں کو کیوں نہیں بتایا؟آج دس دن میں میں آگئی کہ نہیں؟صبیحہ کے گھر والوں اور بہت سے لوگوں کو پولیس نے اٹھارکھا تھا،کسی طرح چھوڑا گیا،میرے خاندان والے جمع ہوئے اور مجھ پربرسنے لگے ،میں نے سوچا۔خدیجہ تو حق پر ہے، حق والوں کو ڈرنا نہیں چاہئے،میں نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میرا نام سیما نہیں خدیجہ ہے اور اسلام سے مجھے کوئی نہیں ہٹاسکتا،میری پھوپھو اور ایک تائے نے مجھے بہت مارا اور نہ جانے کیسی بری بری گالیاں دیں،ہمیں معلوم ہے تو مسلمان ہونے کا ڈھونگ بھر کراس سے منہ کالا کرنے گئی تھی اور ایسی بری بر ی سنائیں کہ بیان کرنا مشکل ہے،میری ماں اورباپ البتہ بالکل نرم تھے،میری ماں تو اندر سے اسلام کی سچائی کو مان چکی تھی۔ مجھے قریب کے بڑے شہر میں میرے تایا کے یہاں پہنچادیا گیا، میں وہاں نماز پڑھنے کی کوشش کرتی تو گھر والے میرے ساتھ بہت زیادتی کرتے،ایک رات میں بارہ بجے،عشا کی نماز پڑھنے لگی میرے تائے کے لڑکے نے میری کمر پر سجدہ میں ایک بہت بھاری چکی جو پرانے زمانے کی وہاں تھی وہ رکھ دی میرا دم نکلنے کو ہو گیامجھے صحابہ کے حالات یاد آئے میں نے کچھ کھانے سے انکار کردیا،مجھے ان کے یہاں ناپاکی کی وجہ سے بھی کھانے کو دل نہیں چاہتا تھا اورمجھے یہ بھی ڈر تھا کہ یہ مجھے زہر دے دیں گے میرے تایا نے میرے ماں باپ کو بلوایا اور پھر میری بوا (پھوپھی) کے یہاں مجھے بھجوادیا گیا،میں نے کہا میں کسی کے گھر کا کھانا نہیں کھاؤں گی،اس میں زہر کاخطرہ ہے،بازار کا کھانا کھاؤں گی جو ماں لاکر دیں گی۔ میری بوا کے یہاں میری اتنی احتیاط کے باوجود بھی مجھے تین مرتبہ زہر دینے کی کوشش کی گئی،مگر جس کو اللہ رکھے اسے کون چکھے،ایک بار بلی نے کھیر گرادی،ایک بار مجھے پہلے خواب دکھا ئی دے گیااور ایک دفعہ میری بوا کے پوتے نے وہ کھا لیا،پندرہ دن تک اسے اسپتال میں رہنا پڑا،جان تو بچ گئی مگر گردے خراب ہو گئے۔

 سوال : وہاں سے پھر اللہ نے کس طرح نکالا؟

 جواب : اللہ نے حضرت کے وعدہ کی لاج رکھ لی،حضرت بتاتے ہیں کہ تمھیں میں نے فسادات اور حالات خراب ہو نے کے ڈر سے بھیج تو دیا مگر جیسے ہی تم چلی تو میرے کان میں غیب سے کسی نے قرآن کی یہ آیت پڑھی جس میں اللہ نے ان عورتوں کو جو ایمان قبول کرکے ہجرت کے لئے آئیں یہ یقین ہونے کے بعدکہ وہ اس میں سچی ہیں کافروں کے پاس لوٹانے سے منع کیا گیا ہے۔

 سوال : ہاں ہاں ابی بار بار بہت افسوس کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ قرآن حکیم کی میں نے خلاف ورزی کی ہے، پہلے سے خیال نہیں آیا،سب لوگ دعا کرو اللہ مجھے معاف فرمائے۔

 جواب : آپ کو معلوم ہے وہ آیت ؟

 سوال : ہاں بار بار ابی اسے پڑھتے تھے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ ط فَامْتَحِنُوْہُنَّ اَللہُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِہِنَّ ج فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَى الْكُفَّار ط (الممتحنۃ:۱۰)

اس کا ترجمہ یہ ہے :اے ایمان والو! جب تمھارے پاس ایمان والی عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کو جانچ لو،اللہ خوب جانتا ہے ان کے ایمان کو،پھر اگر تم ان کو ایمان پر جانو ،تم ان کو کافروں کی طرف مت پھیرو۔

 جواب : حضرت بتاتے ہیں کہ اس آیت شریفہ نے مجھے جھنجھوڑ دیا میں باربار صلاۃ التوبہ پڑھتا اور اللہ کے حضور دعا کرتا میرے اللہ ! آپ کو اگر دعوت محبوب ہے اور آپ نے اس کم ظرف بندے کو اپنے کام سے جوڑا ہے تو میری غلطیوں اور گناہوں کو کون معاف کرے گا،میرے اللہ! میں بہت بڑا مجرم ہوں،مجھ سے انجانے میں قرآن حکیم کی خلاف ورزی ہو گئی،میرے اللہ! میری بچی کیسی بلکتی ہو ئی واپس گئی،میرے اللہ میں نے آپ کے بھروسے اس سے وعدہ کرلیا ہے آپ اپنے گندے بندے کی وعدہ کی لاج رکھ لیجئے،میرے اللہ میرے بگاڑ کو آپ کے علاوہ کون سنوار سکتا ہے،مولانا صاحب نے مجھے بتایا کم از کم پندرہ دن تک ہر دعا میں بس تمھارے لئے دعا کرتا تھا اور تمھارے واپس آنے کے شکر میں روزوں صدقوں اور نفلوں کی نذر مانتا تھا۔اللہ نے حضرت کی دعا اور وعدہ کی لاج رکھی،چھ مہینے مجھ پر ایک سے ایک سخت گزرا،اس دوران ان چھ مہینوں کی داستان میں سناؤں تو ایک لمبی کتاب ہو جائے گی،میں نے ایک ڈائری بھی لکھی ہے۔ میری ماں میرے ساتھ روتی رہتی ،چھ مہینہ کے بعد میری ماں نے میرے باپ کو راضی کرلیاکہ ایک نو مسلم لالہ خاندان کے ڈاکٹر صاحب جو وجے واڑہ کے ہیں سے،میری شادی کردیں، مالا ڈال کرشادی ہو جا ئے گی بعد میں وہ نکاح کر لیں گے۔

 سوال : وہ آپ کی ماں کو کیسے ملے؟

 جواب : اصل میں میری ماں کی ایک پرانی سہیلی تھی،جن کو ہم حقیقی موسی(خالہ)کی طرح جانتے تھے وہ بھی میرے ساتھ مسلمان ہو گئی تھیں مگر انھوں نے اسلام ظاہر نہیں کیا تھا وہ تیاگی خاندان سے تھیں،وہ میرے ساتھ ہونے والے ظلم سے واقف تھیں ،ہمارے یہاں ایک تبلیغی جماعت آئی وہ پانی پر دم کروانے کے بہانے اس جماعت سے ملیں اور میری داستان سنائی،اس جماعت میں وہ ڈاکٹر صاحب جو سات مہینے پہلے مسلمان ہو ئے تھے ،حضرت کے ایک ساتھی کی کوشش سے، کسی طرح اپنی نوکری سے چھٹی لے کر گھروالوں سے ٹریننگ کے بہانے جماعت میں آئے تھے،امیر صاحب نے کہا کہ ان کے داڑھی بھی نہیں آئی ہے اگر ان سے شادی ہو جائے تو اچھا ہے یہ بھی لالہ ہیں ،یہ اپنے گھر والوں کو تیار کرلیں گے،اس پر بات طئے ہو گئی،ڈاکٹر صاحب نے جماعت میں پندرہ دن چلّے کے چھوڑ کر مجھے وہاں سے نکالنے کے لئے امیر صاحب کے مشورہ سے گھر کا سفر کیا اور گھر والوں سے مجھ سے شادی کرنے کا خیال ظاہر کیا،میرے پتاجی نے خاندان والوں کو یہ کہہ کرکہ دور چلی جائے گی تو مسلمانوں سے دور ہو جائے گی راضی کرکے میری شادی کردی،۱۱؍ لوگ میری سسرال سے آئے،ڈاکٹر صاحب مجھے لے کرہنی مون منانے کے بہانے یہاں دہلی اور شملہ وغیرہ لے کر آئے ہیں،مولانا صاحب سے فون پر ان کا رابطہ تھا،مجھے لے کر یہاں آئے اور مجھے ان کے ساتھ دیکھ کر بس مت پوچھئے کہ مولانا صاحب کا کیا حال ہوا،بار بارخوشی سے روتے تھے،کہتے تھے میرے اللہ آپ کیسے کریم ہیں،اپنے کتنے گناہ گار بندے کے ساتھ آپ کاکیامعاملہ ہے،قرآن کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرکے ایک مومنہ کو کفار میں لوٹادینے والے مجرم کے وعدہ کی آپ نے کیسی لاج رکھی،مولانا صاحب نے بتایا کہ ۲۵؍ روزے میں نے نذر مانے ہیں، دوسو نفلیں اور تین ہزار صدقہ تمھارے واپس آنے کے لئے،مولانا صاحب نے بڑی حیرت اورخوشی سے بتایا کہ جن آندھرا کے ڈاکٹر صاحب کے پاس تمھیں بھیج کر شادی کرنے کو کہتا تھا وہ ڈاکٹر شارق یہی ہیں، جس کے ساتھ میرے اللہ نے تمھاری شادی کرکے میرے گھر بھیج دیا۔

 سوال : عجیب بات ہے ؟

 جواب : اللہ تعالی اپنے دین کی دعوت کا کام کرنے والے کی، سچی بات یہ ہے کہ بڑی ناز برداری کرتے ہیں۔

 سوال : آپ کی وہ چھ مہینے کی تکلیفیں جھیلنے کی کہانی والی ڈائری آپ کے پاس ہے؟

 جواب : ابھی نہیں لائی،میں اس کی فوٹو کاپی کراکے آپ کو بھیجوں گی،حضرت صاحب نے کہا ہے کہ وہ ہم چھپوائیں گے،مولانا صاحب نے کہا کہ وہ قسط وار ارمغان میں چھپوانے کے لائق ہے

 سوال : اب آپ کے شوہر اپنے گھر والوں کے ساتھ میں رہتے ہیں؟

 جواب : نہیں! وہ ابھی وہاں مہاراشٹر ناگپور میں ایک سرکاری اسپتال میں عارضی ملازمت پر ہیں،دہلی میں انھوں نے اپلائی کیا تھا ،الحمد للہ انٹر ویو بھی ہو گیا اور انھوں نے ایم ڈی کے لئے کوالیفائی کرلیا ہے،اب ہم بہت جلدی دہلی آجائیں گے ہم دونوں ہی بس ساتھ رہتے ہیں۔

 سوال : آپ کے ماں باپ کا کیا ہوا؟

 جواب : میں نے ان کو پرسوں دہلی بلایا تھا،ہمایوں کے مقبرے کے پارک میں ملاقات ہوئی وہ اب اپنا قصبہ چھوڑ کر ہمارے ساتھ رہنے کا پروگرام بنا رہے ہیں،الحمد للہ دونوں مسلمان ہوگئے ہیں۔

 سوال : بہت بہت شکریہ خدیجہ بہن! واقعی ایمان تو آپ کا ہے،ہم لوگ خاندانی مسلمانوں کوایمان و اسلام کی کیا قدر ہو سکتی ہے،آپ ہمارے لئے دعا کیجئے،کچھ حصہ اس ایمان کا ہمیں بھی نصیب ہو جائے ؟

 جواب : :مثنی ٰ آپ کے گھر کے جوتوں کے صدقے میں مجھے ایمان ملا ہے،آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں،آپ کے گھر کے لئے میری سات پشتیں دعا کریں تو کم ہے۔

 سوال : یہ آپ کی بڑائی کی بات ہے،بہر حال بہت بہت شکریہ،

 ا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 مستفاداز ماہ نامہ ارمغان، اپریل ۲۰۰۹؁ء